جتنے عرصے میں مرا لپٹا
ہوا بستر کھُلا
سینتالیس سالہ وزیراعظم
پینتالیس دن بعد فارغ
نئی قیادت۔۔ عزائم
اوراندیشے
برطانوی تاریخ کی تیسری اور سب سے کم عمر خاتون وزیراعظم محترمہ
لز ٹرس نے استعفیٰ دیدیا۔ سینتالیس سالہ قدامت پسند لز صاحبہ نے 6 ستمبر کو وزیراعظم کا حلف اٹھایا اور 45 دن بعد اپنا استعفےٰ
بادشاہ سلامت کو پیش کردیا۔
لز صاحبہ نے برطانیہ میں سب
سے کم عرصہ وزیراعظم رہنے کا 'اعزاز' حاصل کیاہے۔ انکے مقابلے میں آنجہانی رابرٹ
والپول Robert Walpole طویل ترین عرصے تک برطانیہ کے
وزیراعظم رہے۔ انھوں نے 3 اپریل 1721 کو حلف اٹھایا اور 11 فروری 1742تک حکمرانی فرمائی یعنی 21 برس سے چند دن کم۔ جناب وال پول کو شاہ
جارج اول نے وزیراعظم مقرر کیا اور جون 1727 میں شاہ صاحب کے انتقال پر جب انکے
صاحبزادے جارج دوم نے تخت سنبھالا تو انھوں نے بھی جناب وال پول کو بطور وزراعظم برقرار رکھا۔ یعنی
جناب وال پول نے اپنے دورِ اقتدار میں دو بادشاہ بھگتائے۔اس اعتبار سے لز ٹرس کی وزارت عظمٰی بھی تاریخی ہے کہ انکی
توثیق ملکہ ایلزبیتھ نے کی جبکہ لز صاحبہ نے استعفٰی ملکہ کے جانشیں شاہ چارلس سوم
کی خدمت میں پیش کیا۔
اس حوالے
سے برصغیر کا جائزہ لیا جائے تو ہندوستان
میں جواہر لال نہرو نے طویل عرصِہ حکمرانی کا ریکارڈ قائم کیا اور آزادی سے
لیکر 1964 میں اپنے انتقال تک وہ 16 برس اور 266 دن وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز
رہے۔شری گلزاری لال نندا نے سب سے کم عرصہ وزیراعظم رہنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ مئی 1964
میں وزیراعظم جواہر لال نہرو کے انتقال پر انھوں نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور
13 دن بعد یہ منصب منتخب وزیراعظم لال بہادر شاستری کے حوالے کردیا۔ شاستری جی کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ پاکستان کے جنرل ایوب
خان کیساتھ مذاکرات کے دوران 11 جنوری 1966 کو تاشقند میں انتقال کرگئے، ایک بار
پھر گلزاری لال نندا عبوری وزیراعظم مقرر ہوئے اور 13 دن بعد اقتدار اندرا گاندھی
کے حوالے کرکے گھر چلے گئے۔ اٹل بہاری واجپائی کے پہلے دورِ وزارتِ عظمیٰ کا
دورانیہ صرف 16 تھا جب 1996 کے انتخابات کے بعد لوک سبھا کی سب بڑی جماعت کے پارلیمانی
سربراہ کی حیثیت سے انھیں حکومت سازی کی دعوت دی گئی لیکن وہ اکثریت حاصل کرنے میں
ناکام رہے ۔
ہندوستان
میں جواہر لال نہرو، انکی صاحبزادی اندرا گاندھی اور نواسے راجیو گاندھی کے عرصہِ
اقتدار کی مجموعی مدت 36 برس اور 303 دن رہا۔طوالتِ کے اعتبار سے نہرو پہلے، اندرا
گاندھی دوسرے اور من موہن سنگھ کا تیسرانمبر ہے جبکہ آٹھ سال 147 دن کیساتھ موجودہ
وزیراعظم نریندرا مودی چوتھے درجے پر فائز ہیں۔
پاکستان
میں سب سے طویل عرصہ وزیراعظم رہنے کا اعزاز نوابزداہ لیاقت علی خان کے پاس ہے جو 4
سال 63 دن سربراہ حکومت رہے۔ اسکے مقابلے میں جناب نورا الامین نے 12 سے 20 دسمبر تک صرف 13 دن وزارت عظمیٰ
سنبھالی۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک وزیراعظم نے اپنے مدت مکمل کی اور وہ ہیں
جناب ذوالفقار علی بھٹو جنھوں نے 14گست 1973
کو نئے آئین کے نفاذ پر وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور آئینی مدت کی تکمیل تک وزیراعظم
رہے، بدقسمتی سے انتخابات میں دھاندلی کے الزام کی بناپر انکی دوسری مدت کا آغاز متنازعہ
تھا اور وہ 5جولائی 1977 کو جنرل ضیا کے ہاتھوں معزول ہوگئے۔
ہم نے اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھا کہ لز ٹرس صاحبہ
کا سیاسی ماضی یو ٹرن U-Turnsسے عبارت ہے۔ دور طالب
علمی میں وہ مزدور انجمنوں کی حامی اور شہنشاہیت
کی سخت مخالف تھیں لیکن عملی سیاست کیلئے انھوں نے قدامت پسند ٹوری پارٹی
کا انتخاب کیا۔ جامعہ میں 'سرخ سویرا' کا نعرہ لگانیوالی لز ٹرس صاحبہ Britannia Unchained نامی
کتاب کی مصنفین میں سے ایک ہیں۔ اس کتاب میں برطانوی مزدوروں کو 'دنیا کے بدترین کاہلوں
میں سے ایک' بیان کیا گیاہے
بریکزٹ یعنی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے
پر محترمہ نے بریکزٹ
کے خلاف مہم چلائی لیکن جب ریفرنڈم
میں برطانوی عوام نے بریکزٹ قبول کرلیا تو لز ٹرس نے بھی اپنا موقف تبدیل کرلیا ۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی لز
ٹرس صاحبہ نے یو ٹرن کا سلسلہ جاری رکھا۔ سابق وزیراعظم بورس جانسن نے بڑی بڑی کارپوریشنوں
کی ٹیکس چوری کی شکوہ کرتے ہوئے ”مال داروں” پر عائد ٹیکس کی شرح 19 سے بڑھالر 25فیصد
کرنے کا عندیہ دیا تھاجس سے انکے خیال میں سرکار کو 20ارب ڈالر کی اضافی آمدنی ہوتی۔
رکنِ کابینہ کی حیثیت سے لز ٹرس نے بورس جانسن کے اس فیصلے کی شدت سے مخالفت کی۔ وزارت
عظمی کیلئے اپنی مہم کے دوران محترمہ لز ٹرس نے اس معاملے پر اپنے موقف کو مزید
سخت کرلیا اور ٹیکس شرح میں اضافے کو
“سوشلسٹ چونچلہ” قرار دیتے ہوئے اضافے کے بجائے سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کیلئے شرح مزید کم کرنے کا وعدہ
کیا۔
اقتدار سنبھالتے پر جیسے ہی لز
ٹرس نے نئی کابینہ تشکیل دی، اپنی قائد کے
بیانئے کو آگے بڑھانے کیلئے انکے ناظم بیت
المال (وزیرخزانہ) کواسی کوارٹینگ (Kwasi Kwarteng) نے ٹیکس شرح کم کرنے کیلئے
ضمنی یا mini budgetزتیار کرلیا۔ اس میزانئے میں ٹیکس کی جو نئی شرح تجویز کی گئی تھی، اس سے ٹیکس وصولی کا حجم 50 ارب ڈالر سکڑ سکتا تھا۔ خسارے کی شدت کم کرنے
کیلئے تجویر کئے جانیوالے اقدامات میں
سب سے تکلیف دہ توانائی زرِ تلافی (subsidy)کا خاتمہ تھا۔ یہ تجویز لِز حکومت کیخلاف دودھاری
تلوار تھی۔ پیٹرول اور گیس کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں سے بلبلاتے عوام زرِ
تلافی کے خاتمے پر پھٹ پڑے تو آمدنی میں کمی سے خسارہ کے بے قابو ہونے کی خبر بازار
حصص اور مالیاتی منڈیوں پر بجلی بن کر گری۔ دباو کا شکار برطانوی پونڈ مزید ارزاں اور حصص کی منڈی پر ریچھ (مندی) حملہ آور ہوگیا۔
عوام
کے غصے کو کم کرنے کیلئے وزیراعظم صاحبہ نے اپنے
گھانا نژادناظم بیت المال کو برطرف کردیا یاں
یوں کہیے کہ اقتدار بچانے کیلیے ناظم بیت
المال کو قربانی کا بکرا بنادیا اور 55
