Thursday, July 27, 2023

کھیت اپنے جلیں کہ غیروں کے ۔۔۔ زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

 

کھیت اپنے جلیں کہ غیروں کے ۔۔۔    زیست فاقوں سے تلملاتی ہے

روس نے 'یوکرین معاہدہ گندم' کی  تجدید سے انکار کردیا ہے۔ ماسکو سے 17 جولائی کو ایک ہنگامی اعلامیہ جاری ہوا جسکے مطابق  یوکرین کی بندرگاہوں سے بحراسود آنے والے تمام جہازوں کو  بلا استثنیٰ عسکری ہدف تصور کیا جائیگا۔ اس خبر کے سامنے آتے ہی گندم  کی قیمتیں  نو فیصد بڑھ گئیں۔

یوکرین یورپ میں غذائی اجناس اور خوردنی تیل (vegetable Oil) کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ جیسے ایک زمانے میں پنجاب کو برصغیر کا بریڈ باسکٹ کہا جاتاتھا ویسے ہی یوکرین  اور روس کاسرحدی علاقہ  روٹی کی یورپی چنگیری ہے۔ عام حالات میں یہاں ایک کروڑ85 لاکھ ایکڑ (7.5million hectares)رقبے پر گندم، جو، مکئی، rye، تیل کے بیجوں اور دوسری غذائی اجناس کی کاشت ہوتی ہے۔ گزشتہ برس یوکرین نے ایک کروڑ 80 لاکھ ٹن گندم برآمد کیا جبکہ روسی برآمد کا حجم ڈھائی کروڑ ٹن تھا۔

یورپی یونین کے علاوہ لبنان، شام، یمن اور مصر یوکرینی گندم کے بڑے خریدار ہیں۔چین اور یورپی ممالک بھی یوکرینی گندم خریدتے ہیں۔ قیمت کم ہونے کی وجہ سے لبنان کی ضرورت کا پچاس فیصد گندم یوکرین سے آتا ہے۔لیبیا اپنی ضرورت کا 43  اور یمن 22 فیصد یوکرین سے حاصل کرتا ہے۔افریقی ممالک، ملائیشیا ، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش میں استعمال ہونے والی گندم کا 28فیصد یوکرین سے آتا ہے۔ مصر نے گزشتہ برس 30 لاکھ ٹن گندم یوکرین سے خریدا۔

بدقسمتی سے مشرقی یورپ کا یہ زرخیر خطہ نو برس سے میدان جنگ ہے۔ یہاں جنگ و جدل کا آغاز  فروری 2014 میں ہوا جب جزیرہ نمائے کریمیا پر قبضے کے ساتھ ہی، مشرقی یوکرین  کے دونیسک Donetskاور لوہانسک  Luhanskصوبوں کےکچھ علاقوں پر روس نواز باغیوں نے قبضہ کرکے اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ اس علاقے کو جغرافیہ داں دونبس Donbasکہتے ہیں۔ گزشتہ برس  فروری میں روس نے یوکرین پر بھرپور حملہ کردیا جسے کریملن نے 'خصوصی عسکری کاروائی' قراردیا۔ نیٹو رکنیت کیلئے یوکرین کی خواہش اس حملے کی بنیادی وجہ تھی۔

اس جنگ میں جہاں ایک طرف بیگناہ یوکرینی شہری مارے جارہے ہیں ، 60 لاکھ سے زیادہ شہری پڑوسی ممالک کی طرف ہجرت پر مجبور ہوگئے  اور ہنستے بستے ملک کا بڑاحصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا وہیں اس جنگ نے توانائی اور غذائی بحران پیدا کردیا۔

قدرت کی مہربانی سےگندم اور دوسرے ضروری دانوں کے کھیت اب تک محفوظ ہیں۔ تاہم پیداوار میں کمی  واقع ہوئی اور اس بار گندم کے برآمدی حجم کا تخمینہ ایک کروڑ 70 لاکھ ٹن ہے۔  کھیت تو محفوط رہ گئے لیکن  جنگ کی وجہ غلےکی  برآمد انتہائی مشکل کام ہے۔گندم اور دوسری غذائی اجناس کی برآمد  کیلئے بحر اسود میں کھلنے والی اوڈیسا اور مائیکولائیف (روسی تلفظ نائیکولائف) بندرگاہیں استعمال ہوتی ہیں،۔

ان بندرگاہوں پر جہاز سازی کا کام  بھی ہوتا ہے جس میں یوکرینی  بحریہ کے عسکری جہاز شامل ہیں ، جسکی وجہ سے یہ بندرگاہیں روس کی 'خصوصی' توجہ کامرکز بن گئیں۔ روسی بحریہ نے یوکرین کی مکمل ناکہ بندی کررکھی ہے۔کشیدگی کی بناپر تجارتی جہازوں کے لئے اوڈیسہ سے گندم اٹھانا ممکن نہ رہا اور ساری دنیا خاص طور  سے افریقہ اور بحرروم کے ممالک میں غذائی قلت پیدا ہوگئی۔

