Thursday, September 1, 2022

ڈانلڈٹرمپ کے گھر پر امریکہ کی خفیہ دستاویزت کا انبار

 

ڈانلڈٹرمپ  کے گھر پر امریکہ کی خفیہ دستاویزت کا انبار

جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی، انصاف کی راہ میں رکاوٹ اور اہم دستاویزات کو سنبھالنے میں مجرمانہ غفلت

سابق امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ ایک غیر روائتی سیاستدان اور ہر اعتبار سے مختلف امریکی صدر تھے۔ حساس قومی معلومات اور دستاویزات کے معاملے میں ٹرمپ صاحب کا رویہ بہت ہی عجیب سا تھا۔ انکے سابق  مشیرِ قومی سلامتی جان بولٹن کا کہنا ہے کہ 'ڈانلڈ ٹرمپ حساس معلومات کو محفوظ رکھنے میں بہت سست اور غیر ذمہ دار تھے اور ہم اس حوالے سے مسلسل پریشان رہتے تھے'۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ صدر ٹرمپ نے تقرر کے صرف ایک سال بعد جناب بولٹن  پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے  انھیں سبکدوش کردیاتھا اور انکی برطرفی کا اعلان صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ سے کیا جو دراصل بصد سامانِ رسوائی کامظہر تھا ۔اس اعتبار سے جناب بولٹن کے بیان کو ذاتی مخاصمت کا شاخسانہ قراردیا جاسکتا ہے۔

اپنی مدتِ اقتدار کی تکمیل کے بعد سے جناب ڈانلڈ ٹرمپ بہت سی تحقیقات بھگت رہے ہیں۔ ان پر  امریکی صدارتی انتخاب کے  لئے کلیہ انتخاب (Electoral College)کے ووٹوں کی گنتی کے دوران امریکی مقننہہ پر حملے کی منصوبہ بندی، سرپرستی اور 'بغاوت' کی حوصلہ افزائی کا الزام ہے۔

صدر ٹرمپ نے مبینہ طور پر ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ریاست جارجیا کے سکریٹری آف اسٹیٹ (ریاستی وزیر اعلیٰ) پر دباو ڈالا کہ جارجیا کے  نتائج کوتبدیل کرکے سابق صدر کی برتری ظاہر کی جائے۔ اس ضمن میں انکی فون گفتگو کا پورا ریکارڈ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے پاس موجود ہے۔ امریکی قانون کے تحت انتخابی نتائج سے 'چھیڑ چھاڑ' ایک سنگین جرم ہے جسکی تحقیقات جاری ہیں۔

 سابق صدر پر انکی نیویارک میں واقع جائیداد کی قیمت کم ظاہر کرنے اور  ریاستی ٹیکس  بچانے کیلئے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرنے کا الزام بھی ہے۔ جناب  ٹرمپ کو نیویارک کی اٹارنی جنرل محترمہ لٹیٹاجیمز نے  اصالتاً طلب کیا۔ دس اگست کو پیشی کے دوران سابق صدر نے امریکی آئین کی پانچویں ترمیم کا سہارا لیکر مکمل خاموشی اختیار کی۔ اس ترمیم کے تحت تحقیقات کے دوران ملزم کو سوال و جواب کے دوران خاموش رہنے کی اجازت ہے اسلئے کہ ادا کیا ہوا ہر جملہ ملزم کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے چنانچہ ملزمان تحقیقاتی افسر سے انفرادی ملاقات کے دوران خاموش رہ سکتے ہیں۔ ڈیڑھ گھنٹہ طویل اس ملاقات میں سابق صدر نے صرف ایک سوال کا جواب دیا اور وہ یہ تھا کہ آپ کا نام کیا ہے ، باقی ہر سوال کے جواب میں وہ فرماتے   Madam, I take 5 یعنی 'محترمہ پانچویں ترمیم کے تحت ملنے والے تحفظ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں خاموشی اختیار کررہا ہوں' اب ان پر باقاعدہ فرد جرم عائد کی جائیگی جسکی سنگینی کے پیش نظر پروانہ گرفتاری کا اجرا بھی خارج از امکان نہیں۔

ان تمام الزامات کیساتھ سب سے سنگین معاملہ  حساس سرکاری دستاویزات کے ساتھ انکا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ امریکہ کے جاسوسی ایکٹ مجریہ 1917 کے تحت حساس مواد کی تصویر لینے، اہم معلومات کی نقل بنانے اور امریکی دفاع سے متعلق معلومات کوکسی دوسرے ملک کے فائدے کے لیے استعمال کرنا سنگین جرم ہے جسکی کم ازکم سزا دس سال قید ہے۔ امریکی صحافیوں کی تنظیمیں اور آزادیِ اظہار رائے کی انجمنیں اس قانوں کو پسند نہیں کرتیں، انکا خیال ہے کہ اس دفعہ کا سہارا لے کر کئی صحافیوں کے خلاف کاروائی کی گئی ہے۔ گزشتہ 105 سال کے دوران جاسوسی ایکٹ کے تحت 1000 افراد کو سزا ہوچکی ہے۔ اسی بناپر 1920 میں ایک ترمیم کے ذریعے ایک خاص مدت کے بعد خفیہ معلومات کو مشتہر کرنے کی ہدائت کی گئی لیکن یہ صدر کے صوابدیدی اختیار سے مشروط ہے۔صدر اوباما کے دور میں اس قانون کے تحت 8 اور ڈانلڈ ٹرمپ نے 6 صحافیوں پر فرد جرم عائد کی۔

قصرِ مرمریں کے ذرایع کہتے ہیں کہ اپنے دورِ اقتدار میں صدر ٹرمپ بہت سی سرکاری فائلیں اور دستاویز اپنے ساتھ گھر لے جاتے  تھے اور ان کاغذات میں خفیہ یا کلاسیفائیڈ مواد بھی شامل ہے۔ صدر ٹرمپ  کا موقف تھا کہ وہ نو سے پانچ کام کرنے والے کلرک نہیں بلکہ امریکہ کے  ہمہ وقتی صدر ہیں لہٰذا وہ بہت سی فائلیں رات کا کھانا کھاکر فرصت کے اوقات میں گھر پر دیکھتے ہیں۔ بادی النظر میں صدر کا موقف بہت معقول ہے کہ بحیثیت صدر انتہائی خفیہ یا عام ہر قسم کی دستاویزات تک انھیں رسائی حاصل تھی اور اگر وہ مطالعے کیلئے کچھ دستاویزات گھر لے گئے تو کیا برائی ہے۔ تاہم اس میں ایک آئینی سقم ہے۔ امریکی قانون کے تحت  خفیہ دستاویزات کو ٓمحفوظات یا Archive سے باہر لے جانے سے پہلے انکا مکمل اندراج ضروری ہے جسکا صدرٹرمپ نے کوئی اہتمام نہیں کیا۔ اس بارے میں سابق صدر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے گھر لے جانیوالے مواد کو محدود مدت کیلئے غیر مخفی یا declassify کردیا کرتے تھے لیکن اسکے لئے باقاعدہ یادداشت یا memorandum جاری کرنے کے تکلف میں پڑے بغیر وہ ان فائلوں کے کلاسیفائیڈ لیبل پر خط تنسیخ پھیر کر  پینسل سے 'عارضی طور پر غیر مخفی' لکھ دیتے تھے۔

معاملہ یہاں تک بھی رہتا تو ٹھیک تھا۔ بائیڈن انتظامیہ کے محکمہ انصاف کا خیال ہے کہ سابق صدر جو فائلیں اور دستاویزات مطالعے کیلئے اپنے گھر  لےگئے ان میں سے بہت سی انھوں نے اپنی مدت صدارت مکمل ہونے پر واپس نہیں کیں  جو ایک سنگیں جرم ہے۔

چنانچہ چند ماہ پہلے جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی، انصاف کی راہ میں حائل ہونے اور اہم دستاویزات کو سنبھالنے میں مجرمانہ غفلت کے شبہے میں انکے خلاف کھاتہ کھول دیا گیا اور دورانِ تحقیق  وزارت انصاف کے اہلکاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ سابق صدر جنوری 2021 میں اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد وائٹ ہاؤس سے جاتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کی معلومات کے علاوہ کچھ حساس نوعیت کا ریکارڈ اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ یہ  دستاویزات ان  فائلوں کے علاوہ ہیں جو جناب ٹرمپ دوران صدارت اپنے گھر لے جایا کرتے تھے۔

ابتدائی معلومات کی تصدیق کے بعد اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ (Merrick Garland)کی درخواست پر وفاقی عدالت کی فلورڈا رجسٹری سے  ڈانلڈ ٹرمپ کے پر تعیش گالف کورس اور سیاحتی مرکز مارا لاگو کی تلاشی کا پروانہ یا سرچ وارنٹ حاصل کیا گیا۔  ٹرمپ دور صدارت میں مارا لاگو جنوب کا وہائٹ ہاؤس کہلاتا تھا۔ پروانہ حاصل کرنے کے بعد  11 اگست کو مارے جانے والے چھاپے میں ایف بی آئی اہلکاروں نے  تلاشی کے دوران  20 بکسوں پر مشتمل خفیہ دستاویزات کے 11 سیٹ برآمد کرلئے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ چھاپے میں  300سے زیادہ خفیہ یا کلاسیفائیڈ دستاویزات برآمد کی  گئی ہیں جن میں سی آئی اے ، نیشنل سیکیورٹی اور ایف بی آئی کا ریکارڈ شامل ہے۔ بعض ذرایع کےمطابق کچھ فائلیں جوہری ہتھیاروں سے متعلق ہیں۔ ان میں سے کچھ ڈبوں پر 'ٹاپ سیکریٹ'، 'سیکریٹ' اور 'کانفیڈینشل' لکھا ہوا ہے۔ کچھ مواد پر 'پوٹینشل پریذیڈینشل سیکریٹ'، 'متفرق خفیہ دستاویزات،' لکھا ہوا ہے۔ کچھ فائلوں میں ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹس اور تصاویر بھی ہیں۔ ایف بی آئی کے چھاپے کے دوران ٹرمپ کی رہائش گاہ میں اُن کے دفتر، خوابگاہ، کمرہِ مطالعہ، اسٹور رومز اور  اُن کے اسٹاف کے زیرِ استعمال کمروں کی تلاشی لی گئی۔

چھاپے کے وقت صدر ٹرمپ نیویارک میں تھے اور اطلاعات کےمطابق سابق خاتون اول اور ٹرمپ کے چھوٹے صاحبزادے گھر پر موجود تھے جنھوں نے ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے مکمل تعاون کیا۔ ملانیہ ٹرمپ صاحبہ نے بھی تلاشی کے دوران کسی تلخ کلامی بحث مباحثہ یا ناخوشگوار واقعہ کا ذکر نہیں کیا۔

چھاپے کے دوسرے روز  ریاست اوہایو کے شہر سنسناٹی Cincinnati میں ایک مسلح  شخص نے ایف بی آئی کے دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی جسے ہلاک کردیا گیا۔ تحقیقات کے بعد  اس شخص کی شناخت رکی شفر Ricky Shiffer کے طور پر کئی گئی۔ مبینہ ملزم کا  تعلق ٹرمپ نواز انتہا پسندوں سے تھا۔ بیالیس سالہ رکی 6 جنوری کو دارالحکومت پر حملے کا نامزد ملزم اور ایف بی آئی کو مطلوب تھا۔

اپنے گھر پر چھاپے  کو صدرٹرمپ نے سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر بائیڈن کے ایما پر پر اٹھاے گئے ان اقدامات کامقصد انھیں 2022 کے وسط مدتی انتخابات کیلئے رپیبلکن پارٹی کی ا نتخابی مہم سے روکنا اور 2024 کے صدارتی انٹخابات میں جناب ٹرمپ کو نااہل کرانا ہے۔ سابق صدر نے 2024 کے انتخابات میں صدر بائیڈن کا مقابلہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ڈانلڈ ٹرمپ نے کہا کہ انکے پیشرو  صدر براک حسین اوباما آفس چھوڑتے ہوئے 3 کروڑ 30 لاکھ صفحات پر مشتمل کلاسفائیڈ دستاویزات اپنے ساتھ لے گئے تھے جن میں بہت سی جوہری ہتھیاروں سے متعلق تھیں۔ تاہم امریکہ کے قومی محفوظات (National Archive) کیجانب سے ترنت جاری ہونے والے بیان میں ٖڈانلڈ ٹرمپ کے دعوے کی تردید کردی گئی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اوباما کی مدت صدارت مکمل ہوتے  ہی  حساس نوعیت کی تمام دستاویزات  قومی محفوظات نے اپنے قبضے میں کرلی تھیں۔

دوسرے دن صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے وضاحت کی یہ کاروائی انکے حکم پر عدالت سے اجازت لے کر کی گئی ہےاور اس بارے میں صدر بائیڈن سے مشورہ تو کجا امریکی صدرکو پیشگی اطلاع بھی نہیں دی گئی۔ اسی کیساتھ امریکہ محکمہ انصاف نے پروانہِ تلاشی جاری کرنے والے  منصف (جج) سے وارنٹ اور تلاشی کے دوران ملنے والی معلومات کو مشتہر کر نے کی درخواست کی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انکا ادارہ انتقام نہیں فروغ انصاف کیلئے قائم کیا گیا ہے اور قانون کی حکمرانی کیئے امریکی محکمہ انصاف پرعزم ہے۔

