ترازوِ
انصاف کا پلڑا ۔۔۔ قاتل کے طرف جھکا ہوا
آج یروشلم کی عدالت نے ایک ذہنی معذور
فلسطینی کے قتل میں ملوث اسرائیلی فوج کے افسر کو بری کردیا۔
مئی 2020 کو یروشلم کے قدیم
شہر کا 32 سالہ
ایاد حلاج معمول کی کلاس کیلئے کے معذوروں کے خصوصی اسکول جارہا تھا۔ اسکی پشت پر
کتابوں کا بستہ اور ہاتھ میں موبائل فون تھا۔ فوجی ترجمان کے مطابق وہاں ناکے پر
موجو افسر نے ایاد کے موبائل فون کو پستول سمجھا، چنانچہ اسے رکنے کا اشارہ کیا
گیا ساتھ ہی افسر نے ہاتھ اوپر کرو کی صدا لگائی۔ ایاد نے اشارہ نہ سمجھا، سماعت
سے محرومی کی بنا پر وہ آواز بھی نھیں نہ سن سکا اور اطمینان سے چوکی عبور کرگیا۔
ایک افسر اسکے پیچھے دوڑا،
دھکیل پر اسے ایک کچرا کنڈی تک لے گیا اور چند فٹ کے فاصلے سے اسے گولی ماردی جس
سے وہ گرا، افسر نے اسکے سر کو نشانہ بناکر دوسری گولی چلائی جس سے ایاد موقع پر
ہی دم توڑ گیا۔
بریت کا جو فیصلہ سنایا گیا
ہے، اسکے الفاط ملاحظہ فرمائیں۔
'عدالت
کا دل مقتول کے لواحقین کے ساتھ ہے، احترامِ عدالت میں ایاد کے والدین ہر سماعت پر
یہاں موجود تھے، ہم نے انصاف کے لیے ان کی فریاد تحمل سے سنی۔تاہم، عدالت کو مشکل
حالات میں بھی اپنا کام کرنا ہوتا ہے۔ واقعات کے معروضی تجزئے سے یہ ثابت کرنا
ممکن نہیں کہ [حلاج کے] جسم کے نچلے حصے پر گولی چلانے کا فیصلہ بد نیتی پر مبنی
تھا۔ بادی النظر میں اسے 'مخلصانہ غلطی' کے علاوہ اور کچھ نہیں ثابت کیا جاسکتا'
پہلی گولی سے حلاج زمین پر
گرچکا تھا اور فوجی نے دوسری بار ٹرپتے شخص کے سر کو نشانہ بنایا۔ اسکا دفاع کرتے
ہوئے، عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ
'جسم
کے اوپری حصے کی طرف فائر کی گئی دوسری گولی کا محرک، مدعا علیہ یعنی افسر کا یہ
احساس تھا کہ وہ "واضح خطرے" میں ہے۔ اسلئے کہ دہشت گرد ہار نہیں مانتے
اور مرتے مرتے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں
جج حضرات نے سپاہی کی
ناتجربہ کاری کو بھی بریت کیلئے بطور دلیل استعمال کیا اور فیصلے میں لکھا 'یہ بات
بھی قابل ذکر ہے ک وہ ایک نوجوان افسر تھا جسکو یہ پہلی آزمائش پیش آئی'
حوالہ: Times of Israel
اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
آپ تو قتل کا الزام ہمیں پر رکھ دو
اب آپ مسعود ابدلی کی تحریر و مضامین اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر masood@MasoodAbdali پر بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment