Thursday, December 21, 2023

ہوائے ظلم سوچتی ہے کس بھنور میں آ گئی

 

ہمارا ہفتہ وار کالم

ہوائے ظلم سوچتی ہے کس بھنور میں آ گئی

غزہ میں جنگ بندی  کی آخری قانونی امید  سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو سے ختم ہوگئی اور اب نئی قرارداد پر بھی بائیڈن جی کی خرمستی (گدھا انکی پارٹی کا نشان ہے)  ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ اتمام حجت کے طور پر اقوام متحدہ کے  معتمد عام (سکریٹری جنرل) انتونیو گوتریس نے  بربنائے عہدہ  ملنے والے ہنگامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے سلامتی کونسل سے مداخلت کی درخواست کی تھی۔ دستورِ اقوام متحدہ کے باب 15 (Chapter XV) دفعہ 99 کے تحت  'سیکریٹری جنرل سلامتی کونسل کی توجہ کسی ایسے معاملے کی جانب مبذول کرا سکتے ہیں جو اُن کی رائے میں بین الاقوامی امن و سلامتی کے قیام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے'

سلامتی کونسل کے نام خط میں جناب گوتریس نے لکھا کہ "خراب حالات کی وجہ سے عوامی نظم و نسق بکھر چکا ہے، جس سے محدود انسانی امداد بھی اب ممکن نہیں لہٰذا وہ سلامتی کونسل سے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں' ۔دستور کی پاسداری کرتے  ہوئےکونسل کے صدر نے قیامِ امن  کی قرارداد ایوان کے روبرو میں پیش کردی ۔

قرارداد کے پیش ہوتے ہی  یورپی یونین کے سکریٹری برائے خارجہ امور جوزف بوریل نے اعلان کیاکہ یونین،   سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی  کی حمائت کریگی۔ اسپین کے وزیراعظم پیدرو سنچیز نے دوٹوک انداز میں کہا کہ 'غزہ میں انسانی المیہ ناقابل برداشت ہے۔ میں انتونیو گوتریس کی آرٹیکل 99 کے تحت جنگ بندی کی تجویز کی مکمل حمایت کا اعلان کرتا ہوں۔ سکریٹری جنرل نے اپنی درخواست میں جو وجوہات بیان کی ہیں ان سے میں پوری طرح متفق ہوں۔

جب 8 دسمبر کو رائے شماری ہوئی تو فرانس نے یونین کے فیصلے کے مطابق قرارداد کی حمائت کی  اور چین و روس سمیت  سلامتی کونسل کے پندرہ میں سے تیرہ ارکان نے جنگ بندی کے حق میں ہاتھ  بلند کئے۔ برطانیہ نے رائے شماری میں  حصہ نہیں لیا جبکہ حسب توقع امریکہ بہادر نے  ویٹو کرکے  مسودے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ قرارداد کے مسودے  پر اقوام متحدہ کے 97 ارکان نے تجویز کنندہ کی حیثیت سے دستخط کئے تھے۔

اسکے چار دن بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہی قرارداد 10 کےمقابلے میں 153 ووٹوں نے منظور کرلی۔آسٹریا اور چیک ریپبلک نے یورپی یونین کی سفارشات کو پس پشت ڈالتے ہوئے قرارداد کی مخالفت کی۔ یونین کے رکن ممالک ، جرمنی، نیدرلینڈ، رومانیہ، سلووانیہ نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔  قرارداد کی بھاری اکثریت سے منطوری امریکہ کی سفارتی شکست تو ہے کہ اسکے اتحادی آسٹریلیا، کنیڈا، جاپان اور فرانس نے امن تحریک کی حمائت کی لیکن جنرل اسمبلی کے فیصلے قوت نافذہ سے محروم ہیں لہٰذا ریکارڈ سے زیادہ اس قرارداد کی کوئی اہمیت نہیں۔

غزہ امن کے بارے میں مغربی رہنماوں کے بیانات  محض  مبہم  ہی نہیں سفارتی  منطق سے بھی محروم نظر آتے ہیں، ایک ہفتہ قبل برطانیہ کے وزیرخارجہ ڈیوڈ کیمرون اور انکی جرمن ہم منصب محترمہ انالینا بئر بک  Annalena Baerbockنے برطانوی جریدے  سنڈے ٹائم میں  ایک مضٓمون  لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ 'غزہ میں دیرپا امن وقت کی ضرورت ہے لیکن ہم فوری جنگ بندی کا مطالبہ نہیں کرتے'۔

اقوام متحد ہ میں امریکہ کی سکھا شاہی کے باوجود دنیا،  خوفناک قوتِ قاہرہ کے سامنے اہلِ غزہ کے عزم اور صبر وثبات پر اپنے جذبات کا اظہار کررہی ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل نواز عناصر کی طرف سے شدید اعتراض کے باوجود امریکی ریاست کیلی فورنیا کی فرینسو کاونٹی Fresno County کے ایوانِ بلدیات المعروف  سٹی ہال پر فلسطین کے پر چم لہرادئے گئے۔ کچھ ایسا معاملہ آئرلینڈ میں ہوا جہاں دارالحکومت ڈبلن میں بلدیاتی اسمبلی پر قومی اور بلدیہ کے جھنڈوں کیساتھ ایک ہفتے تک فلسطینی پرچم لہراتے رہے۔

اس وحشت کے خلاف مختلف علاقوں اور حلقوں سے جو ردعمل ظاہر ہورہا ہے  وہ بھی اسرائیل کے لئے اچھا نہیں۔ دنیاکی دو بڑی جہاز راں  کمپنیوں، ڈنمارک کی MEARSKاور جرمنی کی Hapag- Lloyedنے بحر احمر (Red Sea)میں سفر معطل کردیا۔غزہ جنگ چھڑنے کے بعد سے یمن کی ایران نواز حوثی ملیشیا اسرائیل سے آنے اور جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنارہی ہے۔ ان حملوں کی وجہ سے جنوبی بحر احمر، آبنائے باب المندب اور خلیج اومان کا علاقہ  جہاز رانی کیلئے غیر محفوظ ہوگیا ہے اور بیمہ کمپنیاں 'اضافی خطرے ' کے تناظر میں بھاری  پریمیم وصول کررہی ہیں۔

امریکہ کی غیرمشروط حمائت، اسلحے کی فراوانی اور میڈیا کا گلا گھونٹ دینے کے باوجود، جانی و مالی نقصانات کی جو خبریں آرہی ہیں وہ اسرائیلوں کیلئے مایوس کن ہیں۔ غزہ حملے کے آغاز سے ہی اسرائیلی حکومت نے براہ راست رپورٹنگ پر پابندی لگادی ہے۔ قانونِ زباں بندی یا Gag order کے تحت صرف جنگی کونسل (War Council)کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار ہی میڈیا شایع کرسکتے ہیں۔ تاہم سچ کے متلاشی صحافیوں نے 'مدفون حقائق' کی بازیابی کے لئے  فوجی قبرستانوں کا رخ کرلیا۔

اس سلسلے میں روسی ٹی وی (RT) نے جب 18 نومبر کو تل ابیب کے قریب ماونٹ ہرزی عسکری قبرستان (Mount Herzi Military Cemetery)کے ڈایریکٹر ڈیوڈاورن باروخ (David Oren Baruch)سے رابطہ کیا تو ڈائریکٹر صاحب نے کہا 'ہم اوسطاً ہر گھنٹہ ایک نئی قبر کھودرہے ہیں۔ ریکارڈ دیکھ کر جناب باروخ نے بتایا کہ 48 گھنٹوں کے دوران ہم نے 50 میتیں دفنائی ہیں۔ یہ وسط نومبر کی بات ہے جب مزاحمت میں شدت نہیں آئی تھی۔ اب اسرائیلی نقصان ایک فی گھٹہ سے زیادہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دھمکیوں اور اہل غزہ  کو فنا کردینے کے عزم کیساتھ پس پردہ مذاکرات کا ٖڈول ڈالدیا گیا ہے۔ اس  سلسلے کی تازہ ترین  خبر یہ ہے اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ برنی David Barnea نے ناروے میں قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی سے 17 دسمبر کو ملاقات کی۔ ملاقات قطر کے بجائے ناروے میں رکھنے کا مقصد یہ تاثر دینا ہے کہ ہم حماس سے ملنے قطر نہیں گئے بلکہ ایک غیرجانبدار جگہ بات چیت ہورہی ہے۔

غزہ قتل عام کا ایک بڑا محرک ان  لوگوں کو  چھڑانا ہے جنھیں اہل غزہ نے 7 اکتوبر کو قیدی بنالیا تھا۔ جنگی قیدیوں میں کچھ جرنیل بھی شامل ہیں۔اسرائیلی فوج کا خیال تھا کہ خوفناک بمباری سے فلسطینی مزاحمت کار تتر بتر ہوجائینگے اور تل ابیب کا انتہائی تربیت یافتہ چھاپہ مار دستہ اپنے قیدی بازیاب کرالیگا۔ اس آپریشن میں اسرائیل کو امریکہ اور برطانیہ کی مکمل حمائت حاصل تھی جنکے جاسوس ڈرونوں نے غزہ کا چپہ چپہ سونگھ کر اسرائیلی سراغرساں اداروں کے مطابق قیدیوں کے ٹھکانے معلوم کرلئے تھے۔ لیکن مستضفین بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے۔ آٹھ دسمبر کو جب پہلی کاروائی ہوئی تو مزاحمت کار اسرائیلی چھاپہ مارواں کے استقبال کو موجود تھے۔ فائرنگ کے تبادلے میں دو اسرائیلی کمانڈو زخمی ہوگئے اور قید سپاہی 24 سالہ سعر بروش (Saar Baruch) بے موت ماراگیا

ایک ہفتے بعد شجاعیہ میں ہونے والی کاروائی مزید مہلک ثابت ہوئی اور مستضعفین کے اچانک حملے سے گھبراکر اپنے  تین قیدیوں کو اسرائیلی فوج نے خود ہی گولی ماردی۔اس واقعہ کے خلاف اسرائیل میں شدید ردعمل ہوا اور کچھ لوگوں نے ان جوانوں کے قتل کا پرچہ فوج کے سربراہ کے ِخلاف کاٹنے کا مطالبہ کردیا۔ اسی شام تل ابیب میں ایک بہت بڑے مظاہرے سے ٓخطاب کرتے  ہوئے  لواحقین کی نمائندہ محترمہ نوم پیری Noam Perry نے اپنے جذباتی خطاب میں  کہا 'ہم صرف لاشیں اٹھارہے ہیں۔ حکمرانو! جنگ بند کرکے بامقصد مذاکرات کرو تاکہ ہمارے پیارے بخیریت واپس آجائیں۔ تم طاقت کے ذریعے ہمارے قیدی نہیں چھڑاسکے، اب امن کو ایک موقع دو'

اسی دبا و کا نتیجہ ہے کہ17 دسمبر  کو قوم سے خطاب میں وزیراعظم  بن یامین نیتھں یاہو المعروف بی بی نے شروع میں طوطے کی طرح  جنگی منتر دہرایا کہ غزہ حملہ اسرائیلی بقا کی جنگ ہے جو دباؤ، جانی نقصانات اور اخراجات کے باوجود مکمل فتح تک لری جائیگی۔ پھر خود ہی بولے کہ قیدیوں کی رہائی کیلئے انھوں نے سراغرساں ادارے موساد کو بات چیت کا اختیار دے دیا ہے۔مزے کی بات کہ بی بی کے اعلان سے پہلے ہی موساد کے سربراہ امن مذاکرات کیلئے ناروے پہنچ چکے تھے۔

سوال یہ ہے کہ نقصانات اور  عوام کا دباو اسرائیلی حکومت کو معقولیت کی طرف مائل کرنے میں اب تک ناکام کیوں ہے تو امریکی محکمہ سراغرسانی کا خیال ہے کہ بی بی جنگ کی طوالت کو اپنی سیاسی بقا کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم اور انکی اہلیہ کیخلاف کرپشن کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ بی بی اپنے منصب اور اب ہنگامی صورتحال کا بہانہ کرکے معاملہ ٹال رہے ہیں۔ جنگ ختم ہونے کی صورت میں انھیں پیشیاں بھگتنی ہونگی۔

اعصاب کی اس جنگ میں  اہلِ غزہ کا پلہ بھاری لگتا ہے کہ 70 دن کی مسلسل بمباری، 9 ہزار سے زیادہ بچوں کی شہادت اور سارے غزہ کو کھنڈد بنادینے کے باوجود اسرائیلی اپنا ایک بھی قیدی بزور قوت رہانہیں کراسکے تو دو سری طرف  قیدیوں کے عزیزو اقارب کیلئے  جدائی ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔ اسرائیل کے تجارتی مراکز اور چوراہوں پر پر Neon Signکی شکل میں گھڑیاں آویزاں کرکے لواحقین نے اپنے پیاروں کی حراست کے  لمحات گننے شروع کردئے ہیں۔

اہل غزہ نے ایک بیان میں اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ عارضی نہیں بلکہ اسرائیل کی جانب سے مکمل، دیرپا اور غیر مشروط جنگ بندی سے پہلے کسی قیدی کی رہائی ناممکن ہے۔انکا مطالبہ ہے کہ اسرائیلی سپاہ 7 اکتوبر کی پوزیشن پر واپس جائے اور جب تک  جارحیت ہمیشہ کے لئے بند نہیں ہوجاتی، کوئی قیدی رہا نہیں ہوگا۔ قیدیوں کا تبادلہ مکمل ہونے کے بعد اسرائیل کی جانب سے غزہ پر دوبارہ حملہ نہ کرنے کی تحریری ضمانت بھی انکی شرائط میں شامل ہے۔

مزاحمت کاروں کا اعتماد،  انکی برجستگی سے بھی ظاہر ہورہا ہے۔ اسرائیلی فوج ،  حماس قائدین کی گرفتاری میں اہل غزہ کے تعاون کیلئے اپنے طیاروں سے بڑٖے پیمانے پر پمفلٹ گرارہی ہے۔ پمفلٹ میں  رہنماوں کے سروں کی قیمت کیساتھ طنز کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ  'حماس کی کمر ٹوٹ چکی اب انکے رہنما انڈے بھی نہیں تل سکتے'۔ اسکا جواب آیا کہ 'انڈے فرائی کرنے کا وقت کس کے پاس ہے؟ ہمارے مزاحمت کار  MERKAVA(اسرائیلی ٹینک) بھوننے میں مصروف ہیں۔

ہفتہ روزہ دعوت دہلی، 22 دسمبر 2023

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 22 دسمبر 2023

روزنامہ امت کراچی 22 دسمبر 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 24 دسمبر 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو

No comments:

Post a Comment