اپنی جوابی درخواست میں جناب ٹرمپ کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ انکے موکل نے حساس معلومات رکھنے سے متعلق صدارتی استحقاق کی وضاحت کیلئے درخواست دائرکررکھی ہے اور اسکا فیصلہ ہونے تک ایف بی آئی کو ان دستاویزات کے جائزے سے روکا جائے۔ٹرمپ نے حساس معلومات رکھنے سے متعلق صدارتی استحقاق کے تعین کے لیے 'خصوصی ماسٹر' مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت کی جانب سے خصوصی ماسٹر ایسی ضبط شدہ دستاویزات کے جائزے کے لئے نامزد کیا جاتا ہےجنہیں کوئی اہم شخصیت اپنے پاس رکھنے کا استحقاق رکھتی ہو۔ یعنی عام ایف بی آئی اہلکار ان دستاویزات کی چھان پھٹک نہیں کرسکتے۔

جناب ٹرمپ کی درخواست پر جج نے کہا کہ منفی پروپیگنڈے کے حوالے سے درخواست گزار کی تشویش جائز ہے لیکن  عوامی دلچسپی کی بنا پر دستاویز کا مکمل طور پر سربمہررہنا بھی مناسب نہیں۔جج نے محکمۂ انصاف کو ہدایت کی کہ وہ اس حلف نامے میں جن معلومات کو خفیہ رکھنا چاہتا ہے ان کے بارے میں ترمیم کی تجویز پیش کرے۔ دوسرے دن وفاقی عدالت نے ٹرمپ کے اعتراض کے باوجود سربمہر وارنٹ کو کھول دیا۔

پروانہ تلاشی کی درخواست میں  سابق صدر  کی جانب سے جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی، انصاف کی راہ میں حائل ہونے اور اہم دستاویزات کو سنبھالنے میں مجرمانہ غفلت کے شبہے کا اجمالی ذکر تو ہے لیکن ان مبینہ جرم کے تحت کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ قانونی ماہرین  کا کہنا ہے کہ  ایک وفاقی جج  کی جانب سے ارتکاب جرم کے ممکنہ ارتکاب کے  شبہے  پر پروانہِ تلاش کا اجرا صدر ٹرمپ کیلئے نیک شکون نہیں۔

انکے گھر سے برآمد ہونے والی دستاویزات کی تفصیل بھی سنسنی خیز ہے۔ اب اس بات کی تحقیقات کی جارہی ہے کہ  مدت صدارت کے اختتام کے بعد ان دستاویزات کی  ڈانلڈ ٹرمپ کے پاس موجودگی قانون کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟ ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی نجی رہائش گاہ سے جو مواد قبضے میں لیا گیا ہے ان میں  سے کچھ پر قومی سلامتی کے حوالے سے اہم اور خفیہ ترین کے نشان لگے ہوئے ہیں جنہیں صرف نامزد سرکاری تنصیبات میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔

اپنے دفاع میں سابق صدر نے کہا کہ وہ اپنی مدت صدارت کے دوران گھر لے جانیوالی تمام دستاویزات کو اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرت ہوئے انکی خصوصی حیثیت کو ختم کرچکے تھے، جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا امریکی آئین کے رو سے انھیں یہ اختیار حاصل تھا لیکن وہ اسکا کوئی دستاویزی ثبوت اب تک پیش نہیں کرسکے اور برآمد ہونے والی دستاویزات میں اصل لیبل اب تک چسپاں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ جن ایجنٹوں نے انکے گھر کی تلاشی لی ہے وہ جو کچھ بھی چاہتے وہاں رکھ سکتے تھے ۔یہ الزام اس اعتبار سے  مہمل ہے کہ تلاشی، عدالتی حکم پر لی گئی اور ایف بی آئی ایجنٹوں  نے  تلاشی کے دوران فارنزک ثبوت کا اہمتام کررکھا ہے۔سابق امریکی صدر کا کہنا ہے کہ انھوں نے قومی محفوظات  سے یہ دستاویزات اٹھوانے کی درخواست کی تھی اور اس سال کے شروع میں ان کی رہائش گاہ سے کچھ بکس واپس محفوظات میں جمع کرادئے گئے لیکن باقی دستاویزات اٹھوانے کا انتظام نہیں کیا گیا چنانچہ محفوظات کی کوتاہی کا انھیں ذمہ دار ٹہرانا درست نہیں۔

جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی، انصاف کی راہ میں حائل ہونے اور اہم دستاویزات کو سنبھالنے میں مجرمانہ غفلت ایک سنگین جرم ہے اور لگتا ہے کہ محکمہ انصاف جلد ہی اس سلسلے میں تحقیقات کا آغاز کردیگا اور بظاہر سابق صدر کے خلاف الزامات سنگین نظر آرہے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 2  ستمبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 2 ستمبر 2022

روزنامہ امت کراچی 2 ستمبر 2022

ہفت روزہ رہبر  سرینگر  4 ستمبر 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


No comments:

Post a Comment