ترک صدر طیب ایردوان نے غذائی بحران کو کافی پہلے بھانپ لیا تھا، چنانچہ انھوں نے روس اور یوکرین سے بات چیت شروع کردی۔ غلے کی ترسیل یقینی بنانے کیلئے ترک صدر نے اپنے وزیردفاع اور بحریہ کے سربراہ کو  روسی و یوکرینی ہم منصبوں سے   گفتگو کی ہدائت کی۔ روس کو خدشہ تھا کہ  امریکہ ، گندم اٹھانے کی آڑ میں بحری راستے سے یوکرین کو اسلحہ بھیجنے کی کوشش کریگا۔

بحر اسود اور بحر روم پر تر ک بحریہ کی گرفت خاصی مضبوط اور  روس و یوکرین دونوں  کو صدر ایردوان پر اعتماد ہے۔گزشتہ سال اگست میں ترکیہ، روس، یوکرین اور اقوام متحدہ کے درمیان  معاہدہ طئے پاگیا جس کے تحت  گندم اٹھانے کیلئے اوڈیسہ جانے والے جہازوں کی باسفورس پر روس، یوکرین اور ترک بحریہ تلاشی لینگی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ان پر اسلحہ یا کوئی دوسرا قابل اعتراض مواد نہیں۔ اسی کیساتھ ترک بحریہ نے گندم بردار جہازوں کی حفاظت کی ذمہ داری بھی قبول کرلی۔معاہدے کے مطابق  غلے سے لدے جہازوں  کو ترک نگرانی میں بحر اسود سے آبنائے باسفورس کے ذریعے بحیرہ  مرمرا (نہرِ استنبول) کے راستے بحر روم پہنچایا جائیگا۔ یہ معاہدہ  اس سال 18 مارچ تک کیلئے تھا جسکی صدر ایردوان کی درخواست پر 90 دن  تک توسیع کردی گئی۔

اس ماہ کی 17 تاریخ کو آبنائے کرچ Kerchپر بنے پل کو نشانہ بنایا گیا۔ روس کو کریمیا سے ملانے والا یہ پل، فوجی کمک کا کلیدی راستہ ہے۔ اس پل پر  بارود سے بھری گاڑ ی کے ذریعے پہلے بھی حملہ ہوچکا ہے لیکن اس بار  یوکرینی بحریہ نے حملے کیلئے مبینہ طور پر زیرِ اب ڈرون استعمال کئے ۔روسی بحریہ کو شبہہ ہے کہ حملہ آور بحری ڈرون اوڈیسا سے رونہ کئے گئے تھے۔ اسی بناپر روس کا موقف ہے  کہ  یوکرینی بندرگاہوں سے بحر اسود کی طرف آنے والے جہازوں اور بحری ٹریفک پر اعتماد  نہیں کیا جاسکتا لہذا  17 جولائی کو معاہدے کی مدت مکمل ہونے پر اسکی تجدید نہیں کی جائیگی۔

یوکرینی غلے کی فراہمی رکنے سے قرنِ افریقہ (Horn of Africa)کے ممالک خاص طور سے صومالیہ بری طرح متاثر ہوگا جسکا بڑا علاقہ قحط سالی کا شکار ہے۔ اس ملک میں گزشتہ سال غذائی قلت سے 40ہز ار اموات ہوئیں جنکی اکثریت ننھے بچوں کی ہے۔ اسکے علاوہ یمن، مصر، لبنان اور شام کو بھی غذائی قلت کا سامنا ہوگا۔

امریکیوں کا خیال ہے کہ کرش پل پر ڈرون حملے سے مشتعل ہوکر روس نے معاہدے کی تجدید سے انکار کیا ہے۔ غیر جانبدار ذرایع چچا سام کے تجزئے سے متفق  نہیں۔گزشتہ گیارہ ماہ کے دوران غلے سے لدے درجنوں جہاز لاکھوں ٹن گندم اور دوسرا غلہ لے کر اوڈیسا سے روانہ ہوئے۔ باسفورس میں جہازوں کی تلاشی کا بہت ہی موثر  انتظام ہے اور گزشتہ سال اگست سے اب تک کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا اور نہ بحری قزاقی کی کوئی واردات ہوئی۔ اس تناظر میں ڈرون حملے کو روس کے اس غیر متوقع اور غیر منطقی روئے  کا واحد جواز قراردینا مشکل ہے۔ پل پر ڈرون حملے کے بعد روس نے یوکرین کی ناکہ بندی تو سخت کردی ہے لیکن گندم معاہدے کی تجدید سے انکار کے اصل عوامل کچھ اور  ہیں۔

