Thursday, December 26, 2024

 

ایران اور یمن پر بھرپور حملہ؟؟؟؟

اسرائیلی فوج نے تیاری شروع کردی

تل ابیب پر حوثیوں کے کامیاب میزائیل حملوں سے اسرائیل میں خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔ غزہ نسل کشی سے اسرائیل کے عام لوگ براہ راست متاثر نہیں ہورہے تھے۔ اسلئے کہ یہ چھوٹی سی پٹی بحیرہ روم کے کنارے واقع ہے اور اہل غزہ کی میزائیل اور ڈرون صلاحتیں خاصی محدود ہیں۔ لیکن لبنانی مزاحمت کاروں کے میزائیل اور ڈرونوں نے اسرائیلیوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلادیا اور آتشگیر ڈرونوں کے تابڑ توڑ حملوں سے انکا شمالی علاقہ کھنڈر بن گیا۔کل ہی شمال بحالی ڈائریکٹوریٹ (Northern Rehabilitation Directorate)  کے سربراہ، سابق وزیر ہاوسنگ Ze’ve Elkins نے رہائشی عمارات اور بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصانات کی مرمت کیلئے چار ارب 40کروڑ ڈالر کا تخمینہ پیش کیا ہے۔ ایلکنز صاحب کے مطابق تعمیر نو میں پانچ سال لگیں گے۔ مکانات برباد ہونے سے 60 ہزار کے قریب اسرائیلی بے گھر ہیں۔ایک لبنانی ڈرون نے نیتھن یاہو کی پرتعیش نجی رہائش گاہ کی خواب گاہ کی کنڈی بھی کھڑکادی۔ لبنانی مزاحمت کاروں سے جگ بندی کے نتیجے میں اسرائیلیوں کو اس اعتبار سے راحت نصیب ہوگئی کہ اب شمال کی جانب سے میزائیلوں کی بارش رک گئی ہے۔

تاہم ادھر کچھ دنوں سے حوثیوں نے اسرائیلیوں کی نام میں دم کررکھا ہے۔ یمنیوں کا ہدف وسطی اسرائیل خاص طور سے تل ابیب ہے۔ اسرائیل، یروشلم کو اپنا دارالحکومت قراردیتا ہے لیکن امریکہ اور دوسرے چند ملکوں کے سوا ساری دنیا کیلئے تل ابیب ہی اسرائیل کا دارالحکومت ہے جہاں تمام ملکوں کے سفارتخانے ہیں۔گویاحوتیوں نے  قلبِ اسرائیل کو نشانے پر رکھ لیا ہے۔اس ہفتے پے درپئے دومیزائیل حملوں نے عوام میں ہیجان برپا کردیا۔ بیس دسمبر کو تل ابیب کے مضافاتی علاقے کا ایک اسکول نشانہ بنا۔ کوئی جانی نقصان تو نہ ہوا لیکن بدحواسی کے عالم میں پناہ گاہ کی طرف بھاگتے ہوئے جو بھگڈر مچی اس میں طبی عملے سمیت پانچ افراد زخمی ہوگئے۔اس حملے کے بعد اسرائیلیوں نے یمن کے دارالحکومت پر خوفناک فضائی حملہ کیا۔ فوج نے عوام کو یقین دلایا کہ حوثیوں کی میزائیل ٹیکنالوجی تہس نہس کردی گئی ہے۔حوثی میزائیلوں اور ڈرونوں کا باب ختم شد۔ ابھی اسرائیلی فوج کے ترجمان یہ شیخی بگھار ہی رہے تھے کہ تل ابیب کا مرکزی پارک خوفناک دھماکے سے گونج اٹھا۔ شام کے وقت وہاں تفریح اور کھیل میں مصروف لوگوں نے پناہ گاہوں کی طرف دوڑ لگادی اور ایکدوسرے سے ٹکرانے اور کچل جانے سے 16 افراد شدید زخمی ہوگئے۔ پتہ چلا کہ حوثیوں نے آواز سے چار گنا تیز رفتار Hypersonicمیزائیل، مزاج پرسی کو بھیج دیا تھا۔ اسرائیلی فضائیہ نے اعتراف کیا کہ میزائیل کے سرپرآجانے تک انکے طیارہ شکن نظام کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور جب پتہ چلا تو تیکنیکی خرابی کی وجہ سے  ڈرون کو نشانہ بنانے والے Interceptorsبروقت فائر نہ ہوسکے۔

