گوری
دنیا کا انصاف
ہفتے کے دن امریکی فوجی عدالت کے ایک فیصلے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں جو 18 اگست کو سنایا گیا۔ مقدمے کا پس منظر کچھ اس
طرح ہے۔
یمن میں امریکی بحریہ کے میزائیل
شکن جہاز یو ایس ایس کول (USS Cole)پر 12 اکتوبر 2000 کو
اسوقت حملہ کیا گیا جب عدن کی بندرگاہ پر
اس جہاز میں ایندھن بھرا جارہا تھا۔ امریکی خفیہ ادارے CIA کے مطابق حملہ القاعدہ
نے کیا جس میں 17 امریکی ملاح ہلاک ہوئے۔ نومبر
2002 میں CIAنے ایک 37 سالہ سعودی شہری عبد الرحيم حسين محمد النشیری کو دوبئی سے گرفتار کیا جو CIAکے خیال میں اس واردات کا
سرغنہ (Master mind) تھا۔ گرفتاری کے بعد النشیری کو افغانستان، تھائی
لینڈ، پولینڈ، مراکش،لتھوانیہ اور رومانیہ میں سی آئی اے کے عقوبت کدوں پر رکھا
گیا جنھیں Black Sitesکہا جاتا ہے۔ان مقامات پر بدترین تشدد
کا نشانہ بنانے کے بعد النشیری کو گوانتانامو منتقل کردیا گیا۔
فوجی عدالت کے جج کرنل لینی اکوسٹا (Lanny Accosta)نے فیصلے میں لکھا کہ '(ملزم کا) اعتراف سی
آئی اے اور ایف بی آئی کے ہاتھوں برسوں کی ہولناک بدسلوکی سے داغدار ہے۔' فاضل جج نے
مزید فرمایا 'اس طرح کے شواہد کو خارج کرنا معاشرتی قیمت کے بغیر نہیں۔تاہم، تشدد
کے ذریعہ حاصل کردہ اعتراف اور ثبوتوں کی بنیاد پر ملزمین کے خلاف مقدمہ چلانے اور
پھانسی دینے کی سماجی قیمت اور بھی زیادہ ہوسکتی ہے'۔
فیصلے پر ملزم کے وکیل انتھونی نتالے (Anthony Natale) نے ان کچھ
اسطرح اطمینان کا اظہار کیا کہ 'جج نے ان اہم شواہد کو خارج کر دیا جو فوجی استغاثہ النشیری کو
مجرم قرار دینے کے لیے استعمال کرنے کی امید کر رہاتھا'
کیا فیصلے کے نتیجے میں 21 سال سے نظر بند النشیری کو رہائی مل جائیگی؟ اسکا جواب نفی میں ہے۔ فاضل جج
نے جس 'معاشرتی و سماجی ' قیمت کا ذکر کیا ہے، اس سے مراد یہی ہے کہ عبدالرحیم
النشیری کے مجرم ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن بدترین تشدد نے اعتراف کو مشکوک
بنادیا ہے تو دوسری طرف ملزم کی رہائی بھی
'سماج ' کیلئے خطرے کا سبب سن سکتی ہے، گویا النشیری اور گوانتا نامو میں نظر بند
دودرجن کے قریب افراد کے جنازے اب اسی عقوبت کدے سے اٹھیں گے۔
حوالہ: اے بی سی نیوز آسٹریلیا، روزنامہ ہندو، AFP،
MSN
اس موضوع پر ہمارا ایک تفصیلی مضمون 25 اگست کو
فرائیڈے اسپیشل اور روزنامہ امت کراچی کے
علاوہ ہفت روزہ دعوت دہلی، رہبر سرینگر اور روزنامہ قومی صحافت لکھنو میں ملاحظہ
فرمائیں۔
اب آپ ہماری پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں
No comments:
Post a Comment