Wednesday, July 5, 2023

فلسطیینوں کا عزم اور صبر ۔۔۔ دستِ قاتل میں تھکن کے آثار

 

فلسطیینوں کا عزم اور صبر ۔۔۔ دستِ قاتل میں تھکن کے آثار

اسرائیل کی موجودہ نسل پرست حکومت نے فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کردی ہے۔ اس چیرہ دستی پر عرب اور مسلم دنیا میں نہ صرف خاموشی ہے بلکہ پاکستان سمیت ہر جگہ یہ بحث ہورہی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرلینے میں قباحت کیا ہے؟ لیکن اب خود اسرائیل کے سلیم الفطرت یہودیوں میں بھی بے چینی پیدا ہورہی ہے۔ جمعہ 7 جولائی کو امن پسند اسرائیلیوں نے رام اللہ کے قریب فلسطینی شہر برقہ سے قابض بستی حومش تک جلوس نکالنے کا اعلان کیا ہے۔

مظاہرے کیلئے حومش کا انتخاب اسلئے کیا گیا ہے کہ 1978 میں فلسطینیوں سے 700 دونمک (ترک تلفظ دونم dönüm) رقبہ چھین کر یہاں ایک نجی اسرائیلی ادارے نے حومش کالونی تعمیر کی،     جو غالباً پہلی قبضہ بستی ہے۔

فلسطینی علاقوں میں آج تک رقبے کیلئے ترک دور کی اکائی دونم استعمال ہوتی ہے جو 1000 مربع میٹر کے مساوی ہے۔ یہاں زمینوں کے انتقال کے اصل کاغذات اب بھی ترک دور کے ہیں۔ یعنی قابض اسرائیل بھی زمین کی ملکیت کو تسلیم کرتا ہے۔

برقہ میں فلسطینیوں سے جو 700 دونم زمین چھینی گئی وہ 173 ایکڑ کے برابر ہے، مقامی لوگوں کو نکال کر یہاں 70 مکانات تعمیر کئے گئے۔ حومش قبضہ بستی کو خود اسرائیلی سپریم کورٹ نے 2005 میں غیرقانونی قراردے دیا جسکے بعد یہاں کے اکثر مکانات منہدم کردئے گئے لیکن 2006 میں عدالتی احکامات کو روندتے ہوئے اسکی تعمیر نو کا سلسلہ شروع ہوا اور 2009 میں اسے یادِ ھنّا حموش (حموش یادگاری بستی) کا نام دیدیا گیا۔ عدالت نے نئی بستی بھی غیر قانونی قراددیدی

گزشتہ برس دسمبر میں جب نیتھن یاہو مخالف اتحاد برسراقتدار تھا، اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) نے حموش تعمیرِ نو کی قرارداد 50 کے مقابلے میں 59 ووٹوں سے مسترد کردی، اسکے کچھ ہی دن بعد جب نیتھن یاہو دوبارہ برسراقتدار آئے تو انھوں نے سرکاری حکم کے ذریعے حموش کو ائینی تحفط فراہم کردیا لیکن دوسرے ہی دن عدالت نے حکمِ امتناعی جاری کرکے کام رکودیا۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ قبضہ بستی حموش کی تعمیر نو کا کام دھڑلے سے جاری ہے۔

امن مارچ کا اہتمام 'آنکھوں کو چھبھتا قبضہ، فوجِ امن، خاموشی جرم ہے، تشدد مخالف مائیں، چوکیوں پر نظر رکھنے والی مائیں (عبرانی Machsom)، جنگی ڈرامہ، کرائم منسٹر اور بہت ہوگیا (عبرانی Yesh Gvul)سمیت درجن بھر تنظیموں اور مراکز دانش (think tanks)نے کیا ہے

یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ کیا فلسطینی بھی اس مظاہرے میں شریک ہونگے؟ وہ بیچارے جنین میں اپنی لاشیں گن رہے ہیں


No comments:

Post a Comment