سات اکتوبر 1958، ہماری تاریخ کا سیاہ ترین
دن
آج ہماری
تاریخ کے سب سے بڑے المئے کی 64 ویں برسی ہے۔ اسی دن پاکستان میں پہلی بار مارشل
لا نافذ ہوا ۔اسکے بعد 1977 اور پھر 1999 میں اس مکروہ رسم کی تجدید کی گئی۔
غاصب و سازشی
ایوب خان کا طرزِ عمل قیامِ پاکستان سے پہلے بھی مشکوک تھا ۔ انگریزی جبر کے خلاف
جدوجہد کرنے والے پشتون مجاہدین کے مقدس لہو سے انھوں نے اپنےدونوں ہاتھ خوب رنگے۔
کچھ سیاسی
کارکنوں کا کہنا ہے کہ قائداعظم ، ایوب خان کے مشتبہ عزائم کو بھانپ کئے تھے
اوربابائے قوم کے ہدائت پر انھیں اہم عسکری معاملات سے دور کھا گیا۔
جنوری 1951
میں جب پاک فوج کے سربراہ جنرل ڈگلس گریسی کی رخصت کا وقت آیا تو ایوب خان نے اسوقت
کے سکریٹری دفاع اسکندر مرزا سے مل کر یہ عہدہ 'ہتھیانے' کی کوشش لیکن وزیراعظم
لیاقت علی خان نے قابلیت کی بنیاد پر جنرل افتخار المعروف افتی کا انتخاب کیا۔
بدقسمتی سے جنرل افتخار عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی 24 فوجی افسران کے ہمراہ ایک
حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔
اسکندر مرزا
کی 'سفارش' پر قائد ملت نے ایوب خان کو فوج کا کماندڑ ان چیف مقرر کردیا۔ کمان
سنبھالتے ہی ایوب خان نے 'سیاست'
شروع کردی۔ اکتوبر 1951 میں لیاقت علی
خان کی شہادت کے بعد ایوانِ سیاست میں طوائف الملوکی کی سلسلہ شروع ہوا اور اسکندر
مرزا سے مل کر ایوب خان نے پورے نظام پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔جنوری 1953 میں
انھوں نے اپنے دستِ راست حاجی محمد صدیق چودھری المعروف
HMSچودھری کو بحریہ کی سربراہی دلوادی۔اب
ایوب خان، اسکندرمرزا اور چودھری پر مشتمل منحوس مثلث نے سیاست دانوں کی زندگی
اجیرن کردی۔ دوسری طرف ایوب خان اور اسکندر مرزا نے امریکہ سے تعلقات استوار کرلئے
جسکی وجہ سے انکا اثرورسوخ اور بڑھ گیا۔ اسی دوران جنرل ایوب وزیردفاع بن گئے۔
مارچ 1953 کی تحریک ختم نبوت کے دوران ہونے والے خونریز ہنگاموں میں شہری انتظامیہ
مفلوج ہوگئی اور دوماہ کا مارشل لا نافذ کردیا گیا۔
گونر جنرل
غلام محمد اور وزراعظم محمد علی بوگرہ کی باہمی چپقلش بھی اس مثلث کی لگائی بجھائی
کا نتیجہ تھا۔ غلام محمد نے بوگرہ صاحب کو برطرف کردیا اور حسین شہید سہروردی کے
سرپر وزارت عظمیٰ کا تاج سجا ، لیکن ایوب خان کیلئے وزارت دفاع کا قلمدان برقرار
رہا۔ کچھ دن بعد غلام محمد کی بھی چھٹی ہوگئی اور اسکندر مرزا گورنر جنرل بن گئے۔
مارچ 1956
میں پاکستان کا پہلا دستور منظور ہوا جس نے ملک میں پارلیمانی جمہوریت کی راہ
ہموار ہوئی۔ جمہوری دستور نے جہاں ملک کی محب وطن اکثریت کو حوصلہ عطا کیا، وہیں
یہ مقدس دستاویز ایوب و مرزا کیلئے موت کا پیغام تھی۔نئے آئین کی رو سے گورنر جنرل
کا عہدہ ختم ہوگیا چنانچہ اسکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر مقرر ہوئے۔
اسکندر مرزا
نے سیاست دانوں کا ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ خوفزدہ ہوکر سہروردی مستعفی
ہوگئے اور میوزیل چیئر آئی آئی چندریگر کے ہاتھ لگ گئی، ابھی موصوف نے سانس بھی نہ
لی تھی کہ صرف دو ماہ میں چندریگر صاحب عدم اعتماد کا شکار ہوگئے۔ نئے وزیراعظم، فیروز
خان نون نے افہام و تفہیم کے ذریعے مغرب و مشرقی پاکستان کے متحارب سیاستدانوں
قریب لانا شروع کردیا اور انھیں اس سلسلے میں کامیابی بھی ہوئی۔
اسکندر مرزا
اور ایوب خان کو خطرے کا اندازہ ہوگیا اورصدر اسکندر مرزا نے وزیراعظم فیروز خان
نون کو خط لکھ کرا نھیں 'مطلع' کیا کہ ملک کے نظم و نسق کو چلانے میں سیاسی
جماعتیں ناکام ہوگئی ہیں اسلئے انھوں نے فوج کےکو ملک کا انتظام و انصرام سنبھالنے
کا حکم دیدیا ہے۔ 'حکم' ملتے ہی 7 اکتوبر 1958 کی شب آئین منسوخ کرکے فوج نے
اقتدار سنبھال لیا اور جنرل ایوب خان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تعینات
ہوئے۔پارلیمان تحلیل اور تمام سیاسی جماعتیں کالعدم کردی گئیں۔ دلچسپ بات کہ مارشل
لا کے بارے میں صدر کے خط کی نقول سرکاری اہتمام میں امریکی سفیر اور برطانوی ہائی
کمشنر کو بھی بھیجی گئیں۔ جسٹس منیر نے مارشل لا کو قانون ضرورت کے ایک 'ناگزیر'
برائی کی سند عطا فرمادی
قوم سے اپنے
خطاب میں ایوب خان نے مارشل لا کے نفاذ کو مقدس فریضہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'اگر
ہم سیاسی افراتفری کو جاری رہنے دیتے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرتی' ۔ انھوں
کہا کہ ہم ایسی جمہوریت بحال کرنا چاہتے ہیں جسے عوام 'سمجھ' سکیں
ہماری بدقسمتی کے جرنیلوں کی جمہوریت ہم اب تک نہیں سمجھ سکے۔
No comments:
Post a Comment