Thursday, October 13, 2022

تیل کی سیاست اور امریکہ کے وسط مدتی انتخابات

 

تیل کی سیاست اور امریکہ کے وسط مدتی انتخابات

تیل پیدا کرنے والے ممالک کی انجمن اوپیک (OPEC)اور روس نے تیل کی پیدوار میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کٹوتی کا اعلان کیا ہے۔ اس تنظیم کے بانی عرب دنیاکے ممتاز ماہرِ ارضیات اور سعودی عرب کے سابق وزیرِ تیل عبداللہ الطریقی تھے۔ طریقی صاحب  نے سعودی ارضیات کے مخلتلف پہلووں پر گراں قدر مقالے تحریر کئے ہیں۔ فروری 1960 میں جناب الطریقی کی دعوت پر عراق، کوئت، ایران اور وینیزویلا کے وزرائے تیل بغداد میں جمع ہوئے۔ ان ممالک کو شکائت تھی کہ قومی دولت پر حکومتوں کی گرفت نہ ہونے کے برابر ہے اور سارا کاروبار سات بڑی تیل کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے جنھیں'سات ہمشیرہ' (seven sisters) کہا جاتا تھا۔ الطریقی صاحب انھیں سات چڑیلیں کہتے تھے۔ ان سات بڑے اداروں میں ایکسون، شیورون اور کونوکو کا تعلق امریکہ سے تھا، برٹش پیٹرولیم، تاجِ برطانیہ کی ملکیت تھی۔ شیل ولندیزی، ای این آئی اطالوی اور ٹوٹل فرانسیسی کمپنی تھی۔ اجلاس کے دوران تیل کمپنیوں کے اثرورسوخ پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تجارتی امور بتدریج قومی تحویل میں لینے کے اقدامات وضع کئے گئے، جن میں قیمتوں کا تعین اور فروخت کے معاہدے حکومت سطح پر کرنے کے معاملات شامل تھے۔ گویا اوپیک کے قیام کا بنیادی مقصد اس اہم قومی سرمائے کو سات چڑیلوں کی گرفت سے آزاد کرانا تھا۔

دو سال بعد لیبیا نے  بھی رکنیت اختیار کرلی۔ تنظیم میں پہلا تنازعہ صدر دفتر کے معاملے پر سامنے آیا۔ عرب ممالک کی خواہش تھی کی ادارے کا مرکز بغداد یا بیروت ہو لیکن وینیزویلا کا خیال تھا کہ اوپیک کا سیکریٹیریٹ کسی غیر جانبدار جگہ پر ہونا چاہئے۔ ابتدا میں جنیوا پر اتفاق ہوا لیکن سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے اوپیک کو سفارتی مراعات دینے سے انکار کردیا، چنانچہ صدر دفتر آسٹریا کے شہر ویانا میں قائم کردیاگیا۔اِسوقت اوپیک کے ارکان کی تعداد 13 ہے۔  تیل کی برآمد ختم ہوجانے کی بنا پر 2016 میں انڈونیشیا اور 2020 میں ایکوڈر کی رکنیت معطل کردی گئی۔ قطر  2019 میں اوپیک سے علیحدہ ہوگیا۔ دوحہ کا موقف ہے کہ اوپیک خام تیل برآمد کرنے والے ممالک کی انجمن ہے اور گیس پیدا کرنے والے ملک کی حیثیت سے قطر کو اوپیک میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

اوپیک کو عالمی افق پر 1973 کی عرب اسرائیل کے دوران زبردست شہرت ملی جب عربوں نے مغربی ممالک کو تیل کی برآمدات پر پابندی لگادی۔ اسکے نتیجے میں امریکہ اور یورپ میں توانائی کا شدید بحران پیدا ہو ا اور تیل کی قیمت 3 ڈالر سے 12 ڈالر فی بیرل ہوگئی۔ایرانی انقلاب، ایران عراق جنگ اور عراق پر امریکی حملے سے بھی تیل کی پیداوار متاثر ہوئی تاہم بطورِ تنظیم اوپیک اپنی حیثیت منوانے میں ناکام رہی۔

