Thursday, August 3, 2023

 

عدلیہ کے پر کُتر دئے گئے

 اسرائیل خانہ جنگی کے دہانے پر،  فلسطینی شدید خطرے میں

پیر 24 جولائی کو اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) نے عدالتوں کے اختیارات محدود کرنے کے سلسلے میں عدالتی اصلاحات (Judicial Overhaul) بل کا پہلا قانون صفر کے مقابلے میں 64 ووٹوں سے منظور کرلیا۔ حزب اختلاف کے 56ارکان نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ۔ منظور شدہ بل کے مطابق عدالتوں کو حکومت اور وزارتی فیصلوں کی "معقولیت" کا جائزہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ قانون کی منظوری کے بعد ایک سال سے جاری احتجاج میں شدت آگئی ہے۔

دنیا بھر کی سیاستدانوں کی طرح  اسرائیلی حکمرانوں کو بھی شکائت ہے کہ  عدالتیں انکے کامو ں میں   مداخلت کرتی ہیں۔ چنانچہ  گزشتہ برس کے اختتام پر اقتدار سنبھالتے ہی وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو  المرروف بی بی کی قدامت پسند حکومت نے عدالتی اصلاحات کا مسودہ قانون  (بل) کنیسہ میں پیش کردیا۔بنیادی طور پر اس بل کا مقصد  کنیسہ سے منظور شدہ قوانین کو  عدالتی جائزوں سے تحفظ اور قانون سازی و عوامی پالیسیوں پر عدلیہ کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہے۔اسی طرح عدالتی تقرریوں پر حکومت کے صوابدیدی اختیارات میں اضافہ  ان اصلاحات کا حصہ ہے۔ عام اسرائیلی اسے عدلیہ کے پرکُترنے کی  کوشش  قراردریے ہیں ۔  

 مجوزہ بل کے قانون بن جانے کی صورت میں اسرائیلی عدالتِ عظمیٰ  کے کسی بھی فیصلے کو کنیسہ واضح اکثریت،  یعنی 61 ووٹوں سے  غیر موثر کرسکتی ہے۔ اسی طرح ججوں  کی تقرری کیلئے جوڈیشل کونسل کا فیصلہ  محض سفارش  ہوگا جسکی منظوری وزارت انصاف کریگی اور اہم تقرری کیلئے کنیسہ سے منظوری لی جائیگی۔

عدالتی اصلاحات کا یہ قانون اسرائیلی قدامت پسندوں کی تزویزاتی (Strategic) حکمت عملی کا حصہ ہے۔ بی بی کی قیادت میں حلف اٹھانے والی موجودہ حکومت، اسرائیلی تاریخ کی سب سے انتہا پسند انتظامیہ ہے۔ قوم پرست سیکیولر جماعت  لیکڈ، خوشنودیِ رب پارٹی (Noam) جماعت عزمِ یہود (Otzma Yehudit)، دینِ صیہون پارٹی (Religious Zionism)، پاسبانِ توریت(شاس) اور توریت پارٹی پر مشتمل اس اتحاد کو 120 رکنی کنیسہ میں 64 ارکان کی حمائت حاصل ہے۔

شدت پسند حکومت کا ایک اور طرہ امتیاز یہ ہے کہ اسکے کئی رہنماوں پر بددیانتی اور قانون شکنی کے مقدمات چل رہے ہیں بلکہ ایک بڑی اتحادی جماعت کے سربراہ سزا یافتہ ہیں۔ شاس پارٹی کے قائد اور توریت  و تلمودکے عالم اٰریہ مخلوف درعی Aryeh Makhlouf Deri کو بے ایمانی، رشوت ستانی، ٹیکس فراڈ  اور منتخب نمائندے کی حیثیت سے عوام کا اعتماد پامال کرنے کے الزام میں تین سال قید کی سزا ہوچکی ہے۔ یہ جرم 1999 میں ثابت ہوا لیکن پارلیمانی استثنیٰ کی بناپر حضرت جیل سے باہر ہیں۔

عزمِ یہود پارٹی کے قائد، 46 سالہ اتامر بن گوئر Itamar Ben-Gvirکے خلاف جو وزیر  قومی سلامتی یا پولیس منسٹر ہیں، نفرت انگیز تقریر (hate speech)کے الزام میں کئی بار  پرچے کٹے۔ انہوں نے سابق اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابن کو قتل کی دھمکی دی تھی جس کے ایک ہفتے بعد جناب رابن قتل کردیے گئے۔

وزیرخزانہ اور دینِ صیہون جماعت کے سربراہ بیزلیل اسموترش  Bezalel Smotrich پر اسرائیلی فوج نے الزام لگایا ہے کہ یہ عرب مہاجر کیمپوں میں  اشتعال انگیزی کیساتھ  تخریب کاری میں مصروف ہیں۔ اسموترش بھی اشتعال انگیزی کے الزام میںزیرحراست رہ چکے ہیں۔

اور تو اور خود وزیرازعظم پر بدعنوانی اور مالی بے ضابطگی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ وزارت عظمیٰ کے دوران انھوں نے استثنیٰ کے سہارے پیشیوں سے جان چھڑائی اور جب حکومت ختم ہوگئی تو کرونا کے نام پر عدالت کا سامنا کرتے سے کتراتے رہے حتیٰ کہ گزشتہ سال دسمبر میں وزارت عظمیٰ کیساتھ انھیں استثنیٰ کی چھتری دوبارہ حاصل ہوگئی۔

اسرائیلی قدامت پسندوں کو اپنے نظریاتی ایجنڈے کی تکمیل میں عدالت کی جانب سے رکاوٹ کا سامنا ہے۔ مدارس کے طلبہ کیلئے لازمی فوجی تربیت سے استثنیٰ، دیوار گریہ کے اردگرد اختلاطِ مردوزن پر پابندی، سرکاری اسپتالوں،  پیر خانوں (old age facilities)، کنیسہ کے ریستوران اور دوسرے عوامی مقامات پر کوشر (حلال) کھانے کی فراہمی یقینی بنانے جیسے کئی معاملات پر عدالت  حکم امتناعی جاری کرکے رنگ میں بھنگ ڈال چکی ہے۔ فلسطینیوں کے معاملے میں دوسرے ادارو ں کی طرح اسرائیلی عدلیہ نے بھی آنکھیں بند کررکھی ہیں لیکن حومش قبضہ بستی کو غیر قانونی قراردینے پر اسرائیلی سپریم کورٹ  2005 سے بہت مستقل مزاجی کیساتھ اپنے موقف پر قائم ہے۔

قومی و نظریاتی معاملات کے علاوہ برسراقتدار سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی مقدمات کی زد میں ہیں چنانچہ عدالت کو قابومیں رکھنا بی بی اور انکے رفقا کیلئے ضروری ہے۔ اشتراکِ اقتدار معاہدے کے تحت کنیسہ میں ایک قانونی ترمیم بھی پیش کی جانی ہے جسکے  ذریعے جناب درعی کے استثنیٰ کو قانونی تحفظ فراہم کردیاجائیگا۔ بی بی یہ بھی چاہتے ہیں کہ استثنیٰ کے تحفظ کو حاضر کیساتھ سابقین تک توسیع دیدی جائے۔ قانون کے علما کو یقین ہے کہ اس قسم کےفرمائشی قوانین کو عدالت کالعدم قرار دیگی۔ اسی لئے پہلے مرحلے میں  عدلیہ کے حکومت اور وزارتی فیصلوں کی "معقولیت" پر سوال اٹھانے کے حق کو معطل کردیا گیا ہے۔

عدالتی اصلاحات کے بل پر احتجاج اسوقت سے جاری ہے جب اسکا ابتدائی مسودہ کابینہ نے اس سال جنوری میں منظور کیا تھا۔ ہنگاموں کی بناپر   27 مارچ کو بل پر بحث معطل کرکے حکومت نے اس میں 'مناسب' ترمیم کیلئے حزب اختلاف کو دعوت دی لیکن  5 ماہ طویل مذاکرات کے باوجود دونوں فریق کسی ایک نکتے پر بھی متفق نہ ہوسکے۔ کنیسہ کی دونوں عرب جماعتوں، اخوانی نظریات کی حامل رعم اور لبرل و سیکیولر حداش مذاکرات میں شریک نہیں  ہوئیں۔ عرب جماعتوں کا موقف تھا کہ اسرائیل کے عرب شہریوں کو عدلیہ سے انصاف کی کوئی امید نہیں،  تاہم  دونوں جماعتوں نے وعدہ کیا کہ انکے دس ارکان  رائے شماری کے دوران بی بی کے مجوزہ فسطائی عدالتی پیکیج کے خلاف ووٹ دینگے۔ حزب اختلاف نے مذاکرات میں ناکامی کا ذمہ دار حکومتی وفد کی 'شدت پسندی' کو قرار دیا۔ مذاکرات نے نتیجہ ہونے پر وزیرانصاف نے بل پر بحث کا دوبارہ آغاز کیا اور گزشتہ ہفتے اس پیکیج کا پہلا قانون منظور کرلیا گیا۔

معقولیت پر سوال اٹھانے کے حق سے محروم ہوجانے کے باوجود 26 جولائی کو عدالتِ عظمیٰ نے اعلان کیا کہ بینچ اس قانون  کی معقولیت پر داخل کی جانیوالی کسی بھی درخواست کی سماعت کو تیار ہے۔ عدلیہ کے اس عزم پر مشتعل ہوکر بی بی نے خبردار کیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے 'معقولیت' قانون کو کالعدم قرار دے دیا تو اسرائیل 'سرزمینِ بے آئین' بن جائے گا۔

 قانون کی منظوری کے بعد حکومت مخالف مظاہروں کا دائرہ پورے ملک تک پھیل گیا ہے۔ دارالحکومت تل ابیب میں مظاہرین جو قومی پرچم لہرارہے تھے اس پر حکومت کی شدت پسندی ظاہر کرنے کیلئے سرخ رنگ چھڑک دیا گیا۔اس پر ایک فلسطینی خاتون نے طنزیہ انداز میں کہا 'بھولے اسرائییلو! رنگ چھڑکنے کی کیا ضرورت ہے، یہ پرچم تو ہزاروں فلسطینی بچوں کے لہو سے پہلے ہی سرخ ہے'