سالہ جریمی ہنٹ کو یہ منصب عطا ہوا۔ اسوقت ہی کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں نے سوال کیا
تھا کہ بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائیگی؟
آکسفورڈ سے معاشیات میں بے
اے کرنے والے جریمی ہنٹ اپنےخیالات کے اعتبار سے انتہائی قدامت پسند ہیں۔ انکے والد
سر نکولس ہنٹ شاہی بحریہ کے امیر البحر تھے۔ انکے آباواجداد میں Sir Streynsham Masterشامل
ہیں جو برصغیر کو زنجیرِ غلامی پہلانے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کے بانیوں میں سے تھے۔
جناب ہنٹ نے عہدہ سنبھالتے ہی مجوزہ میزانئے سے ٹیکس میں کمی کا پورا باب حذف کردیا۔ اس نئے یوٹرن نے ٹوری پارٹی کے قدامت
پسندوں کو مشتعل کردیا اور حکمراں پارٹی
میں لز ٹرس کیخلاف عدم اعتماد کے نعرے گونجنے لگے۔ بدھ 19 نومبر کو لز ٹرس صاحبہ
نے بڑے دبنگ لہجے میں کہا وہ کمزور اعصاب کی صنفِ نازک نہیں بلکہ وہ ایک جنگجو ہیں
لہٰذا استعفیٰ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
وزیراعظم کے اعتماد کی وجہ
ٹوری پارٹی کی وہ روائت تھی کہ اقتدار کی پہلی
سالگرہ سے پہلے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہیں لائی جاسکتی۔ تاہم 'وعدہ
خلافی' پر ٹوری پارٹی میں اسقدر غم و غصہ تھا کہ ارکان نے 1922 کمیٹی سے رابطہ
قائم کرلیا۔ اس کمیٹی کو آپ پشتونوں کا مشران جرگہ یا ہئیۃ البیعۃ (سعودی عرب) کہہ
سکتے ہیں۔ یہ کمیٹی 1923 میں قائم ہوئی جسکے ارکان چونکہ 1922میں منتخب ہوئے تھے
اسلئے کمیٹی 1922کے نام سے مشہور ہوئی۔ کمیٹی پارٹی کے 18سینیر ارکانِ دارالعوام
پر مشتمل ہے جو کسی کابینہ یا حکومت کے بربنائے عہدہ حصہ نہیں اور ایوان کی آخری
نشستوں پر بیٹھے اپنی پارٹی کی کارکردگی جانچتے رہتے ہیں۔ اسی لئے یہ لوگ backbenchersکہلاتے ہیں۔ کمیٹی کا اجلاس
ہر ہفتے ہوتا ہے جس میں ٹوری پارٹی کی حکمت عملی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔مزے کی بات
کہ 1922کمیٹی کی کوئی آئینی حیثیت نہیں جسکی بنا پر اسے
Conservative Private Members’ Committee بھی
کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ ادارہ صحیح معنوں میں بادشاہ گر ہے کہ پارٹی کے تمام قواعد و
ضوابط کمیٹی 1922 ہی مرتب کرتی ہے۔ اسی دوران ایک جائزہ شایع ہوا جسکے مطابق ٹوری
پارٹی کے 85فیصد ارکانِ پارلیمان نے لز
ٹرس صاحبہ کے ٹیکس کے بارے میں U
turn کو وعدہ خلافی اور سیاسی بددیانتی قرار دیا۔
لز ٹرس صاحبہ کیلئے یہ پریشانی
ہی کیا کم تھی کہ وزیرداخلہ سویلا بریورمین Suella Bravermanکے بارے میں خبر آئی کہ محترمہ نے ایک
سرکاری دستاویز کیلئے ذاتی برقی خط (ای میل)
کا نجی اکاونٹ استعمال کیا جو حکومتی ضابطے کے تحت ممنوع ہے۔ یہ سن کر وزیراعظم صاحبہ
برہم ہوگئیں جس پر سویلا صاحبہ نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفےٰ دیدیا۔
استعفےٰ کے خط میں وزیرداخلہ نے یہ بھی لکھدیا کہ وہ لزسرکار کے رخ سے مطمئن نہیں۔ اسی
دوران کسی منچلے نے سماجی رابطے پر لز ٹرس کی ایک نجی گفتگو کا انکشاف کیا جس میں محترمہ
