Thursday, December 21, 2023

ہوائے ظلم سوچتی ہے کس بھنور میں آ گئی

 

ہمارا ہفتہ وار کالم

ہوائے ظلم سوچتی ہے کس بھنور میں آ گئی

غزہ میں جنگ بندی  کی آخری قانونی امید  سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو سے ختم ہوگئی اور اب نئی قرارداد پر بھی بائیڈن جی کی خرمستی (گدھا انکی پارٹی کا نشان ہے)  ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اتمام حجت کے طور پر اقوام متحدہ کے  معتمد عام (سکریٹری جنرل) انتونیو گوتریس نے  بربنائے عہدہ  ملنے والے ہنگامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سلامتی کونسل سے مداخلت کی درخواست کی تھی۔ دستورِ اقوام متحدہ کے باب 15 (Chapter XV) دفعہ 99 کے تحت  'سیکریٹری جنرل سلامتی کونسل کی توجہ کسی ایسے معاملے کی جانب مبذول کرا سکتے ہیں جو اُن کی رائے میں بین الاقوامی امن و سلامتی کے قیام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے'

سلامتی کونسل کے نام خط میں جناب گوتریس نے لکھا کہ "خراب حالات کی وجہ سے عوامی نظم و نسق بکھر چکا ہے، جس سے محدود انسانی امداد بھی اب ممکن نہیں لہٰذا وہ سلامتی کونسل سے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں' ۔دستور کی پاسداری کرتے  ہوئےکونسل کے صدر نے قیامِ امن  کی قرارداد ایوان کے روبرو میں پیش کردی ۔

قرارداد کے پیش ہوتے ہی  یورپی یونین کے سکریٹری برائے خارجہ امور جوزف بوریل نے اعلان کیاکہ یونین،   سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی  کی حمائت کریگی۔ اسپین کے وزیراعظم پیدرو سنچیز نے دوٹوک انداز میں کہا کہ 'غزہ میں انسانی المیہ ناقابل برداشت ہے۔ میں انتونیو گوتریس کی آرٹیکل 99 کے تحت جنگ بندی کی تجویز کی مکمل حمایت کا اعلان کرتا ہوں۔ سکریٹری جنرل نے اپنی درخواست میں جو وجوہات بیان کی ہیں ان سے میں پوری طرح متفق ہوں۔

جب 8 دسمبر کو رائے شماری ہوئی تو فرانس نے یونین کے فیصلے کے مطابق قرارداد کی حمائت کی  اور چین و روس سمیت  سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے تیرہ ارکان نے جنگ بندی کے حق میں ہاتھ  بلند کئے۔ برطانیہ نے رائے شماری میں  حصہ نہیں لیا جبکہ حسب توقع امریکہ بہادر نے  ویٹو کرکے  مسودے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ قرارداد کے مسودے  پر اقوام متحدہ کے 97 ارکان نے تجویز کنندہ کی حیثیت سے دستخط کئے تھے۔

اسکے چار دن بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہی قرارداد 10 کےمقابلے میں 153 ووٹوں نے منظور کرلی۔آسٹریا اور چیک ریپبلک نے یورپی یونین کی سفارشات کو پس پشت ڈالتے ہوئے قرارداد کی مخالفت کی۔ یونین کے رکن ممالک ، جرمنی، نیدرلینڈ، رومانیہ، سلووانیہ نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔  قرارداد کی بھاری اکثریت سے منطوری امریکہ کی سفارتی شکست تو ہے کہ اسکے اتحادی آسٹریلیا، کنیڈا، جاپان اور فرانس نے امن تحریک کی حمائت کی لیکن جنرل اسمبلی کے فیصلے قوت نافذہ سے محروم ہیں لہٰذا ریکارڈ سے زیادہ اس قرارداد کی کوئی اہمیت نہیں۔

غزہ امن کے بارے میں مغربی رہنماوں کے بیانات  محض  مبہم  ہی نہیں سفارتی  منطق سے بھی محروم نظر آتے ہیں، ایک ہفتہ قبل برطانیہ کے وزیرخارجہ ڈیوڈ کیمرون اور انکی جرمن ہم منصب محترمہ انالینا بئر بک  Annalena Baerbockنے برطانوی جریدے  سنڈے ٹائم میں  ایک مضٓمون  لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ 'غزہ میں دیرپا امن وقت کی ضرورت ہے لیکن ہم فوری جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کرتے'۔

اقوام متحد ہ میں امریکہ کی سکھا شاہی کے باوجود دنیا،  خوفناک قوتِ قاہرہ کے سامنے اہلِ غزہ کے عزم اور صبر وثبات پر اپنے جذبات کا اظہار کررہی ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل نواز عناصر کی طرف سے شدید اعتراض کے باوجود امریکی ریاست کیلی فورنیا کی فرینسو کاونٹی Fresno County کے ایوانِ بلدیات المعروف  سٹی ہال پر فلسطین کے پر چم لہرادئے گئے۔ کچھ ایسا معاملہ آئرلینڈ میں ہوا جہاں دارالحکومت ڈبلن میں بلدیاتی اسمبلی پر قومی اور بلدیہ کے جھنڈوں کیساتھ ایک ہفتے تک فلسطینی پرچم لہراتے رہے۔

اس وحشت کے خلاف مختلف علاقوں اور حلقوں سے جو ردعمل ظاہر ہورہا ہے  وہ بھی اسرائیل کے لئے اچھا نہیں۔ دنیاکی دو بڑی جہاز راں  کمپنیوں، ڈنمارک کی MEARSKاور جرمنی کی Hapag- Lloyedنے بحر احمر (Red Sea)میں سفر معطل کردیا۔غزہ جنگ چھڑنے کے بعد سے یمن کی ایران نواز حوثی ملیشیا اسرائیل سے آنے اور جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنارہی ہے۔ ان حملوں کی وجہ سے جنوبی بحر احمر، آبنائے باب المندب اور خلیج اومان کا علاقہ  جہاز رانی کیلئے غیر محفوظ ہوگیا ہے اور بیمہ کمپنیاں 'اضافی خطرے ' کے تناظر میں بھاری  پریمیم وصول کررہی ہیں۔

امریکہ کی غیرمشروط حمائت، اسلحے کی فراوانی اور میڈیا کا گلا گھونٹ دینے کے باوجود، جانی و مالی نقصانات کی جو خبریں آرہی ہیں وہ اسرائیلوں کیلئے مایوس کن ہیں۔ غزہ حملے کے آغاز سے ہی اسرائیلی حکومت نے براہ راست رپورٹنگ پر پابندی لگادی ہے۔ قانونِ زباں بندی یا Gag order کے تحت صرف جنگی کونسل (War Council)کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار ہی میڈیا شایع کرسکتے ہیں۔ تاہم سچ کے متلاشی صحافیوں نے 'مدفون حقائق' کی بازیابی کے لئے  فوجی قبرستانوں کا رخ کرلیا۔

اس سلسلے میں روسی ٹی وی (RT) نے جب 18 نومبر کو تل ابیب کے قریب ماونٹ ہرزی عسکری قبرستان (Mount Herzi Military Cemetery)کے ڈایریکٹر ڈیوڈاورن باروخ (David Oren Baruch)سے رابطہ کیا تو ڈائریکٹر صاحب نے کہا 'ہم اوسطاً ہر گھنٹہ ایک نئی قبر کھودرہے ہیں۔ ریکارڈ دیکھ کر جناب باروخ نے بتایا کہ 48 گھنٹوں کے دوران ہم نے 50 میتیں دفنائی ہیں۔ یہ وسط نومبر کی بات ہے جب مزاحمت میں شدت نہیں آئی تھی۔ اب اسرائیلی نقصان ایک فی گھٹہ سے زیادہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دھمکیوں اور اہل غزہ  کو فنا کردینے کے عزم کیساتھ پس پردہ مذاکرات کا ٖڈول ڈالدیا گیا ہے۔ اس  سلسلے کی تازہ ترین  خبر یہ ہے اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ برنی David Barnea نے ناروے میں قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی سے 17 دسمبر کو ملاقات کی۔ ملاقات قطر کے بجائے ناروے میں رکھنے کا مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ ہم حماس سے ملنے قطر نہیں گئے بلکہ ایک غیرجانبدار جگہ بات چیت ہورہی ہے۔

غزہ قتل عام کا ایک بڑا محرک ان  لوگوں کو  چھڑانا ہے جنھیں اہل غزہ نے 7 اکتوبر کو قیدی بنالیا تھا۔ جنگی قیدیوں میں کچھ جرنیل بھی شامل ہیں۔اسرائیلی فوج کا خیال تھا کہ خوفناک بمباری سے فلسطینی مزاحمت کار تتر بتر ہوجائینگے اور تل ابیب کا انتہائی تربیت یافتہ چھاپہ مار دستہ اپنے قیدی بازیاب کرالیگا۔ اس آپریشن میں اسرائیل کو امریکہ اور برطانیہ کی مکمل حمائت حاصل تھی جنکے جاسوس ڈرونوں نے غزہ کا چپہ چپہ سونگھ کر اسرائیلی سراغرساں اداروں کے مطابق قیدیوں کے ٹھکانے معلوم کرلئے تھے۔ لیکن مستضفین بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے۔ آٹھ دسمبر کو جب پہلی کاروائی ہوئی تو مزاحمت کار اسرائیلی چھاپہ مارواں کے استقبال کو موجود تھے۔ فائرنگ کے تبادلے میں دو اسرائیلی کمانڈو زخمی ہوگئے اور قید سپاہی 24 سالہ سعر بروش (Saar Baruch) بے موت ماراگیا

ایک ہفتے بعد شجاعیہ میں ہونے والی کاروائی مزید مہلک ثابت ہوئی اور مستضعفین کے اچانک حملے سے گھبراکر اپنے  تین قیدیوں کو اسرائیلی فوج نے خود ہی گولی ماردی۔اس واقعہ کے خلاف اسرائیل میں شدید ردعمل ہوا اور کچھ لوگوں نے ان جوانوں کے قتل کا پرچہ فوج کے سربراہ کے ِخلاف کاٹنے کا مطالبہ کردیا۔ اسی شام تل ابیب میں ایک بہت بڑے مظاہرے سے ٓخطاب کرتے  ہوئے  لواحقین کی نمائندہ محترمہ نوم پیری Noam Perry نے اپنے جذباتی خطاب میں  کہا 'ہم صرف لاشیں اٹھارہے ہیں۔ حکمرانو! جنگ بند کرکے بامقصد مذاکرات کرو تاکہ ہمارے پیارے بخیریت واپس آجائیں۔ تم طاقت کے ذریعے ہمارے قیدی نہیں چھڑاسکے، اب امن کو ایک موقع دو'

اسی دبا و کا نتیجہ ہے کہ17 دسمبر  کو قوم سے خطاب میں وزیراعظم  بن یامین نیتھں یاہو المعروف بی بی نے شروع میں طوطے کی طرح  جنگی منتر دہرایا کہ غزہ حملہ اسرائیلی بقا کی جنگ ہے جو دباؤ، جانی نقصانات اور اخراجات کے باوجود مکمل فتح تک لری جائیگی۔ پھر خود ہی بولے کہ قیدیوں کی رہائی کیلئے انھوں نے سراغرساں ادارے موساد کو بات چیت کا اختیار دے دیا ہے۔مزے کی بات کہ بی بی کے اعلان سے پہلے ہی موساد کے سربراہ امن مذاکرات کیلئے ناروے پہنچ چکے تھے۔

سوال یہ ہے کہ نقصانات اور  عوام کا دباو اسرائیلی حکومت کو معقولیت کی طرف مائل کرنے میں اب تک ناکام کیوں ہے تو امریکی محکمہ سراغرسانی کا خیال ہے کہ بی بی جنگ کی طوالت کو اپنی سیاسی بقا کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم اور انکی اہلیہ کیخلاف کرپشن کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ بی بی اپنے منصب اور اب ہنگامی صورتحال کا بہانہ کرکے معاملہ ٹال رہے ہیں۔ جنگ ختم ہونے کی صورت میں انھیں پیشیاں بھگتنی ہونگی۔

اعصاب کی اس جنگ میں  اہلِ غزہ کا پلہ بھاری لگتا ہے کہ 70 دن کی مسلسل بمباری، 9 ہزار سے زیادہ بچوں کی شہادت اور سارے غزہ کو کھنڈد بنادینے کے باوجود اسرائیلی اپنا ایک بھی قیدی بزور قوت رہانہیں کراسکے تو دو سری طرف  قیدیوں کے عزیزو اقارب کیلئے  جدائی ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔ اسرائیل کے تجارتی مراکز اور چوراہوں پر پر Neon Signکی شکل میں گھڑیاں آویزاں کرکے لواحقین نے اپنے پیاروں کی حراست کے  لمحات گننے شروع کردئے ہیں۔

اہل غزہ نے ایک بیان میں اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ عارضی نہیں بلکہ اسرائیل کی جانب سے مکمل، دیرپا اور غیر مشروط جنگ بندی سے پہلے کسی قیدی کی رہائی ناممکن ہے۔انکا مطالبہ ہے کہ اسرائیلی سپاہ 7 اکتوبر کی پوزیشن پر واپس جائے اور جب تک  جارحیت ہمیشہ کے لئے بند نہیں ہوجاتی، کوئی قیدی رہا نہیں ہوگا۔ قیدیوں کا تبادلہ مکمل ہونے کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر دوبارہ حملہ نہ کرنے کی تحریری ضمانت بھی انکی شرائط میں شامل ہے۔

مزاحمت کاروں کا اعتماد،  انکی برجستگی سے بھی ظاہر ہورہا ہے۔ اسرائیلی فوج ،  حماس قائدین کی گرفتاری میں اہل غزہ کے تعاون کیلئے اپنے طیاروں سے بڑٖے پیمانے پر پمفلٹ گرارہی ہے۔ پمفلٹ میں  رہنماوں کے سروں کی قیمت کیساتھ طنز کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ  'حماس کی کمر ٹوٹ چکی اب انکے رہنما انڈے بھی نہیں تل سکتے'۔ اسکا جواب آیا کہ 'انڈے فرائی کرنے کا وقت کس کے پاس ہے؟ ہمارے مزاحمت کار  MERKAVA(اسرائیلی ٹینک) بھوننے میں مصروف ہیں۔

ہفتہ روزہ دعوت دہلی، 22 دسمبر 2023

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 22 دسمبر 2023

روزنامہ امت کراچی 22 دسمبر 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 24 دسمبر 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو

Tuesday, December 12, 2023

سعودی ارامکو پاکستان میں

 سعودی ارامکو پاکستان میں

دنیا کی سب سے بڑی تیل کمپنی سعووی ارامکو نے پیٹرولیم مضوعات بنانے اور فروخت کرنے والے ادارے گیس اینڈ آئل پاکستان لمیٹیڈ المعروف go کی 40 فیصد ملکیت خریدنے کے ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔

گیس اینڈ آئل پاکستان کا انتہائی تیزی سے ترقی کرتا ادارہ ہے جو 2015 میں مارکیٹنگ کمپنی کی حیثیت سے سامنے آیا جب تیل اور گیس کی مقتدرہ OGRAنے اسے پنجاب میں پیٹرولیم کی تقسیم کا اجازت نامہ جاری کیا۔ اسکے بعد صرف 8 سال میں اسکے پمپوں کی تعداد 1100 سے تجاوز کرچکی ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کے علاہ گیس اینڈ آئل برقی گاڑیوں میں استعمال ہونے والی بیٹریوں کو چارج کرنے کی خدمات بھی فراہم کررہی ہے۔ ہمارے خیال میں گیس اینڈ آئل پاکستان میں EV Charging Station قائم کرنے والی پہلا کمپنی ہے۔

یہ ادراہ پاکستانیوں کی مہارت کا شاہکار ہے۔ اسکے بانی جناب خالد ریاض صاحب ہیں جنھوں نے آنکھ کھولتے ہی یہ کاروبار دیکھا اور بہت ہی کم عمری سے پیٹرولیم مصنوعات کی تجارت میں اپنے والد کاہاتھ بٹانے لگے۔

جناب خالد ریاض نے اس میدان کے دوسرے شہسواروں شہزاد مبین اور بلال انصاری کیساتھ مل کر گیس اینڈ آئل کی بنیاد رکھی اور طارق کرمانی کی شکل میں ادارے کو ایک انتہائی تجربہ کار قائد میسر ہوگیا۔ اس دشت کی سیاحی میں کرمانی صاحبب نے نصف صدی گزاری ہے۔

سعودی ارامکو کی گیس ایند آئل میں حصہ داری ولی عہد شہزدہ محمد بن سلمان رویۃ 2030 یا Vision 2030میں طئے کردہ اہداف کے حصول کی جانب ایک قد م ہے۔ شہزادہِ گلفام سعودی معیشت کا خام تیل پر دارومدار ختم کرنا چاہتے ہیں۔ انکی خواہش ہے کہ ارامکو خام تیل فروخت کرنے کے بجائے اعلیٰ معیار کی پیٹرولیم مصنوعات کی تیاری پر توجہ دے۔

اسی بناپر اس سال مارچ میں ارامکو نے 2.65راب ڈالر کے عوض امریکہ کی گاڑیوں کیلئے Oil Change اور دوسرئ خدمات فراہم کرنے والے ادارےValvolineکی ملکیت حاصل کی ہے۔ اسکی وجہ سے ایک طرف تو ارامکو کو 1.24ارب ڈالر سالانہ کا کاروبار ہاتھ آگیا ہے جسکے ذریعے وہ سارے امریکہ میں اپنے lubricants ،فلٹر اور دوسری مصنوعات اور خدمات فروخت کرسکے گی۔

اب go کے حصص خرید کر ارامکو اسی جانب مزید پیشقدمی کررہی ہے۔





Thursday, December 7, 2023

ہفتہ وار کالم : گولی کا جوا ب پرچی Ballot vs Bullet

 

گولی کا جوا ب پرچی Ballot vs Bullet

ایک ہفتہ  وقفے کے بعد غزہ پر بمباری کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا۔ اسی کیساتھ ٹینکوں سے گولہ باری اور بحر روم  میں تعنیات اسرائیلی جہاز سمندر سے خشکی پر مار کرنے والے میزائیل داغ رہے ہیں۔ جنگ بندی  ختم ہونے کے پہلے 12 گھنٹوں میں اسرائیلی بمباروں نے 400 مقامات کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں امریکہ کے فراہم کردہ بنکر شکن Bunker Busterبم استعمال ہوئے۔ یہ بم امریکہ نے افغانستان میں  پہاڑی چٹانوں کو پاش پاش کرنے کیلئے استعمال کئے تھے۔ BLU-109 بموں میں 2000 پونڈ دھماکہ خیز مواد بھرا ہوتا ہے جو 20 فٹ موٹی کنکریٹ کی تہہ کو ریزہ ریزہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسرائیل یہ بم غزہ کی شہری عمارات پر گرارہا ہے۔ امریکی وزارت دفاع کے ذرایع کا کہنا ہے کہ وحشت کے آغاز سے اب تک  15000 بم  اور ٹینکوں کے 56000 گولے  اسرائیل بھیجے گئے  ہیں۔ (حوالہ وال اسٹریٹ جرنل) ۔

خان یونس میں  ایک حملے کی روداد بیان کرتے ہوئے الجزیزہ کے نمائندے طارق ابوعظام نے بتایا کہ  بم پھٹتے ہوئے زمین ہلتی محسوس ہوئی اور ایک بلند عمارت چند لمحوں میں ریت کا ڈھیر بن گئی۔ یہ سب کچھ ایسا آناًفاناً ہوا کہ مرنے والوں کی چیخیں بھی نہ سنائی دیں۔ اسرائیلی ذریع کا کہنا ہے کہ اب  تک غزہ پر 40 ہزار ٹن بارود گرایاجاچکاہے۔ 2 دسمبر کی شب نصر ہسپتال کے احاطے سے بات کرتے ہوئے UNICEFکے ترجمان جیمز ایلڈر نے کہا ' جدھر دیکھو جھلسے ہوئے بچے، بموں کے زخم، ننھے بچوں کے شکستہ کاسہِ سر سے رستے بھیجے،کچلے جسم، اور ماؤں کی گود میں دم توڑتے نونہال نظر آرہے ہیں۔ موسلادھار بارش کی طرح  بم برس رہے۔ بمباری اتنی شدید کہ ملبہ ہٹانا تو دور کی بات سڑک پر پڑے زخمیوں کو مرہم پٹی بھی ممکن نہیں۔ کنکریٹ میں دبے لوگوں اور زخمیوں کی چیخوں سے سارا غزہ  گونچ رہا ہے'۔  تاہم کانوں میں مفادات اور خوف کی انگلیاں ڈالے دنیا کو کچھ سنائی نہیں دے رہا

حماس نے  قطر مذاکرات یہ کہہ کر معطل کردئے  ہیں کہ فلسطینی قیددیوں کی اسرائیل سے رہائی اور مکمل جنگ بندی سے  پہلے کوئی بات چیت نہیں ہوگی اور اسی کیساتھ انھوں نے اپنے سپاہیوں کو بھرپور جنگ کا حکم دیدیا جسکے بعد غزہ سے داغے جانیوالے راکٹوں نے تل ابیب سمیت سارے اسرائیل کو نشانہ بنایا۔ اکثر راکٹ امریکہ ساختہ آئرن ڈوم نے روک لئے لیکن چند  راکٹ گرنے سے کچھ عمارتوں کو نقصان پہنچا

انسانی نقصان پر اسرائیل کے اتحادیوں کے 'افسوس' کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی وزیردفاع جنرل (ر) لائیڈ آسٹن  نے فرمایا 'ہم روزانہ اسرائیل سے کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں شہری نقصان کم سے کم ہونا چاہئے'۔نائب امریکی صدر شریمتی کملا دیوی ہیرس دبئی میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں اور کپکپاتے لہجے میں بولیں ' بہت زیادہ معصوم فلسطینی مارے گئے ہیں، غزہ سے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز دل دُکھانے والی ہیں۔' تاہم انھوں نے امریکی پالیسی کے تحت جنگ بندی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا  کہ اسرائیل کو غزہ میں فوجی مقاصد کے حصول کیلئے جاری کاروائیوں میں شہری آبادی کی حفاظت کو یقینی بنایا چایئے۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے انتہائی رعونت سے کہا  'امریکہ مستقل جنگ بندی کی حمایت نہیں کرتا، لیکن ہم وقفہ چاہتے  ہیں'۔فرانس کے صدر ایمیونل میکراں کا خیال ہے کہ 'اگر اسرائیل نے فلسطینی شہریوں کا قتل  جاری رکھتا ہے تو اسے تحفظ حاصل نہیں ہوگا'

مشہور نارویجین ماہر صحت ڈاکٹر میڈس گلبرٹ Mads Gilbertکہتے ہیں ' اسرائیل فوج کا واضح ہدف  (صرف حماس نہیں بلکہ)  فلسطینی قوم کو ختم کرنا ہے'۔ ڈاکٹر صاحب حملوں کے دوران الاقصیٰ ہسپتال میں تھے جہاں سے انھوں نے سیٹیلایٹ فون پر براہ راست صدر بائیڈن اورامریکی وزیرخارجہ کو خطاب کرتے ہوئے انھیں بم دھماکوں اور زخمیوں کی چیخیں سنوائی تھیں۔

اسی دوران فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں کے دو ران تشدد کے ایک آدھ واقعات بھی ہوگئے، ہفتے کی شام پیرس کے ایفل ٹاور کے قریب پچیس سالہ فرانسیسی شہری نے چھرا  گھونپ کر ایک جرمن سیاح کو ہلاک اور دو مقامی لوگوں کو زخمی کردیا۔ گرفتار ملزم کچھ عرصہ پہلے چار سال قید کاٹ کر رہا ہواتھا۔ فرانسیسی وزیرداخلہ کے  مطابق ملزم کا دماغی توازن ٹھیک نہیں اور وہ غزہ قتل عام پر سخت غصے میں تھے۔ اسی دن  امریکی ریست جارجیا کے شہر اٹلانٹا کے اسرائیلی قونصل خانے کے سامنے مظاہرےکے دوران ایک شخص نے بطور احتجاج خود کو آگ لگالی۔ وہاں موجود پولیس اور آگ بجھانے والے عملے نے بروقت امدادی کاروائی کی تاہم آگ بجھنے تک اس شخص کا جسم بری طرح جھلس چکا تھا۔ اسے شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچادیا گیا جہاں اسکی حالت نازک ہے۔

اسرائیلی وحشت اور اس بدترین انسانی المئے کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے۔ جو لوگ اہلِ غزہ کی حراست سے آزادہوکر اسرائیل پہنچے ہیں، انکی اکثریت نے   دوران حراست بہترین  سلوک کا ذکر کیا ہے۔ ایک بچی اپنے چھوٹے سے کتے کے ساتھ زیر حراست آئی۔ غزہ قیام کے دوران کتے کی غذا کا انتظام بھی کیا گیا۔ اسرائیلی حکومت  کو ان لوگوں کی میڈیا سے گفتگو پسند نہیں۔ اسرائیلی وزارت اطلاعات کا خٰیال ہے کہ 'دہشت گردون'نے دوران حراست ان لوگوں کو برین واش کردیا ہے اور اب یہ لوگ حماس کا بیانیہ دہرارہے ہیں۔ ان الزامات پر واپس آنے والے افراد سخت مشتعل ہیں اور انھوں وزیراعظم نیتھن یاہو کی ملاقات کی دعوت مسترد کردی ۔ انکا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج اور حکومت کا انکا کچھ خیال نہ تھا اور دوران حراست انھیں ایک ہی ڈر تھا کہ کہیں وہ اسرائیلی بمباری کا نشانہ نہ بن جائیں۔لڑائی دوبارہ شروع ہونے اور قیدیوں کا تبادلہ معطل ہونے سے بھی اسرائیلی لواحقین سخت پریشان ہیں۔ دو دسمبر کو یروشلم میں وزیراعظم کی رہائش گاہ پر زبردست مظاہرہ ہوا جس میں قیدیوں کی رہائی کیلئے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

اسی دوران امریکی مسلمانوں نے  اپنے نئے سیاسی لائحہِ عمل پر بحث مباحثے کا اغاز کردیا ہے۔ امریکی جمہوریت کی قباحت اسکا دوپارٹی نظام ہے جسکی وجہ سے درست فیصلہ آسان نہیں اور مسلمانوں  کو  'چھوٹی برائی' برداشت کرنی پڑتی ہے۔ منشیات، اسقاط حمل، LGBT جیسے معاملات پر مسلمانوں کی نظریاتی ہم اہنگی قدامت پسند ریپبپکن پارٹی ے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے پرجوش انداز میں صدر بش سینئر اور اسکے بعد انکے بیٹے جونیر بش کو ووٹ دیا۔ لیکن نائن الیون کے بعد قدامت پسند کھل کر مسلمانوں کے خلاف ہوگئے اور 2004 کے بعد سے مسلمانوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی حمائت شروع کردی۔ 2016 کی انتخابی مہم  کے دوران سابق صدر ٹرمپ نے مسلمانوں  کے خلاف انتہائی ناشائشتہ اور دھمکی آمیز زبان استعمال کی جسکی وجہ سے  امریکی مسلمان ڈیموکریٹک پارٹی کے مزید قریب  آگئے۔ صدر بائیڈن نے خود یہ اعتراف کیا کہ انکی کامیابی میں مسلمانوں نے اہم کردار اداکیاتھا۔

لیکن جناب  بائیڈن جس انداز میں اسرائیل کی حمائت کررہے ہیں اس پر مسلمان خاصے مشتعل ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کا اب بھی یہی خیال ہے کہ ناراضگی کے باوجود مسلمانوں کے پاس ڈیموکریٹک پارٹی کی حمائت کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں اسلئے کہ ریپبلکن پارٹی کی مسلمان دشمنی بہت واضح ہے لیکن  غزہ کے معاملے سے ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں کے بارے میں  جو کچھ ڈانلڈ ٹرمپ کی زبان پر ہے وہ زہر صدر بائیڈن نے دل میں چھپایا ہوا تھا جو  وہ اب  اگل رہے ہیں۔

امریکی مسلمانوں کی سیاسی تنظیم  Council on American Islamic  Relationsیا CAIRنے #AbandonBiden مہم کا آغاز کیا ہے۔ مہم کے دوران چھ ریاستوں کو ہدف بنایا جائیگا جہاں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکہ میں  صدارت کا فیصلہ انتخابی کالج سے ہوتا ہے۔ انتخابی کالج میں ہر ریاست کا کوٹہ اسکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ کی مجموعی سیٹوں کے برابر ہے۔ مثال کے طور پر مشیگن کیلئے ایوان نمائندگان کی 14 نشستیں مختص ہیں جبکہ سینیٹ کی دونشستیں ہیں چنانچہ انتخابی کالج  میں مشیگن کی 16  نشستیں ہیں۔ عام انتخابات میں مشگین سے جس امیدوار کو بھی برتری حاصل ہوگی خواہ وہ ایک ووٹ ہی کی کیوں نہ ہو، انتخابی کالج کے تمام کے تمام 16 ووٹ اس امیدوار کے کھاتے میں لکھ دئے جائینگے۔ امریکہ میں انتخابی کالج کے ووٹوں کی مجموعی تعداد 538 ہے اور کامیابی کیلئے کم ازکم 270 ووٹ لینا ضررری ہے۔

انتخابی نتائج پر نظر رکھنے والے مسلم ماہرین کا خیال ہے کہ ایریزونا (Arizona)، مشیگن، مینی سوٹا (Minnesota)،وسکونسن، اور پنسلوانیہ (Pennsylvania) ،  کی ریاستوں میں مسلمان ووٹوں کے  بغیر صدر بائیڈن نہیں جیت سکتے۔ گزشتہ انتخابات میں وہ  ان تمام ریاستوں سے جیتے تھے اور ووٹوں کا فرق بہت معمولی سا تھا چنانچہ انھیں ہرایا جاسکتا ہے۔  ان ریاستوں کے مجموعی انتخابی ووٹوں کی تعداد 67 ہے۔ گزشتہ انتخابات میں صدر بائیڈن 306 انتخابی ووٹ لیکر جیتے تھے اگر اس بار ان پانچ ریاستوں میں شکست دیکر انھیں 67 انتخابی ووٹوں سے محروم کردیا جائے تو وہ 270 کے مطلوبہ ہدف  سے پیچھے رہ جائینگے۔

سوال یہ ہے کہ  صدر بائیڈن کی شکست کی صورت میں جو نتیجہ سامنے آئیگا وہ کیا ہوگا؟ اس حکمت عملی سےرہپبلکن پارٹی کی کامیابی یقینی ہوجائیگی جسکی مسلم دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لیکن صدر بائیڈن نے جس سفاکی سے  غزہ کے قتل عام میں اسر ائیل کی معاونت بلکہ حوصلہ افزائی کی ہے اسکے بعد ان میں اور ڈانلڈ ٹرمپ میں کوئی فرق نہیں رہا تو کیوں نہ انھیں نشان عبرت بناکر ڈیموکریٹک پارٹی کو باور کرادیا جائے کہ امریکی مسلمان  اتنے مضبوط  نہیں کہ حکومت  کو منصفانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرسکیں لیکن جیسے  اندھی طاقت کے بل پر تم نے بم اور bullets  سے ہمارے بچوں کو زندہ درگور کیا،  ballots  کی قوت سے  ہم تمہاری سیاست کو دفن کررہے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 8 دسمبر 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 8 دسمبر 2023

روزنامہ امت کراچی 8 دسمبر 2023

ہفت روزہ رہبر 10 دسمبر 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو

Tuesday, December 5, 2023

Ballots vs Bullerts

 

جو کچھ مستضعفین کے ساتھ ہورہا ہے، اسکے لئے ایک ایک گولی حتیٰ کہ مستکبرین کی وردیاں بھی امریکہ کی فراہم کردہ ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ انتہائی بے شرمی سے نسل کشی کی معاونت کررہی ہے۔

امریکی مسلمان تعداد میں اتنے زیادہ نہیں کہ منتخب نمائندوں کو رائے تبدیلی پر مجبور کرسکیں لیکن مجرموں کو پرچہ انتخاب کے ذریعے نشان عبرت بناسکتے ہیں۔

امریکی جمہوریت کی قباحت اسکا دوپارٹی نظام ہے جسکی وجہ سے درست فیصلہ خاصہ مشکل ہے اور مسلمانوں کو 'چھوٹی برائی' برداشت کرنی پڑتی ہے۔ لیکن اب اس ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی کا اب بھی یہی خیال ہے کہ ناراضگی کے باوجود مسلمانوں کے پاس ڈیموکریٹک پارٹی کی حمائت کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں اسلئے کہ ریپبلکن پارٹی کی مسلمان دشمنی بہت واضح ہے لیکن اب یہ ثابت ہوگیا کہ مسلمانوں کے بارے میں جو کچھ ڈانلڈ ٹرمپ کی زبان پر ہے وہ زہر صدر بائیڈن نے دل میں چھپایا ہوا تھا جسے وہ اب اگل رہے ہیں۔

امریکی مسلمانوں کی سیاسی تنظیم Council on American Islamic Relationsیا CAIRنے #AbandonBiden مہم کا آغاز کیا ہے۔ مہم کے دوران چھ ریاستوں کو ہدف بنایا جائیگا جہاں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔

امریکہ میں صدارت کا فیصلہ انتخابی کالج سے ہوتا ہے۔ انتخابی کالج میں ہر ریاست کا کوٹہ اسکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ کی مجموعی سیٹوں کے برابر ہے۔ مثال کے طور پر مشیگن کیلئے ایوان نمائندگان کی 14 نشستیں مختص ہیں جبکہ سینیٹ کی دونشستیں ہیں چنانچہ انتخابی کالج میں مشیگن کی 16 نشستیں ہیں۔ عام انتخابات میں مشگین سے جس امیدوار کو بھی برتری حاصل ہوگی خواہ وہ ایک ووٹ ہی کی کیوں نہ ہو، انتخابی کالج کے تمام کے تمام 16 ووٹ اس امیدوار کے کھاتے میں لکھ دئے جائینگے۔

امریکہ میں انتخابی کالج کے ووٹوں کی مجموعی تعداد 538 ہے اور کامیابی کیلئے کم ازکم 270 ووٹ لینا ضررری ہے۔

انتخابی نتائج پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ ایریزونا (Arizona)، مشیگن، مینی سوٹا (Minnesota)،وسکونسن، اور پنسلوانیہ (Pennsylvania) ، کی ریاستوں میں مسلمان ووٹوں کے بغیر صدر بائیڈن نہیں جیت سکتے۔ گزشتہ انتخابات میں وہ ان تمام ریاستوں سے جیتے تھے اور ووٹوں کا فرق بہت معمولی سا تھا چنانچہ انھیں ہرایا جاسکتا ہے۔ ان ریاستوں کے مجموعی انتخابی ووٹوں کی تعداد 67 ہے۔ گزشتہ انتخابات میں صدر بائیڈن 306 انتخابی ووٹ لیکر جیتے تھے اگر اس بار ان پانچ ریاستوں میں شکست دیکر انھیں 67 انتخابی ووٹوں سے محروم کردیا جائے تو وہ 270 کے مطلوبہ ہدف سے پیچھے رہ جائینگے۔

سوال یہ ہے کہ صدر بائیڈن کی شکست کی صورت میں جو نتیجہ سامنے آئیگا وہ کیا ہوگا؟ اس حکمت عملی سےرہپبلکن پارٹی کی کامیابی یقینی ہوجائیگی جسکی مسلم دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لیکن صدر بائیڈن نے جس سفاکی سے غزہ کے قتل عام میں اسر ائیل کی معاونت بلکہ حوصلہ افزائی کی ہے اسکے بعد ان میں اور ڈانلڈ ٹرمپ میں کوئی فرق نہیں رہا تو کیوں نہ انھیں نشان عبرت بناکر ڈیموکریٹک پارٹی کو باور کرادیا جائے کہ امریکی مسلمان اتنے مضبوط نہیں کہ حکومت کو منصفانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرسکیں لیکن جیسے اندھی طاقت کے بل پر تم نے بم اور bullets سے ہمارے بچوں کو زندہ درگور کیا، ballots کی قوت سے ہم تمہاری سیاست کو دفن کررہے ہیں۔



Friday, December 1, 2023

روس میں LGBTغیرقانونی

 

روسی عدالت عظمیٰ نے ہم جنس پرستی المعروف LGBTQکو غیر قانونی قراردے دیا۔ یہ رجحان خاندانی روایات اور انسانی فطرت سے متصادم اور آبادی کی فطری نمو و استمرار (Survival) کیلئے شدید خطرہ ہے۔روسی وزارت انصاف نے LGBTQتحریک کو 'انتہا پسند'قراردیتے کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی۔
عدالت نے چارگھنٹے کی سماعت کے بعد ابتدائی حکم جاری کردیا جو فوری طور پر نافذالعمل ہوگا، تفصیی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائیگا۔سماعت کے دوران عدالت کے باہر LGBTکے حامیوں کا مظاہرہ، وردیوں میں ملبوس فوج کے کچھ سپاہی بھی مظاہرے میں شریک تھے۔




Thursday, November 30, 2023

نیدرلینڈ میں مسلم مخالف انتہا پسندوں کی کامیابی

 

نیدرلینڈ میں مسلم مخالف انتہا پسندوں کی کامیابی

نیڈرلینڈ یا ہالینڈ کے حالیہ انتخابات میں اسلام مخالف گیرٹ وائلڈرز (Geerts Wilders)کی 'جماعت برائے آزادی' ولندیزی مخفف PVV سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری ہے۔ اس جماعت کو 150 رکنی ایوان میں 37 نشستیں ملی ہیں۔ یہ انتخابات 2025 میں ہونے تھے لیکن ایمگریشن کے معاملے پر وزیراعظم مائک رُٹ Mark Rutteکے اتحادی انکا ساتھ چھوڑگئے اور حکومت تحلیل ہونے کی بنا پر نئے انتخابات منعقد ہوئے۔ ایک کروڑ اسی لاکھ نفوس اور 42ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر مشتمل یہ ملک شمال مغربی یورپ میں واقع ہے۔ یورپ کے اکثر دوسرے ممالک کی طرح  ماضی میں ہالینڈ  بھی توسیع پسندی، غلامی، جبری قبضے اور  انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب رہا ہے۔