عام لوگوں کیساتھ احتجاج کا دائرہ  اسرائیلی فوج، خفیہ اداروں، ڈاکٹروں اور سائنسدانوں تک وسیع ہوگیا ہے اور حساس اداروں میں  اس قانون کے خلاف بیچینی کے آثار نمایاں ہیں۔ فوج کے رکن محفوظہ یا  reservists تربیت پر آنے سے انکار کررہے ہیں۔ اسرائیل میں لازمی فوجی تربیت کا نظام رائج ہے اور ہر صحت مند شہری سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ بوقت ضرورت دفاع وطن کیلئے ہتھیار اٹھائے گا۔محفوط دستے کے سپاہیوں نے مظاہرین سے اظہار یکجہتی اور تربیت سے انکار کی علامت کے طور پر تل ابیب کی مرکزی شاہراہ پر اپنے فوجی جوتے لٹکادئے۔ رضاکار فوجیوں کی بڑی تعداد بھی احتجاجاً کام چھوڑ چکی ہے۔ دفاعی حکام نے اسرائیل کی جنگی تیاری خطرے میں پڑنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔

اسرائیل کے جوہری سائنسدان بھی اب میدان میں ہیں اور اسرائیل کے خفیہ اداروں کے مطابق  10 انتہائی سینئر جوہری سائنسدانوں نے عدالتی ترامیم منظوری کے خلاف مستعفی ہونے کی دھمکی دی ہے۔ وزارت تعلیم کے ڈائریکر جنرل آصف ظلال Asaf Tzalelیہ کہہ کر مستعفی ہوگئے کہ  اب  پڑھا نے کو رہ ہی کیا گیاہے۔ سرکاری جامعات کے بہت سے اساتذہ بھی مستعفی ہورہے ہیں۔

اسرائیل کے عبرانی چینل 13 نے 27 جولائی کو رائے عامہ کا ایک جائزہ شایع کیا ہے جسکے مطابق 28 فیصد اسرائیلیوں نے ملک چھوڑنے کا عندیہ دیا ہے۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہا اگر عدالیہ کے کینسہ  کے زیرنگیں آگئی تو  جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ختم ہوجائیگی۔ اس  جائزے میں 54فیصد اسرائیلیوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ بل نے فوج کو تقسیم کردیا ہے جس سے ملکی سلامتی خطرے میں پڑسکتی ہے جبکہ 56 فیصد اسرائیلیوں  کا خیال ہے کہ خانہ جنگی اسرائیل کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔

دوسری طرف بی بی مصر ہیں کہ عدالتی اصلاحات سے جمہوریت مضبوط ہوگی۔ امریکی ٹیلی ویژن ABCسے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا  کہ ہم اسرائیلی جمہوریت میں انھیں اقدار و خصوصیات کی تجدید کررہے ہیں جو تمام جمہوریتوں میں مشترک ہے۔ یعنی  اکثریت کی مرضی اور اقلیت کے حقوق کے درمیان توازن، جسکے لئے  مملکت کی تینوں شاخوں کے درمیان اعتدال ضروری ہے۔

قانون سازی اسرائیل کا اندرونی معاملہ ہے،  لیکن انتہاپسند اسرائیلی  حکومت  کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں  تشدد کی آگ بھڑکاکر  عوامی تحریک کا رخ موڑنے کی کوشش خارج از امکان نہیں۔  وزیردفاع یو آوو گیلنٹ Yoav Gallantنے  صورتحال سے فائدہ اٹھانے کیلئے حماس، ایران اور حزب اللہ کے خفیہ اجلاس کا شوشہ چھوڑ کر پیش بندی کا آغاز کردیا ہے۔ اسی کیساتھ لیکڈ رکن  کنیسہ  نسم وطری Nissim Vaturi نے ایک نیا مسودہِ قانون پیش کیا ہے جسکے تحت انتخابات کی ذمہ دارسینٹرل الیکشن کمیٹی (CEC)کے فیصلوں کو چیلینج نہیں کیا جاسکے گا۔ الیکشن کمیٹی کے ارکان کا انتخاب کنیسہ کرتی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں CECنے عرب جماعت البلد کی مملکت سے وفاداری مشکوک قراردیتے ہوئے اسے انتخاب میں حصہ لینے  سے روک دیا تھا لیکن سپریم کورٹ  نے کمیٹی کا فیصلہ کالعدم قراردے دیا۔ بادی النظر میں نسیم وطری بل کا مقصد عرب جماعتوں کو انتخابات کے عمل سے باہر کرنا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 4 اگست 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 4 اگست 2023

روزنامہ امت کراچی 4اگست 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 6 اگست 2023

روزنامہ  قومی صحافت لکھنو



No comments:

Post a Comment