Monday, August 28, 2023

گوانتا نامو بے قید خانہ ۔۔ لاقانونیت اور تشدد کی علامت

 

گوانتا نامو بے قید خانہ ۔۔ لاقانونیت اور تشدد کی علامت

امریکی نشریاتی ادارے CBSکے مطابق امریکی فوج سے غیر تحریری مفاہمت  کے نتیجے میں نائن الیون(9/11) کے پانچ بڑے ملزمان سزائے موت نہ ملنے کی ضمانت پر اعترافِ جرم کیلئے تیار ہوگئے ہیں۔ خبر کے مطابق  پینٹاگون (امریکی وزارت دفاع) نے سانحہ نائن الیون میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا کو خط بھیجے ہیں جس میں کہا گیا کہ امریکی فوج واقعہ کے مبینہ سرغنہ خالد شیخ محمد اور انکے چار ساتھیوں مصطفیٰ احمد آدم ھوساوي، رمزي بن الشيبہ، ولید بن اتش اور عمار البلوشی (بلوچ) سے ایک معاہدے پر غور کررہی ہے جسکے تحت یہ پانچوں اپنے جرائم کا اعتراف کرلینگے جسکے جواب میں انھیں طویل مدت قید کی سزائیں دے دی جائینگی۔

ان تمام کو دوسرے سینکڑوں افراد کے ساتھ پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا جنھیں جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے مختلف علاقوں سے گرفتار کرکے پیسوں کے عوض امریکہ کے حوالے کیا۔یہ پانچوں افراد سی آئی اے کی تحویل میں تھے جنھیں 2006 میں کیوبا کے جزیرے گوانتا نامو بے منتقل کیا گیا۔ ملزمان کو اعتراف جرم کیلئے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اسکی روح فرسا تفصیلات امریکی کانگریس میں بھی بیان کی گئیں۔صدر اوباما نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں ان لوگوں کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلانے کی منظوری دیدی لیکن اب تک ملزمان پر فردجرم نہیں عائد کی جاسکی۔ فوج کے قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ تشدد (torture)سے حاصل کئے اعتراف کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔بعض مبینہ دہشت گردوں پر شدید نوعیت کا تشدد کیا گیا۔ عمار البلوشی نے تحریری بیان میں کہا ہے کہ اگر سزائے موت نہ دینے کی ضمانت دی جائے تو تشدد کے نتیجے میں اسے جو معذوری لاحق ہوئی اسکے علاج معالجے و طبی دیکھ بھال کے عوض وہ جرم قبول کرنے اور طویل سزا کاٹنے کیلئے تیار ہے۔

تاہم ہلاک شدگان کے وارثین اس پر تیار نہیں اور کئی افراد اس معاہدے کو انصاف کا قتل قرار دے رہے ہیں۔ دوسری طرف فوج کے قانونی ماہرین پریشان ہیں کہ مقدمہ پیش کیسے کیا جائے؟ حکومت کی جانب سے نے ابلاغ عامہ کے سامنے تشدد کے اعتراف کے علاوہ امریکی سینیٹ میں بھی اس پر تفصیلی بحث ہوچکی ہے۔بش انتظامیہ کے نائب صدر   ڈک چینی نے تشدد کا اعتراف ہی نہیں بلکہ اسکی حمائت کرتے ہوئے سب کے سامنے کہا تھا کہ 'تھوڑی سی سختی' کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات   دہشت گردمنصوبوں کو  ناکام بنانے میں بے حد مددگارثابت ہورہی ہیں۔ تشدد پر تشویش کو حقارت سے مسترد کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'ان وحشی دہشت گردوں پر سختی نہیں تو کیا انھیں پیار کیا جائے؟' امریکہ کی شہری آزادیوں کی انجمن ACLUکے مطابق گوانتانامو میں کم ازکم 26 قیدیوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔انجمن کا کہنا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (FBI)کے 200 سے زیادہ ایجنٹ   قیدیوں پر تشدد کے عینی شاہد ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکن ایک عرصے سے گوانتا نامو بے قیدخانہ بند کرنے  مطالبہ کررہے ہیں، سابق صدر بارک حسین اوباما نے اس عقوبت کدے کو بند کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن ریپبلکن پارٹی کی شدید مخالفت کو سامنا کرنا احساس کمتری کے مارے کمزور صدر اواباما کیلئے ممکن نہ تھا۔ انکے بعد آنے والے صدر ٹرمپ نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے انسانیت کے ماتھے پرکلنگ کےاس ٹیکے کو غیر معینہ مدتک کیلئے دوام بخش دیا۔

صدر بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران گوانتانامو بند کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انکے حلف اٹھانے کے دوماہ بعد سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے انصاف کے سربراہ  ڈک ڈربن  Dick Durbinسمیت 24 سینیٹروں  نے  ایک خط میں  گوانتا نامو کو لاقانونیت اور تشدد کی علامت قرار دیتے ہوئے اسے فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ خط میں کہا گیا تھا کہ 'گوانتانامو نے امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، مسلم مخالف تعصب کو ہوا دی اور ملک کو کمزور کیا'۔ ہم نے فاضل امریکی سینٹروں کے ارشادات ہی کو سرنامہ کلام بنایا ہے۔ خط کی وصولی پرصدر بائیڈن کی ترجمان محترمہ جین ساکی نے  کہا تھا کہ امریکی صدر کیوبا کے امریکی اڈے گوانتا نامو میں  قائم جیل خانے کو بند کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔ بندش مرحلہ وار ہوگی اور صدر جو بائیڈن اپنی مدت صدارت ختم ہونے سے پہلے اس جیل خانے کو تالہ لگادینا چاہتے ہیں۔

 یہ قیدخانہ لاقانونیت کا شاہکار تو ہے ہی،  بحر غرب الہند یاکریبین Caribbean میں واقع اس جزیرے پر امریکی عملداری بھی زور  زبردستی کی ایک مثال ہے۔ امریکہ نے  1898میں پورتوریکو، فلپائن اور گوام کیساتھ کیوبا پر  قبضہ کرلیا جسے 1902میں آزادی دیدی گئی۔اسکے ایک سال بعد امریکہ کے صدر تھیوڈور روزویلٹ نے یکطرفہ معاہدے کے تحت خلیج گوانٹامو میں واقع  45مربع کلومیٹر کا جزیرہ دوہزار ڈالر سالانہ کرائے پر لے کر یہاں امریکی بحریہ کا اڈہ قائم کردیا۔ کیوبا کے لوگوں کو اس معاہدے پر سخت اعتراض تھا مگر وہ امریکہ کے ہاتھوں ہسپانیوں کی شکست کے عبرت انگیز مناظر دیکھ چکے تھے لہٰذا انھوں نے خاموشی ہی میں عافیت جانی۔  کیوبا کا وزیراعظم بنتے ہی 1959 میں فیڈل کاسترو نے اس لیزکے خاتمے کا اعلان کردیا۔ انکا کہنا تھا کہ اگر 1903کے معاہدے کو جائر قرار دیدیا جائے تب بھی  قانون کرایہ داری کے تحت واشنگٹن اپنے حق سے محروم ہوچکا ہے کہ اس نے گزشتہ چھپن سال سےکرایہ ادا نہیں کیااور اسکے ساتھ ہی جزیرے کو تازہ پانی کی فراہمی بند کردی گئی۔ امریکہ نے کاسترو کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ کرائے کا چیک باقاعدگی سے ہوانا (دارلحکومت) روانہ کیا جارہا ہے یہ اور بات کہ  کیوبا کی حکومت نے امریکی حکومت کا کوئی چیک اب تک بھنایانہیں ۔ میٹھے پانی کیلئے امریکہ بحریہ نے جزیرے پر کنویں کھود لئے۔کیوبا نےقہر درویش بر جان درویش کے مصداق خاموش رہنے ہی میں عافیت جانی۔

اکتوبر 2001میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد القاعدہ اور طالبان کے قیدیوں کو رکھنے کا مسئلہ درپیش ہوا۔ قیدیوں کو امریکہ لانےکی صورت میں یہ لوگ امریکی سول عدالتوں سے رجوع کرسکتے تھے اور بش انتظامیہ کو خوف تھا کہ ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی بنا پر اکثر قیدیوں کو امریکی عدالت ضمانت پر رہاکردیگی۔چنانچہ انھیں جنگی قیدی قرار دیکر انکے کیلئے گوانتا نامو میں قیدخانہ تعمیر کردیا گیا۔ انسانی حقوق کے کارکنان اسے قید خانے سے زیادہ عقوبت کدہ قراردیتے ہیں جہاں قیدیوں پردن رات انسانیت سوز تشددکیا جاتاہے اور اسکے نتیجے میں قیدیوں پر جو گزرتی ہے وہ  اپنی جگہ یہاں مامور سپاہیوں اور محافظین  کی بڑی تعداد بھی یہ مناظر دیکھ کر نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوگئی ہے۔اوبامہ انتظامیہ کے اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کا خیال تھا کہ ملزمان کے خلاف ایسا مواد موجود نہیں جسکے مطابق فردجرم تیار کی جاسکے۔ بے پناہ تشدد کے باوجود کسی بھی قیدی سے وہ معلومات نہیں حاصل ہوسکیں جو عدالت میں پیش کئے جانے کے قابل ہوں۔ اٹارنی جنرل کا خیال تھاکہ اگر عدالت میں پیشی کے دوران ان ملزمان نے ظلم و تشدد کی روح فرسا داستان سنانی شروع کردی تو الٹا لینے کے دینے پڑسکتے ہیں۔ خالد شیخ محمد، ابو زبیدہ اور چند دوسرے لوگوں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے کی اجازت دی گئ لیکن انکے خلاف بھی تادم تحریر فرد جرم تک مرتب نہ ہوسکی۔

جنوری 2002 کو قائم  ہونے قید خانے میں کل 779 قیدی تھے۔  سالوں کی تحقیقات کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ دودرجن قیدیوں کے علاوہ تمام گرفتار لوگ یا تو طالبان اور القاعدہ کے ہمدرد تھے یا وہ طلبہ جو افغان مدارس میں تعلیم کیلئے آئے تھے۔ ان میں سےکوئی بھی جنگجو یا دہشت گرد نہیں تھا۔جنگ کے دوران ان لوگوں کی اکثریت بھاگ کر پاکستان آگئی جنھیں جنرل پرویز مشرف نے دہشت گرد قرار دیکر پانچ سے دس ہزار ڈالر کے عوض سی آئی اے کو فروخت کردیا،  ACLUکا کہنا ہے کہ یہاں لائے جانیوالے بدنصیبوں کی 86 فیصد تعداد کو پاکستانی فوج نے ملک کے مختلف علاقوں  سے پکڑا جبکہ صرف  5 فٰیصد کو افغانستان سے امریکی فوج یا سی آئی ائے کے ایجنٹوں نے گرفتار کیا۔بے پناہ تشد کے بعد بھی کسی پردہشت گردی کا الزام ثابت نہ ہوسکا اور چار پانچ سالوں کے دوران پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف سمیت تقریباً تمام  افغان  رہا کردئے گئے۔

تادم تحریر یہاں 40 قیدی نظر بند ہیں جن میں سے 26 پر مقدمے قائم کئے گئے ہیں۔ ۔یہاں بند 5 افراد ایسے بھی ہیں جنکی بے گناہی ثابت ہوچکی لیکن انکے حوالے سے دہشت گردی کی ایسی دیومالائی کہانیاں گھڑ کر پھیلادی گئیں ہیں کہ کوئی ملک انھیں لینے کو تیار نہیں۔

گوانتانامو اخراجات کے اعتبار سے دنیا کا سب  سے مہنگا قید خانہ ہے جہاں ایک قیدی پر اوسطاً ایک کروڑ تیس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ امریکہ کی وفاقی جیلوں کا سالانہ خرچ 32 ہزار ڈالر فی قیدی  ہے۔ گوانتانامو میں سب سے کم عمر  ایک تیرہ سالہ بچہ اور معمر ترین فرد  89 سال کا تھا۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران یہاں  6 قیدیوں نے خودکشی کی لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا خیال ہے کہ بہیمانہ تشدد نے ان لوگوں کی جانیں لیں۔ ان میں سب سے مشہور سعودی شہری  یاسر طلال الظہرانی تھا جسے 16 برس کی عمر میں فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا۔ پانچ سال بعد وہ اپنے سیل میں مردہ پایاگیا۔ امریکی فوج کی رپورٹ کے مطابق اس 21 سالہ لڑکے نے خودکشی کی تھی۔ لاش کے سعودی عرب پہنچنے پر اسکے والد طلال عبداللہ الظہرانی نے بتایا کہ انکے بیٹے کے جسم پر ضربات اور تشدد کے گہرے نشانات تھے۔ عبداللہ الظہرانی سعودی فوج کے ایک افسر ہیں۔ گوانتانامو میں 21 قیدی 18 سال سے کم عمر یعنی بچے تھے۔

ہفتے کے دن  فوجی عدالت کے  پہلے  فیصلے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں جو ایک دن پہلے یعنی  18 اگست کو سنایا گیا۔ یمن میں امریکی بحریہ کے جہاز یو ایس ایس کول پر 2000 میں ہونے والے حملے کے مبینہ سرغنہ  عبدالرحیم النشیری کے مقدمے  کا فیصلہ سناتے ہوئے جج کرنل لینی اکوسٹا (Lanny Accosta)نے  کہا  کہ '(ملزم کا) اعتراف سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ہاتھوں برسوں کی ہولناک بدسلوکی سے داغدار ہے۔' فاضل جج نے مزید فرمایا 'اس طرح کے شواہد کو خارج کرنا معاشرتی قیمت کے بغیر نہیں۔تاہم، تشدد کے ذریعہ حاصل کردہ اعتراف اور ثبوتوں کی بنیاد پر ملزمین کے خلاف مقدمہ چلانے اور پھانسی دینے کی سماجی قیمت اور بھی زیادہ ہوسکتی ہے'۔فیصلے پر ملزم کے وکیل انتھونی نتالے (Anthony Natale) نے ان کچھ اسطرح اطمینان کا اظہار کیا کہ  'جج نے ان اہم شواہد کو خارج کر دیا جو فوجی استغاثہ النشیری کو مجرم قرار دینے کے لیے استعمال کرنے کی امید کر رہاتھا'

جن پانچ بڑے ملزمان کو اعتراف جرم کے عوض جاں بخشی کی پیشکش کی جارہی ہے ان میں سے بھی کسی کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔ فوج کے 7 نامزد مستغیثان   (Prosecutors) نے یہ کہہ کر استعفےٰ دیدیا ہے کہ انھیں یہ سارا معاملہ نانصافی پر مبنی نظر آرہا ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ اگر متاثرین سزائے موت سے رعائت کی تجویزکو مسترد کردیتے ہیں تو استغاثہ کیلئے فردجرم عائد کرنا مشکل ہے اور اگر عمر قید کے عوض ان لوگوں کو سزائے موت سے نجات مل جاتی ہے تو انھیں تاحیات گوانتا نامو جیل میی رکھا جائیگا، گویا ہر صورت میں یہ بدنامِ زمانہ عقوبت کدہ غیر معینہ مدت تک قائم رہیگا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 25 اگست 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 25 اکست 2023

روزنامہ امت کراچی 25 اکست 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 27 اگست 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو








اسرائیلی وزیرخارجہ سے ملاقات پر لیبیا میں ہنگامہ

 

اسرائیلی وزیرخارجہ سے ملاقات پر لیبیا میں ہنگامہ

اتوار  (27 اگست) کو اپنے ایک ٹویٹ میں اسرائیلی وزیرخارجہ ایلی کوہن  نے انکشاف کیا تھا کہ اکہ انھوں نے  لیبیا کی وزیرخارجہ محترمہ نجلا المنقوش صاحبہ سے اٹلی میں ملاقات کی ہے۔ اس دوران لیبیا میں یہودی ورثے اور عبرانی اہمیت کے مقامات کے تحفظ پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ جناب کوہن نے ملاقات کو "تاریخی" اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تشکیل میں "پہلا قدم" قرار دیا۔

اس خبر پر لیبیا میں سخت اشتعال پھیلا اور وزیراعظم عبدالحميد محمد الدبيبة نے وزیر خارجہ کو معطل کرکے تحقیقات  کا حکم دے دیا۔نجلا صاحبہ نے ملاقات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کسی تقریب میں سرِ راہ سلام کلام کو جناب کوہن نے ملاقات سمجھ کر بیان جاری کردیا۔ اب  نجلا منقوش فرار ہوکر ترکیہ چلی گئی ہیں۔

پیر کو فلسطینی پرچم لہراتے ہزاروں افراد نے طرابلس میں وزارت خارجہ اور ایوان وزیراعظم پر مظاہرہ کیا اور اسرائیلی پرچم جلائے۔ مظاہرین اس بات پر سخت مشتعل تھے کہ زیرتحقیق وزیرخارجہ کو ملک سے جانے کی اجازت کیوں دی گئی۔

دوسری جناب ملاقات کی خبر جاری کرنے پر  جناب  کوہن سخت تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کے قائد حزب اختلاف ییر لیپڈ نے کہا کہ جناب کوہن کے بچگانہ روئے نے اسرائیل اور وزیرخارجہ منقوش کو دنیا کے سامنے شرمندہ کردیا۔

لیبیا کی برسرازقتدار عبوری کونسل کے سربراہ اور اخوانی فکر سے وابستہ انصاف و تعمیر پارٹی (JCP)کے قائد خالد المصری  کے مطابق   حکومت نے ممنوعہ سرخ لکیر عبور کرلی ہے۔

اسرائیلی وزیرخارجہ کے انکشاف پر چچا سام بھی سخت ناراض ہیں۔ عبرانی چینل 13 کے مطابق اسرائیل میں امریکہ کی قائم مقام سفیر محترمہ اسٹیفنی ہلیلٹ Stephanie Hallett نے ایلن کوہن تک امریکی وزارت خارجہ کا پیغام پہنچایا جس میں کہا گیا کہ ابتدائی ملاقات کی خبر جاری کرکے اسرائیل نے لیبیا سے ملاقات کے تمام غیر رسمی راستے بند کردئے ہیں۔

لیبیائی عوام کے غیر معمولی ردعمل سے سعودی عرب میں بھی بیچینی ہے جہاں مبینہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے معاملات حتمی مراحل میں ہیں۔

آپ مسعود ابدالی  کی   پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔


Wednesday, August 23, 2023

مصر میں خلیج سوئز سے تیل کی دریافت

 

مصر میں خلیج سوئز سے تیل کی دریافت

مصر کی نجی تیل کمپنی کیرون (Cheiron)نے خلیج سوئز سے تیل کا بڑا ذخیرہ دریافت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کھدائی مکمل ہونے پر پیمائش و آزمائش (Logging & Testing) کے بعد GNN-11کنویں سے 2500 بیرل یومیہ حاصل کیا جارہا ہے۔ تیل سے لبالب ریت (Nubian Sand)کی یہ تہہ 165 فٹ موٹی ہے۔ Geisum and Tawila Westبلاک میں کھوداجانیوالا یہ چوتھا کنواں ہے ، اور چاروں کنوووں کی مجموعی پیداواراب 23000 بیرل ہوگئی ہے۔ آنے والے دنوں میں یہاں 3 مزید کنویں کھودے جائینگے۔ اس میدان میں تیل کے مجموعی حجم کا تخمینہ 26 کروڑ بیرل ہے.

مشارکے میں کیرون کا حصہ 60 اور 40 فیصد کی مالک کوئت کی Kufpecہے۔ مصر میں  تیل اور گیس کے معاہدے کچھ اسطرح تشکیل دئے گیے ہیں کہ  پیداوار شروع ہونے پر حکومتی ادارہ Egypt General Petroleum Concessions (EGPC)کھدائی کے اخراجات اداکرکے مشارکے میں نصف کی مالک ہوجاتا ہے۔EGPCنقد ادائیگی نہیں کرتی بلکہ پیداوار کا 30 فیصد اخراجات کی مد میں اور 20 فیصد منافع کی شکل میں تیل کمپنی کو اداکیا جاتا ہے۔ پیداوار کا انتظام (operator ship) کیرون،Kufpecاور EGPCپر مشتمل مشارکے پیٹروگلف مصر (Ptero-Gulf Misr) کے پاس ہے  جس میں اب EGPC کا حصہ 50 فیصد ہے۔

اب آپ ہماری پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں


 

Sunday, August 20, 2023

گوری دنیا کا انصاف

 

گوری دنیا کا انصاف

ہفتے کے دن  امریکی فوجی عدالت کے  ایک  فیصلے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں جو  18 اگست کو سنایا گیا۔ مقدمے کا پس منظر کچھ اس طرح ہے۔

یمن میں امریکی بحریہ کے  میزائیل شکن جہاز یو ایس ایس کول (USS Cole)پر 12 اکتوبر   2000 کو اسوقت حملہ کیا گیا جب  عدن کی بندرگاہ پر اس جہاز میں ایندھن بھرا جارہا تھا۔ امریکی خفیہ ادارے CIA کے مطابق  حملہ القاعدہ نے کیا جس میں 17 امریکی ملاح ہلاک ہوئے۔ نومبر 2002 میں  CIAنے ایک 37 سالہ سعودی شہری عبد الرحيم حسين محمد النشیری کو دوبئی سے گرفتار کیا جو CIAکے خیال میں اس واردات کا سرغنہ (Master mind) تھا۔ گرفتاری کے بعد النشیری کو افغانستان، تھائی لینڈ، پولینڈ، مراکش،لتھوانیہ اور رومانیہ میں سی آئی اے کے عقوبت کدوں پر رکھا گیا جنھیں Black Sitesکہا جاتا ہے۔ان مقامات پر بدترین  تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد النشیری کو گوانتانامو منتقل کردیا گیا۔  

