Wednesday, October 12, 2022

انصاف کے علمبردارو!!! معیار تو ایک رکھو

 

انصاف کے علمبردارو!!!  معیار تو ایک رکھو

یورپی یونین نے ایران پر پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔تہران کی گوشمالی کی وجہ گزشتہ تین ہفتوں سے جاری مظاہروں پر ایرانی حکومت کا مبینہ تشدد ہے۔ ان ہنگاموں کا آغاز ایک 22 سالہ خاتون مہیسا امین کی ہلاکت سے ہوا۔ یہ لڑکی حجاب قوانین کی خلاف ورزی پر 13 ستمبر کو گرفتار کی گئی اوردورانِ حراست تین دن بعد انتقال کرگئی۔ ایرانی حکام کے مطابق مہیسا پہلے سے بیمار تھی اور دوران حراست اس پر کسی قسم کا تشدد نہیں کیا گیا۔

یورپی یونین اور امریکہ کا کہنا ہے کہ لباس کا انتخاب ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور ریاست کو اس سلسلے میں دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ اسکارف کے معاملے میں مہیسا کی گرفتاری ہی غلط تھی اور لباس کیلئے تشدد 'تہذیب ' کے خلاف ہے۔

لباس کے انتخاب پر مغرب اور یورپ کا موقف بالکل درست ہے اور ہمیں ذاتی طور پر اس سے اختلاف نہیں لیکن ستم ظریفی کہ ایرانی و افغانی خواتین کے 'آزادی لباس' کیلئے فکر مند مغرب کو فرانس کی مسلم خواتین کے بنیادی حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں جہاں قانون کے تحت پبلک مقامات پر اسکارف اوڑھنا منع ہے۔ حتیٰ کہ دوکان کی مالکن بھی اپنی دوکان پر سر نہیں چھپا سکتی۔ غسل آبی وآفتابی کیلئے ساحل سمندر یا تیراکی کے حوض پر جانے والی خواتین کو ساتر لباس کی اجازت نہیں اور انکے لئے bikiniپہننا ضروری ہے۔ فرانس کے وزیرثقافت کہہ چکے ہیں کہ 'نیم برہنہ نسوانی سینے' فرانسیسی ساحلوں اور تفریحی مقامات کی شناخت ہے اور جن خواتین کو ستر کا خیال ہے وہ یہاں تشریف نہ لائیں۔

ایرا ن اور افغانستان میں سرڈھانکنے پر اصرار غلط اور فرانس میں بچیوں کے سر سے حجاب نوچ لینے کی اجازت۔ یہ دہرا معیار ہے۔

ایران ، افغان اور فرانسیسی خواتین سمیت ہر انسان کو اپنی مرضی کا لباس زیب تن کرنے کی اجازت ہونی چاہئے کہ یہی بنیادی انسانی حقوق کا تقاضہ ہے۔

اس سلسلے میں ایران ہی کا ایک دلچسپ واقعہ جسکا ذکر دنیا کی مشہور خاتون صحافی آنجہانی اوریانہ فلاسی (Oriana Fallaci)نے پلے بوائے کے ایک انٹرویو میں کیا ہے۔ ہم نے اس انٹرویو کا اردو ترجمہ کیا تھا جو جسارت کے 7 دسمبر 1981کے شمارے میں شائع ہوا۔

اوریانا کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ ایران میں انقلاب کے بعدامام خمینی نے انھیں پہلا انٹرویو دیا تھا۔ ہم نے اس انٹرویو کا ترجمہ بھی کیا تھا۔

امام سے ملاقات کے آغاز پر ہی چادر کے حوالے سے جو گفتگو ہوئی وہ پیشِ خدمت ہے

' غضب خدا کا، ملاقات کے دوران میں پوری سات میٹر لمبی وہ چیز (چادر) اوڑھے ہوئے تھی، گرمی سے بے حال، پسینے میں شرابور۔ میں نے چادر کی بحیثیت ایرانی خواتین کے نشانِ امتیاز پر سوال کیا۔ اس پر امام خمینی نے کہا اگر یہ آپ کو پسند نہیں تو اسے اتار دیجئے، اسلئے کہ چادر تو عفت ماب خواتین کیلئے ہے۔ اس پر میں نے وہ چیتھڑا اتار پھینکا۔ امام خمینی نے اس موقع پر ایک دلچسپ حرکت کی۔ خواتین سےگفتگوکے دوران امام خمینی مخاطب کی طرف نہیں دیکھتے اور انکی نگاہیں زمین پر گڑی رہتی ہیں لیکن امام نے خلافِ معمول نظر اٹھاکر مجھے دیکھا اور دلچسپ انداز میں مسکرائے'

میں نے پوچھا 'کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میری جیسی عورت جو جنگ ویتنام کی رپورٹنگ کے دوران مرد سپاہیوں کے کیمپوں میں سو بھی چکی ہو وہ عفت ماب نہیں؟ امام نے سپاٹ لہجے میں کہا مجھے نہیں معلوم، یہ آپ ہی کو معلوم ہے کہ آپ کا ان سپاہیوں سے رویہ کیسا تھا'


No comments:

Post a Comment