Thursday, July 13, 2023

فلسطینی اپنے وطن ہی میں بے وطن زمینیں خالی کرانے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے نام پر فلسطینی علاقوں میں خونی آپریشن

 

فلسطینی اپنے وطن ہی میں بے وطن

زمینیں خالی کرانے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے نام پر فلسطینی علاقوں میں خونی آپریشن

اسرائیلی کابینہ نے وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو  المعروف بی بی کے  حکم پر غربِ اردن کے مقبوضہ عرب علاقوں پر اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کا مکمل اختیار وزیرخزانہ  بیزلل اسموترچ (Bezalel Smotrich) کو دیدیا۔ گفتگو کے آغاز پر جناب اسموترچ کے  تعارف سے قارئین کو بی بی سرکار کی نئی قبضہ پالیسی سمجھنے میں آسانی ہوگی

 تینتالیس سالہ اسموترچ انتہائی متعصب قدامت پسند بلکہ انتہا پسند ہیں اور ماضی میں فلسطینیوں کے خلاف پُر تشدد کاروائیوں میں بنفس نفیس شرکت کی بنا پر کئی بار انکے خلاف پولیس پرچہ کاٹ چکی ہے۔دو دہائی پہلے  جب اسرائیلی فوج کو غزہ میں بھاری نقصان کا سامنا ہوا تو وزیراعظم ایرل شیرون نے وہاں سے فوج واپس بلالینے کا فیصلہ کیا۔ جناب اسموترچ  نے جو اسوقت ایک نوجوان سیاسی کارکن تھے، زبردست ہنگامہ کھڑا کردیا اور ایرل شیرون  پر نامرد وزیراعظم کی پھبتی کستے ہوئے 'دفاعِ غزہ' کیلئے عوامی فوج بنانے کا اعلان کیا۔ لیکن اسوقت موصوف کا قد کاٹھ اتنا نہ تھاکچھ کرپاتے چنانچہ وہ چائے کی پیالی میں طوفا ن اٹھاکر رہ گئے۔ فروری 2005 میں کنیسہ ّ(پالیمان) نے  Disengagement from Gaza کے عنوان سے ایک قرارداد منظور کرلی۔

پسپائی منصوبے کے تحت  اسرائیل نے  غزہ میں اپنی 21 بستیوں کو مسمار کرکے وہاں سے تمام فوجی اور  شہری واپس بلالئے۔ اسی  کیساتھ  مغربی کنارے کے شمالی حصوں میں تعمیر کی گئی چار بستیاں   صنور، خومش،  غنیم اور قدیم کو مسمار کرکے ان علاقوں  میں اسرائیلیوں کے  جانے پر پابندی لگادی گئی۔یعنی جنین کا مضافاتی حصہ  اورسارا  غزہ   اسرائیلیوں کیلئے   علاقہ ممنوعہ یا no go areaبن گیا۔ پسپائی کے خلاف اسموترچ نے احتجاجی تحریک منظم کی اور موصوف شرپسندی کے الزام میں دھر لئے گئے۔ جب  اسباب کی تلاشی لی گئی تو انکے قبضے سے 700 لٹر پٹرول برآمد ہوا، تفتیش پر اسموترچ نے اعتراف کیا کہ وہ غزہ سے واپسی مسدود کرنے کیلئے وہاں سے نکلنے والے راستوں پر آگ بھڑکانا چاہتے تھے۔ سیاسی اثرورسوخ کی بنا پر تین ہفتے بعد بغیر مقدمہ درج کئے انھیں رہا کردیا گیا۔

اسکے بعد سے انھوں نے فلسطینیوں کی زمین پر نئی اسرائیلی بستیوں کے قیام کو زندگی کا مقصد بنالیا۔ اس مقصد کیلئے  2006 میں اسموترچ نے Regavimکے نام سے  ایک ادارہ قائم کیا۔ رقبے کا عبرانی تلفظ  Regevہے  اور عام بول چال میں چھوٹے قطع زمین کو رقب  کہا جاتا ہے۔ ایک عبرانی نظم 'دونم و دونم ،  رقب و رقب' اس تنظیم کا ترانہ ہے۔ دونم dönüm رقبہ ناپنے کی ترک اکائی ہے جو 1000 مربع میٹر کے برابر ہے۔اس ترانے کا لب لباب یہ  عزم ہے کہ بڑا ہاتھ مارنے کے بجائے  ہر ہلّے میں گز دوگز زمین ہتھیالی  جائے۔

جناب اسموترچ ، مذہبی صیہونی جماعت یا Religious Zionist Partyکے سربراہ ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں ا نکی جماعت نے کنیسہ کی 7 نشستیں جیتیں جو 120 رکنی ایوان میں کوئی قابل ذکر تعداد  نہیں لیکن  بی بی کی حکومت 64 ارکان کی حمائت پر کھڑی ہے اور اقتدار برقرار رکھنے کیلئے کم ازکم 61 ارکان کی حمائت ضروری ہے۔ اس تناظر میں 7 غیر اہم عدد نہیں۔ اسموترچ کی جماعت پارلیمانی حجم کے اعتبار سے حکمراں اتحاد کی تیسری بڑی پارٹی ہے۔

فلسطینی اراضی کو ہتھیانے کا سلسلہ 1920 میں برطانوی قبضے (British Mandate)سے جاری ہے۔ اس حوالے سے پہلا بڑا ہاتھ قیامِ اسرائیل کے وقت مارا گیا جب 7لاکھ فلسطینیوں کو غزہ کی طرف دھکیل کر انکی  2 کروڑ مربع میٹر اراضی ہتھیالی گئی، پھر وقتاً فوقتاً  نئی مہمات کے ذریعے  سو، ڈیڑھ سو ایکڑ کی قسطیں وصول کی جارہی ہیں۔  اس دوران محترمہ گولڈامائر جیسی بزعم خود معتدل اور بائیں بازو کی طرف مائل اسحاق شامیر بھی برسراقتدار آئے لیکن فلسطینیوں کو آبائی گھروں سے  بیدخل کرکے ا نکی زمینوں پر قبضے کا سلسلہ جاری رہا۔آزاد ذر ائع کے مطابق  1967 سے 2021 تک فلسطینیوں کی 2783 مربع کلومیٹر  اراضی ان سے چھیں لی گئی۔  پتھیایا گیا رقبہ کتنا بڑا ہے اسکا اندازہ اس طرح کیجئے کہ سارے امریکہ میں صرف چار شہروں کا رقبہ 2000 مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ ہندوستان میں دلی کا رقبہ سب سے زیادہ  یعنی 1484 مربع کلومیٹر ہے  جبکہ پاکستان میں  کراچی کے علاوہ کوئی بھی شہر  2000 مربع کلومیٹر سے زیادہ  پر محیط نہیں۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ ہتھیائی جانیوالی  زمینوں پر صرف مکانات ہی تعمیر نہیں کئے گئے  بلکہ سڑکیں، بڑی شاہراہیں، باغات،لائبریری، اسپتال اور ذخائرِ آبپاشی و آبنوشی بھی انہی ہڑپ شدہ اراضٰی پر تعمیر ہوئے۔ غرب اردن کو صیہونی ریاست کا اٹوٹ انگ ثابت کرنے کیلئے علاقے کا نام  يہودا  والسامرة (Judea and Samaria)کردیا  گیا جو دراصل سلطنت سلیمانؑ تھی۔ اقوام متحدہ نے نام کی تبدیلی غیر قانونی قراردیتے ہوئے اپنی  دستاویزات  میں علاقے کا نام  اب بھی الضفۃ الغربیہ یا West Bank لکھ رکھاہے۔

دسمبر 2016 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل،  مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کے خلاف مذمتی قرارداد بھی منظور کرچکی ہے اور یہ  غالباً تاریخ کا پہلا واقعہ تھا کہ جب امریکہ نے اسرائیل کے خلاف قرارداد کو ویٹو نہیں کیا۔ حسب توقع سلامتی کونسل کی اس  قرارداد سے کوئی ٹھوس نتیجہ نہ نکلا اور فلسطینی اراضی پر قبضے کا سلسلہ جاری رہا کہ  انصاف مذمت سے نہیں ظالم کی مرمت سے نصیب ہوتا ہے۔بستیوں پر اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے سابق اسرائیلی وزیرداخلہ  محترمہ  ایلٹ شیکڈ نے کہا کہ یہودا اور سامرہ میں یہودیوں کی آبادکاری  ہماری فطری ضرورت  اور بنیادی حق ہے  جس پر بات چیت کی کوئی ضرورت یا گنجائش نہیں۔

گزشتہ سال اگست میں دریائے اردن کے مغربی کنارے پر جنین میں فلسطینی بستیاں مسمار کرکے 4000 کے قریب نئے گھر تعمیر کرنے کی منظوری دی گئی۔ پالیسی میں بہت صراحت سے درج ہے کہ ان مکانوں کی ملکیت ہی نہیں بلکہ رہائش بھی صرف یہودیوں کیلئے ہوگی۔ انتہائی بے شرمی سے پالیسی متن میں یہ بھی لکھدیا گیا کہ  یہاں آباد  فلسطینیوں کوپناہ گزین  خیموں میں منتقل کردیا جائیگا۔

سلامتی کونسل کی قرادادوں کی کیا حیثیت کہ بی بی حکومت، اسرائیلی عدلیہ کے احکامات  کو بھی کسی قابل نہیں سمجھتی۔غزہ سے پسپائی کے وقت غربِ اردن کی جن چار بستیوں کو مسمار کرنے کا فیصلہ ہوا تھا ان میں حومش بھی  شامل تھی، یہ بستی  1978 میں فلسطینیوں سے 700  دونم ( dönüm) یا 173 ایکڑ آراضی  چھین کر ایک نجی اسرائیلی ادارے نے  تعمیر کی تھی، جو غالباً پہلی قبضہ بستی ہے۔ حومش قبضہ بستی کو  اسرائیلی سپریم کورٹ 2005 میں غیرقانونی قراردے چکی ہے جسکے بعد یہاں کے اکثر مکانات منہدم کردئے گئے لیکن 2006 میں عدالتی احکامات کو روندتے ہوئے حومش کی تعمیر نو کا سلسلہ شروع ہوا اور 2009 میں اسے یادِ ھنأ حموش (حموش یادگاری بستی) کا نام دیدیا گیا۔ عدالت نے نئی بستی بھی غیر قانونی قراددیدی۔ گزشتہ برس دسمبر میں اسرائیلی کنیسہ نے حموش تعمیرِ نو کی قرارداد 50 کے مقابلے میں 59 ووٹوں سے مسترد کردی۔ اسکے کچھ ہی دن بعد جب نیتھن یاہو دوبارہ برسراقتدار آئے تو انھوں نے سرکاری حکم کے ذریعے حموش کو آئینی تحفط فراہم کردیا۔ دوسرے ہی دن عدالت نے صدارتی آرڈیننس کے خلاف حکمِ امتناعی جاری کرکے اسے تاحکمِ ثانی معطل کردیا۔ اسکے باوجود حموش کی تعمیر نو کا کام دھڑلے سے جاری ہے۔ حکومت عدالتی حکم ماننے کو تیار نہیں۔ یہی نہیں بلکہ عدلیہ کے منہہ پر طمانچہ رسید کرتے ہوئے وزیردفاع Yoav Gallant نے اسرائیلی فوج کے نام اپنے اس مراسلے کی نقل عدالت میں جمع کرادی جس میں فوج کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ حومش میں مکان بنانے کیلئے تعمیری کمپنیوں کو تحفظ فراہم کرے۔

قانون کی پامالی کیخلاف  7 جولائی کو امن پسند اسرائیلیوں نے رام اللہ کے قریب فلسطینی شہر برقہ سے حومش تک جلوس نکالنے کا اعلان کیا۔ امن مارچ کا اہتمام درجن بھر تنظیموں اور مراکز دانش (think tanks)نے کیا تھا۔ کنیسہ کے چند عرب ارکان بھی  جلوس میں شریک تھے۔ مظاہرے کے آغاز سے پہلے  ہی جلوس کے راستے پر فوج نے رکاوٹیں کھڑی کردیں اور مظاہرین کی طرف بندوقیں تان کر منتشر ہو جانے کا حکم دیا۔ منتظمین کو بتایا گیا  کہ جلوس کو روکنے کا حکم اسرائیلی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل یہودا فوکس نے دیا ہے۔