گوری اقوام کی جانب سے  کشور کشائی اور دنیا کو غلام بنانے کا سلسلہ سترہویں صدی کے  آغاز سے ہوا، جب 1600 میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم ہوئی جس نے بعد میں برصغیر کو ہتھیالیا۔ دوبرس بعد ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی، ولندیزی محفف VOC کا قیام عمل میں آیا۔ تجارت کے نام پر میںVOCنے آبنائے ملاکا کے ارد گرد فوجی چوکیاں قائم کیں اور انڈونیشیا کے بڑے علاقے کو غلام بنالیا۔ اسی دوران افریقہ میں انسانوں کا شکار شروع ہوا۔ ہزاروں آزاد افریقیوں کو غلام بناکر یورپ لایا گیا جنکی منڈی ہالینڈ کے ساحلی شہر Rotterdam میں لگاکرتی تھی جسے غلاموں کی تجارت یا Dutch Slave Tardeکا  نام دیا گیا۔ دوسری طرف انگولانژاد 20 پا بہ زنجیر غلاموں کا پہلا قافلہ 1619 میں امریکی ریاست ورجینیا کے ساحلی شہر جیمزٹاون پہنچایا گیا۔ ورجینیا اسوقت ایک برطانوی کالونی تھا۔ ان بد نصیبوں کو پرتگالیوں نے شکار کیا اور White Lion نامی جہاز جیسے ہی جیمزٹاون پر لنگرانداز ہوا یہ تمام کے تمام غلام وہیں بندرگاہ پر فروخت ہوگئے۔اسکے دوسال بعد افریقہ، اور لاطینی امریکہ پر قبضے کیلئے ڈچ ویسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے جال بُناگیا۔

غلاموں کی تجارت اور مغرب کی توسیع پسندی کی روداد ہمارے آج کے موضوع سے مطابقت نہیں رکھتی لیکن  یہ ذکر یہاں  ہم نے اسلئے مناسب سمجھا کہ ہالینڈ کے نئے ممکنہ وزیراعظم کیرٹ وائلڈرز کی سوچ اپنے آباواجداد کی چارسوسالہ پرانی فکر سے مختلف نہیں۔ آج ہی انھوں نے مشرق وسطیٰ امن منصوبہ پیش کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ فلسطینیوں کا اپنا وطن اردن کی شکل میں موجود ہے۔ غزہ اور  یروشلم سمیت مغربی کنارے پر آباد فلسطینیوں کو اردن بھیج کر علاقے میں پائیدار امن قائم کیا جاسکتا ہے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، قبل از وقت انتخاب کی نوبت اسلئے پیش آئی کہ غیر ملکی تارکین وطن کی آمد سے ملک میں بحران پیدا ہوگیا ہے۔ جنگ کی وجہ سے جو یوکرینی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں انکی 40 فیصد تعداد نے ہالینڈ کا رخ کیا ہے۔ اوسطا ہر ماہ ڈھائی ہزار اضافی یوکرینی باشندے ہالینڈ آرہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق  ملک میں یوکرینی مہاجرین کی تعدادایک لاکھ سے زیادہ ہے۔ انکی دیکھ بھال اور بحالی پر بھاری خرچ اٹھ رہا ہے جسے پورا کرنے کیئے حکومت نے انکم ٹیکس کی شرح بڑھادی ہے اور اہل ثروت ولندیزیوں کیئے ٹیکس کی شرح 54 فیصد ہوچکی ہے۔

حالیہ انتخابات میں یوکرینی پناہ گزینوں کی ہالینڈ آمد ایک بنیادی نکتہ تھا۔ امریکی تحریک اسلامی اکنا (ICNA) کے علاقائی اجتماع عام میں ہمیں PVVپارٹی کے سابق رہنما اور گیرت وائلڈرز کے قریبی دوست جناب یورام وین کیورسن (Joram van Klaverson)سے اس معاملے پر بات کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے کہا کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں گیرت کا منفی رویہ  اب بھی ویسا ہی ہےلیکن اسلاموفوبیاکے بجائے  یوکرینی پناہ گزینوں کی آمد سے ڈچ معیشت پرپڑنے والے دباو نے PVVکی کامبابی نے بڑا کردار اداکیا ہے۔ موقر ولندیزی مرکزِ دانش Clingendael Instituteکا کہنا ہے کہ حالیہ انتخابی نتائج کو اسلام  یا یورپ مخالف ووٹ کہنا مناسب نہیں،  یہ دراصل بوسیدہ مقتدرہ (establishment)اور عوامی امنگوں کو نظر انداز کردینے والی طرز حکمرانی کیخلاف عوام کی نفرت کا اظہار ہے۔ ولندیزی عوام روائتی طرزِ حکومت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور گیرت وائلڈرز تبدیلی کا استعارہ بن کر ابھرے ہیں۔

بدھ 22 نومبر کو ہونے والے انتخابات میں سوشلسٹ اور ٓماحول اتحاد  GroenLinks–PvdAدوسرے نمبر پر رہی اور 26 نشستیں اپنے نام کرلیں۔ سابق وزیراعظم کی پیپلز پارٹی برائے  حریت و جمہوریت (VVD)کے حصے میں 24 نشستیں آئیں جو دوسال پہلے  ہونے والے انتخابات سے 10 کم ہیں۔ طرزحکمرانی میں بہتری کے نعرے پر تشکیل دی جاینوالی عمرانی معاہدہ جماعت (NSC)  نے پہلی بار انتخاب لڑا اور 20 نشستیں جیت کر سیاسی پنڈتوں کو حیران کردیا۔ سوشل لبرل جماعت (D66)نے  9، دائیں  بازو کے کسان اتحاد BBBنے 7، مسیحی ڈیموکریٹ CDA اور سوشلسٹ SPنے پانچ پانچ نشستیں حاصل کیں۔ باقی 18 نشستیں 7 جماعتوں میں تقسیم ہوگئیں۔

اب حکومت سازی کا مرحلہ درپیش ہے۔ پارلیمانی روائت کے مطابق ایوان کی سب بڑی جماعت کی حیثیت سے جناب گیرٹ کو تشکیلِ سرکار کی دعوت دی جائیگی۔ انھیں حکومت بنانے کیلئے اپنے 37 ارکان کے ساتھ دوسری جماعتوں  سے کم ازکم  39 مزید ووٹ لینے ہونگے۔ ایوان کی تیسری بڑی اور سابق حکمراں جماعت VVDنے دوٹوک اعلان کیا ہے کہ  وہ جناب گیرٹ کو وزیراعظم نہیں دیکھنا چاہتے۔ اپنے ایک بیان میں پارٹی ترجمان نے کہا کہ انکی جماعت حکومت سازی کیلئے PVVسے تعاون کو تیار ہے  لیکن گیرت وائلڈرز  بطور   وزیراعظم قابلِ قبول نہیں۔ ترجمان نے کہا کہ وزیراعظم بننے کیلئے گیرت کو نفرت کا ایجنڈا ترک کرنا ہوگا۔انتخابی مہم کے دوران گیرت وائلڈرز نے وعدہ کیا ہے کہ برسراقتدار آنے کی صورت میں وہ مدارس، مساجد اور قرآن پر پابندی لگادینگے۔ ٖڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محترمہ   Sigrid Kaagنے بھی تعاون کیلئے مسلم مخالف ایجنڈا ترک کرنے کی شرط عائد کی ہے۔ جناب گیرت کو اندازہ ہوگیا ہے کہ اسلام کو ہالینڈ میں غیر قانونی قراردینا ممکن نہیں۔ انکے ہمخیال سیاسی عناصر بھی جانتے ہیں کہ مسلم برادری  یورپ میں تیزی سے بڑھتی اکائی ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ حکومت سازی کیلئے بات چیت کے دوران قدامت پسند جماعتوں نے بھی انکے مدارس، مسجد اور قرآن ایجنڈے پر شدید تحفطات کا اظہار کیا ہے۔

نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے گیرٹ وائلڈرز نے آج اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا 'میں فطرتاً مثبت و معقول ہوں اور  اعتدال کی طرف اپنا سفر جاری رکھونگا،  میرے لئے سب کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے کیونکہ میں ایک بھاری ذمہ داری کیلئے خود کو پیش کررہا ہوں'۔ اتوار کی صبح اکنا کنونشن میں جب PVVکے سابق رہنما یوران وین کیورسن سے کسی نے سوال کیا کہ اگر گیرت وزیر اعظم بن گئے تو ہالینڈ میں اسلام کا مستقبل کیا ہوگا؟ تو جناب یوران نے کہا کہ گیرت کو اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کیلئے آئین میں ترمیم کرنی ہوگی جو ناممکن ہے۔ اسلاموفوبیا کے عروج کے باوجود ڈچ سیاستدان انتہاپسندی کی حمائت نہیں کرینگے، گیرت وائلڈرز کو کرسی اور اسلاموفوبیا میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ گیرت وائلڈرز کے حالیہ بیانات سے لگتا ہے کہ موصوف اسلام سے نفرت کو  وزرات عظمیٰ سے محبت پر قربان کردینے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔

اس موقع پر جناب گیرت کا ایک مختصر تعارف قارئیں کی دلچسپی کیلئے

ساٹھ سالہ گیرٹ وائلڈر کی تعلیم واجبی سے ہے۔ مزاج بچپن ہی سے آوارگی کی طرف مائل تھا چنانچہ وہ ہائی اسکول مکمل کرتے ہی گھر سے بھاگ کھڑے ہوئے اور ادھار ٹکٹ لیکر اسرائیل چلے گئے۔ یہ وہ دور تھا جب عراق اور ایران کے درمیاں گھمسان کی جنگ ہورہی تھی اور سارے اسرائیل میں مسرت و اطمینان کی لہر دوڑی ہوئی تھی۔ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا داخلی امن اسرائیل کو اسکے بعد کبھی نصیب نہیں ہوا۔ اس عرصے میں گیرت نے عرب ملکوں کا دورہ بھی کیا۔ انکے احباب کا خیال ہے کہ گیرت اس دوران اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد سے وابستہ تھے اور یہ دوڑ بھاگ انکی جاسوسی مہم کا حصہ تھی۔اس دوران آمدنی سے ماورا پرتعیش طرز رہائش پر  2011 میں  انکے خلاف حکومت نے تحقیقات کا حکم دیا جس پر گیرٹ نے ایک خفیہ کمپنی چلانے کا اعتراف کر لیا۔ ڈچ قانون کے مطابق یہ قابل سزا جرم ہے لیکن جس طرح معاملے کو دبا دیا گیا اس سے اسرائیل کے لئے جاسوسی کے الزام میں کسی حد تک صداقت نظرآتی ہے۔ اسرائیل سے واپسی پر گیرٹ ہیلتھ انشورنس فروخت کرنے لگے اور اسی دوران انکی ملاقات VVD کے قائدین سے ہوگئی جنھوں نے انکی  چرب زبانی سے متاثر ہوکر بھاری مشاہرے پر گیرت کو پارٹی کا اسپیچ رائٹر یا خطبہ نویس بھرتی کرلیا۔

خطبہ نویسی کے دوران انھوں نے اسلام کیخلاف نفرت انگیز آتشیں تقریروں کا انبار لگادیا۔ قرآن کو انھوں نے عورتوں کیلئے دستاویزِ غلامی اور دہشت گردی کا تفصیلی ہدائت نامہ کہا۔ انکا کہنا ہے کہ  قرآن دراصل نازی منشور اور ہٹلر کی خود نوشت سوانحمری Mein Kamplf )میری جدوجہد( کا عربی ترجمہ ہے۔ ساتھ ہی وضاحت فرمائی کہ  انھیں مسلمانوں سے نہیں قرآن، اسلام اور پیغمبر اسلام سے نفرت ہے۔ گیرٹ وائلڈر نے توہین اسلام کیلئے فتنہ کے عنوان سے ایک انتہائی نفرت انگیر دستاویزی فلم بھی بنائی۔  نو سال پہلے انھوں نے سعودی سفارتخانے اور اسکے قونصل خانوں پر لہراتے مملکت کے پرچموں پر اعتراض کیا۔ انکا کہنا تھا کہ سعودی جھنڈے پر کلمہ طیبہ تحریر ہے جس سے ڈچ عوام کے جذبات متاثر ہورہے ہیں۔ انھوں نے انتہائی بے شرمی سے کہا 'دہشت و بر بریت کی شہادت )کلمہ طیبہ( سے بہتر ہے کہ پرچم پر کوئی فحش لطیفہ لکھ دیا جائے'

اسلام سے نفرت کے اظہار میں گیرت وائلڈرز کسی تفریق کے قائل نہیں۔ توہین آمیز خاکوں پر دنیا بھر  کے مسلمان سخت مشتعل تھے۔ پاکستان میں تحریک لبیک نے جلوس نکالے جس میں گیرت وائلڈرز کو دھمکیاں دی گئیں۔ کچھ دن بعد عمران  حکومت نے تحریک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کو گرفتار کرلیا۔ اس پر گیرت وائلڈرز نے ایک تہینتی ٹویٹ لکھا جس میں علامہ کی گرفتاری پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا گیا اور جب گزشتہ برس تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران حکومت معزول ہوئی انھوں نے ایک اور تویٹ داغا جس میں اسلاموفوبیا کے خلاف آواز اٹھانے والے عمران خان کی برطرفی کا خیرمقدم کیا گیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپشل کراچی یکم دسمبر 2023

ہفت روزہ دعدوت دہلی یکم دسمبر 2023

روزنامہ امت کراچی یکم دسمبر 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 3 دسمبر 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو