Thursday, July 20, 2023

انوکھا لیکن انتہائی موثر، مدلل و مہذب احتجاج

 

انوکھا لیکن انتہائی موثر، مدلل و مہذب احتجاج

ایک ہفتے سے جاری ہیجان، خلجان و بحران بلکہ ذہنی اذیت کا 15 جولائی کو خوبصورت اختتام ہوگیا۔ مسلمانانِ عالم کے قلب و جگر پر دو دہائیوں سے توہین و تضحیکِ قرآن و صاحبِ قرانؐ کے تیر برس رہے ہیں لیکن اس بار مسیحیوں اور یہودیوں  نے بھی اس اذیت کا مزہ چکھ لیا۔

ہوا کچھ اسطرح کہ سوئیڈن کے دارالحکومت میں پولیس کمشنر کو ایک درخواست موصول ہوئی جس میں مسیحی اور عبرانی اناجیل جلانے کی اجازت طلب کی گئی تھی۔ آگے بڑھنے نے پہلے عبرانی انجیل پر چند سطور۔ عبرانی انجیل کو تناخ بھی کہا جاتا ہے جو دراصل:

تورہ (توریت )

نبیّم(عبرانی تلفظ نویم)

 اور کتابم (عبرانی تلفظ کیتووم) کا مجموعہ ہے۔

توریت مصحف کے بجائے طومار(scroll)کی شکل میں ہے، یہ ہدایات و الہامی احکامات، نبیّم، قصص الانبیا اور کتابم، ترانہِ داودؑ (زبور) سمیت آسمانی صحیفوں یا اسفارات الکتابات پر مشتمل ہے۔

تناخ کا ایک نام مقرا بھی ہے یعنی باربار پڑھی جانیوالی کتاب۔ مسیحی انجیل  کو عام طور سے عہد نامہ جدید یا New Testament اور عبرانی انجیل کو عہدنامہ عتیق یا  Old Testament کہاجاتا ہے۔یہودی چونکہ نبوتِ عیسیؑ کے منکر ہیں اسلئے وہ عہد نامہ جدید کو برحق نہیں مانتے جبکہ مسیحیوں کی اکثریت عہدنامہ عتیق میں درج اخلاقی قوانین کو تو تسلیم کرتی ہے لیکن اس میں درج آداب اور مراسم عبودیت سے متعلق احکامات جیسے قربانی، حلال و حرام، طہارت وغیرہ کو نہیں مانتی۔ یعنی حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت پر ایمان لیکن انکی شریعت کے کچھ حصوں پر تحفظات۔

نوٹ: مندرجہ بالا  معلومات کی فراہمی اور تصدیق و تصحیح کیلئے  راقم الحروف امریکہ کے مشہور پادری و شاعر جناب ڈاکٹر افضال فردوس اور برادرم ڈاکٹر آصف حسین کا مشکور ہے

پولیس کمشنر کو ملنے والی درخو است میں دارالحکومت کی مرکزی جامع مسجد  کے سامنے  قرآن سوزی کی وحشیانہ واردات کو نظیر بناتے ہوئے استدعاکی گئی کہ درخواست دہندہ اسرائیلی سفارتخانے کے سامنے انجیلِ مقدس اور عبرانی انجیل کو آگ لگانا چاہتا ہے۔ عرضی میں عدلیہ کے اس فیصلے کا حوالہ بھی دیا گیا جو سلوان مامیکا کی درخواست پر سنایا گیا تھا۔دو ماہ پہلے جاری ہونے والے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ہر قسم کے اجتماع اور احتجاج کے حق کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔عدالت نے قرآن سوزی کے بارے میں سلوان کے موقف کو درست تسلیم کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مذہبی یا سیاسی علامت کو نذرِ آتش کرنا اس نظرئے اور علامت کے خلاف احتجاج ہے جس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔

عدالتی فیصلے کے بعد سلوان ممیکا نے عین عید الاضحیٰ کے دن مسجد کے سامنے قرآن کے نسخے کو آگ لگادی تھی۔عدالتی فیصلے کی پابندی کرتے ہوئے اس دوران سلوان کو نہ صرف مکمل تحفظ فراہم کیا گیا بلکہ قرآن جلانے کے عمل میں بھی وردی پوش پولیس سپاہیوں نے سلوان کی مدد کی۔

پولیس کمشنر نے انجیل جلانے کی اجازت دیدی۔ پولیس کے اعلامئے میں  ٹحفظ امنِ عامہ کے پیشِ نظر درخواست دہندہ کا نام خفیہ رکھا گیا۔ اجازت کے بعد سوشل میڈیا پر اعلان کیا گیا کہ یوم سبت یعنی ہفتہ 15 جولائی کو اسٹاک ہوم کے اسرائیلی سفارتخانے کے سامنے New Testamentاور Old Testamentکے نسخے نذرِ آتش کئے جائینگے۔

اس خبر پر سوئیڈن کے مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں میں زبردست اشتعال پھیلا۔اس ملک میں آباد یہودیوں تعداد 15000 کے قریب ہے چنانچہ سوئیڈش یہودیوں کی جانب سے کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا۔ لیکن اسرائیل میں اس اعلان پر آگ لگ گئی۔ امریکہ اور یورپ میں بھی تشویش کی لہر دوڑی اور مذہبی حساسیت و احترام کے حوالے سے گوری اقوام کا دہرا معیار بھی سامنے آگیا۔مسلمانوں کیلئے انجیل اور توریت، قرآن کریم ہی کی طرح مقدس و متبرک ہیں لہٰذا اس خبر پر مسلمانانِ عالم اتنے ہی مغموم بلکہ کسی حد تک مشتعل ہوئے جتنے وہ قرآن کی بیحرمتی پر تھے تاہم توہین قرآن کی مکروہ و غلیظ حرکت پر آزادی اظہار اور انسانی حقوق کا عطر چھڑکنے والوں کا تناخ اور انجیلِ مقدس کی متوقع توہین پر ردعمل بالکل مختلف تھا۔

آپ کو یاد ہوگا امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانٹ پٹیل نے توہین قرآن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'مذہبی کتب کو جلانا توہین اور دل شکنی کا باعث ہے اور قانونی ہونے کی صورت میں بھی یہ کام مناسب نہیں' ساتھ ہی انھوں نے ترکیہ کو تلقین کی کہ سوئیڈن کی نیٹو کیلئے رکنیت کی جلد از جلد توثیق کردی جائے۔ ایسا ہی مذمتی بیان نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس اسٹولٹن برگ کا تھا۔ برسلز میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ اس عمل کو پسند نہیں کرتے تاہم کچھ لوگوں کیلئے یہ آزادی ی اظہار رائے کا معاملہ ہے۔سوئیڈن کے وزیراعظم اولف کرسٹرسن نے اپنے عراقی ہم منصب سے فون پر باتیں کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قرآن جلانے کے عمل کو 'مناسب' نہیں سمجھتے لیکن بادی النظر میں سلوان قانون شکنی کا مرتکب نہیں ہوا۔ امریکہ، یورپی یونین اور مغرب کے کسی بھی ملک یا قائد نے اس غیلظ عمل کیلئے مذمت (condemn)کا لفظ استعمال نہیں کیا اور ہر جگہ اس قابل مذمت عمل کو آزادی اظہار کا تحفظ فراہم کیا گیا۔

عبرانی انجیل جلانے کے اعلان پر اسرائیلی قیادت اور امریکی حکام کے منہہ سے جھاگ نکلنے لگے۔اب قرآن سوزی کا عمل  بھی قابل مذمت قرارپایا۔ اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوق نے کہا کہ 'ریاست کے صدر کی حیثیت سے میں نے قرآن کو نذر آتش کرنے کی مذمت کی جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مقدس ہے اور اب مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ یہودیوں کی ابدی کتاب یہودی بائبل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونے جارہا ہے'۔ اپنے بیان میں جناب اسحق ہرزوق نے کہا کہ مقدس کتابوں کی توہین، اظہار رائے کی آزادی نہیں ، یہ صریح اشتعال انگیزی اور نفرت کا عمل ہے۔ پوری دنیا کو مل کر اس گھناؤنے فعل کی مذمت کرنی چاہیے۔

سامی (semitic)نسل کیخلاف امتیازی سلوک پر نظر رکھنے والی امریکی نمائندہ محترمہ Deborah Lipstadtنے کہاکہ امریکہ کو تورات جلانے کے منصوبے پر گہری تشویش ہے اور واشنگٹں اسے قابل مذمت قدم سمجھتا ہے۔ اگرچہ امریکہ جمہوریت، اظہار رائے کی آزادی اور پرامن اجتماع کے حق اور سب کے لئے مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق کی حمایت کرتا ہے ، لیکن اس طرح کے اقدامات خوف کا ماحول پیدا کریں گے۔ اس سے یہودیوں اور دیگر مذہبی اقلیتی گروہوں کے ارکان کی سویڈن میں مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق کو آزادانہ طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت متاثر ہوگی۔

ہفتے کے دن پولیس کے تحفظ میں ایک 32 سالہ شامی نژاد نوجوان احمد علوش اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے  کتاب اور لائیٹر لئے نمودار ہوا۔ میگافون پر تقریر کرتے ہوئے احمد نے کہا

میرے توریت و انجیل جلانے کے اعلان سے مسلمان، مسیحی اور یہودی سب مغموم و مشتعل ہیں۔ دیکھو! میرے ہاتھ میں صرف قرآن کریم ہے۔ میرے اعلان کا مقصد دنیا کو یہ بتانا تھا کہ توہینِ قرآن سے اربوں مسلمان دلگرفتہ ہیں۔ لوگو! میرے لئے یہ تصور بھی محال ہے کہ میں ان مقدس کتابوں کو نذرِ آتش کردوں جسکی تصدیق قرآن نے کی ہے۔ یہ کہتے ہوئے احمد کی آواز بھرأ گئی۔ اس نے ہاتھ میں تھامے قرآن کو ادب سے بوسہ دیا اور  سینے سے لگاتے ہوئے لائٹر کو کچرے کے ڈرم میں بھینک دیا۔

رندھے ہوئے لہجے میں احمد نے  کہا آج مسیحیوں اور یہودیوں کو جو تکلیف پہنچی  ہے ہم اس اذیت سے کئی بار گزرے ہیں۔ مقدس کتابوں کا جلانا ایک گھناونا فعل ہے جس پر مہذب معاشرے میں پابندی ہونی چاہئے۔میں صرف یہ دکھانا چاہتا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی کی حدود ہوتی ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔اگرقرانی تعلیمات پسند نہیں تو آپ کو اس پر تنقید کا حق ہے لیکن مقدس اوراق کو جلانا آزادی اظہار نہیں فکری دہشت گردی ہے۔ تمام حقوق  وفرائض کی طرح حقِ ازادیِ اظہاو گفتار کی بھی کچھ قیود ہیں۔ کیا سوئیڈن کے بادشاہ کو برسرعام گالی دی جاسکتی ہے؟احمد علوش نے کہا کہ  ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا ہوگا، ہم ایک ہی معاشرے میں رہتے ہیں۔ اگر میں تورات و بائبل اور دوسرے قرآن کو جلا ئیں گے تو یہاں جنگ ہو جائے گی۔ میں جو دکھانا چاہتا تھا وہ یہ ہے کہ ایسا کرنا صحیح نہیں ہے۔

نوجوان احمد علوش کوئی سیاسی مدبرو مفکر نہیں لیکن اسکی یہ تین منٹ کی گفتگو مذہبی رواداری، باہمی احترام اور اختلافی معاملات میں اعتدال پر رہنے کاعادلانہ منشور  ہے۔ کیا مہذب دنیا سونے میں تولے جانے کے قابل ان ارشادات سے کچھ سبق سیکھے گی؟

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 21 جولائی 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 21 جولائی 2023

روزنامہ امت کراچی 21 جولائی 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 23 جولائی 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


No comments:

Post a Comment