ریاستی دہشت گردی ؟؟؟؟؟
روس سے جرمنی آنے والی رودِ
شمالی Nord Stream پائپ
لائن میں شکاف کی خبر نے ساری دنیا میں سنسنی پیدا کردی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے
عرض کیا بحیرہ بلقان (Baltic Sea) کے نیچے سے گزرنے والی 48 انچ قطر کی اس 1222 کلومیٹر طویل پائپ لائن کی گنجایش 55 ارب مکعب میٹر سالانہ ہے۔
عجیب بات کہ دونوں پائپ
لائنوں یعنی رودِ شمالی 1 اور رود شمالی 2 میں شگاف ایک ہی جگہ پڑا ہے، یہ مقام عالمی
پانیوں میں ہے لیکن ڈنمارک اور سوئیڈن اسے اپنا اقتصادی علاقہ قراردیتے ہیں۔
رودِ شمالی 1 کی 51 فیصد
ملکیت روسی گیس کمپنی Gazpromکے پاس ہے جبکہ رودشمالی 2 ، سو فیصد گیزپروم کے ذیلی ادارے کی
ملکیت ہے۔
ان دونوں پائپ لائنوں سے گیس
کا بہاو کئی ہفتوں سے معطل تھا۔ گیز پروم نے کمپریسر کی مرمت کی بناپر گیس کی
فراہمی گزشتہ ماہ کے آخر سے بند کی ہوئی ہے۔ اس بناپر گیس کے دباو سے پائپ لائن کا
پھٹ جانا خارج ازامکان ہے چنانچہ ماہرین اسے تخریبی کاروائی کا شاخسانہ قرار دے
رہے ہیں۔
بحیرہ بلقان اور اسکے ساحلی
ممالک کو بدترین آلودگی میں مبتلا کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟
انگلیاں روس، یوکرین
اورامریکہ پر اٹھ رہی ہیں۔
روس پر شک اسلئے غیر منطقی
لگتا ہے کہ ان پائپ لائنوں کی تعمیر پر گیزپروم نے 6 ارب یورو (5 ارب 84 کروڑ
ڈالر) خرچ کئے ہیں۔ اپنے قیمتی اثاثے کو نقصان پہنچانے کی کوئی تُک نہیں۔ اگر اس
کاروائی کا مقصد یورپ کو گیس سے محروم کرکے وہاں بحران پیدا کرنا تھا، تب بھی اسکے
لئے گیس پائپ لائن میں شگاف کی ضرورت نہ تھی۔ ان پائپ لائنوں کی گیس بند کرکے روس یہ
مقصد بہت ہی موثر انداز میں حاصل کرچکاہے۔
یوکرین کو یورپ سے شکائت ہے
کہ وہ روس سے گیس خرید کر یوکرین کیخلاف جنگ کی سرمایہ کاری کررہے ہیں اور صدر
زیلیسنکی کئی بار روسی گیس کی پابندی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ اس اعتبار سے یوکرین
کو شامل تفتیش کیا جاسکتا ہے۔
اس واردات میں امریکہ کے
ہاتھ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ روسی تیل اور گیس کی برآمدات کو صفر کردینا
چچا سام کی ترجیحِ اول ہے اور صدر بائیڈن یہ بات بہت عرصے سے کہہ رہے ہیں۔اسوقت
چونکہ پائپ لائنوں سے گیس کا بہاو معطل ہے ، اسلئے ان میں شگاف ڈالنا نسبتاً کم
خطرناک ہے۔ عام حالات میں گیس اچانک منقطع ہوجانے سے یورپ مشتعل ہوسکتا تھا لیکن اب
جبکہ گیس پہلے ہی سے بند ہے تو شدید ردعمل کا بھی کوئی ڈر نہیں۔
بہت ممکن ہے کہ یہ یوکرینیوں
کا کام ہو لیکن امریکہ کی سہولت کاری کے بغیر انکے لئے اتنی بڑی کاروائی ممکن
نہیں۔
اس چشم کشا واردات کے بعد امریکہ
کی خاموشی سے بھی دال میں کچھ کالا ہونے کا تاثر ابھر رہاہے۔ بین الاقوامی پانیوں
میں اس قسم کی کاروائی ایک سنگین جرم اور دہشت گردی ہے۔ اس میں روس یا ایران کے
ملوث ہونے کا ہلکا سا شائبہ بھی واشنگٹن کو آپے سے باہر کردینے کیلئے بہت تھا، لیکن
یہاں ایک مشکوک سی خاموشی ہے۔
اس سنگین کاروائی پر چونکہ
امریکہ کو کوئی خاص تشویش نہیں اسلئے اقوام متحدہ بھی اپنے حال میں مست ہے
ذرا تصور کریں، اگر یہ
کاروائی افغان ملا، کوئی فلسطینی یا شمالی کوریا کرتا تو دنیا کا ردعمل کیاہوتا؟؟؟؟؟
قومِ شعیبؑ کی طرح دورِ جدید کے انسان نے بھی لینے اور دینے کیلئے الگ الگ باٹ بنالئے ہیں۔
No comments:
Post a Comment