زمینیں خالی کرانے کیلئے انسدادِ دہشت گردی کے نام پر اسرائیلی فوج نے فلسطینی علاقوں میں خونی آپریشن شروع کررکھے ہیں۔ پیر 3 جولائی  کو  فوج  جنین پر چڑھ دوڑی اور عسکری ترجمان نائب امیرالبحر (ریر ایڈمرل) ڈینیل حجاری نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ بریگیڈ لیول کی کاروائی ہے۔ حملے میں ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کیساتھ ہلکا توپخانہ اور امریکی ساختہ گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال ہوئے۔ وحشت کو  مذہبی رنگ  دینے کیلئے اسے مسکن و باغات (عبرانی بیت و واغان) آپریشن کا نام دیا گیا۔ عبرانی انجیل میں جنین کا یہی نام ہے۔ اس بہیمانہ کاروائی میں ایک درجن سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہوئے جو زیادہ تر 18 سال کے کم عمر بچے تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق اسرائیلی ڈرونوں نے ہسپتالوں اور شفاخانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جسکی وجہ  سےشدید زخمی افراد سڑکوں پر ایڑیاں رگرتے رہے۔ کاروائی کے دوران مایہ ناز چھاپہ مار شکن اسرائیلی دستے Egozیونٹ کا ایک افسر بھی  ہلاک ہوا جسکے انتقام کیلئے  جنین کا ایک پورا محلہ نیست و نابود کردیا گیا،

چند دن پہلے رام اللہ کا مضافاتی علاقہ ترمسعيّا (Turmus Ayya) اسرائیلی انتہا پسندوں نے جلاکر خاک کردیا فروری کے اختتام پر نابلوس کے قصبے حوّارہ میں جو کچھ ہوا اسے خود ااسرائیلی فوج نے پوگرم  (Pogrom)قراردیا۔ پوگرم  کسی خاص مذہب کے ماننے والوں سے انکا آبائی  علاقہ خالی کرانے کیلئے برپا کئے جانیوالے فساد کو کہتے ہیں۔ اس  روسی لفظ کا استعمال پہلی بار 1618 میں یوکرینی یہودیوں کی نسل کشی کیلئے ہوا۔ اسوقت سے  یہودیوں کی کسی خاص علاقے میں نسل کشی کو پوگرم کہا جاتا ہے۔ گویا اسرائیلی فوج نے بھی یہ تسلیم کیا کہ حوّارہ پر حملہ فلسطینیوں سے علاقہ خالی کرانے کی  ایک مشق تھی۔

انسان کو انکے گھروں سے بیدخل کرنے کی وحشیانہ روائت بہت پرانی ہے، سترہویں صدی کے آغاز پر یورپی نسل پرست لاکھوں افریقیوں کو انکے گھروں  سے پکڑ کر پابہ زنجیر امریکہ لے آئے۔سوئے اتفاق کہ 1619 میں جب افریقی غلاموں سے لدا پہلا جہاز امریکہ اترا، تقریباً عین انھیں دنوں بر صغیر میں ایسٹ انڈیاکمپنی نے اپنا'کاروبار' شروع کیا اور کچھ ہی عرصہ بعد سارا ہندوستان غلام بنالیا گیا۔ اب  1920 سے یعنی تجدیدِ رسمِ غلامی کے چارسوسال بعد، فلسطینیوں  کو بے گھر کرکے بھیڑ  بکریوں کی طرح خیموں  کی طرف ہنکایا جارہا ہے۔ اولادِ آدم ان  مظالم کابہت خاموشی  سے مشاہدہ کررہی ہے اور  اپنے دفاع میں مزاحمت کرنے والے 'مہذب' دنیا کے لئے دہشت گردہیں کہ بسمل کے تڑپنے اور پھڑپھڑانے سے امنِ عالم  متاثر ہورہا ہے۔

اب آپ مسعود ابدلی کی تحریر و مضامین اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی، 14 جولائی 2023

ہفت روزہ دعوت  دہلی ، 14 جولائی 2023

روزنامہ امت کراچی 14 جولائی 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 14 جولائی 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


No comments:

Post a Comment