گولی کا جوا ب پرچی Ballot vs Bullet
ایک
ہفتہ وقفے کے بعد غزہ پر بمباری کا سلسلہ
پھر شروع ہوگیا۔ اسی کیساتھ ٹینکوں سے گولہ باری اور بحر روم میں تعنیات اسرائیلی جہاز سمندر سے خشکی پر مار
کرنے والے میزائیل داغ رہے ہیں۔ جنگ بندی ختم ہونے کے پہلے 12 گھنٹوں میں اسرائیلی
بمباروں نے 400 مقامات کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں امریکہ کے فراہم کردہ بنکر
شکن Bunker Busterبم استعمال ہوئے۔ یہ بم امریکہ نے افغانستان میں پہاڑی چٹانوں کو پاش پاش کرنے کیلئے استعمال کئے
تھے۔ BLU-109 بموں میں 2000 پونڈ دھماکہ خیز مواد بھرا ہوتا ہے جو 20 فٹ موٹی
کنکریٹ کی تہہ کو ریزہ ریزہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسرائیل یہ بم غزہ کی شہری
عمارات پر گرارہا ہے۔ امریکی وزارت
دفاع کے ذرایع کا کہنا ہے کہ وحشت کے آغاز سے اب تک 15000 بم
اور ٹینکوں کے 56000 گولے اسرائیل
بھیجے گئے ہیں۔ (حوالہ وال اسٹریٹ جرنل) ۔
خان
یونس میں ایک حملے کی روداد بیان کرتے
ہوئے الجزیزہ کے نمائندے طارق ابوعظام نے بتایا کہ بم پھٹتے ہوئے زمین ہلتی محسوس ہوئی اور ایک
بلند عمارت چند لمحوں میں ریت کا ڈھیر بن گئی۔ یہ سب کچھ ایسا آناًفاناً ہوا کہ
مرنے والوں کی چیخیں بھی نہ سنائی دیں۔ اسرائیلی ذریع کا کہنا ہے کہ اب تک غزہ پر 40 ہزار ٹن بارود گرایاجاچکاہے۔ 2
دسمبر کی شب نصر ہسپتال کے احاطے سے بات کرتے ہوئے UNICEFکے
ترجمان جیمز ایلڈر نے کہا ' جدھر دیکھو جھلسے ہوئے بچے، بموں کے زخم، ننھے بچوں کے شکستہ کاسہِ
سر سے رستے بھیجے،کچلے جسم، اور ماؤں کی گود میں دم توڑتے نونہال نظر آرہے ہیں۔ موسلادھار بارش کی طرح بم
برس رہے۔ بمباری اتنی شدید کہ ملبہ ہٹانا تو دور کی بات سڑک پر پڑے زخمیوں کو مرہم پٹی بھی
ممکن نہیں۔ کنکریٹ میں دبے لوگوں اور زخمیوں کی چیخوں سے سارا غزہ گونچ رہا ہے'۔
تاہم کانوں میں مفادات اور خوف کی انگلیاں ڈالے دنیا کو کچھ سنائی نہیں دے
رہا
حماس
نے قطر مذاکرات یہ کہہ کر معطل کردئے ہیں کہ فلسطینی قیددیوں کی اسرائیل سے رہائی اور
مکمل جنگ بندی سے پہلے کوئی بات چیت نہیں
ہوگی اور اسی کیساتھ انھوں نے اپنے سپاہیوں کو بھرپور جنگ کا حکم دیدیا جسکے بعد
غزہ سے داغے جانیوالے راکٹوں نے تل ابیب سمیت سارے اسرائیل کو نشانہ بنایا۔ اکثر
راکٹ امریکہ ساختہ آئرن ڈوم نے روک لئے لیکن چند راکٹ گرنے سے کچھ عمارتوں کو نقصان پہنچا
انسانی
نقصان پر اسرائیل کے اتحادیوں کے 'افسوس' کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی وزیردفاع جنرل (ر)
لائیڈ آسٹن نے فرمایا 'ہم روزانہ اسرائیل سے کہہ رہے ہیں کہ غزہ میں شہری نقصان کم سے کم
ہونا چاہئے'۔نائب امریکی صدر شریمتی کملا دیوی ہیرس دبئی میں صحافیوں سے باتیں کرتے
ہوئے آبدیدہ ہوگئیں اور کپکپاتے لہجے میں بولیں ' بہت
زیادہ معصوم فلسطینی مارے گئے ہیں، غزہ سے آنے والی تصاویر اور ویڈیوز دل دُکھانے
والی ہیں۔' تاہم انھوں نے امریکی پالیسی کے تحت جنگ بندی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو غزہ میں فوجی مقاصد کے حصول کیلئے
جاری کاروائیوں میں شہری آبادی کی حفاظت کو یقینی بنایا چایئے۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے انتہائی رعونت سے
کہا 'امریکہ مستقل جنگ بندی کی حمایت نہیں
کرتا، لیکن ہم وقفہ چاہتے ہیں'۔فرانس کے صدر ایمیونل میکراں
کا خیال ہے کہ 'اگر اسرائیل نے فلسطینی شہریوں کا قتل جاری رکھتا ہے تو اسے تحفظ حاصل نہیں ہوگا'
مشہور نارویجین ماہر صحت ڈاکٹر میڈس گلبرٹ Mads Gilbertکہتے ہیں ' اسرائیل فوج کا واضح ہدف (صرف حماس نہیں بلکہ) فلسطینی قوم کو ختم کرنا ہے'۔ ڈاکٹر صاحب حملوں
کے دوران الاقصیٰ ہسپتال میں تھے جہاں سے انھوں نے سیٹیلایٹ فون پر براہ راست صدر
بائیڈن اورامریکی وزیرخارجہ کو خطاب کرتے ہوئے انھیں بم دھماکوں اور زخمیوں کی
چیخیں سنوائی تھیں۔
اسی دوران فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں کے دو ران تشدد کے ایک آدھ واقعات بھی
ہوگئے، ہفتے کی شام پیرس کے ایفل ٹاور کے قریب پچیس سالہ فرانسیسی شہری نے چھرا گھونپ کر ایک جرمن سیاح کو ہلاک اور دو مقامی
لوگوں کو زخمی کردیا۔ گرفتار ملزم کچھ عرصہ پہلے چار سال قید کاٹ کر رہا ہواتھا۔ فرانسیسی
وزیرداخلہ کے مطابق ملزم کا دماغی توازن
ٹھیک نہیں اور وہ غزہ قتل عام پر سخت غصے میں تھے۔ اسی دن امریکی ریست جارجیا کے شہر اٹلانٹا کے اسرائیلی
قونصل خانے کے سامنے مظاہرےکے دوران ایک شخص نے بطور احتجاج خود کو آگ لگالی۔ وہاں
موجود پولیس اور آگ بجھانے والے عملے نے بروقت امدادی کاروائی کی تاہم آگ بجھنے تک
اس شخص کا جسم بری طرح جھلس چکا تھا۔ اسے شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچادیا گیا
جہاں اسکی حالت نازک ہے۔
اسرائیلی وحشت اور اس بدترین انسانی المئے کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے۔ جو لوگ اہلِ
غزہ کی حراست سے آزادہوکر اسرائیل پہنچے ہیں، انکی اکثریت نے دوران
حراست بہترین سلوک کا ذکر کیا ہے۔ ایک بچی
اپنے چھوٹے سے کتے کے ساتھ زیر حراست آئی۔ غزہ قیام کے دوران کتے کی غذا کا انتظام
بھی کیا گیا۔ اسرائیلی حکومت کو ان لوگوں
کی میڈیا سے گفتگو پسند نہیں۔ اسرائیلی وزارت اطلاعات کا خٰیال ہے کہ 'دہشت گردون'نے
دوران حراست ان لوگوں کو برین واش کردیا ہے اور اب یہ لوگ حماس کا بیانیہ دہرارہے
ہیں۔ ان الزامات پر واپس آنے والے افراد سخت مشتعل ہیں اور انھوں وزیراعظم نیتھن یاہو
کی ملاقات کی دعوت مسترد کردی ۔ انکا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج اور حکومت کا انکا
کچھ خیال نہ تھا اور دوران حراست انھیں ایک ہی ڈر تھا کہ کہیں وہ اسرائیلی بمباری
کا نشانہ نہ بن جائیں۔لڑائی دوبارہ شروع ہونے اور قیدیوں کا تبادلہ معطل ہونے سے
بھی اسرائیلی لواحقین سخت پریشان ہیں۔ دو دسمبر کو یروشلم میں وزیراعظم کی رہائش
گاہ پر زبردست مظاہرہ ہوا جس میں قیدیوں کی رہائی کیلئے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے
کا مطالبہ کیا گیا۔
اسی دوران امریکی مسلمانوں نے اپنے نئے
سیاسی لائحہِ عمل پر بحث مباحثے کا اغاز کردیا ہے۔ امریکی جمہوریت کی قباحت اسکا
دوپارٹی نظام ہے جسکی وجہ سے درست فیصلہ آسان نہیں اور مسلمانوں کو 'چھوٹی برائی' برداشت کرنی پڑتی ہے۔ منشیات،
اسقاط حمل، LGBT جیسے معاملات پر مسلمانوں کی نظریاتی ہم اہنگی قدامت پسند ریپبپکن
پارٹی ے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے پرجوش انداز میں صدر بش سینئر اور
اسکے بعد انکے بیٹے جونیر بش کو ووٹ دیا۔ لیکن نائن الیون کے بعد قدامت پسند کھل
کر مسلمانوں کے خلاف ہوگئے اور 2004 کے بعد سے مسلمانوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی حمائت
شروع کردی۔ 2016 کی انتخابی مہم کے دوران
سابق صدر ٹرمپ نے مسلمانوں کے خلاف
انتہائی ناشائشتہ اور دھمکی آمیز زبان استعمال کی جسکی وجہ سے امریکی مسلمان ڈیموکریٹک پارٹی کے مزید قریب آگئے۔ صدر بائیڈن نے خود یہ اعتراف کیا کہ انکی
کامیابی میں مسلمانوں نے اہم کردار اداکیاتھا۔
لیکن جناب بائیڈن جس انداز میں
اسرائیل کی حمائت کررہے ہیں اس پر مسلمان خاصے مشتعل ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کا اب
بھی یہی خیال ہے کہ ناراضگی کے باوجود مسلمانوں کے پاس ڈیموکریٹک پارٹی کی حمائت
کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں اسلئے کہ ریپبلکن پارٹی کی مسلمان دشمنی بہت واضح ہے
لیکن غزہ کے معاملے سے ثابت ہوگیا کہ
مسلمانوں کے بارے میں جو کچھ ڈانلڈ ٹرمپ
کی زبان پر ہے وہ زہر صدر بائیڈن نے دل میں چھپایا ہوا تھا جو وہ اب اگل رہے ہیں۔
امریکی مسلمانوں کی سیاسی تنظیم Council on American Islamic
Relationsیا CAIRنے #AbandonBiden مہم کا آغاز کیا ہے۔ مہم کے دوران چھ ریاستوں کو
ہدف بنایا جائیگا جہاں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکہ میں صدارت کا فیصلہ انتخابی کالج سے ہوتا ہے۔
انتخابی کالج میں ہر ریاست کا کوٹہ اسکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ کی مجموعی
سیٹوں کے برابر ہے۔ مثال کے طور پر مشیگن کیلئے ایوان نمائندگان کی 14 نشستیں مختص
ہیں جبکہ سینیٹ کی دونشستیں ہیں چنانچہ انتخابی کالج میں مشیگن کی 16 نشستیں ہیں۔ عام انتخابات میں مشگین سے جس امیدوار
کو بھی برتری حاصل ہوگی خواہ وہ ایک ووٹ ہی کی کیوں نہ ہو، انتخابی کالج کے تمام کے
تمام 16 ووٹ اس امیدوار کے کھاتے میں لکھ دئے جائینگے۔ امریکہ میں انتخابی کالج کے
ووٹوں کی مجموعی تعداد 538 ہے اور کامیابی کیلئے کم ازکم 270 ووٹ لینا ضررری ہے۔
انتخابی
نتائج پر نظر رکھنے والے مسلم ماہرین کا خیال ہے کہ ایریزونا (Arizona)، مشیگن، مینی سوٹا (Minnesota)،وسکونسن، اور پنسلوانیہ (Pennsylvania) ، کی ریاستوں میں مسلمان
ووٹوں کے بغیر صدر بائیڈن نہیں جیت سکتے۔ گزشتہ
انتخابات میں وہ ان تمام ریاستوں سے جیتے
تھے اور ووٹوں کا فرق بہت معمولی سا تھا چنانچہ انھیں ہرایا جاسکتا ہے۔ ان ریاستوں کے مجموعی انتخابی ووٹوں کی تعداد 67
ہے۔ گزشتہ انتخابات میں صدر بائیڈن 306 انتخابی ووٹ لیکر جیتے تھے اگر اس بار ان
پانچ ریاستوں میں شکست دیکر انھیں 67 انتخابی ووٹوں سے محروم کردیا جائے تو وہ 270
کے مطلوبہ ہدف سے پیچھے رہ جائینگے۔
سوال یہ ہے کہ صدر بائیڈن کی شکست کی
صورت میں جو نتیجہ سامنے آئیگا وہ کیا ہوگا؟ اس حکمت عملی سےرہپبلکن پارٹی کی
کامیابی یقینی ہوجائیگی جسکی مسلم دشمنی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لیکن صدر بائیڈن نے جس
سفاکی سے غزہ کے قتل عام میں اسر ائیل کی
معاونت بلکہ حوصلہ افزائی کی ہے اسکے بعد ان میں اور ڈانلڈ ٹرمپ میں کوئی فرق نہیں
رہا تو کیوں نہ انھیں نشان عبرت بناکر ڈیموکریٹک پارٹی کو باور کرادیا جائے کہ امریکی
مسلمان اتنے مضبوط نہیں کہ حکومت کو منصفانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کرسکیں
لیکن جیسے اندھی طاقت کے بل پر تم نے بم
اور bullets سے ہمارے بچوں کو زندہ درگور کیا، ballots کی قوت سے ہم تمہاری سیاست کو دفن کررہے ہیں۔
ہفت
روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 8 دسمبر 2023
ہفت
روزہ دعوت دہلی 8 دسمبر 2023
روزنامہ
امت کراچی 8 دسمبر 2023
ہفت
روزہ رہبر 10 دسمبر 2023
روزنامہ
قومی صحافت لکھنو
No comments:
Post a Comment