اختیار میں کمی کی شکائت کررہی تھیں۔اس حوالے سے ایک اخبار نے سرخی جمائی کہ “PM in Power is without power”
پئے در پئے دواستعفوں سے لز حکومت کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی اور موقع سے
فائدہ اٹھاتے ہویے حزب اختلاف نے ماحولیاتی آلوگی کے بارے میں اپنے ایجنڈے کو آگے
بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس تحریک کے تکنیکی پہلو پر چند سطور:
یورپ کیلئے روسی گیس کی بندش کے بعد سے علاقے کے دوسرے ملکوں کی طرح برطانیہ
کو بھی تیل اور گیس کے بحران کا سامنا ہے۔ توانائی کی قلت سے نمٹنے کیلئے لز ٹرس تیل کی تلاش و ترقی کا کام تیز کرنا چاہتی تھیں ۔
دوسری طرف حزبِ اختلاف کا خیال ہے کہ کنووں کی کھدائی کے اجازت نامے جاری کرتے
ہوئے ماحول کی آلودگی کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ تیل اور گیس کے روائتی میدان ریت (sand) اور چونے کے پتھر (limestone)کی چٹانوں میں پائے جاتے ہیں۔ ادھر کچھ عرصے سے سلیٹی چٹانوں یا Shaleمیں بھی قسمت آزمائی کی جارہی ہے۔ سلیٹی چٹانوں
میں قباحت یہ ہے کہ انکے مسام آپس میں ملے ہوئے نہیں اسلئے ان میں موجود تیل اور
گیس کو گہرائی سے سطحِ زمین کی طرف سفر پر آمادہ کرنا بہت مشکل ہے اور اسکے لئے شدید
دباو یا Frackingکے ذریعے چٹانوں کو توڑنا اور
جنجھوڑٖنا پڑتا ہے۔ اس مقصد کیلئے جو ترکیبیں اور کیماوی مواد استعمال ہوتا ہے وہ
ماہرین کے خیال میں مضرِ صحت ہیں اور frackingکے عمل میں آبنوشی کے زیرزمین ذخائر آلودہ ہورہے ہیں۔
حزب اختلاف نے فریکنگ پرپابندی کی قرارداد ایوان میں پیش کردی۔ لز ٹرس صاحبہ
کو معلوم تھا کہ توانائی کی شدید قلت کے تناظر میں اس تحریک کا منظور ہونا ناممکن
ہے چنانچہ انھوں نے اپنی دانست مں ترُ پ کا پتہ پھینک دیا اور فرمایا کہ 'یہ
قرارداد دراصل انکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہے'۔ حسب توقع فریکنگ پر پابندی کی
تجویز 230 کے مقابلے میں 326 ووٹوں سے مسترد ہوگئی۔ پارلیمان میں برسراقتدار ٹوری پارٹی کو واضح برتری
حاصل ہے چنانچہ پارٹی کے ارکان معمول کی کاروائی کو عدم اعتماد جیسی اہمیت دینے پر
ناخوش ہوگئے اور پارٹی کی چیف وہپ Chief Whip محترمہ وینڈی مورٹن نے بھی
استعفیٰ دیدیا۔اب پانی سر سے اونچا ہوچکا تھا اور نوشتہ دیوار پڑھ کر وزیراعظم لز ٹرس نے بادشاہ
سلامت کو اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے
اعتراف کیا کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہیں اور عوام کی توقعات پر پوری نہیں اُتریں۔
لز ٹرس
کے مقابلے میں انکے جانشیں کا انتخاب بہت اسان رہا۔ اس منصب کیلئے سابق
ناظمِ بیت المال Chancellor Of the Exchequerالمعروف وزیرخزانہ رشی سوناک (Rishi Sunak)
اور دارلعوام کی قائد ایوان محترمہ پینی مرڈانٹ (Penny Mordaunt)نے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔
اسی کیساتھ چندماہ پہلے اپنی ہی پارٹی میں عدم اعتماد کا شکار ہونے والے بورس
جانسن نے بھی دوبارہ وزیراعظم بننے کی خواہش ظاہر کردی۔ بورس جانس عوام میں خاصے مقبول
ہیں لیکن دروغ گوئی اور ضابطے کی خلاف ورزی کے الزام میں موصوف تحقیقات کے پلِ
صراط سے گزر رہے ہیں چنانچہ احباب نے سمجھایاکہ 'دستار کی کیا فکر ہے پاپوش سنبھالو'۔ یعنی آپ وزارت عظمیٰ کا خواب
دیکھ رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ الزامات ثابت ہونے کی صورت میں عالم پناہ
پالیمان کی رکنیت سے بھی نااہل ہوجائینگے۔ آدمی جہاندیدہ ہیں لہٰذا جناب جانسن نے
اس دوڑ سے باہر جانے کا اعلان کردیا۔دوسری طرف پینی صاحبہ کے مقطع امیدواری میں یہ
سخن گسترانہ بات آن پڑی کہ موصوفہ نامزدگی کی حمائت میں کم ازکم سو ارکان کی شرط
پوری نہ کرسکیں اور رشی سوناک ٹوری پارٹی کے قائد و وزیراعظم منتخب ہوگئے۔
بیالیس برس کے رشی ہند نژاد
اور راسخ العقیدہ ہندو ہیں۔ انکے والد کینیا سے انگلستان تشریف لائے جبکہ والدہ
محترمہ تنزانیہ سے آئی تھیں۔ انکے دادا رام داس سوناک کا تعلق گجرانوالہ سے تھا۔ جناب
سوناک برطانوی تاریخ کے پہلے
رنگدار وزیراعظم ہیں۔
جناب رشی سوناک نے آکسفورڈ
سے سیاسیات اور معاشیات میں بی اے کرنے کے بعد فل برائٹ
Fulbrightوظیفے پر امریکہ کی موقر
جامعہ اسٹینفرڈ Stanfordسے ایم بی اے کیا۔ دورانِ طالب علمی رشی نے ریستوران میں برتن
دھوکر اخراجات پورے کئے۔ رشی صاحب ٹھنڈے مزاج کے متحمل و بردبار آدمی ہیں۔ انکی یہ
شاندار شخصیت و صفاتِ عالیہ بہت خوب لیکن سوناک صاحب کی اصل آزمائش دباو کا شکار
برطانوی معیشت ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ کساد بازاری کا یہی حال رہا تو
حجم کے اعتبار سے برطانوی معیشت ہندوستان سے پیچھے ہو جائیگی۔
بریکزٹ کی وجہ سے برطانوی
برآمدکنندگان کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور معاملہ صرف یورپی یونین تک محدود نہیں
بلکہ دنیا کے اکثر ممالک سے تجارتی معاہدوں پر نظر ثانی کا اعصاب شکن مرحلہ درپیش
ہے۔ اسلئے کہ تجارت یورپی یونین معاہدے کے تحت ہورہی تھی اور یہ معاہدات اب عملاً
غیر موثر ہوگئے ہیں۔کرونا سے پہنچنے والے نقصان کا ماتم ابھی جاری تھا کہ روس
یوکرین جنگ نے ایک نیا بحران پیداکردیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق توانائی چھ گنا
مہنگی ہوچکی ہے۔ تجارتی معاہدوں کی پریشانی اپنی جگہ، توانائی مہنگی ہونے کی وجہ
سے مصنوعات کی پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے نتیجے کے طور پر برآمدات میں کمی واقع
ہورہی ہے۔ رشی سوناک نے مہنگائی کو اپنا اولین ہدف قراردیا ہے لیکن اپنی پیشرو کی
طرح موصوف بھی رعایتوں (subsidies)پر یقین نہیں رکھتے نہ وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ
کرکے حکومتی اخراجات کو بڑھانے کے حق میں ہیں۔ معلوم نہیں انکے پاس وہ کون سی گیڈر
سنگھی ہے جسکے ذریعے وہ رعائت اور تنخواہوں میں اضافے کے بغیر مہنگائی کے مارے
عوام کو راحت عطا فرمائینگے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل، کراچی 28 اکتوبر
2022
ہفت روزہ دعوت دہلی 28 اکتوبر 2022
روزنامہ امت کراچی 28 اکتوبر 2022
ہفت روزہ رہبر 30 اکتوبر 2022
روزنامہ قوی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment