Thursday, October 27, 2022

جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھُلا سینتالیس سالہ وزیراعظم پینتالیس دن بعد فارغ نئی قیادت۔۔ عزائم اوراندیشے

 

جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھُلا

سینتالیس سالہ وزیراعظم پینتالیس دن بعد فارغ

نئی قیادت۔۔ عزائم اوراندیشے

برطانوی تاریخ کی تیسری اور سب سے کم عمر خاتون وزیراعظم محترمہ لز ٹرس نے استعفیٰ دیدیا۔ سینتالیس سالہ قدامت پسند  لز صاحبہ نے 6 ستمبر کو  وزیراعظم  کا حلف اٹھایا اور 45 دن بعد اپنا استعفےٰ بادشاہ سلامت کو پیش کردیا۔

لز صاحبہ نے برطانیہ میں سب سے کم عرصہ وزیراعظم رہنے کا 'اعزاز' حاصل کیاہے۔ انکے مقابلے میں آنجہانی رابرٹ والپول Robert Walpole  طویل ترین عرصے تک برطانیہ کے وزیراعظم رہے۔ انھوں نے 3 اپریل 1721 کو حلف اٹھایا اور   11 فروری  1742تک حکمرانی فرمائی  یعنی 21 برس سے چند دن کم۔ جناب وال پول کو شاہ جارج اول نے وزیراعظم مقرر کیا اور جون 1727 میں شاہ صاحب کے انتقال پر جب انکے صاحبزادے جارج دوم نے تخت سنبھالا تو انھوں نے بھی  جناب وال پول کو بطور وزراعظم برقرار رکھا۔ یعنی جناب وال پول نے اپنے دورِ اقتدار میں دو بادشاہ بھگتائے۔اس اعتبار سے  لز ٹرس کی وزارت عظمٰی بھی تاریخی ہے کہ انکی توثیق ملکہ ایلزبیتھ نے کی جبکہ لز صاحبہ نے استعفٰی ملکہ کے جانشیں شاہ چارلس سوم کی خدمت میں پیش کیا۔

اس حوالے سے برصغیر کا جائزہ لیا جائے تو ہندوستان  میں جواہر لال نہرو نے طویل عرصِہ حکمرانی کا ریکارڈ قائم کیا اور آزادی سے لیکر 1964 میں اپنے انتقال تک  وہ  16 برس اور 266 دن وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہے۔شری گلزاری لال نندا نے سب سے کم عرصہ وزیراعظم رہنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ مئی 1964 میں وزیراعظم جواہر لال نہرو کے انتقال پر انھوں نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور 13 دن بعد یہ منصب منتخب وزیراعظم لال بہادر شاستری کے حوالے کردیا۔ شاستری جی کی  زندگی نے وفا نہ کی اور وہ پاکستان کے جنرل ایوب خان کیساتھ مذاکرات کے دوران 11 جنوری 1966 کو تاشقند میں انتقال کرگئے، ایک بار پھر گلزاری لال نندا عبوری وزیراعظم مقرر ہوئے اور 13 دن بعد اقتدار اندرا گاندھی کے حوالے کرکے گھر چلے گئے۔ اٹل بہاری واجپائی کے پہلے دورِ وزارتِ عظمیٰ کا دورانیہ صرف 16 تھا جب 1996 کے انتخابات کے بعد لوک سبھا کی سب بڑی جماعت کے پارلیمانی سربراہ کی حیثیت سے انھیں حکومت سازی کی دعوت دی گئی لیکن وہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے ۔

ہندوستان میں جواہر لال نہرو، انکی صاحبزادی اندرا گاندھی اور نواسے راجیو گاندھی کے عرصہِ اقتدار کی مجموعی مدت 36 برس اور 303 دن رہا۔طوالتِ کے اعتبار سے نہرو پہلے، اندرا گاندھی دوسرے اور من موہن سنگھ کا تیسرانمبر ہے جبکہ آٹھ سال 147 دن کیساتھ موجودہ وزیراعظم نریندرا مودی چوتھے درجے پر فائز ہیں۔

پاکستان میں سب سے طویل عرصہ وزیراعظم رہنے کا اعزاز نوابزداہ لیاقت علی خان کے پاس ہے جو 4 سال 63 دن سربراہ حکومت رہے۔ اسکے مقابلے میں جناب نورا الامین نے  12 سے 20 دسمبر تک صرف 13 دن وزارت عظمیٰ سنبھالی۔ پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک وزیراعظم نے اپنے مدت مکمل کی اور وہ ہیں جناب ذوالفقار علی بھٹو  جنھوں نے 14گست 1973 کو نئے آئین کے نفاذ پر وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا اور آئینی مدت کی تکمیل تک وزیراعظم رہے، بدقسمتی سے انتخابات میں دھاندلی کے الزام کی بناپر انکی دوسری مدت کا آغاز متنازعہ تھا اور وہ 5جولائی 1977 کو جنرل ضیا کے ہاتھوں معزول ہوگئے۔

ہم نے اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھا کہ لز ٹرس صاحبہ کا سیاسی ماضی یو ٹرن U-Turnsسے عبارت ہے۔ دور طالب علمی میں وہ  مزدور انجمنوں کی حامی اور شہنشاہیت کی سخت مخالف تھیں لیکن عملی سیاست کیلئے انھوں نے قدامت پسند ٹوری پارٹی کا انتخاب کیا۔ جامعہ میں 'سرخ سویرا' کا نعرہ لگانیوالی لز ٹرس صاحبہ Britannia Unchained نامی کتاب کی مصنفین میں سے ایک ہیں۔ اس کتاب میں  برطانوی  مزدوروں کو 'دنیا کے بدترین کاہلوں میں سے ایک' بیان کیا گیاہے

بریکزٹ یعنی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر  محترمہ نے بریکزٹ کے خلاف  مہم چلائی لیکن جب ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے بریکزٹ قبول کرلیا تو لز ٹرس نے بھی اپنا موقف تبدیل کرلیا ۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی لز ٹرس صاحبہ نے یو ٹرن کا سلسلہ جاری رکھا۔ سابق وزیراعظم بورس جانسن نے بڑی بڑی کارپوریشنوں کی ٹیکس چوری کی شکوہ کرتے ہوئے ”مال داروں” پر عائد ٹیکس کی شرح 19 سے بڑھالر 25فیصد کرنے کا عندیہ دیا تھاجس سے انکے خیال میں سرکار کو 20ارب ڈالر کی اضافی آمدنی ہوتی۔ رکنِ کابینہ کی حیثیت سے لز ٹرس نے بورس جانسن کے اس فیصلے کی شدت سے مخالفت کی۔ وزارت عظمی کیلئے اپنی مہم کے دوران محترمہ لز ٹرس نے اس معاملے پر اپنے موقف کو مزید سخت کرلیا اور  ٹیکس شرح میں اضافے کو “سوشلسٹ چونچلہ” قرار دیتے ہوئے اضافے کے بجائے سرمایہ کاروں  کی حوصلہ افزائی کیلئے شرح مزید کم کرنے کا وعدہ کیا۔

اقتدار سنبھالتے پر جیسے ہی لز ٹرس نے نئی کابینہ تشکیل دی،  اپنی قائد کے بیانئے کو آگے بڑھانے کیلئے انکے  ناظم بیت المال  (وزیرخزانہ) کواسی کوارٹینگ (Kwasi Kwarteng) نے ٹیکس شرح کم کرنے کیلئے ضمنی یا mini budgetزتیار کرلیا۔ اس میزانئے میں  ٹیکس کی جو نئی شرح تجویز کی گئی تھی، اس سے  ٹیکس وصولی کا حجم  50 ارب ڈالر سکڑ سکتا تھا۔ خسارے کی شدت کم کرنے کیلئے تجویر کئے جانیوالے اقدامات میں سب سے تکلیف دہ توانائی زرِ تلافی (subsidy)کا خاتمہ تھا۔ یہ تجویز لِز حکومت کیخلاف دودھاری تلوار تھی۔ پیٹرول اور گیس کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں سے بلبلاتے عوام زرِ تلافی کے خاتمے پر پھٹ پڑے تو آمدنی میں کمی سے خسارہ کے بے قابو ہونے کی خبر بازار حصص اور مالیاتی منڈیوں پر بجلی بن کر گری۔ دباو کا شکار برطانوی پونڈ مزید ارزاں  اور حصص کی منڈی پر ریچھ (مندی) حملہ آور ہوگیا۔

عوام کے غصے کو کم کرنے کیلئے وزیراعظم صاحبہ نے اپنے گھانا نژادناظم بیت المال کو  برطرف کردیا یاں یوں کہیے کہ  اقتدار بچانے کیلیے ناظم بیت المال کو قربانی کا بکرا بنادیا  اور 55 سالہ جریمی ہنٹ کو یہ منصب عطا ہوا۔ اسوقت ہی کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں نے سوال کیا تھا کہ بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائیگی؟

آکسفورڈ سے معاشیات میں بے اے کرنے والے جریمی ہنٹ اپنےخیالات کے اعتبار سے انتہائی قدامت پسند ہیں۔ انکے والد سر نکولس ہنٹ شاہی بحریہ کے امیر البحر تھے۔ انکے آباواجداد میں Sir Streynsham Masterشامل ہیں جو برصغیر کو زنجیرِ غلامی پہلانے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کے بانیوں میں سے تھے۔ جناب ہنٹ نے عہدہ سنبھالتے ہی مجوزہ میزانئے سے ٹیکس میں کمی کا پورا  باب حذف کردیا۔ اس نئے یوٹرن نے ٹوری پارٹی کے قدامت پسندوں کو مشتعل کردیا اور حکمراں  پارٹی میں لز ٹرس کیخلاف عدم اعتماد کے نعرے گونجنے لگے۔ بدھ 19 نومبر کو لز ٹرس صاحبہ نے بڑے دبنگ لہجے میں کہا وہ کمزور اعصاب کی صنفِ نازک نہیں بلکہ وہ ایک جنگجو ہیں لہٰذا استعفیٰ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

وزیراعظم کے اعتماد کی وجہ ٹوری پارٹی کی وہ روائت تھی  کہ اقتدار کی پہلی سالگرہ سے پہلے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک نہیں لائی جاسکتی۔ تاہم 'وعدہ خلافی' پر ٹوری پارٹی میں اسقدر غم و غصہ تھا کہ ارکان نے 1922 کمیٹی سے رابطہ قائم کرلیا۔ اس کمیٹی کو آپ پشتونوں کا مشران جرگہ یا ہئیۃ البیعۃ (سعودی عرب) کہہ سکتے ہیں۔ یہ کمیٹی 1923 میں قائم ہوئی جسکے ارکان چونکہ 1922میں منتخب ہوئے تھے اسلئے کمیٹی 1922کے نام سے مشہور ہوئی۔ کمیٹی پارٹی کے 18سینیر ارکانِ دارالعوام پر مشتمل ہے جو کسی کابینہ یا حکومت کے بربنائے عہدہ حصہ نہیں اور ایوان کی آخری نشستوں پر بیٹھے اپنی پارٹی کی کارکردگی جانچتے رہتے ہیں۔ اسی لئے یہ لوگ backbenchersکہلاتے ہیں۔ کمیٹی کا اجلاس ہر ہفتے ہوتا ہے جس میں ٹوری پارٹی کی حکمت عملی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔مزے کی بات کہ 1922کمیٹی کی کوئی آئینی حیثیت نہیں جسکی بنا پر اسے Conservative Private Members’ Committee بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ ادارہ صحیح معنوں میں بادشاہ گر ہے کہ پارٹی کے تمام قواعد و ضوابط کمیٹی 1922 ہی مرتب کرتی ہے۔ اسی دوران ایک جائزہ شایع ہوا جسکے مطابق ٹوری پارٹی کے 85فیصد ارکانِ پارلیمان  نے لز ٹرس صاحبہ کے ٹیکس کے بارے میں U turn کو وعدہ خلافی اور سیاسی بددیانتی قرار دیا۔

لز ٹرس صاحبہ کیلئے یہ پریشانی ہی کیا کم تھی کہ وزیرداخلہ سویلا بریورمین Suella Bravermanکے بارے میں خبر آئی کہ محترمہ نے ایک سرکاری دستاویز کیلئے  ذاتی برقی خط (ای میل) کا نجی اکاونٹ استعمال کیا جو حکومتی ضابطے کے تحت ممنوع ہے۔ یہ سن کر وزیراعظم صاحبہ برہم ہوگئیں جس پر سویلا صاحبہ نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفےٰ دیدیا۔ استعفےٰ کے خط میں وزیرداخلہ نے یہ بھی لکھدیا کہ وہ لزسرکار کے رخ سے مطمئن  نہیں۔ اسی دوران کسی منچلے نے سماجی رابطے پر لز ٹرس کی ایک نجی گفتگو کا انکشاف کیا جس میں محترمہ اختیار میں کمی کی شکائت کررہی تھیں۔اس حوالے سے ایک اخبار نے سرخی جمائی کہ “PM in Power is without power”

پئے در پئے دواستعفوں سے لز حکومت کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہویے حزب اختلاف نے ماحولیاتی آلوگی کے بارے میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس تحریک کے تکنیکی پہلو پر چند سطور:

یورپ کیلئے روسی گیس کی بندش کے بعد سے علاقے کے دوسرے ملکوں کی طرح برطانیہ کو بھی تیل اور گیس کے بحران کا سامنا ہے۔ توانائی کی قلت سے نمٹنے کیلئے لز ٹرس  تیل کی تلاش و ترقی کا کام تیز کرنا چاہتی تھیں ۔ دوسری طرف حزبِ اختلاف کا خیال ہے کہ کنووں کی کھدائی کے اجازت نامے جاری کرتے ہوئے ماحول کی آلودگی کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ تیل اور گیس کے روائتی میدان ریت (sand) اور چونے کے پتھر (limestone)کی چٹانوں میں پائے جاتے ہیں۔ ادھر کچھ عرصے سے سلیٹی چٹانوں یا Shaleمیں بھی قسمت آزمائی کی جارہی ہے۔ سلیٹی چٹانوں میں قباحت یہ ہے کہ انکے مسام آپس میں ملے ہوئے نہیں اسلئے ان میں موجود تیل اور گیس کو گہرائی سے سطحِ زمین کی طرف سفر پر آمادہ کرنا بہت مشکل ہے اور اسکے لئے شدید دباو یا Frackingکے ذریعے چٹانوں کو توڑنا اور جنجھوڑٖنا پڑتا ہے۔ اس مقصد کیلئے جو ترکیبیں اور کیماوی مواد استعمال ہوتا ہے وہ ماہرین کے خیال میں مضرِ صحت ہیں اور   frackingکے عمل میں  آبنوشی کے زیرزمین ذخائر آلودہ ہورہے ہیں۔

حزب اختلاف نے فریکنگ پرپابندی کی قرارداد ایوان میں پیش کردی۔ لز ٹرس صاحبہ کو معلوم تھا کہ توانائی کی شدید قلت کے تناظر میں اس تحریک کا منظور ہونا ناممکن ہے چنانچہ انھوں نے اپنی دانست مں ترُ پ کا پتہ پھینک دیا اور فرمایا کہ 'یہ قرارداد دراصل انکے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہے'۔ حسب توقع فریکنگ پر پابندی کی تجویز 230 کے مقابلے میں 326 ووٹوں سے مسترد ہوگئی۔  پارلیمان میں برسراقتدار ٹوری پارٹی کو واضح برتری حاصل ہے چنانچہ پارٹی کے ارکان معمول کی کاروائی کو عدم اعتماد جیسی اہمیت دینے پر ناخوش ہوگئے اور پارٹی کی چیف وہپ Chief Whip محترمہ وینڈی مورٹن نے بھی استعفیٰ دیدیا۔اب پانی سر سے اونچا ہوچکا تھا اور  نوشتہ دیوار پڑھ کر وزیراعظم لز ٹرس نے بادشاہ سلامت کو اپنا استعفیٰ پیش کردیا۔ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے اعتراف کیا کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہیں  اور عوام کی توقعات پر پوری نہیں اُتریں۔

لز ٹرس کے مقابلے میں انکے جانشیں کا انتخاب بہت اسان  رہا۔ اس منصب کیلئے سابق ناظمِ بیت المال Chancellor Of the Exchequerالمعروف وزیرخزانہ رشی سوناک (Rishi Sunak) اور دارلعوام کی قائد ایوان محترمہ پینی مرڈانٹ (Penny Mordaunt)نے قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ اسی کیساتھ چندماہ پہلے اپنی ہی پارٹی میں عدم اعتماد کا شکار ہونے والے بورس جانسن نے بھی دوبارہ وزیراعظم بننے کی خواہش ظاہر کردی۔ بورس جانس عوام میں خاصے مقبول ہیں لیکن دروغ گوئی اور ضابطے کی خلاف ورزی کے الزام میں موصوف تحقیقات کے پلِ صراط سے گزر رہے ہیں چنانچہ احباب نے سمجھایاکہ 'دستار کی کیا فکر ہے پاپوش سنبھالو'۔ یعنی آپ وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھ رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ الزامات ثابت ہونے کی صورت میں عالم پناہ پالیمان کی رکنیت سے بھی نااہل ہوجائینگے۔ آدمی جہاندیدہ ہیں لہٰذا جناب جانسن نے اس دوڑ سے باہر جانے کا اعلان کردیا۔دوسری طرف پینی صاحبہ کے مقطع امیدواری میں یہ سخن گسترانہ بات آن پڑی کہ موصوفہ نامزدگی کی حمائت میں کم ازکم سو ارکان کی شرط پوری نہ کرسکیں اور رشی سوناک ٹوری پارٹی کے قائد و وزیراعظم منتخب ہوگئے۔

بیالیس برس کے رشی ہند نژاد اور راسخ العقیدہ ہندو ہیں۔ انکے والد کینیا سے انگلستان تشریف لائے جبکہ والدہ محترمہ تنزانیہ سے آئی تھیں۔ انکے دادا رام داس سوناک کا تعلق گجرانوالہ سے تھا۔ جناب سوناک برطانوی تاریخ کے پہلے رنگدار وزیراعظم ہیں۔

جناب رشی سوناک نے آکسفورڈ سے سیاسیات اور معاشیات میں بی اے کرنے کے بعد فل برائٹ Fulbrightوظیفے پر امریکہ کی موقر جامعہ اسٹینفرڈ Stanfordسے ایم بی اے کیا۔ دورانِ طالب علمی رشی نے ریستوران میں برتن دھوکر اخراجات پورے کئے۔ رشی صاحب ٹھنڈے مزاج کے متحمل و بردبار آدمی ہیں۔ انکی یہ شاندار شخصیت و صفاتِ عالیہ بہت خوب لیکن سوناک صاحب کی اصل آزمائش دباو کا شکار برطانوی معیشت ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا خیال ہے کہ کساد بازاری کا یہی حال رہا تو حجم کے اعتبار سے برطانوی معیشت ہندوستان سے پیچھے ہو جائیگی۔

بریکزٹ کی وجہ سے برطانوی برآمدکنندگان کو سخت مشکلات کا سامنا ہے اور معاملہ صرف یورپی یونین تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے اکثر ممالک سے تجارتی معاہدوں پر نظر ثانی کا اعصاب شکن مرحلہ درپیش ہے۔ اسلئے کہ تجارت یورپی یونین معاہدے کے تحت ہورہی تھی اور یہ معاہدات اب عملاً غیر موثر ہوگئے ہیں۔کرونا سے پہنچنے والے نقصان کا ماتم ابھی جاری تھا کہ روس یوکرین جنگ نے ایک نیا بحران پیداکردیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق توانائی چھ گنا مہنگی ہوچکی ہے۔ تجارتی معاہدوں کی پریشانی اپنی جگہ، توانائی مہنگی ہونے کی وجہ سے مصنوعات کی پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے نتیجے کے طور پر برآمدات میں کمی واقع ہورہی ہے۔ رشی سوناک نے مہنگائی کو اپنا اولین ہدف قراردیا ہے لیکن اپنی پیشرو کی طرح موصوف بھی رعایتوں (subsidies)پر یقین نہیں رکھتے نہ وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرکے حکومتی اخراجات کو بڑھانے کے حق میں ہیں۔ معلوم نہیں انکے پاس وہ کون سی گیڈر سنگھی ہے جسکے ذریعے وہ رعائت اور تنخواہوں میں اضافے کے بغیر مہنگائی کے مارے عوام کو راحت عطا فرمائینگے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل، کراچی 28 اکتوبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 28 اکتوبر 2022

روزنامہ امت کراچی 28 اکتوبر 2022

ہفت روزہ رہبر 30 اکتوبر 2022

روزنامہ قوی صحافت لکھنو


Thursday, October 20, 2022

ایران میں ہنگامے ۔۔۔۔

 

ایران میں ہنگامے ۔۔۔۔

ایران میں نوجوان کرُد خاتون مہسا المعروف ژینا امینی کی موت کے بعد سے ہونے والے احتجاج و ہنگاموں کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ تمام شہروں میں زن، زندگی اور آزادی (کرد تلفظ ژن، ژیان، ئازادی) کا نعرہ لگاتی ہوئی خواتین سڑکوں پر ہیں۔ پولیس سے تصادم میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ایرانی کردستان کے دوسرے بڑے شہر سقز کی رہائشی 22 سالہ ژینا اپنے بھائی سے ملنے تہران آئی تھی۔ اسے 13 ستمبر کو تہران کی مرکزی شاہراہ سے ’گشتِ ارشاد‘ (اخلاقی پولیس) نے اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ اپنی والدہ اور بھائی کے ساتھ نجی گاڑی میں تھی۔ گرفتاری کے وقت اِس کے بھائی سے کہا گیا کہ مہسا کو ’نصیحت‘ کے لیے حراستی مرکز لے جایا جا رہا ہے اور ایک گھنٹے میں اسے گھر واپس پہنچا دیا جائے گا۔ کچھ دیر بعد اہلِ خانہ کو اطلاع دی گئی کہ مہسا کو دورانِ حراست دل کا دورہ پڑا ہے اور اسے پولیس کی نگرانی میں تہران کے نجی ہسپتال ’بیمارستانِ کسریٰ‘ پہنچایا جا رہا ہے۔ ژینا کو انتہائی نگہداشت کے شعبے میں رکھا گیا جہاں وہ 16 ستمبر کو دم توڑ گئی۔

ژیناکے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ گرفتاری کے بعد حوالات لے جاتے ہوئے پولیس کی گاڑی میں اس پر تشدد کیا گیا۔ ثبوت کے طور پر ان لوگوں نے پہلے سے موجود زیر حراست افراد کے تاثرات پیش کیے ہیں جس کے مطابق تھانے پہنچتے وقت مہسا کی حالت غیر تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی بینائی ختم ہو چکی ہے اور گاڑی سے اترتے ہی وہ بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑی۔ کسریٰ ہسپتال کی انتظامیہ کا کہنا کہ وہاں آنے سے پہلے ہی مہسا کا دماغ مردہ ہو چکا تھا۔ کسریٰ نے اس کے لیے brain dead کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ مہسا کے بھائی کا کہنا ہے کہ اس کی بہن کے سر اور پیروں پر تشدد کے نشان تھے۔ حوالات میں قید دوسری خواتین کا کہنا ہے کہ تھانے لاتے ہوئے پولیس افسران نے مہسا کو گالیاں دیں جس کا اس لڑکی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا اور مشتعل ہو کر پولیس افسران نے مہسا کو مارا پیٹا اور ضرب و شلاق کے دوران سر پر لگنے والی چوٹ جان لیوا ثابت ہوئی۔ مہسا کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ ایک پولیس والے نے اس لڑکی کے سر پر ڈنڈا بھی مارا۔ دوسری طرف ایرانی حکام کا دعویٰ ہے کہ مہسا کو دل و دماغ کا عارضہ تھا۔ ایک ماہرِ اعصاب ڈاکٹر نوشیروانی کا کہنا ہے کہ آٹھ برس کی عمر میں مہسا کے دماغ سے آپریشن کے ذریعے ایک رسولی (tumor) نکالی گئی تھی اور ڈاکٹروں نے مزید رسولیوں کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ مہسا کے والد نے حکومتی دعوے کو جھوٹ قرار دیا اور کہا ہے کہ ان کی بیٹی صحت مند تھی جسے کسی قسم کا کوئی عارضہ لاحق نہیں تھا۔

کہا جا رہا ہے کہ مہسا کے اسکارف میں سے کچھ بال نظر آرہے تھے جو گشتِ ارشاد پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کا سبب بنی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ’گشتِ ارشاد‘ ایرانی پولیس کے خصوصی دستے ہیں جنہیں اسلامی اخلاقیات کے احترام کو یقینی بنانے اور ’غیر مناسب‘ لباس پہنے ہوئے افراد کی ’اصلاح‘ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ مقامی قانون کے تحت گھر سے باہر نکلتے وقت خواتین کے لیے اپنے سر کو پوری طرح ڈھانپنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ایسا لباس پہننے کی بھی اجازت نہیں جس میں جسم کے خدو خال نمایاں ہوں۔ چست لباس کی پابندی مردوں کے لیے بھی ہے اور گھر سے باہر ایسی ہاف پینٹ پہننی ممنوع ہے جس میں گٹھنے عریاں ہوں۔

ان ہنگاموں کے دوران ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک آئے ہوئے تھے۔ امریکی صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مہسا کی موت کی تحقیقات انصاف کا تقاضا ہے اور ایرانی حکومت عدل وانصاف کے معاملے میں اپنی فرض سے اچھی طرح آگاہ ہے۔ احتجاج بھی عوام کا حق ہے اور اس حق کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے تاہم احتجاج کے نام پر ہنگامہ آرائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ایرانی صدر نے برطانیہ اور امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں شہری ہلاکتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران میں ایک ’زیر تحقیق‘ واقعے پر قیامت کھڑی کر دینا دہرے معیار کی بدترین مثال ہے۔ دیکھ غافل اپنی آنکھوں کا ذرا شہتیر بھی۔
اس صورتحال کی وضاحت کے لیے امریکی نیوز چینل سی این این کی ایرانی نژاد میزبان کرسچین امان پور نے ایرانی صدر سے انٹرویو کی درخواست کی۔ صدر رئیسی اس شرط پر راضی ہوئے کہ ان کی گفتگو براہ راست (live) نشر کی جائے گی۔ ملاقات سے پہلے ایرانی صدر نے کہا کہ انٹرویو کے دوران امان پور صاحبہ کو اسکارف اوڑھنا ہو گا۔ خاتون صحافی نے اس شرط کو غیر منطقی قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ملاقات نیویارک میں ہو رہی ہے جہاں قانونی طور پر ایسی پابندیاں نہیں۔ جواب میں ایرانی صدر نے کہا کہ وہ میزبان ملک کے قوانین کا احترام کرتے ہوئے اپنی ثقافت اور تہذیب کے اظہار کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ چنانچہ امان پور صاحبہ نے یہ انٹرویو منسوخ کر دیا۔ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کرسچین امان پور نے صدر ریئسی کے معاون کا پیغام نقل کیا جس کے مطابق ایرانی حکام نے کہا کہ ’اگر امان پور صاحبہ اسکارف نہیں اوڑھتیں تو انٹرویو نہیں ہو گا کیونکہ یہ ہماری قومی عزت کا معاملہ ہے

جہاں اس واقعے کے خلاف احتجاج جاری ہے وہیں حجاب کے حق میں بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے تہران میں ہزاروں برقعہ پوش خواتین اسلامی ایران کے بانی آیت اللہ خمینی کی تصاویر لے کر سڑکوں پر نکل آئیں جن میں طالبات کی اکثریت تھی۔ یہ خواتین ’حجاب ہماری آبرو‘ کے نعرے لگا رہی تھیں۔ تہران کے علاوہ مشرقی آذربائیجان، جنوبی خراسان، بلوچستان ہرمزگان، کاشان، قم، یزد، بوشہر، کرمان، وسطی، فارس، مغربی آذربائیجان اور ایلام میں بھی برقعہ پوش خواتین نے مظاہرے کیے۔

حجاب ایران میں ہمیشہ سے جذبات کے اظہار کا ذریعہ رہا ہے۔ جب 1978ء میں شاہ ایران کے خلاف عوامی تحریک میں شدت آئی تو ایرانی خواتین نے اسکارف اور چادر کو شاہ ایران کے خلاف نفرت کا استعارہ بنالیا۔ مظاہرین کی ترجمان فاطمہ تہرانی نے امریکہ کے مشہور صحافی آنجہانی والٹر کرانکائٹ (Walter Cronkite) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی خواتین شاہ ایران کو ’چڑانے‘ کے لیے اسکارف اوڑھ رہی ہیں۔ شاہ صاحب حجاب کے سخت خلاف تھے اور اسے خواتین کی غلامی کی علامت کہا کرتے تھے۔
حالیہ مظاہروں میں حکومت مخالف خواتین سرکار کے خلاف نفرت کے اظہار میں اسکارف جلا رہی ہیں۔ ایران میں خواتین کے آرائش گیسو کے مراکز پر بال کی تراش خراش کی تو اجازت ہے لیکن اسے اتنا چھوٹا کرنا کہ مردوں سے مشابہت پیدا ہو منع ہے۔ حکومت مخالف خواتین نے اب بطور احتجاج بال کٹوانے شروع کر دیے ہیں۔

حالیہ ہنگاموں میں فرقہ وارانہ پہلو بڑا نمایاں ہے۔ مہسا چونکہ کرد تھی اس لیے کردستان میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کردستان میں سُنّیوں کی اکثریت ہے۔ اسی طرح سُنّی بلوچستان بھی حکومت مخالف مظاہروں کی لپیٹ میں ہے۔

حالیہ تحریک کی خاص بات یہ ہے کہ نوجوانوں خاص طور سے لڑکیوں میں زبردست جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ جامعات کے ساتھ اب اسکولوں کی بچیاں بھی سڑکوں پر ہیں اور ان کا خاص ہدف حجاب ہے۔ طالبات چھوٹے بالوں (boy cut) کے ساتھ بلا اسکارف اپنی تصویریں سوشل میڈیا پر نشر کر رہی ہیں۔ ان طالبات کا کہنا ہے کہ وہ شریعت کے مطابق زندگی گزارنا چاہتی ہیں لیکن اس معاملے میں ریاستی جبر ناقابل قبول ہے۔ دوسری جانب مغربی ممالک کا رد عمل بہت سخت ہے۔ کینیڈا، امریکہ اور یوپی یونین نے ایرانی خواتین پر ’تشدد‘ کی مذمت کرتے ہوئے ایرانی حکام پر سفری پابندیاں عائد کردی ہیں۔

اسی دوران 15 اکتوبر کو تہران کے مضافاتی علاقے اوین میں واقع زندانِ اویں کی آگ نے مزید سنسنی پیدا کر دی ہے۔ یہ قید خانہ شہنشاہ ایران نے سیاسی قیدیوں خاص طور سے حکومت مخالف طلبہ کو زیر حراست رکھنے کے لیے 1972ء میں قائم کیا تھا۔ جب شاہ کے خلاف آیت اللہ خمینی نے تحریک شروع کی تو اس کی پشت پر جامعات کے طلبہ تھے، جن کی بڑی اکثریت کو اوین جیل میں ٹھونس دیا گیا۔ بڑی تعداد میں پروفیسر بھی گرفتار ہوئے۔ ان اساتذہ نے جیل میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اس کا نام جامعہ زندانِ اوین پڑ گیا۔ انقلاب کے بعد نئی حکومت نے اپنے مخالفین کی مزاج پرسی اور گوشمالی کے لیے اس جیل کا استعمال شروع کیا اور کہا جاتا ہے کہ سیکڑوں خواتین سمیت موجودہ حکومت کے پندرہ سو مخالفین اس وقت زندانِ اوین میں بند ہیں۔ حالیہ ہنگاموں کے دوران گرفتار ہونے والے مظاہرین بھی یہاں رکھے گئے ہیں۔ تہران کے گورنر محسن منصوری نے سرکاری خبر رساں ایجنسی IRNA کو بتایا کہ کچھ قیدیوں نے سلائی کڑھائی کے تربیتی مرکز کے ایک حصے کو آگ لگا دی جس پر فوراً قابو پالیا گیا۔ سرکاری اعلامیے کے مطابق اس واقعے میں 6 افرد زخمی ہوئے اور کسی شخص کے ہلاک ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ حسب توقع امریکہ اور مغربی ممالک کو اس واقعے پر سخت تشویش ہے۔
حجاب و پردے کی شرعی حیثیت کے بارے میں علمائے کرام بہتر رائے دے سکتے ہیں، لہٰذا ہم اپنی گفتگو اس مسئلے کے سیاسی پہلو تک محدود رکھ رہے ہیں۔ یورپی یونین اور امریکہ کا کہنا ہے کہ لباس کا انتخاب ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور ریاست کو اس سلسلے میں دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ اسکارف کے معاملے میں مہیسا کی گرفتاری ہی غلط تھی اور لباس کے لیے تشدد ’تہذیب‘ کے خلاف ہے۔ بظاہر مغرب کا یہ موقف منطقی نظر آتا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ایران و افغان خواتین کے ’آزادی لباس‘ کے لیے فکر مند مغرب کو فرانس کی مسلم خواتین کے بنیادی حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں جہاں قانون کے تحت عام مقامات پر اسکارف اوڑھنا منع ہے۔ حتیٰ کہ دکان کی مالکن بھی اپنی دکان پر سر نہیں ڈھانک سکتی۔ غسل آبی وآفتابی کے لیے ساحل سمندر یا تیراکی کے حوض پر جانے والی خواتین کو ساتر لباس کی اجازت نہیں اور ان کے لیے بِکنی پہننا ضروری ہے۔ فرانس کے وزیر ثقافت کہہ چکے ہیں کہ جن خواتین کو ستر کا خیال ہے وہ ساحلوں سے دور رہیں۔

ایران اور افغانستان میں سر ڈھانکنے پر اصرار غلط اور فرانس میں بچیوں کے سر سے حجاب نوچ لینے کی اجازت کو دہرے معیار کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ فرانس کے بعد اب سوئٹرزلینڈ میں بھی حجاب کو غیر قانونی قرار دینے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ سوئس پارلیمنٹ ایک مسودہ قانون پر بحث کر رہی ہے جس کے تحت ڈاک خانوں سمیت تمام سرکاری دفاتر، پارک، ساحل اور دوسرے پبلک مقامات پر برقعہ اوڑھنا جرم قرار دیا جا رہا ہے جس کے مرتکبین کو ایک ہزار ڈالر جرمانہ کیا جائے گا۔ اگر لباس کا انتخاب ہر انسان کا بنیادی حق ہے تو جو بات ایران میں غلط ہے اسے یورپ میں درست کیسے کہا جا سکتا ہے؟

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 21 اکتوبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 21 اکتوبر 2022

روزنامہ امت کراچی 21 اکتوبر 2022

ہفت روزہ رہبر 23 اکتوبر 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, October 13, 2022

تیل کی سیاست اور امریکہ کے وسط مدتی انتخابات

 

تیل کی سیاست اور امریکہ کے وسط مدتی انتخابات

تیل پیدا کرنے والے ممالک کی انجمن اوپیک (OPEC)اور روس نے تیل کی پیدوار میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کٹوتی کا اعلان کیا ہے۔ اس تنظیم کے بانی عرب دنیاکے ممتاز ماہرِ ارضیات اور سعودی عرب کے سابق وزیرِ تیل عبداللہ الطریقی تھے۔ طریقی صاحب  نے سعودی ارضیات کے مخلتلف پہلووں پر گراں قدر مقالے تحریر کئے ہیں۔ فروری 1960 میں جناب الطریقی کی دعوت پر عراق، کوئت، ایران اور وینیزویلا کے وزرائے تیل بغداد میں جمع ہوئے۔ ان ممالک کو شکائت تھی کہ قومی دولت پر حکومتوں کی گرفت نہ ہونے کے برابر ہے اور سارا کاروبار سات بڑی تیل کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے جنھیں'سات ہمشیرہ' (seven sisters) کہا جاتا تھا۔ الطریقی صاحب انھیں سات چڑیلیں کہتے تھے۔ ان سات بڑے اداروں میں ایکسون، شیورون اور کونوکو کا تعلق امریکہ سے تھا، برٹش پیٹرولیم، تاجِ برطانیہ کی ملکیت تھی۔ شیل ولندیزی، ای این آئی اطالوی اور ٹوٹل فرانسیسی کمپنی تھی۔ اجلاس کے دوران تیل کمپنیوں کے اثرورسوخ پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تجارتی امور بتدریج قومی تحویل میں لینے کے اقدامات وضع کئے گئے، جن میں قیمتوں کا تعین اور فروخت کے معاہدے حکومت سطح پر کرنے کے معاملات شامل تھے۔ گویا اوپیک کے قیام کا بنیادی مقصد اس اہم قومی سرمائے کو سات چڑیلوں کی گرفت سے آزاد کرانا تھا۔

دو سال بعد لیبیا نے  بھی رکنیت اختیار کرلی۔ تنظیم میں پہلا تنازعہ صدر دفتر کے معاملے پر سامنے آیا۔ عرب ممالک کی خواہش تھی کی ادارے کا مرکز بغداد یا بیروت ہو لیکن وینیزویلا کا خیال تھا کہ اوپیک کا سیکریٹیریٹ کسی غیر جانبدار جگہ پر ہونا چاہئے۔ ابتدا میں جنیوا پر اتفاق ہوا لیکن سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے اوپیک کو سفارتی مراعات دینے سے انکار کردیا، چنانچہ صدر دفتر آسٹریا کے شہر ویانا میں قائم کردیاگیا۔اِسوقت اوپیک کے ارکان کی تعداد 13 ہے۔  تیل کی برآمد ختم ہوجانے کی بنا پر 2016 میں انڈونیشیا اور 2020 میں ایکوڈر کی رکنیت معطل کردی گئی۔ قطر  2019 میں اوپیک سے علیحدہ ہوگیا۔ دوحہ کا موقف ہے کہ اوپیک خام تیل برآمد کرنے والے ممالک کی انجمن ہے اور گیس پیدا کرنے والے ملک کی حیثیت سے قطر کو اوپیک میں رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

اوپیک کو عالمی افق پر 1973 کی عرب اسرائیل کے دوران زبردست شہرت ملی جب عربوں نے مغربی ممالک کو تیل کی برآمدات پر پابندی لگادی۔ اسکے نتیجے میں امریکہ اور یورپ میں توانائی کا شدید بحران پیدا ہو ا اور تیل کی قیمت 3 ڈالر سے 12 ڈالر فی بیرل ہوگئی۔ایرانی انقلاب، ایران عراق جنگ اور عراق پر امریکی حملے سے بھی تیل کی پیداوار متاثر ہوئی تاہم بطورِ تنظیم اوپیک اپنی حیثیت منوانے میں ناکام رہی۔

اوپیک کی ناکامی کی بڑی وجہ غیراوپیک ممالک کی پیداوار میں اضافہ تھا۔ اسوقت دنیا میں فروخت ہونے والا 44فیصد تیل اوپیک کے ممالک فراہم کرتے ہیں یعنی نصف سے زیادہ پیدوار غیر اوپیک ممالک سے حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  قیمتوں میں استحکام لانے کیلئے جب بھی اوپیک نے رسد پر قینچی چلائی، غیر اوپیک خاص طور سے روس امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو نے اپنے کنووں کے منہہ کھول کر یہ کمی پوری کردی۔ بدقسمتی سے اوپیک ممالک کی آمدنی کا واحد ذریعہ تیل ہے اور روزمرہ کاروبار کو چلانے کیلئے دوسرے وسائل قابلِ بھروسہ نہیں۔ چانچہ وہ اونے پو نے دام بھی تیل بیچنے کو تیار ہیں اور کوٹے پر مخلصانہ عملدرآمد ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔

نامراد کرونا وائرس المعروف کووڈ 19 نے ساری میں حیات کے ساتھ اسباب حیات کو غارت کیا تو تیل کی صنعت بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ اس دوران روس نے چین اور ہندوستان کو رعایتی قیمت پر تیل بیچنا شروع کردیا جس پر مشتعل ہوکر سعودی عرب نے پیداوار بڑھادی اور تیل کی قیمتیں زمین پر آگئیں۔ کیا اوپیک اور کیا غیر اوپیک ہر جگہ صفِ ماتم بچھ گئی اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ 20 اپریل 2020 کو امریکہ میں تیل کی قیمت منفی 37 ڈالر فی بیرل ہوگئی۔ اسکا یہ مطلب نہیں کہ  پمپوں پر قیمت لینے کے بجائے پیٹرول خریدنے والوں کو رقم واپس کی جارہی تھی بلکہ ہوا یوں کہ فروخت صفر ہوجانے کی وجہ سے مزید تیل رکھنے کی گنجائش ختم ہوگئی اور آڑھتیوں نے تقسیم کنندگان سے قیمت وصول کرنے کے بجائے انھیں تیل اٹھانے کے لئے پیسے دینے شروع کردئے۔ بالکل ایسے ہی جیسے آپ اپنے گھر سے کوڑا کرکٹ اور کچرا اٹھانے کیلئے معاوضہ اداکرتے ہیں۔اس دوران امریکہ اور کینیڈا میں درجنوں تیل کمپنیاں اور تیل صاف کرنے کےکارخانے دیوالیہ ہوگئے۔

اس 'قیامت' سے پہلے ہی صدر ٹرمپ' تیل سفارتکاری' کا آغاز کرچکے تھے اور انکی کوششوں سے صدر پیوٹن اور سعودی ولی عہد کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا۔یہ امریکہ میں انتخابات کا سال تھا اور صنعت کی تباہی صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم پر منفی اثر ڈال رہی تھی۔ امریکی صدر نے سعودی عرب سے پیداوار میں کٹوتی کی درخواست کی جس پر اسوقت کے سعودی وزیر تونائی جناب خالد الفالح  نے صاف صاف کہا کہ جب تک غیر اوپیک ممالک کمی پر راضی نہ ہوں اوپیک کی جانب سے کمی غیر موثر رہے گی۔ صدر ٹرمپ نے غیر اوپیک ممالک کو راضی کرلیا اور مئی 2020 سے تیل کی عالمی پیداوار 97 لاکھ یومیہ کم کردی گئی۔ اوپیک 52 لاکھ اور غیر اوپیک ممالک نے 45 لاکھ بیرل یومیہ کی کٹوتی کی۔

بلاشبہ یہ صدر ٹرمپ کی بہت بڑی کامیابی تھی،  تاہم صدر ٹرمپ انتخاب میں جو بائیڈن سے شکست کھاگئے۔ پیداوار میں کمی کے بعد تیل کی قیمتیں کسی حد تک مستحکم ہوگئیں۔ اس مشق کا اوپیک کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ روس اوپیک کا اتحادی بن گیا اور اوپیک اب اوپیک پلس کہلانے لگی۔ امریکہ، روس اور سعودی عرب تیل کے تین بڑے فراہم کنندہ ہیں اور دنیا میں استعمال ہونے والا ایک تہائی تیل ان تین ممالک کے کنووں سے نکالا جاتا ہے۔ ان تینوں کی اوسط پیداوار ایک کروڑ بیرل یومیہ ہے۔ سعودی اور روس کے ایک پلیٹ فارم پر آجانے سے اوپیک پلس ایک طاقتور ادارہ بن گیا۔

کرونا کے حفاظتی ٹیکوں کی تیاری کے فوراً بعد ساری دنیا میں جدرین کاری  (Vaccination)کی منظم مہم شروع ہوئی اورمرض پر قابو کیساتھ ہی صنعتی سرگرمیوں کا دوبارہ آغاز ہوا۔اب تیل کی کھپت بھی بڑھنے لگی۔ اوپیک پلس نے تیل کی قیمت کو 'نامناسب' حد تک بڑھنے کی حوصلہ شکنی کیلئے پیدوار کو ہر ماہ چار لاکھ بیرل یومیہ کے حساب سے بڑھانا شروع کردیا۔

اس سال کے آغاز پر مشرقی یورپ میں جنگ کے بادل امڈ آئے۔روس کو یوکرین کی نیٹو رکنیت کسی قیمت قابل قبول نہ تھی اور دھمکیوں کیساتھ بیانات کی گولہ باری شروع ہوئی۔ صدر بائیڈن نےمتنبہ کیا کہ حملے کی صورت میں روسی تیل کی برآمدات کو نشانہ بنایا جائیگا۔ پیش بندی کے طور پر انھوں نے اپنے خلیجی اتحادیوں سے تیل اور گیس کی پیداوار میں اضافے کی فرمائش کی لیکن سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں کا کہنا تھا کہ دس لاکھ بیرل یومیہ اضافہ انکے لئے ممکن  نہیں۔ کچھ ایسا ہی جواب دنیا میں گیس کے سب سے بڑے فراہم کنندہ قطر کا تھا۔

یورپی توانائی کی 40 فیصد ضرورت روسی گیس سے پوری ہوتی ہے جسکا اوسط سالانہ حجم 183 ارب  مکعب میٹر سالانہ ہے۔ اس مقدار کی اگر مائع شکل میں پیمائش کی جائے تو  یہ 47 لاکھ بیرل یومیہ بنتی ہے۔ کشیدگی کے آغاز پر ہی یورپی ممالک نے روسی گیس کا متبادل تلاش کرنا شروع کردیا تھا۔ہوا اور شمسی توانائی سمیت قابل تجدید ذرایع کیساتھ کفائت شعاری پر سختی سے عملدرآمد شروع ہوا۔ ناروے سے پولینڈ آنے والی بلقان پائپ لائن پر کام تیز کردیا کیا اور گزشتہ دنوں یہ پائپ لائن چالو ہوگئی جس سے پولینڈ کا گیس کے معاملے میں روس پر انحصار اب ختم ہوچکا ہے۔

جنگ کے آغاز پر یورپی یونین نے اعلان کیا کہ روس سے آنے والی رودِ شمالی پائپ لائن بند نہیں کی جائیگی۔ دوسری طرف ممکنہ پابندیوں کے پیش نظر روس نے توانائی کیلئے دوسرے گاہک تلاش کرنے شروع کردئے۔ جلد ہی چین اور ہندوستان روسی تیل کے بڑے خریدار بن گئے۔ حجم کے اعتبار سے اِسوقت  چین اور  ہندوستان کی مجموعی خریداری  یورپی ممالک کے برابر ہے۔روس سے تیل کی ہندوستان جانے والی مقدار سعودی تیل سے زیادہ ہے بلکہ عراق اور روس کےبعد سعودی عرب تیسرے نمبر پر ہے۔ خیال رہے کہ ہندوستان کی ONGC ودیش روسی جزیرے سخالن میں تیل اور گیس کے ایک بڑے منصوبے کی شراکت دار ہے۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ امریکہ اور چین کے بعد تیل کی سب سے زیادہ کھپت ہندوستان میں ہے جسکا 85 فیصد حصہ درآمد کیا جاتا ہے۔ مالی بحران کا شکار سری لنکا بھی روسی تیل کا گاہک بن چکاہے اور امریکی و مغربی پابندیوں سے پریشان میانمار(برما)  کی فوجی جنتا بھی تیل کیلئے روس سے مول تول کررہی ہے۔ روس کے نئے کرمفرماوں میں اہم نام افغانستا ن کا ہے جو  روس سے خام تیل اور  پیٹرولیم مصنوعات خریدے گا۔

یوکرین جنگ کے فوراً بعد جب تیل کی قیمتیں عروج پر تھیں اسوقت ہی ماہرین نے عارضے کو عارضی قراردیا تھا۔اس تجزئے کی وجہ وہی نکات تھے جنکا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ایک طرف روس نے نئے گاہک تلاش کرنے کیلئے رعائت کا سلسلہ جاری رکھا تو ہر گزرتے دن کیساتھ افراطِ زر کی شرح مسلسل بڑھتی رہی۔ اِس جِن کو قابو کرنے کیلئے شرحِ سود میں اضافے کا ٹوٹکا استعمال کیا گیا۔ یہ قدم سود خور بینکوں اور مالیاتی اداروں کیلئے بڑا سود مند ثابت ہوا لیکن اسکے نتیجے میں کسادبازاری کا عفریت مزید توانا ہوگیا اور کئی ملکوں میں مہنگائی کے زخم پر  تالہ بندی اور چھانٹی کے نمک نے سوزش دوچند کردی

معیشت کی سست روی سے تیل کی طلب  میں کمی اور قیمتوں میں زوال کا آغاز ہوا۔ پانچ اکتوبر کو اوپیک پلس کے اجلاس سے دودن پہلے سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے کہا کہ قیمتوں میں استحکام کیلئے پیداوار پر نظر ثانی ضروری ہے۔ شہزادہ صاحب کے روسی ہم منصب نکولائی شولگنوف (Nikolay Shulginov) نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ اور جب بدھ کو ویانا میں اوپیک پلس کا اجلاس ہوا تو اس معاملے پر ایران، عراق اور لیبیا سمیت تمام ارکان نے کٹوتی کی تجویز سے اتفاق کیا اور فیصلہ ہوا کہ یکم نومبر میں اوپیک پلس کی مجموعی پیداوار  20 لاکھ بیرل یومیہ کم کردی جائیگی۔ یہ اجلاس صرف 30 منٹ جاری رہا جو تنظیم کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔

اس اعلان کیساتھ ہی تیل کی قیمت میں 3 ڈالر فی بیرل کا اضافہ ہوگیا اور کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ گرانی کا یہ رجحان اس سال کے آخر تک برقرار رہیگا۔امریکہ کے مشہور مالیاتی ادارے اسٹینلی مورگن نے اگلے برس کے شروع تک 100 ڈالر فی بیرل تیل کی پیشنگوئی کی ہے۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ اوپیک ممالک گزشتہ کئی ماہ سے پیداوار میں رضاکارانہ کٹوتی کررہے ہیں۔رایٹرز کے مطابق اگست کے مہینے میں اوپیک کی اوسط پیداوار ہدف سے 35 لاکھ 80 ہزار بیرل یومیہ کم تھی۔ اسی بنا پر ہمارےخیال میں قمیتوں کا اقبال عارضی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا یوکرین کی جنگ شروع ہوتے ہی تیل قیمتوں کو پر لگ گئے تھے لیکن چند ہفتوں بعد قیمتیں نیچے آنا شروع ہوگئیں۔ اس بار بھی یہ غیر معمولی اضافہ Headlines Effectکی ایک شکل  ہے، یعنی مال تجارت (Commodities)کی قیمتوں میں 'خبروں' کی بنیاد پر غیر معمولی اتار چڑھاو ۔

تیل کی قیمتوں میں یہ عارضی اضافہ صدر بائیڈن کے سیاسی مستقبل کیلئے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ نومبر کی آٹھ تاریخ کو امریکی مقننہ (پارلیمان) کے انتخابات ہورہے ہیں اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق بڑھتی ہوئی مہنگائی امریکی عوام کیلئے اسوقت یوکرین سے زیادہ اہم ہے۔ اکثر ریاستوں میں قبل ازوقت یا early votingکا سلسلہ اگلے ہفتے سے شروع ہورہا ہے اور گزشتہ تین دنوں میں  پیٹرول پمپ پر قیمتیں 15 سے 20 فیصد بڑھ گئی ہیں۔ توانائی کے نرخ بڑھنے سے غذا اور دوا سب مزید مہنگی ہوگئی ہیں۔

امریکی صدر اوپیک پلس کے فیصلے پر سخت برہم ہیں۔  تین ماہ قبل اپنے دورہِ سعودی عرب میں انھوں نےولی عہد سے  تیل کی پیداوار بڑھانے  کی درخواست کی تھی لیکن شہزادہِ گلفام نے نہ صرف  امریکی صدر کی بات نہیں مانی بلکہ اب انکے سیاسی تابوت میں کٹوتی کی کیل بھی ٹھونک دی۔

اوپیک پلس کے فیصلے پر صدر بائیڈن کا اشتعال و مایوسی اپنی جگہ لیکن انکے لئے اوپیک کو فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرنا ممکن نہیں۔ کٹوتی کے توڑ کیلئےانھوں نے خام تیل کے تزویراتی ذخیرے SPRسے ایک کروڑ تیل بازار میں لانے کا اعلان کیا ہے، لیکن یہ اونٹ کے منہہ میں زیرے سے بھی کم ہے کہ امریکہ کی اپنی کھپت ڈیڑھ کروڑ بیرل یومیہ ہے۔ اسی کیساتھ بائیڈن انتظامیہ نے وینیزویلا اور ایرانی تیل پر پابندیاں نرم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔  اس سے بھی کچھ ہونے والا نہیں اسلئے کہ پابندیوں کے باوجود  ایران اسوقت بھی  20 لاکھ اور وینزویلا 5 لاکھ بیرل یومیہ برآمد کررہا ہے۔ پابندیاں ہٹانے کیلئے امریکی کانگریس سے اجازت درکار ہے اور یہ ترنت نہیں ہوسکتا۔

اوپیک کے فیصلے کو صدر بائیڈن کے مخالفین امریکی قیادت کی کمزوری اور سفارتکاری کی ناکامی قرار دے رہے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے 2020 میں تیل کی امریکی صنعت کو بحران سے نکالنے کیلئے روس اور اوپیک کو 97 لاکھ بیرل کٹوتی پر راضی کرلیا جبکہ مشکل وقت میں صدر بائیڈن کی درخواست کو شہزادہ محمد بن سلمان نے انتہائی حقارت سے مسترد کردیا۔

جوابی قدم کے طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے تین ارکانِ کانگریس نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں تعینات امریکی فوج کو واپس بلانے کیلئے ایک مسودہ قانون (بل) ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) میں پیش کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ریپبلکن سینیٹر بلِ کیسیڈی سے ایسا ہی ایک بل سینیٹ میں پیش کیا ہے۔ ان بلوں کی منظوری کا کوئی امکان نہیں۔ کم ازکم 8نومبر کے انتخابات سے پہلے تو اس پر بحث بھی شروع نہیں ہوسکے گی۔

صدر بائیڈن کے رفقا کا کہنا ہے کہ یہ سب صدر پیوٹن اور چین کا کیا دھرا ہے جو وسط مدتی انتخابات میں امریکی مقنہہ سے ڈیموکریٹک پارٹی کی برتری ختم کرکے اگلے دوسال کیلئے صدر بائیٖڈن کو بے دست و پا یا lame duckصدر بنادینا چاہتے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 14 اکتوبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 14 اکتوبر 2022

روزنامہ امت 14 اکتوبر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 16 اکتوبر 2022


Wednesday, October 12, 2022

انصاف کے علمبردارو!!! معیار تو ایک رکھو

 

انصاف کے علمبردارو!!!  معیار تو ایک رکھو

یورپی یونین نے ایران پر پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔تہران کی گوشمالی کی وجہ گزشتہ تین ہفتوں سے جاری مظاہروں پر ایرانی حکومت کا مبینہ تشدد ہے۔ ان ہنگاموں کا آغاز ایک 22 سالہ خاتون مہیسا امین کی ہلاکت سے ہوا۔ یہ لڑکی حجاب قوانین کی خلاف ورزی پر 13 ستمبر کو گرفتار کی گئی اوردورانِ حراست تین دن بعد انتقال کرگئی۔ ایرانی حکام کے مطابق مہیسا پہلے سے بیمار تھی اور دوران حراست اس پر کسی قسم کا تشدد نہیں کیا گیا۔

یورپی یونین اور امریکہ کا کہنا ہے کہ لباس کا انتخاب ہر شخص کا بنیادی حق ہے اور ریاست کو اس سلسلے میں دخل دینے کی ضرورت نہیں۔ اسکارف کے معاملے میں مہیسا کی گرفتاری ہی غلط تھی اور لباس کیلئے تشدد 'تہذیب ' کے خلاف ہے۔

لباس کے انتخاب پر مغرب اور یورپ کا موقف بالکل درست ہے اور ہمیں ذاتی طور پر اس سے اختلاف نہیں لیکن ستم ظریفی کہ ایرانی و افغانی خواتین کے 'آزادی لباس' کیلئے فکر مند مغرب کو فرانس کی مسلم خواتین کے بنیادی حقوق سے کوئی دلچسپی نہیں جہاں قانون کے تحت پبلک مقامات پر اسکارف اوڑھنا منع ہے۔ حتیٰ کہ دوکان کی مالکن بھی اپنی دوکان پر سر نہیں چھپا سکتی۔ غسل آبی وآفتابی کیلئے ساحل سمندر یا تیراکی کے حوض پر جانے والی خواتین کو ساتر لباس کی اجازت نہیں اور انکے لئے bikiniپہننا ضروری ہے۔ فرانس کے وزیرثقافت کہہ چکے ہیں کہ 'نیم برہنہ نسوانی سینے' فرانسیسی ساحلوں اور تفریحی مقامات کی شناخت ہے اور جن خواتین کو ستر کا خیال ہے وہ یہاں تشریف نہ لائیں۔

ایرا ن اور افغانستان میں سرڈھانکنے پر اصرار غلط اور فرانس میں بچیوں کے سر سے حجاب نوچ لینے کی اجازت۔ یہ دہرا معیار ہے۔

ایران ، افغان اور فرانسیسی خواتین سمیت ہر انسان کو اپنی مرضی کا لباس زیب تن کرنے کی اجازت ہونی چاہئے کہ یہی بنیادی انسانی حقوق کا تقاضہ ہے۔

اس سلسلے میں ایران ہی کا ایک دلچسپ واقعہ جسکا ذکر دنیا کی مشہور خاتون صحافی آنجہانی اوریانہ فلاسی (Oriana Fallaci)نے پلے بوائے کے ایک انٹرویو میں کیا ہے۔ ہم نے اس انٹرویو کا اردو ترجمہ کیا تھا جو جسارت کے 7 دسمبر 1981کے شمارے میں شائع ہوا۔

اوریانا کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ ایران میں انقلاب کے بعدامام خمینی نے انھیں پہلا انٹرویو دیا تھا۔ ہم نے اس انٹرویو کا ترجمہ بھی کیا تھا۔

امام سے ملاقات کے آغاز پر ہی چادر کے حوالے سے جو گفتگو ہوئی وہ پیشِ خدمت ہے

' غضب خدا کا، ملاقات کے دوران میں پوری سات میٹر لمبی وہ چیز (چادر) اوڑھے ہوئے تھی، گرمی سے بے حال، پسینے میں شرابور۔ میں نے چادر کی بحیثیت ایرانی خواتین کے نشانِ امتیاز پر سوال کیا۔ اس پر امام خمینی نے کہا اگر یہ آپ کو پسند نہیں تو اسے اتار دیجئے، اسلئے کہ چادر تو عفت ماب خواتین کیلئے ہے۔ اس پر میں نے وہ چیتھڑا اتار پھینکا۔ امام خمینی نے اس موقع پر ایک دلچسپ حرکت کی۔ خواتین سےگفتگوکے دوران امام خمینی مخاطب کی طرف نہیں دیکھتے اور انکی نگاہیں زمین پر گڑی رہتی ہیں لیکن امام نے خلافِ معمول نظر اٹھاکر مجھے دیکھا اور دلچسپ انداز میں مسکرائے'

میں نے پوچھا 'کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میری جیسی عورت جو جنگ ویتنام کی رپورٹنگ کے دوران مرد سپاہیوں کے کیمپوں میں سو بھی چکی ہو وہ عفت ماب نہیں؟ امام نے سپاٹ لہجے میں کہا مجھے نہیں معلوم، یہ آپ ہی کو معلوم ہے کہ آپ کا ان سپاہیوں سے رویہ کیسا تھا'


Thursday, October 6, 2022

سات اکتوبر 1958، ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن

 

سات اکتوبر 1958، ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن

آج ہماری تاریخ کے سب سے بڑے المئے کی 64 ویں برسی ہے۔ اسی دن پاکستان میں پہلی بار مارشل لا نافذ ہوا ۔اسکے بعد 1977 اور پھر 1999 میں اس مکروہ رسم کی تجدید کی گئی۔

غاصب و سازشی ایوب خان کا طرزِ عمل قیامِ پاکستان سے پہلے بھی مشکوک تھا ۔ انگریزی جبر کے خلاف جدوجہد کرنے والے پشتون مجاہدین کے مقدس لہو سے انھوں نے اپنےدونوں ہاتھ خوب رنگے۔

کچھ سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ قائداعظم ، ایوب خان کے مشتبہ عزائم کو بھانپ کئے تھے اوربابائے قوم کے ہدائت پر انھیں اہم عسکری معاملات سے دور کھا گیا۔

جنوری 1951 میں جب پاک فوج کے سربراہ جنرل ڈگلس گریسی کی رخصت کا وقت آیا تو ایوب خان نے اسوقت کے سکریٹری دفاع اسکندر مرزا سے مل کر یہ عہدہ 'ہتھیانے' کی کوشش لیکن وزیراعظم لیاقت علی خان نے قابلیت کی بنیاد پر جنرل افتخار المعروف افتی کا انتخاب کیا۔ بدقسمتی سے جنرل افتخار عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی 24 فوجی افسران کے ہمراہ ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔

اسکندر مرزا کی 'سفارش' پر قائد ملت نے ایوب خان کو فوج کا کماندڑ ان چیف مقرر کردیا۔ کمان سنبھالتے ہی ایوب خان نے 'سیاست' شروع کردی۔ اکتوبر 1951 میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ایوانِ سیاست میں طوائف الملوکی کی سلسلہ شروع ہوا اور اسکندر مرزا سے مل کر ایوب خان نے پورے نظام پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔جنوری 1953 میں انھوں نے اپنے دستِ راست حاجی محمد صدیق چودھری المعروف HMSچودھری کو بحریہ کی سربراہی دلوادی۔اب ایوب خان، اسکندرمرزا اور چودھری پر مشتمل منحوس مثلث نے سیاست دانوں کی زندگی اجیرن کردی۔ دوسری طرف ایوب خان اور اسکندر مرزا نے امریکہ سے تعلقات استوار کرلئے جسکی وجہ سے انکا اثرورسوخ اور بڑھ گیا۔ اسی دوران جنرل ایوب وزیردفاع بن گئے۔ مارچ 1953 کی تحریک ختم نبوت کے دوران ہونے والے خونریز ہنگاموں میں شہری انتظامیہ مفلوج ہوگئی اور دوماہ کا مارشل لا نافذ کردیا گیا۔

گونر جنرل غلام محمد اور وزراعظم محمد علی بوگرہ کی باہمی چپقلش بھی اس مثلث کی لگائی بجھائی کا نتیجہ تھا۔ غلام محمد نے بوگرہ صاحب کو برطرف کردیا اور حسین شہید سہروردی کے سرپر وزارت عظمیٰ کا تاج سجا ، لیکن ایوب خان کیلئے وزارت دفاع کا قلمدان برقرار رہا۔ کچھ دن بعد غلام محمد کی بھی چھٹی ہوگئی اور اسکندر مرزا گورنر جنرل بن گئے۔

مارچ 1956 میں پاکستان کا پہلا دستور منظور ہوا جس نے ملک میں پارلیمانی جمہوریت کی راہ ہموار ہوئی۔ جمہوری دستور نے جہاں ملک کی محب وطن اکثریت کو حوصلہ عطا کیا، وہیں یہ مقدس دستاویز ایوب و مرزا کیلئے موت کا پیغام تھی۔نئے آئین کی رو سے گورنر جنرل کا عہدہ ختم ہوگیا چنانچہ اسکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر مقرر ہوئے۔

اسکندر مرزا نے سیاست دانوں کا ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ خوفزدہ ہوکر سہروردی مستعفی ہوگئے اور میوزیل چیئر آئی آئی چندریگر کے ہاتھ لگ گئی، ابھی موصوف نے سانس بھی نہ لی تھی کہ صرف دو ماہ میں چندریگر صاحب عدم اعتماد کا شکار ہوگئے۔ نئے وزیراعظم، فیروز خان نون نے افہام و تفہیم کے ذریعے مغرب و مشرقی پاکستان کے متحارب سیاستدانوں قریب لانا شروع کردیا اور انھیں اس سلسلے میں کامیابی بھی ہوئی۔

اسکندر مرزا اور ایوب خان کو خطرے کا اندازہ ہوگیا اورصدر اسکندر مرزا نے وزیراعظم فیروز خان نون کو خط لکھ کرا نھیں 'مطلع' کیا کہ ملک کے نظم و نسق کو چلانے میں سیاسی جماعتیں ناکام ہوگئی ہیں اسلئے انھوں نے فوج کےکو ملک کا انتظام و انصرام سنبھالنے کا حکم دیدیا ہے۔ 'حکم' ملتے ہی 7 اکتوبر 1958 کی شب آئین منسوخ کرکے فوج نے اقتدار سنبھال لیا اور جنرل ایوب خان چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تعینات ہوئے۔پارلیمان تحلیل اور تمام سیاسی جماعتیں کالعدم کردی گئیں۔ دلچسپ بات کہ مارشل لا کے بارے میں صدر کے خط کی نقول سرکاری اہتمام میں امریکی سفیر اور برطانوی ہائی کمشنر کو بھی بھیجی گئیں۔ جسٹس منیر نے مارشل لا کو قانون ضرورت کے ایک 'ناگزیر' برائی کی سند عطا فرمادی

قوم سے اپنے خطاب میں ایوب خان نے مارشل لا کے نفاذ کو مقدس فریضہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'اگر ہم سیاسی افراتفری کو جاری رہنے دیتے تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرتی' ۔ انھوں کہا کہ ہم ایسی جمہوریت بحال کرنا چاہتے ہیں جسے عوام 'سمجھ' سکیں

ہماری بدقسمتی کے جرنیلوں کی جمہوریت ہم اب تک نہیں سمجھ سکے۔