فوجی عدالت کے جج کرنل لینی اکوسٹا (Lanny Accosta)نے فیصلے میں لکھا  کہ '(ملزم کا) اعتراف سی آئی اے اور ایف بی آئی کے ہاتھوں برسوں کی ہولناک بدسلوکی سے داغدار ہے۔' فاضل جج نے مزید فرمایا 'اس طرح کے شواہد کو خارج کرنا معاشرتی قیمت کے بغیر نہیں۔تاہم، تشدد کے ذریعہ حاصل کردہ اعتراف اور ثبوتوں کی بنیاد پر ملزمین کے خلاف مقدمہ چلانے اور پھانسی دینے کی سماجی قیمت اور بھی زیادہ ہوسکتی ہے'۔

فیصلے پر ملزم کے وکیل انتھونی نتالے (Anthony Natale) نے ان کچھ اسطرح اطمینان کا اظہار کیا کہ  'جج نے ان اہم شواہد کو خارج کر دیا جو فوجی استغاثہ النشیری کو مجرم قرار دینے کے لیے استعمال کرنے کی امید کر رہاتھا'

کیا فیصلے کے نتیجے میں 21 سال سے نظر بند النشیری کو  رہائی مل جائیگی؟ اسکا جواب نفی میں ہے۔ فاضل جج نے جس 'معاشرتی و سماجی ' قیمت کا ذکر کیا ہے، اس سے مراد یہی ہے کہ عبدالرحیم النشیری کے مجرم ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن بدترین تشدد نے اعتراف کو مشکوک بنادیا ہے تو دوسری طرف  ملزم کی رہائی بھی 'سماج ' کیلئے خطرے کا سبب سن سکتی ہے، گویا النشیری اور گوانتا نامو میں نظر بند دودرجن کے قریب افراد کے جنازے اب اسی عقوبت کدے سے اٹھیں گے۔

حوالہ: اے بی سی نیوز آسٹریلیا، روزنامہ ہندو، AFP، MSN

اس موضوع پر ہمارا ایک تفصیلی مضمون 25 اگست   کو فرائیڈے اسپیشل اور روزنامہ امت  کراچی کے علاوہ ہفت روزہ دعوت دہلی، رہبر سرینگر اور روزنامہ قومی صحافت لکھنو میں ملاحظہ فرمائیں۔

اب آپ ہماری پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں


 

Friday, August 11, 2023

اسلام دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک ہے ۔۔۔ امریکی ایوان نمائندگان میں قراراداد

 

اسلام  دنیا کے عظیم  مذاہب میں سے ایک ہے

 امریکی ایوان نمائندگان میں قراراداد

امریکی  ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) میں  ٹیکسس (Texas)سے رکنِ کانگریس جناب  ایل گرین  (Al Green)نے ایک قرارداد پیش  کی ہے جسکا مقصد اسلام کو دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک کے طور پر تسلیم کرنا ہے۔ پچھتر سالہ ایل کرین ٹیکسس کے حلقہ 9 سے 2004 میں رکن کانگریس منتخب ہوئے۔ جنوب مغربی ہیوسٹن کے اس حلقے میں سیاہ فام، ہسپانوی اور ایشیائیوں کاتناسب 88 فیصد سے زیادہ ہے۔ یہ ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ ہے جہاں 1883 کے بعد سے صرف ایک بار یعنی 1994 میں ریپبلکن پارٹی  کامیابی حاصل کرسکی۔ جناب ایل گرین کانگریس کے پاکستان گروپ یا Caucus کے سرگرم رکن اور سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کے زبردست پشتیبان ہیں۔ فلسطین، کشمیر، روہنگیا، ویغور مسلمانوں کے معاملے میں انکا موقف بہت ہی دوٹوک ہے۔گزشتہ برس آنے والے سیلاب پر وہ دوسرے ہی دن پاکستان پہنچے اور نقصان کا جائزہ لینے بعد ہیوسٹن میں ہیلپنگ ہینڈ اکناHelping Hand ICNA کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان کیلئے چند ملین ڈالر کی امداد مذاق ہے۔ اسلئے کہ امریکہ، یورپی یونین اور چین کے کارخانوں سے خارج ہونے والی کاربن نے ماحول کو تبدیل کیا جسکی قیمت پاکستان کے لوگ ادا کررہے ہیں چنانچہ ان ممالک کو نہ صرف سیلاب سے پہنچنے والے نقصانات کو ازالہ کرنا چاہئے بلکہ تاوان کی ادائیگی بھی ان  تینوں کی ذمہ داری ہے۔

قرآن سو زی کے حالیہ واقعات پر امریکہ کے سیاہ فاموں میں خاصی بیچینی بلکہ خوف و ہراس ہے۔ اسلئے کہ امریکی مسلمانوں کی اکثریت افریقی نژاد افراد پر مشتمل ہے اور قرآن جلانے کے واقعات کو امریکی مسلمان  اپنے لئے دھمکی تصور کررہے ہیں۔ انھیں ڈر ہے کہ امریکہ کے انتہا پسند گورے انتخابات کے دنوں میں نفرت کی  آگ بھڑکانے کیلیے یہاں بھی توہینِ قرآن کی مہم شروع کرسکتے ہیں۔

اسی پس منظر میں جناب ایل گرین نے یہ قرارداد ترتیب دی۔ کاانگریس کے  تینوں مسلم ارکان، ریاست مینیسوٹا کی صومالی نژاد  الحان عمر، مشیگن سے فلسطینی پس منظر رکھنے والے محترمہ رشیدہ طلیب اور انڈیانا کے جناب آندرے کارسن  قرارداد کے تائید کنندہ ہیں۔ رشیدہ طلیب اور الحان عمر کانگریس کی ان 'باغی' لڑکیوں میں شمار ہوتی ہیں جنھوں نے سابق صدر ٹرمپ کا ناطقہ بند کررکھا تھا۔ یہ خواتین دہشت گرد فلسطین کُش پالیسیوں پر اسرائیل کی بہت بروقت اور موثر گوشمالی کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے 2022 کے انتخابات میں جیسے ہی ریپبلکن پارٹی نے اکثریت حاصل کی، الحان عمر کو کانگریس کی کمیٹی برائے امور خارجہ سے نکال دیاگیا اور کمیٹی کے اسرائیل نواز ڈیموکریٹ ارکان نے یا تواخراج کی حمائت کی یا خاموش رہے۔

جمعہ 28 جولائی کو قرارداد کا مسودہ اسپیکر کو پیش کیا گیا اور اسپیکر آفس نے اسی دن HR-635, 2023-2024, 118th Congressکا نمبر لگاکر ابتدائی جائزے کیلئے  اسے کمیٹی برائے خارجہ امور کے حوالے کردیا۔

قراداد میں کہا گیا ہے کہ  امریکہ اور دنیا بھر میں اسلامی برادری سے یکجہتی کے لئے، ایوان نمائندگان اسلامی عقیدے کو دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک کے طور پر تسلیم کرتا ہے

متن کے اعتبار سے یہ انتہائی جامع قرارداد ہے جس میں مسلمانوں کے عقیدے، اجمالی تاریخ، قرآن کریم  کی حقانیت، عقائد، پانچ بنیادی ارکان، جدید علوم کیلئے مسلمانوں کی خدمات کے ساتھ اسلام کو مکمل نظریہ حیات  قراردیاگیا ہے۔ قرارداد  میں بہت صراحت سے کہا گیا ہے کہ امریکہ میں مسلمانوں کی پہلی بڑی آبادی افریقی  غلاموں پر مشتمل تھی  اور بہت سے غلاموں کو انکے مالکان نے اسلام چھوڑنے پر مجبور کیا۔ قرارداد میں پیغمبر اسلام کے اسم گرامی کیساتھ بہت احترام  سے  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا انگریزی ترجمہ درج کیا گیا ہے

قارئیں کی دلچسپی کیلئے قرارداد کا  متں  پیش خدمت ہے:

  • لفظ اسلام کا مطلب خدا کی مرضی اور امن کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے۔
  • اسلام کی بنیادی کتاب قرآن مجید ہے جس میں 6000 سے زائد آیات اور 114 ابواب ہیں۔
  • مسلمان قرآن مجید کو ہدایت الہی کی کتاب سمجھتے ہیں
  • مسلمان اپنے طرز زندگی کو حدیث کے گرد ترتیب دیتے ہیں، جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روایات اور اقوال کا مجموعہ ہے۔
  • اگرچہ اس کی جڑیں مزید پرانی ہیں لیکن یہ دین 622ء میں تیزی سے پھیلنا شروع ہوا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کا سفر شروع کیا جس کے پہلے دن اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہوا۔
  • قرآن کے مطابق روشنائی (Ink)، شہید کے خون سے زیادہ مقدس ہے، اسی بنا پر سائنس، فلکیات، کیمیا، ریاضی، طب اور فلسفے کے میدان میں مسلمانوں کی خدمات بہت واضح ہیں ۔
  • اسلام دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب ہے۔
  • ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں تقریبا 2 ارب  سے زیادہ  مسلمان ہیں۔
  • امریکہ میں 35 لاکھ مسلمان آباد ہیں،   جن کا تعلق مختلف نسلی اور ثقافتی پس منظر سے ہے۔
  • امریکی مسلمان ملک کی معیشت، تنوع، رفاہی کوششوں، طبی اور سائنسی تحقیق، مفید شہری خدمات اور دوسرے بہت سے  شعبوں میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
  • امریکہ میں مسلمانوں کی پہلی بڑی آبادی غلام افریقیوں کی تھی ، جن میں سے بہت سے غلاموں کو  انکے مالکان کی طرف سے  عقیدہ  چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
  • اسلام ایک توحید پرست مذہب ہے، اور اللہ مسلمانوں  مرکزی معبود ہے۔
  • اسلام تعلیم دیتا ہے کہ اللہ کے 99 نام ہیں، جن میں سے ہر ایک اس کی خصوصیات کی نمائندگی کرتا ہے، جیسے رحم کرنے والا یا رزق دینے والا۔
  • اسلام مضبوط اخلاقی اعتقادات کا ایک مکمل نظام ہے جو امن، مساوات اور سماجی انصاف کا حکم دیتا ہے۔
  • اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ حکومتوں کو ہمیشہ مساوات، انصاف اور ہمدردی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
  • اسلام نسل یا سماجی حیثیت سے قطع نظر تمام لوگوں کے درمیان مساوات کی تعلیم دیتا ہے اور ان نظاموں کو ختم کرتا ہے جو اس کے خلاف ہیں، بشمول ذات پات کا نظام۔
  • قرآن مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان رواداری کی بات کرتا ہے۔
  • بنیادی مسلم اعمال کو اسلام کے پانچ ستونوں کے طور پر جانا جاتا ہے۔
  • پانچ ستونوں میں شہادت (اعلان ایمان)، نماز (روزانہ 5 وقت )، زکوٰۃ (تمام آمدنی کا 2.5 فیصد صدقہ کرنا)، صوم (ماہ رمضان میں روزہ رکھنا) اور حج (مکہ، سعودی عرب کی زیارت) شامل ہیں۔
  • روزانہ کی 5 نمازیں مومنوں کے درمیان رابطہ  اور گناہوں سے بچنے  میں  ایک دوسرے کی مدد کے لئے ڈیزائن کی گئی ہیں۔
  • واجب صدقہ  کا مقصد انسان کو خود غرضی سے پاک اور غریبوں  سے ہمدردی  ہے۔
  • رمضان میں روزہ رکھنے سے  تحمل اور روحانی تجدید کو فروغ ملتا ہے۔
  • مکہ مکرمہ کی زیارت مختلف پس منظر کے پیروکاروں کو مذہبی جشن میں اکٹھا کرکے اہل ایمان کو متحد کرنے کی طاقت کے طور پر کام کرتی ہے۔
  • اسلام واضح طور پر یہ تعلیم دیتا ہے کہ مذہب میں کوئی جبر نہیں ہے، اور  ہر شخص کسی بھی مذہب پر عمل کرنے یا انکار کرنے کے لئے آزاد ہے۔
  • مسلمان اسلام کو ایک  مکمل طرز زندگی سمجھتے ہیں۔
  • مسلمان جو اہم تعطیلات مناتے ہیں وہ عید الفطر اور عید الاضحی ہیں ، جو بالترتیب رمضان کے روزے کے مہینے کے اختتام پر اور اسلامی قمری کیلنڈر کے آخری مہینے کے 10 ویں دن منائی جاتی ہیں۔
  • مسلمان اسلامی قمری کیلنڈر کی پیروی کرتے ہیں ، جسے ہجری کیلنڈر بھی کہا جاتا ہے ، جس کے مطابق نیا چاند (ہلال) نظر  آنے پر نیا مہینہ شروع ہوتا ہے۔
  • ان ذمہ داریوں کو نبھاکر مسلمان  اپنی زندگی کو مطلوبہ راستے پر ڈھال دیتے ہیں۔

لہذا،

ریاستہائے متحدہ امریکہ اور دنیا بھر میں اسلامی برادری کے ساتھ یکجہتی اور حمایت کا مظاہرہ کرنے کے لئے، ایوان نمائندگان اسلامی عقیدے کو دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔

بلاشبہہ یہ قرارداد انتہائی جامع اور امریکی مسلمانوں کی امنگوں کی ترجمان ہے تاہم سوال ہے کہ کیا یہ تحریک منظور ہوجائیگی؟ بدقسمتی سے ہمارا جواب نفی میں ہے یعنی اسکی  منظوری کا امکان نہیں۔ امریکی کانگریس سے ایسی قراردادیں بہت کم منظور ہوپاتی ہیں جو حزب اختلاف کی جانب سے پیش کی گئی ہوں۔ مذکورہ قرارداد کے محرک اور تینوں تائید کنندہ رنگدار ہیں جسکی وجہ سے یہ ایک 'غیراہم' تحریک ہے۔ پارلیمانی امور کے ماہرین کے خیال میں کمیٹی سے اسکی منظوری کے امکانات 27 فیصد سے بھی کم ہیں اور اگر کمیٹی نے قرارداد کو بحث کیلئے ایوان کے سامنے پیش کرنے کی اجازت دیدی تو وہاں اسکی منظوری کے امکانات تقریباً 17 فیصد ہیں۔

امریکہ کی پارلیمانی سیاست میں سرخ فیتہ ایک آہنی دیوار ہے جسے عبور کرنا آسان نہیں۔ ایک مثال ملاحظہ ہو

1989میں سیاہ فام رکن کانگریس آنجہانی جان کانیرز John Conyersنے افریقی امریکیوں کیلئے تلافی کمیشن ایکٹ یاCommission to Study Reparation Proposals for African-Americans Actکے عنوان سے ایک مسودہ قانون ایوان زیریں سے پیش کیا مسٹر کونئرز کی قرارداد کو اسپیکر نے بل کی شکل میں HR-40کی حیثیت سے درج کرلیا۔ اسوقت سے یہ بل مجلس قائمہ برائے انصاف کی سماجی انصاف ذیلی کمیٹی کے پاس ہے لیکن اسے سماعت کیلئے پیش نہیں کیا گیا۔ہر دوسال بعد یہ قرارداد کانگریس کی مدت ختم ہوجانے پر غیر موثر ہوجاتی اور جناب کانئیرز بہت مستقل مزاجی کے ساتھ اسے ہر نئی کانگریس میں اسے پیش کرتے رہے۔ حتیٰ کہ جنوری 2018 میں مسٹر جان کونیرز ایک جنسی اسکینڈل کا شکار ہونے کی بناپر ایوان سے مستعفی اور اکتوبر 2019 میں تلافی کا ارمان لئے دنیا سے بھی  رخصت  ہوگئے۔

ہفت روزہ دعوت دہلی 11 اگست 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 13 اگست 2023

ہفت روزہ سنڈے اسپیشل 24 اگست 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Wednesday, August 9, 2023

محترمہ رتھ فاو ۔ پھر ترا وقت سفر ید آیا

 

محترمہ رتھ فاو ۔  پھر ترا وقت سفر ید آیا

آج (10 اگست) پاکستان میں جذام کے  خاتمے کے لئے اپنی زندگی وقف کردینے والی ڈاکٹر رتھ فاوکی چھٹی برسی پر انسانیت کی عظیم خدمت کے اعتراف میں چند سطور:

  ڈاکٹر صاحبہ 9 ستمبر 1929 کو جرمنی کے اس علاقے میں پیدا ہوئیں جو مشرقی جرمنی کہلاتا تھا۔ انکا شہر دوسری جنگ عظیم میں تباہ ہوگیا اور وہ اپنے والدین کے ساتھ مغربی جرمنی آگئیں جہاں انھوں نے جامعہ منز Mainzسے طب کی تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل ہونے پر ڈاکٹر صاحبہ مسیحی خواتین کی تبلیغی جماعت Daughters of the Heart of Maryسے وابستہ ہوگئیں اور اپنی ساری زندگی تبلیغ کیلئے وقف کرتے ہوے مسیحی راہبہ بن گئیں۔

ڈاکٹر صاحبہ کے پاکستان آنے کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔  چرچ نے انھیں تبلیغ کیلئے ہندوستان جانے کا حکم دیا تھا اور وہ روانہ بھی ہوگئیں لیکن بروقت ویزا نہ ملنے کی وجہ سے انھیں لمبے عرصے تک کراچی میں رہنا پڑا۔ اسوقت ڈاکٹر صاحبہ کی عمر 30 برس تھی۔قیام کے دوران کراچی ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع کوڑھیوں کے ہسپتال میں انھوں نے ایک مریض کو دیکھا جو بقول انکے، معذوری کی وجہ سے کتے کی طرح ہاتھ اور پیر پر چل رہاتھا۔ وہ کھانا بھی زمین پر پڑی پلیٹ میں منہہ ڈال کر کھارہا تھاکہ اسکی انگلیاں کوڑھ کی وجہ سے جھڑ چکی تھیں۔ اس واقعہ نے ڈاکٹر رتھ کو بہت متاثر کیا اور انھوں نے پاکستان رہ جانے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران ہندوستان کیلئے انکا ویزا آچکا تھا لہٰذا وہ چند ماہ کیلئے ہندوستان چلی تو گئیں لیکن جلد ہی کراچی واپس آگئیں اور اسکے بعد سے اپنی پوری زندگی انھوں نے کوڑھ کے مریضوں کیلئے وقف کردی۔

دنیا میں سماجی کارکنوں کی کمی نہیں اور رتھ فاو ایک سند یافتہ ڈاکٹر بھی تھیں لیکن ڈاکٹر صاحبہ مریضوں کی خدمت گار تھیں اوروہ بھی ایسے مریضوں کی کہ جنکے زخموں سے ابلتی متعفن پیپ سےسگی ماں کو بھی ابکائی آتی ہے لیکن انکے لئے یہ کوڑھی اولاد سے بڑھکر تھے۔وہ اپاہج مریضوں کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتیں۔ انکے زخموں پر مرہم لگاتیں، انھیں نہلاتیں حتیٰ کہ انکا بول و براز بھی صاف کرتیں۔ ٖکوڑھ کے ساتھ تپ دق کے مریضوں اور پولیو کا شکار بچوں کی دیکھ بھال بھی انھوں نے بہت لگن کیساتھ کی۔ 57 برس تک کوڑھیوں کو شفیق ماں کی طرح سینے سے لگا کررکھنے والی یہ خاتوٓن 87 برس کی عمر میں 10 اکست 2017کو کراچی میں انتقال کرگئیں۔ڈاکٹر صاحبہ کی وصیت کے مطابق، انہیں کراچی کے مسیحی قبرستان میں قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا

وطنِ عزیزکے بارے میں بہت ساری منفی باتیں مشہور ہیں لیکن ایک قابل شکر بات یہ کہ پاکستان کوڑھ کے مرض پر قابوپانے والا دنیا کا پہلا ملک ہے اور خدمت انسانیت کا یہ سنگ میل ڈاکٹڑ رتھ فاو کی قیادت میں عبور کیا گیا۔

 ڈاکٹر رتھ فاو کے اعزاز میں پاکستان پوسٹ یادگاری ٹکٹ جاری کر چکا ہے، انھیں ہلالِ امتیاز اور ستارہ قائداعظم سے بھی نوازا گیا جبکہ سول اسپتال کراچی  بھی ان کے نام سے ہے۔ تین سال قبل اسٹیٹ بینک نے یادگاری سکہ بھی جاری کی۔یاد تو اسے رکھا جاتا ہے جسے بھول جانے کا خطرہ ہو۔ ڈاکٹر صاحبہ تو ایک شفیق ماں کی طرح  مرکر بھی ہروقت ہمارے ساتھ ہیں کہ ایسے لوگوں کو موت بھی دلوں سے اوجھل نہیں کرسکتی۔ 

آپ مسعود ابدالی  کی   پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔


 

 

Thursday, August 3, 2023

 

عدلیہ کے پر کُتر دئے گئے

 اسرائیل خانہ جنگی کے دہانے پر،  فلسطینی شدید خطرے میں

پیر 24 جولائی کو اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) نے عدالتوں کے اختیارات محدود کرنے کے سلسلے میں عدالتی اصلاحات (Judicial Overhaul) بل کا پہلا قانون صفر کے مقابلے میں 64 ووٹوں سے منظور کرلیا۔ حزب اختلاف کے 56ارکان نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ۔ منظور شدہ بل کے مطابق عدالتوں کو حکومت اور وزارتی فیصلوں کی "معقولیت" کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ قانون کی منظوری کے بعد ایک سال سے جاری احتجاج میں شدت آگئی ہے۔

دنیا بھر کی سیاستدانوں کی طرح  اسرائیلی حکمرانوں کو بھی شکائت ہے کہ  عدالتیں انکے کامو ں میں   مداخلت کرتی ہیں۔ چنانچہ  گزشتہ برس کے اختتام پر اقتدار سنبھالتے ہی وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو  المرروف بی بی کی قدامت پسند حکومت نے عدالتی اصلاحات کا مسودہ قانون  (بل) کنیسہ میں پیش کردیا۔بنیادی طور پر اس بل کا مقصد  کنیسہ سے منظور شدہ قوانین کو  عدالتی جائزوں سے تحفظ اور قانون سازی و عوامی پالیسیوں پر عدلیہ کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہے۔اسی طرح عدالتی تقرریوں پر حکومت کے صوابدیدی اختیارات میں اضافہ  ان اصلاحات کا حصہ ہے۔ عام اسرائیلی اسے عدلیہ کے پرکُترنے کی  کوشش  قراردریے ہیں ۔  

 مجوزہ بل کے قانون بن جانے کی صورت میں اسرائیلی عدالتِ عظمیٰ  کے کسی بھی فیصلے کو کنیسہ واضح اکثریت،  یعنی 61 ووٹوں سے  غیر موثر کرسکتی ہے۔ اسی طرح ججوں  کی تقرری کیلئے جوڈیشل کونسل کا فیصلہ  محض سفارش  ہوگا جسکی منظوری وزارت انصاف کریگی اور اہم تقرری کیلئے کنیسہ سے منظوری لی جائیگی۔

عدالتی اصلاحات کا یہ قانون اسرائیلی قدامت پسندوں کی تزویزاتی (Strategic) حکمت عملی کا حصہ ہے۔ بی بی کی قیادت میں حلف اٹھانے والی موجودہ حکومت، اسرائیلی تاریخ کی سب سے انتہا پسند انتظامیہ ہے۔ قوم پرست سیکیولر جماعت  لیکڈ، خوشنودیِ رب پارٹی (Noam) جماعت عزمِ یہود (Otzma Yehudit)، دینِ صیہون پارٹی (Religious Zionism)، پاسبانِ توریت(شاس) اور توریت پارٹی پر مشتمل اس اتحاد کو 120 رکنی کنیسہ میں 64 ارکان کی حمائت حاصل ہے۔

شدت پسند حکومت کا ایک اور طرہ امتیاز یہ ہے کہ اسکے کئی رہنماوں پر بددیانتی اور قانون شکنی کے مقدمات چل رہے ہیں بلکہ ایک بڑی اتحادی جماعت کے سربراہ سزا یافتہ ہیں۔ شاس پارٹی کے قائد اور توریت  و تلمودکے عالم اٰریہ مخلوف درعی Aryeh Makhlouf Deri کو بے ایمانی، رشوت ستانی، ٹیکس فراڈ  اور منتخب نمائندے کی حیثیت سے عوام کا اعتماد پامال کرنے کے الزام میں تین سال قید کی سزا ہوچکی ہے۔ یہ جرم 1999 میں ثابت ہوا لیکن پارلیمانی استثنیٰ کی بناپر حضرت جیل سے باہر ہیں۔

عزمِ یہود پارٹی کے قائد، 46 سالہ اتامر بن گوئر Itamar Ben-Gvirکے خلاف جو وزیر  قومی سلامتی یا پولیس منسٹر ہیں، نفرت انگیز تقریر (hate speech)کے الزام میں کئی بار  پرچے کٹے۔ انہوں نے سابق اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کو قتل کی دھمکی دی تھی جس کے ایک ہفتے بعد جناب رابن قتل کردیے گئے۔

وزیرخزانہ اور دینِ صیہون جماعت کے سربراہ بیزلیل اسموترش  Bezalel Smotrich پر اسرائیلی فوج نے الزام لگایا ہے کہ یہ عرب مہاجر کیمپوں میں  اشتعال انگیزی کیساتھ  تخریب کاری میں مصروف ہیں۔ اسموترش بھی اشتعال انگیزی کے الزام میںزیرحراست رہ چکے ہیں۔

اور تو اور خود وزیرازعظم پر بدعنوانی اور مالی بے ضابطگی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ وزارت عظمیٰ کے دوران انھوں نے استثنیٰ کے سہارے پیشیوں سے جان چھڑائی اور جب حکومت ختم ہوگئی تو کرونا کے نام پر عدالت کا سامنا کرتے سے کتراتے رہے حتیٰ کہ گزشتہ سال دسمبر میں وزارت عظمیٰ کیساتھ انھیں استثنیٰ کی چھتری دوبارہ حاصل ہوگئی۔

اسرائیلی قدامت پسندوں کو اپنے نظریاتی ایجنڈے کی تکمیل میں عدالت کی جانب سے رکاوٹ کا سامنا ہے۔ مدارس کے طلبہ کیلئے لازمی فوجی تربیت سے استثنیٰ، دیوار گریہ کے اردگرد اختلاطِ مردوزن پر پابندی، سرکاری اسپتالوں،  پیر خانوں (old age facilities)، کنیسہ کے ریستوران اور دوسرے عوامی مقامات پر کوشر (حلال) کھانے کی فراہمی یقینی بنانے جیسے کئی معاملات پر عدالت  حکم امتناعی جاری کرکے رنگ میں بھنگ ڈال چکی ہے۔ فلسطینیوں کے معاملے میں دوسرے ادارو ں کی طرح اسرائیلی عدلیہ نے بھی آنکھیں بند کررکھی ہیں لیکن حومش قبضہ بستی کو غیر قانونی قراردینے پر اسرائیلی سپریم کورٹ  2005 سے بہت مستقل مزاجی کیساتھ اپنے موقف پر قائم ہے۔

قومی و نظریاتی معاملات کے علاوہ برسراقتدار سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی مقدمات کی زد میں ہیں چنانچہ عدالت کو قابومیں رکھنا بی بی اور انکے رفقا کیلئے ضروری ہے۔ اشتراکِ اقتدار معاہدے کے تحت کنیسہ میں ایک قانونی ترمیم بھی پیش کی جانی ہے جسکے  ذریعے جناب درعی کے استثنیٰ کو قانونی تحفظ فراہم کردیاجائیگا۔ بی بی یہ بھی چاہتے ہیں کہ استثنیٰ کے تحفظ کو حاضر کیساتھ سابقین تک توسیع دیدی جائے۔ قانون کے علما کو یقین ہے کہ اس قسم کےفرمائشی قوانین کو عدالت کالعدم قرار دیگی۔ اسی لئے پہلے مرحلے میں  عدلیہ کے حکومت اور وزارتی فیصلوں کی "معقولیت" پر سوال اٹھانے کے حق کو معطل کردیا گیا ہے۔

عدالتی اصلاحات کے بل پر احتجاج اسوقت سے جاری ہے جب اسکا ابتدائی مسودہ کابینہ نے اس سال جنوری میں منظور کیا تھا۔ ہنگاموں کی بناپر   27 مارچ کو بل پر بحث معطل کرکے حکومت نے اس میں 'مناسب' ترمیم کیلئے حزب اختلاف کو دعوت دی لیکن  5 ماہ طویل مذاکرات کے باوجود دونوں فریق کسی ایک نکتے پر بھی متفق نہ ہوسکے۔ کنیسہ کی دونوں عرب جماعتوں، اخوانی نظریات کی حامل رعم اور لبرل و سیکیولر حداش مذاکرات میں شریک نہیں  ہوئیں۔ عرب جماعتوں کا موقف تھا کہ اسرائیل کے عرب شہریوں کو عدلیہ سے انصاف کی کوئی امید نہیں،  تاہم  دونوں جماعتوں نے وعدہ کیا کہ انکے دس ارکان  رائے شماری کے دوران بی بی کے مجوزہ فسطائی عدالتی پیکیج کے خلاف ووٹ دینگے۔ حزب اختلاف نے مذاکرات میں ناکامی کا ذمہ دار حکومتی وفد کی 'شدت پسندی' کو قرار دیا۔ مذاکرات نے نتیجہ ہونے پر وزیرانصاف نے بل پر بحث کا دوبارہ آغاز کیا اور گزشتہ ہفتے اس پیکیج کا پہلا قانون منظور کرلیا گیا۔

معقولیت پر سوال اٹھانے کے حق سے محروم ہوجانے کے باوجود 26 جولائی کو عدالتِ عظمیٰ نے اعلان کیا کہ بینچ اس قانون  کی معقولیت پر داخل کی جانیوالی کسی بھی درخواست کی سماعت کو تیار ہے۔ عدلیہ کے اس عزم پر مشتعل ہوکر بی بی نے خبردار کیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے 'معقولیت' قانون کو کالعدم قرار دے دیا تو اسرائیل 'سرزمینِ بے آئین' بن جائے گا۔

 قانون کی منظوری کے بعد حکومت مخالف مظاہروں کا دائرہ پورے ملک تک پھیل گیا ہے۔ دارالحکومت تل ابیب میں مظاہرین جو قومی پرچم لہرارہے تھے اس پر حکومت کی شدت پسندی ظاہر کرنے کیلئے سرخ رنگ چھڑک دیا گیا۔اس پر ایک فلسطینی خاتون نے طنزیہ انداز میں کہا 'بھولے اسرائییلو! رنگ چھڑکنے کی کیا ضرورت ہے، یہ پرچم تو ہزاروں فلسطینی بچوں کے لہو سے پہلے ہی سرخ ہے'

عام لوگوں کیساتھ احتجاج کا دائرہ  اسرائیلی فوج، خفیہ اداروں، ڈاکٹروں اور سائنسدانوں تک وسیع ہوگیا ہے اور حساس اداروں میں  اس قانون کے خلاف بیچینی کے آثار نمایاں ہیں۔ فوج کے رکن محفوظہ یا  reservists تربیت پر آنے سے انکار کررہے ہیں۔ اسرائیل میں لازمی فوجی تربیت کا نظام رائج ہے اور ہر صحت مند شہری سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بوقت ضرورت دفاع وطن کیلئے ہتھیار اٹھائے گا۔محفوط دستے کے سپاہیوں نے مظاہرین سے اظہار یکجہتی اور تربیت سے انکار کی علامت کے طور پر تل ابیب کی مرکزی شاہراہ پر اپنے فوجی جوتے لٹکادئے۔ رضاکار فوجیوں کی بڑی تعداد بھی احتجاجاً کام چھوڑ چکی ہے۔ دفاعی حکام نے اسرائیل کی جنگی تیاری خطرے میں پڑنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

اسرائیل کے جوہری سائنسدان بھی اب میدان میں ہیں اور اسرائیل کے خفیہ اداروں کے مطابق  10 انتہائی سینئر جوہری سائنسدانوں نے عدالتی ترامیم منظوری کے خلاف مستعفی ہونے کی دھمکی دی ہے۔ وزارت تعلیم کے ڈائریکر جنرل آصف ظلال Asaf Tzalelیہ کہہ کر مستعفی ہوگئے کہ  اب  پڑھا نے کو رہ ہی کیا گیاہے۔ سرکاری جامعات کے بہت سے اساتذہ بھی مستعفی ہورہے ہیں۔

اسرائیل کے عبرانی چینل 13 نے 27 جولائی کو رائے عامہ کا ایک جائزہ شایع کیا ہے جسکے مطابق 28 فیصد اسرائیلیوں نے ملک چھوڑنے کا عندیہ دیا ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہا اگر عدالیہ کے کینسہ  کے زیرنگیں آگئی تو  جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ختم ہوجائیگی۔ اس  جائزے میں 54فیصد اسرائیلیوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ بل نے فوج کو تقسیم کردیا ہے جس سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑسکتی ہے جبکہ 56 فیصد اسرائیلیوں  کا خیال ہے کہ خانہ جنگی اسرائیل کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔

دوسری طرف بی بی مصر ہیں کہ عدالتی اصلاحات سے جمہوریت مضبوط ہوگی۔ امریکی ٹیلی ویژن ABCسے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا  کہ ہم اسرائیلی جمہوریت میں انھیں اقدار و خصوصیات کی تجدید کررہے ہیں جو تمام جمہوریتوں میں مشترک ہے۔ یعنی  اکثریت کی مرضی اور اقلیت کے حقوق کے درمیان توازن، جسکے لئے  مملکت کی تینوں شاخوں کے درمیان اعتدال ضروری ہے۔

قانون سازی اسرائیل کا اندرونی معاملہ ہے،  لیکن انتہاپسند اسرائیلی  حکومت  کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں  تشدد کی آگ بھڑکاکر  عوامی تحریک کا رخ موڑنے کی کوشش خارج از امکان نہیں۔  وزیردفاع یو آوو گیلنٹ Yoav Gallantنے  صورتحال سے فائدہ اٹھانے کیلئے حماس، ایران اور حزب اللہ کے خفیہ اجلاس کا شوشہ چھوڑ کر پیش بندی کا آغاز کردیا ہے۔ اسی کیساتھ لیکڈ رکن  کنیسہ  نسم وطری Nissim Vaturi نے ایک نیا مسودہِ قانون پیش کیا ہے جسکے تحت انتخابات کی ذمہ دارسینٹرل الیکشن کمیٹی (CEC)کے فیصلوں کو چیلینج نہیں کیا جاسکے گا۔ الیکشن کمیٹی کے ارکان کا انتخاب کنیسہ کرتی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں CECنے عرب جماعت البلد کی مملکت سے وفاداری مشکوک قراردیتے ہوئے اسے انتخاب میں حصہ لینے  سے روک دیا تھا لیکن سپریم کورٹ  نے کمیٹی کا فیصلہ کالعدم قراردے دیا۔ بادی النظر میں نسیم وطری بل کا مقصد عرب جماعتوں کو انتخابات کے عمل سے باہر کرنا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 4 اگست 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 4 اگست 2023

روزنامہ امت کراچی 4اگست 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 6 اگست 2023

روزنامہ  قومی صحافت لکھنو