اوپیک کی ناکامی کی بڑی وجہ غیراوپیک ممالک کی پیداوار میں اضافہ تھا۔ اسوقت دنیا میں فروخت ہونے والا 44فیصد تیل اوپیک کے ممالک فراہم کرتے ہیں یعنی نصف سے زیادہ پیدوار غیر اوپیک ممالک سے حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  قیمتوں میں استحکام لانے کیلئے جب بھی اوپیک نے رسد پر قینچی چلائی، غیر اوپیک خاص طور سے روس امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو نے اپنے کنووں کے منہہ کھول کر یہ کمی پوری کردی۔ بدقسمتی سے اوپیک ممالک کی آمدنی کا واحد ذریعہ تیل ہے اور روزمرہ کاروبار کو چلانے کیلئے دوسرے وسائل قابلِ بھروسہ نہیں۔ چانچہ وہ اونے پو نے دام بھی تیل بیچنے کو تیار ہیں اور کوٹے پر مخلصانہ عملدرآمد ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

نامراد کرونا وائرس المعروف کووڈ 19 نے ساری میں حیات کے ساتھ اسباب حیات کو غارت کیا تو تیل کی صنعت بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ اس دوران روس نے چین اور ہندوستان کو رعایتی قیمت پر تیل بیچنا شروع کردیا جس پر مشتعل ہوکر سعودی عرب نے پیداوار بڑھادی اور تیل کی قیمتیں زمین پر آگئیں۔ کیا اوپیک اور کیا غیر اوپیک ہر جگہ صفِ ماتم بچھ گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ 20 اپریل 2020 کو امریکہ میں تیل کی قیمت منفی 37 ڈالر فی بیرل ہوگئی۔ اسکا یہ مطلب نہیں کہ  پمپوں پر قیمت لینے کے بجائے پیٹرول خریدنے والوں کو رقم واپس کی جارہی تھی بلکہ ہوا یوں کہ فروخت صفر ہوجانے کی وجہ سے مزید تیل رکھنے کی گنجائش ختم ہوگئی اور آڑھتیوں نے تقسیم کنندگان سے قیمت وصول کرنے کے بجائے انھیں تیل اٹھانے کے لئے پیسے دینے شروع کردئے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آپ اپنے گھر سے کوڑا کرکٹ اور کچرا اٹھانے کیلئے معاوضہ اداکرتے ہیں۔اس دوران امریکہ اور کینیڈا میں درجنوں تیل کمپنیاں اور تیل صاف کرنے کےکارخانے دیوالیہ ہوگئے۔

اس 'قیامت' سے پہلے ہی صدر ٹرمپ' تیل سفارتکاری' کا آغاز کرچکے تھے اور انکی کوششوں سے صدر پیوٹن اور سعودی ولی عہد کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔یہ امریکہ میں انتخابات کا سال تھا اور صنعت کی تباہی صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم پر منفی اثر ڈال رہی تھی۔ امریکی صدر نے سعودی عرب سے پیداوار میں کٹوتی کی درخواست کی جس پر اسوقت کے سعودی وزیر تونائی جناب خالد الفالح  نے صاف صاف کہا کہ جب تک غیر اوپیک ممالک کمی پر راضی نہ ہوں اوپیک کی جانب سے کمی غیر موثر رہے گی۔ صدر ٹرمپ نے غیر اوپیک ممالک کو راضی کرلیا اور مئی 2020 سے تیل کی عالمی پیداوار 97 لاکھ یومیہ کم کردی گئی۔ اوپیک 52 لاکھ اور غیر اوپیک ممالک نے 45 لاکھ بیرل یومیہ کی کٹوتی کی۔