روس کے  سرکاری موقف میں بھی ڈرون حملے کا ذکر نہیں۔ تجدید سے انکار کا اعلان کرتے ہوئے روسی حکومت کے ترجمان دمتری پیسکوف Dmitry Peskovنے کہا کہ  روسی غذائی اجناس کی برآمدات پر غیر ضروری پابندیاں عائد ہیں۔کریملن کے  ترجمان نے یقین دلایا کہ جیسے ہی روسی غلے کو یوکرینی مال کی طرح  بازار تک آزادانہ رسائی ملی ماسکو  فوری طور پرمعاہدے کی تجدید کردیگا۔ ہفتہ 22 جولائی کو ماسکو میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے روس کے صدر ولادیمر پیوٹن نے کہا کہ  ' معاہدے کا بنیادی مقصد یعنی  ضرورت مند ممالک کو اناج کی فراہمی ، پورا نہیں ہوا   کہ روس کو اپنا غلہ اور اجناس برآمد کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے'۔ گزشتہ دنوں روسی صدر نے اپنے ترک ہم منصب سے  باتیں کرتے ہوئے جناب ایردوان سے شکوہ کیا تھاکہ  معاہدے میں یوکرین کیساتھ روسی برآمدات کو بھی تحففظ فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔لیکن معاہدے کے اس حصے کی پاسداری نظر نہیں آرہی

روسی برآمدات پر پابندی تکنیکی نوعیت کی ہے۔ ترک بحریہ، بحر اسود کی  روسی بندرگاہ نووورسسک Novorossiyskسے غلہ لیکرنکلنے والے جہازوں کو بھی تحفظ فراہم کررہی ہے۔لیکن روس کو اپنے اناج کے خریدار تلاش کرنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ بظاہر روسی برامدات پر کوئی قد غن  نہیں لیکن امریکی وزارت خزانہ کی جانب سے سے عائد پابندیوں کی وجہ سے روسی ٖغلے کے خریداروں کیلئے امریکی ڈالر میں ضمانت نامہ ادائیگی (LC)کھولنا ناممکن حد تک مشکل ہے۔

معاہدہ گندم کی تجدید سے  انکار کے بعد روسی فضائیہ نے اوڈیسا بندرگاہ کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔ جمعہ 21 جولائی کو بندرگاہ کے ارد گرد غلے کے گوداموں پر میزائیلوں کی بارش سے  110 ٹن مٹر جل کر خاک ہوگئے۔ میزائیل حملے میں کرینوں اور جہازوں پر سامان لادنے والے اوزار اور مشینو ں کو بھاری نقصان پہنچا۔ روس کے نائب وزیرخارجہ Sergei Ryabkov نے ان حملوں کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ روسی وزارت دفاع یوکرینی بندرکاہوں اور اس سے متصل پانیوں کو عسکری ہدف قراردے چکی ہے اور خطرے کے خاتمے تک حملے جاری رہینگے۔

معاملے کی سنگینی کے پیشِ نظر ترک صدر ایک بار پھر سرگرم ہوگئے ہیں۔ اپنے حالیہ  بیان میں انھوں نے کہا کہ مغربی ممالک کو بحیرہ اسود میں اناج راہداری کی بحالی کے لیے روس کے مطالبات پر توجہ دینی چاہیے۔ جناب ایردوان کے مطابق روس کو امتیازی سلوک کی شکایات اور تحفظات ہیں۔ اگر انھیں دور کردیا جائے  تو روس بحر اسود کی اناج راہداری فعال کرنےکے حق میں ہے۔ صدر یردوان نے کہا کہ مغربی ممالک کو اس معاملے پر  مثبت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ طیب ایردوان  نے اپنے روسی ہم منصب کو اگلے ماہ ترکیہ آنے کی دعوت دی ہے اور وہ اسی ہفتے صدر پیوٹن سے فون پر بات بھی کرینگے۔

دنیا کو فاقہ کشی کے عذاب سے بچانے کیلئے جناب ایردوان کی کوششیں قابل تعریف تو  ہیں لیکن  کافی نہیں۔ اس کیلئے امریکہ اور یورپ کو اپنا متکبرانہ رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ مغرب کی لگائی پابندیوں نے روسی معیشت کا گلا گھونٹ  دیا ہے۔ صدر پیوٹن جناب ایردوان کو قابل اعتماد اور منصف مزاج مصالحت کا ر سمجھتے ہیں لیکن روسی غلے کی ترسیل پر پابندی ہٹائے بغیر روس کو  معقولیت کی طرف مائل کرنا جناب ایردوان کیلئے بے حد مشکل ہے ۔ اس تنازعے کا افسوسناک  پہلو یہ ہے کہ انااور مغرب کے خبطِ عظمت کی قیمت ایشیا اور افریقہ کے بھوکے اداکررہے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 28 جولائی 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 28 جولائی 2023

روزنامہ امت کراچی 28 جولائی 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 30 جولائی 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


No comments:

Post a Comment