بلاشبہ یہ صدر ٹرمپ کی بہت بڑی کامیابی تھی،  تاہم صدر ٹرمپ انتخاب میں جو بائیڈن سے شکست کھاگئے۔ پیداوار میں کمی کے بعد تیل کی قیمتیں کسی حد تک مستحکم ہوگئیں۔ اس مشق کا اوپیک کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ روس اوپیک کا اتحادی بن گیا اور اوپیک اب اوپیک پلس کہلانے لگی۔ امریکہ، روس اور سعودی عرب تیل کے تین بڑے فراہم کنندہ ہیں اور دنیا میں استعمال ہونے والا ایک تہائی تیل ان تین ممالک کے کنووں سے نکالا جاتا ہے۔ ان تینوں کی اوسط پیداوار ایک کروڑ بیرل یومیہ ہے۔ سعودی اور روس کے ایک پلیٹ فارم پر آجانے سے اوپیک پلس ایک طاقتور ادارہ بن گیا۔

کرونا کے حفاظتی ٹیکوں کی تیاری کے فوراً بعد ساری دنیا میں جدرین کاری  (Vaccination)کی منظم مہم شروع ہوئی اورمرض پر قابو کیساتھ ہی صنعتی سرگرمیوں کا دوبارہ آغاز ہوا۔اب تیل کی کھپت بھی بڑھنے لگی۔ اوپیک پلس نے تیل کی قیمت کو 'نامناسب' حد تک بڑھنے کی حوصلہ شکنی کیلئے پیدوار کو ہر ماہ چار لاکھ بیرل یومیہ کے حساب سے بڑھانا شروع کردیا۔

اس سال کے آغاز پر مشرقی یورپ میں جنگ کے بادل امڈ آئے۔روس کو یوکرین کی نیٹو رکنیت کسی قیمت قابل قبول نہ تھی اور دھمکیوں کیساتھ بیانات کی گولہ باری شروع ہوئی۔ صدر بائیڈن نےمتنبہ کیا کہ حملے کی صورت میں روسی تیل کی برآمدات کو نشانہ بنایا جائیگا۔ پیش بندی کے طور پر انھوں نے اپنے خلیجی اتحادیوں سے تیل اور گیس کی پیداوار میں اضافے کی فرمائش کی لیکن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں کا کہنا تھا کہ دس لاکھ بیرل یومیہ اضافہ انکے لئے ممکن  نہیں۔ کچھ ایسا ہی جواب دنیا میں گیس کے سب سے بڑے فراہم کنندہ قطر کا تھا۔

یورپی توانائی کی 40 فیصد ضرورت روسی گیس سے پوری ہوتی ہے جسکا اوسط سالانہ حجم 183 ارب  مکعب میٹر سالانہ ہے۔ اس مقدار کی اگر مائع شکل میں پیمائش کی جائے تو  یہ 47 لاکھ بیرل یومیہ بنتی ہے۔ کشیدگی کے آغاز پر ہی یورپی ممالک نے روسی گیس کا متبادل تلاش کرنا شروع کردیا تھا۔ہوا اور شمسی توانائی سمیت قابل تجدید ذرایع کیساتھ کفائت شعاری پر سختی سے عملدرآمد شروع ہوا۔ ناروے سے پولینڈ آنے والی بلقان پائپ لائن پر کام تیز کردیا کیا اور گزشتہ دنوں یہ پائپ لائن چالو ہوگئی جس سے پولینڈ کا گیس کے معاملے میں روس پر انحصار اب ختم ہوچکا ہے۔

جنگ کے آغاز پر یورپی یونین نے اعلان کیا کہ روس سے آنے والی رودِ شمالی پائپ لائن بند نہیں کی جائیگی۔ دوسری طرف ممکنہ پابندیوں کے پیش نظر روس نے توانائی کیلئے دوسرے گاہک تلاش کرنے شروع کردئے۔ جلد ہی چین اور ہندوستان روسی تیل کے بڑے خریدار بن گئے۔ حجم کے اعتبار سے اِسوقت  چین اور  ہندوستان کی مجموعی خریداری  یورپی ممالک کے برابر ہے۔روس سے تیل کی ہندوستان جانے والی مقدار سعودی تیل سے زیادہ ہے بلکہ عراق اور روس کےبعد سعودی عرب تیسرے نمبر پر ہے۔ خیال رہے کہ ہندوستان کی ONGC ودیش روسی جزیرے سخالن میں تیل اور گیس کے ایک بڑے منصوبے کی شراکت دار ہے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ امریکہ اور چین کے بعد تیل کی سب سے زیادہ کھپت ہندوستان میں ہے جسکا 85 فیصد حصہ درآمد کیا جاتا ہے۔ مالی بحران کا شکار سری لنکا بھی روسی تیل کا گاہک بن چکاہے اور امریکی و مغربی پابندیوں سے پریشان میانمار(برما)  کی فوجی جنتا بھی تیل کیلئے روس سے مول تول کررہی ہے۔ روس کے نئے کرمفرماوں میں اہم نام افغانستا ن کا ہے جو  روس سے خام تیل اور  پیٹرولیم مصنوعات خریدے گا۔

یوکرین جنگ کے فوراً بعد جب تیل کی قیمتیں عروج پر تھیں اسوقت ہی ماہرین نے عارضے کو عارضی قراردیا تھا۔اس تجزئے کی وجہ وہی نکات تھے جنکا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ایک طرف روس نے نئے گاہک تلاش کرنے کیلئے رعائت کا سلسلہ جاری رکھا تو ہر گزرتے دن کیساتھ افراطِ زر کی شرح مسلسل بڑھتی رہی۔ اِس جِن کو قابو کرنے کیلئے شرحِ سود میں اضافے کا ٹوٹکا استعمال کیا گیا۔ یہ قدم سود خور بینکوں اور مالیاتی اداروں کیلئے بڑا سود مند ثابت ہوا لیکن اسکے نتیجے میں کسادبازاری کا عفریت مزید توانا ہوگیا اور کئی ملکوں میں مہنگائی کے زخم پر  تالہ بندی اور چھانٹی کے نمک نے سوزش دوچند کردی

معیشت کی سست روی سے تیل کی طلب  میں کمی اور قیمتوں میں زوال کا آغاز ہوا۔ پانچ اکتوبر کو اوپیک پلس کے اجلاس سے دودن پہلے سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے کہا کہ قیمتوں میں استحکام کیلئے پیداوار پر نظر ثانی ضروری ہے۔ شہزادہ صاحب کے روسی ہم منصب نکولائی شولگنوف (Nikolay Shulginov) نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ اور جب بدھ کو ویانا میں اوپیک پلس کا اجلاس ہوا تو اس معاملے پر ایران، عراق اور لیبیا سمیت تمام ارکان نے کٹوتی کی تجویز سے اتفاق کیا اور فیصلہ ہوا کہ یکم نومبر میں اوپیک پلس کی مجموعی پیداوار  20 لاکھ بیرل یومیہ کم کردی جائیگی۔ یہ اجلاس صرف 30 منٹ جاری رہا جو تنظیم کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔

اس اعلان کیساتھ ہی تیل کی قیمت میں 3 ڈالر فی بیرل کا اضافہ ہوگیا اور کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ گرانی کا یہ رجحان اس سال کے آخر تک برقرار رہیگا۔امریکہ کے مشہور مالیاتی ادارے اسٹینلی مورگن نے اگلے برس کے شروع تک 100 ڈالر فی بیرل تیل کی پیشنگوئی کی ہے۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ اوپیک ممالک گزشتہ کئی ماہ سے پیداوار میں رضاکارانہ کٹوتی کررہے ہیں۔رایٹرز کے مطابق اگست کے مہینے میں اوپیک کی اوسط پیداوار ہدف سے 35 لاکھ 80 ہزار بیرل یومیہ کم تھی۔ اسی بنا پر ہمارےخیال میں قمیتوں کا اقبال عارضی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا یوکرین کی جنگ شروع ہوتے ہی تیل قیمتوں کو پر لگ گئے تھے لیکن چند ہفتوں بعد قیمتیں نیچے آنا شروع ہوگئیں۔ اس بار بھی یہ غیر معمولی اضافہ Headlines Effectکی ایک شکل  ہے، یعنی مال تجارت (Commodities)کی قیمتوں میں 'خبروں' کی بنیاد پر غیر معمولی اتار چڑھاو ۔

تیل کی قیمتوں میں یہ عارضی اضافہ صدر بائیڈن کے سیاسی مستقبل کیلئے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ نومبر کی آٹھ تاریخ کو امریکی مقننہ (پارلیمان) کے انتخابات ہورہے ہیں اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق بڑھتی ہوئی مہنگائی امریکی عوام کیلئے اسوقت یوکرین سے زیادہ اہم ہے۔ اکثر ریاستوں میں قبل ازوقت یا early votingکا سلسلہ اگلے ہفتے سے شروع ہورہا ہے اور گزشتہ تین دنوں میں  پیٹرول پمپ پر قیمتیں 15 سے 20 فیصد بڑھ گئی ہیں۔ توانائی کے نرخ بڑھنے سے غذا اور دوا سب مزید مہنگی ہوگئی ہیں۔

امریکی صدر اوپیک پلس کے فیصلے پر سخت برہم ہیں۔  تین ماہ قبل اپنے دورہِ سعودی عرب میں انھوں نےولی عہد سے  تیل کی پیداوار بڑھانے  کی درخواست کی تھی لیکن شہزادہِ گلفام نے نہ صرف  امریکی صدر کی بات نہیں مانی بلکہ اب انکے سیاسی تابوت میں کٹوتی کی کیل بھی ٹھونک دی۔

اوپیک پلس کے فیصلے پر صدر بائیڈن کا اشتعال و مایوسی اپنی جگہ لیکن انکے لئے اوپیک کو فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرنا ممکن نہیں۔ کٹوتی کے توڑ کیلئےانھوں نے خام تیل کے تزویراتی ذخیرے SPRسے ایک کروڑ تیل بازار میں لانے کا اعلان کیا ہے، لیکن یہ اونٹ کے منہہ میں زیرے سے بھی کم ہے کہ امریکہ کی اپنی کھپت ڈیڑھ کروڑ بیرل یومیہ ہے۔ اسی کیساتھ بائیڈن انتظامیہ نے وینیزویلا اور ایرانی تیل پر پابندیاں نرم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔  اس سے بھی کچھ ہونے والا نہیں اسلئے کہ پابندیوں کے باوجود  ایران اسوقت بھی  20 لاکھ اور وینزویلا 5 لاکھ بیرل یومیہ برآمد کررہا ہے۔ پابندیاں ہٹانے کیلئے امریکی کانگریس سے اجازت درکار ہے اور یہ ترنت نہیں ہوسکتا۔

اوپیک کے فیصلے کو صدر بائیڈن کے مخالفین امریکی قیادت کی کمزوری اور سفارتکاری کی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے 2020 میں تیل کی امریکی صنعت کو بحران سے نکالنے کیلئے روس اور اوپیک کو 97 لاکھ بیرل کٹوتی پر راضی کرلیا جبکہ مشکل وقت میں صدر بائیڈن کی درخواست کو شہزادہ محمد بن سلمان نے انتہائی حقارت سے مسترد کردیا۔

جوابی قدم کے طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے تین ارکانِ کانگریس نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں تعینات امریکی فوج کو واپس بلانے کیلئے ایک مسودہ قانون (بل) ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) میں پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ریپبلکن سینیٹر بلِ کیسیڈی سے ایسا ہی ایک بل سینیٹ میں پیش کیا ہے۔ ان بلوں کی منظوری کا کوئی امکان نہیں۔ کم ازکم 8نومبر کے انتخابات سے پہلے تو اس پر بحث بھی شروع نہیں ہوسکے گی۔

صدر بائیڈن کے رفقا کا کہنا ہے کہ یہ سب صدر پیوٹن اور چین کا کیا دھرا ہے جو وسط مدتی انتخابات میں امریکی مقنہہ سے ڈیموکریٹک پارٹی کی برتری ختم کرکے اگلے دوسال کیلئے صدر بائیٖڈن کو بے دست و پا یا lame duckصدر بنادینا چاہتے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 اکتوبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 14 اکتوبر 2022

روزنامہ امت 14 اکتوبر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 16 اکتوبر 2022


No comments:

Post a Comment