اسرائیل پر میزائیل حملوں کے انتقام کیلئے امریکہ بہادر بھی اپنے لاڈلے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔گزشتہ کئی دنوں سے امریکی بمباروں نے یمنی دارالحکوت صنعا پر قیامت ڈھائی ہوئی ہے۔ اتوار 22 دسمبر میں حوثیوں نے پہلی بار طیارہ شکن میزائیل کا استعمال کیا اور بحیرہ احمر میں تعینات طیارہ بردار امریکی جہازیوایس ایس ہیری ٹرومن سے اڑان بھرنے والا FA-18 Hornetجہاز مارگرایا۔امریکی مرکزی کمان نے حوثیوں کے دعوے کو مسترد کئے بغیر کہا کہ یہ جہاز غلطی سے اپنے ہی طیارہ شکن میزائیل کا نشانہ بن گیا۔ کمان کے اعلامئے میں کہا گیا کہ دونوں پائلٹ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے جنھیں امریکی بحریہ نے بحفاظت سمندر سے نکال لیا جبکہ ایک پائلٹ کو معمولی زخم آئے۔

غزہ حملے کے آغاز سے ہی ڈانلڈ ٹرمپ اور انکے قدامت اتحادی اسے ایران کا کارنامہ قراردے رہے ہیں۔ریپبلکن پارٹی کے سینئر سینیٹر لنڈسے گراہم کھل کر کہہ چکے ہیں کہ اگر اسرائیل اپنےقیدی چھڑانا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ ایران کے جوہری اثاثوں، تیل و گیس کی تنصبات اور انکی سیاسی قیادت کو نشانہ بنائے۔ اسرائیلی وزیراعظم کے خیال میں بھی مشرق وسطیٰ کے تمام مسائل کا ذمہ دار ایران ہے جسے fix کئے بغیر علاقے میں امن نہیں آسکتا۔اپنی حکمت عملی کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ جوہری تنصیبات کے خاتمے سے ایران کا فوجی دبدبہ اورتیل و گیس کے وسائل پر ضرب سے ریاست کی معاشی طاقت صفر ہوجائیگی۔ اگر اسی ہلے میں روحانی و سیاسی قیادت کو بھی راستے سے ہٹادیا جائے تو افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغرب نواز عناصر کیلئے اقتدار پر قبضہ کرنا آسان ہوگا۔حسن نصراللہ کے قتل پرنیتھن یاہو نے ایرانی روشن خیالوں کو نوید سنائی تھی کہ انکی  توقع سے بہت پہلے تہران ملاوں کی گرفت سے  آزاد ہوجائیگا۔

تل ابیب پر میزائیل حملوں کے بعد انھوں نے حوثیوں اور حوثیوں کے'سرپرستوں' کے خلاف بے رحم،  منظم و مربوط کاروائی کا عندیہ دیا ہے۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے نیتھن یاہو نے کہاکہ امریکہ اور اسرائیل سمیت تمام ممالک حوثیوں کو نہ صرف جہاز رانی بلکہ عالمی نظم و نسق (World Order)کے لیے بھی خطرہ سمجھتے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جس طرح ہم نے 'ایران کے شیطانی محور' (غزہ اور بیروت) کو ریت کا ڈھیر بنادیا، اسی طرح ہم حوثیوں کے خلاف بھی کارروائی کریں گے، طاقت، عزم اور نفاست کے ساتھ۔

یمن اور ایران پر حملے کب اور کس نوعیت کے ہونگے انکے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن اسرائیل کی عسکری حکمت عملی پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یمن پر حملہ دنوں کی بات ہے۔ اس حملے میں اسی قسم کے بنکر بسٹر اور دوسرے ہلاکت خیز بم استعمال کئے جائینگے جو بیروت کی بلندو بالا عمارات پر گرائے گئے۔ خیال ہے کہ یہ اسرائیل و امریکہ کی مشترکہ کاروائی ہوگی۔ بیک وقت سعودی سرحد پر سعدہ، بحیرہ احمر کی الحدیدہ و عدن کی بندرگاہوں اور بحیرہ عرب کے ساحل پر المکلا اور الغیضہ کو نشانہ بنایا جائیگا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 دسمبر 2024


 

غزہ نسل کشی کے ساڑھے چارسودن

جلداز جلد فتح حاصل کرکے جنگ بند کردو۔ ڈانلڈ ٹرمپ کی اسرائیلی وزیراعظم کو تلقین

نابلوس میں فجر کی نماز کے وقت جامع مسجد کو آگ لگادی گئی

شام میں اسرائیلی قبضے کے خلاف عوامی مزاحمت کا آغاز

بچوں پر بمباری جنگ نہیں، ظلم و بربریت ہے، پاپائے روم

مجرم نیتھن یاہو پر زمین تنگ۔ گرفتاری کے ڈر سے پولینڈ کا دورہ منسوخ

یمن سے تل ابیب پر حملہ۔ ہائپر سانک میزائیل روکنے میں اسرائیل ناکام

غزہ نسل کشی کے ساڑھے چارسو دن مکمل ہونے کو ہیں لیکن اب تک 'امن' کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہم نے لفظ امن کوقوسین کا ہالہ اسلئے پہنایا ہے کہ اب تک اس سمت اٹھائے جانے والے تمام اقدامات اور ان سے پھوٹنے والے امکانات قیدیوں کی رہائی کیلئے وقتی جنگ بندی یا وحشیانہ بمباری میں عارضی وقفے کی نشاندہی کررہے ہیں۔ علاقے میں حقیقی امن کیلئے کوئی سنجیدہ ہے اور نہ 'مہذب دنیا' اسکی ضرورت محسوس کررہی ہے۔

امریکہ کے نومنتخب صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران مشیگن میں امریکی عربوں سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وہ غزہ کی جنگ بند کروادینگے۔ لیکن جناب ٹرمپ غزہ کی مکمل پامالی تک جنگ جاری رکھنے کیلئے  صدر بائیڈن سے زیادہ پر عزم نظر آرہے ہیں۔ موصوف  کی ساری دلچسپی قیدیوں کی رہائی سے ہے اور وہ یہ ہدف ہر قیمت پر 20 جنوری کو اپنی حلف برداری سے پہلے حاصل کرلینا چاہتے ہیں۔جہاں تک غزہ جنگ بندی کا تعلق ہے تو وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کی فتح مبیں کے بعد ہی جنگ  بند ہونی چاہیے اور وہ نیتھن یاہو پر برابر زور دے رہے ہیں کہ جلد از جلد فتح حاصل کرکے جنگ بند کردو۔

امریکہ کےموجودہ امن منصوبے کے مطابق اسرائیل عارضی طور پر حملے بند کردیگا تاکہ قیدی رہا ہوسکیں اور اسکے بعد اسرائیل اپنا نیا لائحہِ عمل خود طئے کریگا۔مصر کے جنرل السیسی اور امریکہ کے خلیجی دوست اہل غزہ کو سمجھا رہے ہیں کہ اگر قیدی رہا ہوگئے تو اسرائیل کیلئے جنگ دوبارہ شروع کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہوگا۔یہ بہلاوہ ہے یا خود فریبی؟تاریخِ انسانی شاہد ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کیساتھ اخلاق باختگی میں بھی مغربی دنیاکا کوئی ثانی نہیں۔ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی، ولندیزیوں کی مشرق بعید، فرانسیسیوں کی شمالی افریقہ میں بربریت، امریکہ میں غلاموں کی تجارت اور دورحاضر میں ویتنام، افغانستان وعراق اسکی چند مثالیں ہیں۔

قیدیوں کی رہائی کے بعد دوبارہ جنگ شروع ہونے کے امکانات کے بارے میں اہل غزہ بے حد فکر مند ہیں۔حالیہ امن مذاکرات کے دوران مستضعفین نے قطری اور مصری ثالثیوں کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا 'انھیں یقین ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو جنگ بندی کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد لڑائی دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دے دیں گے' ۔ اہل غزہ کے اس خدشے کی تقویت ایک سینئر اسرائیلی اہلکار کے بیان سے ملتی ہے جنھوں نے ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا 'وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کو یقین ہے کہ پہلے مرحلے کے بعد جنگ دوبارہ شروع کرنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ، بائیڈن کے مقابلے میں زیادہ لچکدرا ہوگی'۔ گزشتہ ہفتے نیتھن یاہو نے بہت ہی غیر مبہم لہجے میں کہا تھا کہ 'ا گر ہم ابھی جنگ ختم کر دیتے ہیں تو حماس واپس آ جائے گی، خود کو بحال کرے گی اور تعمیر نو کے بعد اسرائیل پر دوبارہ حملہ کرے گی، ہم اس صورتحال میں واپس نہیں جانا چاہتے'۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل

فلسطینی وزارت صحت نے دوہفتہ پہلے جو اعدادوشمار جاری کئے ہیں اسکے مطابق 7 اکتوبر 2023ء سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں شہداء کی تعداد 45,028 اور زخمیوں کی تعداد 106,962 تک پہنچ گئی ہے۔واضح رہے کہ ان میں ہوہ زاروں لاپتہ افراد شامل نہیں جو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں یا جو  تشدد کی تاب نہ لاکر دم توڑ گئے اور لاشوں کو اسرائیلی فوج نے ٹھکانے لگادیا۔

غزہ کیساتھ غرب اردن، مشرقی یروشلم اور مرتفع جولان سے متصل جبل حرمون کی وادی اور شام کے پرفضامقام قنیطرہ میں بھی نسلی تطہیر جاری ہے۔ جمعہ 20 دسمبر کو غربِ اردن میں نابلوس کے مضافاتی علاقے مردہ کی جامعہ مسجد کو قبضہ گردوں نے اسوقت آگ لگادی جب وہاں فجر کی نماز ہورہی تھی۔حملہ آور دیوار پر عبرانی میں کہ یہ بھی لکھ گئے کہ ' (بدکاروں سے )انتقام راستبازوں کیلئے خوشی کا سبب ہے۔' صد شکر کہ آتشزدگی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا حالانکہ مسجد کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔ اسی دن طولکرم پر ڈرون حملے میں 6 فلسطینی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔مشرقی یروشلم میں  بیت المقدس کے قریب فلسطینیوں کے گھروں پر بلڈوزر چلادئے گئے۔ اسرائیل نے یہاں نئی قبضہ بستی تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔اقوام عالم کی جانب سے خودمختار فلسطینی ریاست پر اصرار کے بعد اسرائیل نے غرب اردن کیساتھ مشرقی یروشلم سے فلسطینیوں کو نکال کر وہاں قبضہ بستیاں تعمیر کرنے کا کام تیز کردیا ہے تاکہ اسے اسرائیلی اکثریتی علاقہ بنادیا جائے۔

مقبوضہ عرب علاقوں پر فوج کشی، قتل عام اور پکڑ دھکڑ کے باجود فلسطینیوں کی پرامن مزاحمت بھی جاری ہے۔ مشرقی یروشلم، رام اللہ، جنین، نابلوس، الخلیل (Hebron)، اریحہ (Hebron)، قلقیلیہ  میں روزانہ مظاہرے ہوریے ہیں۔ گزشتہ ہفتے مسیحی اکثریتی علاقے بیت اللحم میں آزادی فلسطین کیلئے بڑا جلوس نکالا گیا۔ شام میں بھی اسرائیلی قبضے کے خلاف عوامی مزاحمت کا آغاز ہوگیاہے۔ درعا صوبے کے گاوں معریہ میں مظاہرین نے 'شام ہمارا ہے'، 'صیہونی قبضہ نامنظور' اور 'فلسطین کو آزاد کرو' کے نعرے لگائے۔ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے کئی نوجوان زخمی ہوگئے جن میں سے ایک مجروح ماہرالحسینی کی حالت نازک ہے۔

خفیف ہی سہی لیکن عالمی سطح پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ جبالیہ کے موسےٰ بن نصیر ہائی اسکول پر بمباری اور معصوم بچوں کی شہادت سے پاپائے روم اعلیٰ حضرت پوپ فرانسس  بے حد غمگین ہیں۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا 'بچوں پر بمباری جنگ نہیں ظلم و بربریت ہے۔ یہ سن کر میرا دل ڈوباجارہا ہے جسکی مذمت کے لئے میرے پاس  الفاظ نہیں۔ میلادمسیح ؑ کی تقریبات کے آغاز پر ویٹیکن کے معروف سینٹ پیٹرز اسکوائر میں پاپائے روم کے سامنے پیش کئے جانیوالا نومولود،  فلسطینی کفیہ میں لپٹا دکھایا گیا۔اس موقع پر پوپ فرانسس نے کہا ان بھائیوں اور بہنوں کو یاد کرو، جو بیت اللحم (یروشلم میں مسیحؑ کی جائے پیدائش)، غرب اردن، غزہ  اور دنیا کے دیگر حصوں میں، جنگ کے المیے کا شکار ہیں۔ مزید ارشاد ہوا کہ جنگ، تشدد، اور ہتھیاروں کی تجارت افسوسناک ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پوپ فرانسس کا بیان و ردعمل  غلط فہمی اور زمینی حقائق سے لاعلمی کا نتیجہ ہے۔

سفارتی سطح پر اسرائیل اور آئرلینڈ کے درمیاں خلیج مزید گہری ہوگئی ہے۔سترہ دسمبر کو آئرلینڈ میں فلسطین کی سفیر ڈاکٹر جیلان وہبہ عبدالمجید کی اسناد سفارت وصول کرنے تقریب سے خطاب کرتے ہوئےآئرلینڈ کے صدر مائیکل ہگنز نے کہا کہ اسرائیل تمام عرب علاقوں میں قبضہ بستیاں تعمیر کرنا چاہتا ہے اور اگر اسکا بس چلے تو وہ صحرائے سینائی (مصر) میں بھی اسرائیلی بستیاں قائم کردے۔اسرائیلی وزیرخارجہ گدون سعر نے اس پر شدید ردعمل بلکہ اشتعال کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئرش صدر کو سام دشمن جھوٹا Anti Semitic Lier قرار دیدیا۔

گژشتہ ماہ جب ہالینڈ نے اعلان کیا کہ انکا ملک اسرائیلی وزیراعظم کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (ICC)کے پروانہ گرفتاری کی تعمیل میں مکمل تعاون کریگا تو بطور احتجاج جناب  گدون سعر نے اپناپہلے سے طئے شدہ شدہ دورہ ہالینڈ منسوخ کردیا۔اب وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو نے Auschwitzیبیگار کیمپ کی آزادی کی تقریب میں شرکت کیلئے پولینڈ نہ جانے کا عندیہ دیا ہے۔ کیمپ کو نازیوں سے آزاد کرانے کی 80 سالہ تقریب 27جنوری کو ہورہی ہے جس میں شاہ برطانیہ سمیت مغربی دنیا کے اہم رہنما شرکت کرینگے۔ نیتھن یاہو کو ڈر ہے کہ کہیں عالمی فوجداری عدالت (ICC)کے وارنٹ پر پولستانی حکومت انھیں گرفتار نہ کرلے۔

بدترین پابندیوں اور قحط کے باوجود اہل غزہ کی مزاحمت جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے مزاحمت کاروں نے کئی اسرائیلی سپاہیوں کو چھرے مار کرہلاک کردیا۔دوسری طرف یمن سے پھینکے جانیوالے ڈرونوں اور میزائیلوں نے تل ابب میں سراسیمگی پھیلادی ہے۔ جمعرات 19 دسمبر کو یمن سے داغے جانیوالے میزئیل نے تل ابیب کے مضافاتی علاقے رعمت گن کو نشانہ بنایا۔حملے میں کوئی کانی نقصان تو نہٰیں ہوا لیکن پرائمری اسکول بالکل تباہ ہوگیا۔ رئیس شہر کے مطابق، اسکول کی تعمیر نو پر ایک کروڑ ڈالر خرچ ہونگے۔ اسی دن رات کو اسرائیلی فضائیہ نے  یمن کے دارالحکومت صنعا پر زبردست بمباری کی۔ اسرائیلی عوام کا حوصلہ بلند کرنے کیلئے یمن کی طرف بھیجے جانیوالے امریکی ساختہ F16کی روانگی براہ راست دکھائی گئی جسے خواتین ہواباز اڑارہی تھیں۔مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ دشمن کی تل ابیب تک پہنچ سے اسرائیل خوفزدہ نہیں اورمردانِ جری کیساتھ خواتین بھی آہنی عزم رکھتی ہیں۔ بمباروں کے واپس آنے پر وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ حوثی میزائیل داغنا تو کیا اب وہ میزائیل سازی کے قابل بھی نہیں رہے۔لیکن ابھی اس دعوے کی گھن گرج تھمی بھی نہ تھی کہ دوسرے دن یمنیوں نے تل ابیب کا نشانہ لیکر ایک Hypersonicمیزائل داغ دیا۔ہائپر سانک کا مطلب ہے آواز سے کم ازکم چار گنا تیز رفتار۔میزائیل شام کے وقت ایک پارک میں گرا۔کوئی جانی نقصان نہ ہوالیکن دھماکے سے خوفزدہ ہوکر وہاں موجود ہزاروں افراد پناہ گاہوں کی طرف بھاگے اور اس بھگدڑ میں 16 افراد کو چوٹیں آئیں۔ چند روز پہلے بھی میزائیل حملےکا سائرن بجنے پر دوڑتے ہوئے ایک دوسرے سے ٹکرا کر طبی عملے سمیت پانچ افراد زخمی ہوگئے تھے۔

اور قلم کے ایک مزدور کی شہادت پر گفتگو کا اختتام۔ الجزیرہ کے جوانسال عکاس (فوٹوگرافر) احمد الالواح  15 دسمبر کو اسرائیلی ڈرون کا نشانہ بن گئے۔ عالمی کمیٹی برائے تحفظ صحافیان (CPJ)کے مطابق 20 دسمبر تک غزہ میں 141 صحافی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اپنی جان سے گئے۔ غزہ، جنوبی لبنان اور غرب اردن میں ہلاک و زخمی ہونے والوں صحافیوں کی غالب اکثریت الجزیرہ اور دوسرے عرب خبر رساں اداروں سے وابستہ افراد کی ہے لیکن ظلم و جبر کی حکائت قلمبند کرنے کی کوشش میں امریکی  خبر رساں ادارے، ایسوسی ایٹیڈ پریس اور رائٹرز، روسی Sputnik، فرانیسی AFP  کیساتھ اسرائیلی ٹیلی ویژن Ynet، چینل 12 اور الارض Haaretzکے صحافیوں نے بھی قلم کی حرمت کیلئے اپنے سینہ و سر پیش کئے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 دسمبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 27 دسمبر 2024

روزنامہ امت کراچی 27 دسمبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 29 دسمبر 2024


 

 

 

 

 

 

 

Wednesday, December 25, 2024

 

ڈانلڈ ٹرمپ کے توسیع پسندانہ عزائم۔ گرین لینڈ خریدنے کی پیشکش

نومنتخب امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ حلف اٹھانے سے قبل ہی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کا کھل کر اعلان کررہے ہیں۔ کینیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو سے ملاقات کے دوران انھوں نے ازراہِ مذاق فرمایا کہ 'امریکہ کی جانب سے متوقع 25 فیصد درآمدی محصولات سے بچنے کا سب سے بہتر اور آسان طریقہ یہ ہے کہ کینیڈا، امریکہ کی 51 ویں ریاست بن جائے' ۔کنیڈین وزیراعظم نے غصہ ہونے کے بجائے اعلیٰ ذوقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ' لیکن امریکہ (ڈانلڈٹرمپ کی قیادت میں) قدامت پسندی کی طرف مائل ہے جبکہ کنیڈا لبرل سیاست کا علمبردار' جس پر جناب ٹرمپ بولے 'ہم اس کو 'قدامت پسند کینیڈا' اور 'لبرل کینیڈا' ریاستوں میں تقسیم کردینگے'

اسوقت بات ہنسی مذاق میں ختم ہوگئی لیکن دوسرے دن جناب ٹرمپ نے سماجی رابطے کے اپنے چبوترے Truthپر وزیراعظم کے بجائے 'گورنرٹروڈو' لکھ کر کینیڈا کو 'ہتھیانے' کا اپنا عزم دہرادیا

کینیڈآ والی بات لطیف انداز میں کہی گئی تھی لیکن ڈنمارک کے خودمختار علاقے 'گرین لینڈ' پر قبضے کے بارے میں نومنتخب امریکی صدر بہت سنجیدہ لگ رہے ہیں۔

مقامی طور پر کلائت نات (Kalaallit Nunaat) پکارا جانیوالا 21 لاکھ 66 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط دنیا کا یہ سب سے بڑا جزیرہ بحر منجمد شمالی اور کینیڈا کے قریپ واقع ہے۔شمالی امریکہ میں ہونے کے باوجود سلطنت ڈنمارک کی ملکیت ہونے کی بناپر گرین لینڈ یورپی یونین کا حصہ ہے۔ ڈنمارک کا تین چوتھائی علاقہ سارا سال برف کی موٹی چادر سے ڈھکا رہتا ہے چنانچہ یہاں رہائش پزیر 56 ہزار نفوس اسکے جنوب مغربی ساحل پر آباد ہیں۔

گرین لینٖڈ کے لوگوں کی گزربسر ماہی گیری پر ہوتی ہے۔ صاف شفاف آب و ہوا کی وجہ سے سیاحت بھی ایک نفع بخش صنعت ہے۔ صدر ٹرمپ کی نظر گرین لینڈ کے معدنی ذخائر پر ہے۔ یہاں یورینیم، پلاٹینیم، ٹنگسٹن، لوہے، تانبے اور یاقوت (Ruby)کے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں

اپنے ارب پتی دوست اور PayPalکے شریک بانی کین ہاوری (Ken Howery)کو ڈنمارک میں امریکہ کا سفیر نامزد کرتے ہوئے جناب ڈانلڈ ٹرمپ نے کہا 'امریکہ کی قومی سلامتی اور اقوام عالم کی آزادی برقرار رکھنےکیلئے گرین لینڈ کی ملکیت اور کنٹرول امریکہ کے ہاتھوں میں آنا ضروری ہے'۔ اس حوالے سے اپنے سفیر پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے موصوف گویا ہوئے 'کین امریکی مفادات کی نمائندگی کیلئے شاندار کام کریں گے'

ڈانلڈ ٹرمپ کے بیان پر گرین لینڈ نے دوٹوک لیکن مہذب ردعمل سامنے آیا۔ ملک کے وزیر اعظم میوٹ ایگیڈ نے اس خیال کو یکسر مسترد کر دیا۔ ایک فیس بک پوسٹ میں انھوں نے لکھا 'گرین لینڈ ہمارا ہے اور ہم برائے فروخت نہیں ہیں اور نہ ہی کبھی بکاو مال بنیں گے۔ہمیں آزادی کے لئے دی جانیوالی اپنی قربانیوں کا احساس ہے۔تاہم، دنیا، خاص طور سے ہمسائے ہمیں تعاون و تجارت کیلئے کھلا پائینگے.



 

ہنوکا یا روشن دیوں کا تہوار

آج  جہاں مسیحی دینا حضرت عیسیؑ   کا یوم ولات منارہی ہے وہیں   یہ  یہودیوں کے تہوار کا آغاز بھی ہے

25سمبر کو غروب آفتاب سے 2 جنوری کی رات تک یہودی روشنیوں کا آٹھ روزہ تہوار یا Hanukkah کے ایام ہیں۔ شادمانی و شکرکا یہ تہوار یروشلم کی پہلی عبادت گاہ کو حضرت سلیمانؑ سے منسوب کرنے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ عبرانی کیلنڈر کے نویں مہینے کیشلیف (Kislev)کی 26 تاریخ سے دسویں مہینے تویت (Tevet)کی دو یا تین تاریخ کو ایامِ ہنوکا کہا جاتا ہے۔عبرانی کیلنڈر قمری ہے اسلئے انکے مہینے بھی 29 یا 30 دن کے ہوتے ہیں چنانچہ ہنوکا کا اختتام ماہ تویت کی روئت پر ہے

ہنوکا کے دوران گھرکے ہر فرد کیلئے مختص دیوں کے خوبصورت اسٹینڈ یا منورہ پر روزانہ شام کو ایک دیا روشن کیا جاتا ہے اور تہوار کے اختتام پر ہر اسٹینڈ 9 دیوں سے منور ہوجاتا ہے

اسی بناپر اس تہوار کو ہنوکا منورہ بھی کہتے ہیں

یہودی عقیدے کی رو سے یہ 9 دن حد درجہ مبارک اور قبولیتِ دعا کے ہیں چنانچہ انکے معبدوں میں ہر شام دعائیہ مجلسیں منعقد ہوتی ہیں اور اجتماعی استغفار کا اہتمام کیا جاتا ہے

ہرسا ل کی طرح اس بار بھی ہنوکا کے موقع پر ہمارے دل چھلنی ہیں کہ دوارب مسلمانوں کے قبلہ اول کی کنجیاں تنگ نظر و متعصب مسلم دشمن و انسانیت کش مافیا کے ہاتھوں میں ہیں اور غزہ  ڈھائی سو دنوں سے نسل کشی کا شکار ہے۔ بیروت بھی ملبے کا ڈھیر اور ایران و یمن اسرائیلی جارحیت کا نشانہ  ہیں۔ غرب اردن اور مشرقی بیت المقدس کے رہائیشیوں کو  ہلاکت  و نقل مکانی کے  جبر کا سامنا ہے۔  

 بہت ہی بوجھل دل سے  یہودی دوستوں کو ہنوکا کی  مبارک باد

اس امید پر کہ سلیمانؑ  اور انکے پاکباز والد حضرت داودؑ کے سچے پیروکار توحید و انصاف کا علم لے کر میدان میں آئینگے،  نفرت کے اندھیرے چھٹیں گے اور یہ شہر جگمگائے گا نورِ لا الالٰہ سے

آپ مسعود ابدالی  کی   پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔


 

 

ڈانلڈ ٹرمپ!!! دنیا کے ہر پرکشش اثاثے پر نظر ۔ اب نہرِ پاناما

نومنتخب امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کے توسیع پسندانہ عزائم کے حوالے سے کینیڈا اور گرین لینڈ کا ذکر ہم اس سے پہلے ایک نشست میں کرچکے ہیں۔ کنیڈا کا معاملہ تو فی الحال ایک بھونڈے مذاق سے زیادہ کچھ نہیں اور گرین لینڈ کا شگوفہ کو بھی جناب ٹرمپ کاروبارِ جائیداد (Real Estate)کے تناظر میں نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ ہر پرفضا مقام کو دیکھ کر انکی رال ٹپک پڑتی ہے۔

لیکن نہر پاناما (Panama Canal)پر جناب ٹرمپ نے 'قبضے' کی بات کی ہے

وسطِی امریکہ میں 82 کلومیٹر یہ مصنوعی نہر بحرالکاہل (Pacific)کو بحر اوقیانوس (Atlantic)سے ملاتی ہے۔نہر کھودنے کا منصوبہ 1881 میں فرانس نے بنایالیکن پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ نقشے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ دودہائی بعد 1904 میں امریکی سرمائے سے نہر کی کھدائی شروع ہوئی اور 1914 میں اسے بحری ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق سالانہ 14 ہزار جہاز اس  13 میٹر گہری نہر سے گزرتے ہیں۔ جن سے محصولات کی مد میں پانامہ سرکار کی آمدنی کا تخمینہ 7ارب 20 کروڑ ڈالر ہے۔

نہر کی ملکیت کیلئے پناما اور امریکہ کے درمیان مسلسل کشیدگی رہی اور کئی بار پانامہ کے عوام کا امریکی فوج سے خونریز تصادم ہوا۔ نومبر 1956 میں مصر کی جانب سے نہر سوئر کو قومیانے کے عمل نے پاناما کے عوام کو حوصلہ دیا اور 'نہر پانامہ ہماری ہے' ایک عوامی نعرہ بن گیا۔ دسمبر 1974 سے امریکہ اور پاناما کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوا۔ صدر جمی کارٹر نے  1977میں اقتدار سنبھالتے ہی نہر پر پاناما کی مکیت تسلیم کرتے ہوئے ملک کے فوجی حکمراں جنرل عمر توریہوس (Omar Torrijos)سے مذاکرات شروع کئے اور سات اکتوبر کو نہر کی پاناما حوالگی کے معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ معاہدے کے تحت یہ نہر تمام ممالک کیلئے کھلی رہیگی اور اس سے عسکری جہازوں اور جنگی سازومان کے نقل و حمل کی اجازت نہیں ہوگی۔ آزمائشی مدت مکمل ہوتے پر 31 دسمبر 1999کو نہر کی ملکیت پانامہ کو منتقل ہوتے پر مقتدرہ نہر پانامہ (ACP)نے کھلے مقابلے (open bidding)کے بعد اسکا انتظام و انصرام  Hutchison Whampoaکے حوالے کردیا گیا جو ہانک گانگ کے ادارے  Lai Ka Shingکی ملکیت ہے۔

ہفتہ 21 دسمبر کو تین جناب ڈانلڈ ٹرمپ نے کہا کہ نہر پاناما سے گزرنے والے امریکی جہازوں پر بھاری محصولات عائد کئے جارہے ہیں جو کارٹر توریہوس معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے لہٰذا امریکہ یہ نہر اپنی ملکیت میں واپس لینے کا اختیار رکھتا ہے۔ دوسرے روز ٹرمپ صاحب اپنے مطالبے میں سیاست کا رنگ بھرتے ہوئے بولے کہ 'نہر غلط ہاتھوں میں جاسکتی ہے'۔ موصوف  کااشارہ چین کی طرف تھا۔ پاناما کے صدر ہوزے ملینو نے اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ نہر، پانامہ کا اٹوٹ انگ اور اسکی ملکیت پر انکی قوم کسی بات چیت کیلئے تیار نہیں۔ پاناما کے صدر نے کہا کہ محصولات تمام ممالک کیلئے یکساں اور شایع شدہ ہیں اورکسی قسم کا امتیازی سلوک ممکن نہیں۔جناب ٹرمپ کا اصرار برقرار ہے اور وہ 'احمقانہ معاہدہ' کرنے پر سابق صدر جمی کارٹر کو بھی تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔

جناب ٹرمپ کی گل افشانیوں کااچھا پہلو یہ ہے کہ فی الحال انکی کینیڈا، گرین لینڈ اور نہر پاناما یعنی  نظر شمالی و وسطی امریکہ کی جانب ہے۔ اللہ کرے وہ اگلے چار سال اپنی توجہ وہیں مرکوز رکھیں اور باقی دنیا انکے  شر سے محفوظ رہے۔

آپ مسعود ابدالی  کی   پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔


Thursday, December 19, 2024

 

جنگ بندی کیلئے اہل غزہ پر ٹرمپ کا دباو

شیعہ سنی کشیدگی سے اہل غزہ میں مایوسی

شام کے بڑے علاقے پر اسرائیل کا قبضہ۔زلزلہ بم کا استعمال

وقف رقومات کی اسرائیل نواز اداروں میں سرمایہ کاری بند کی جائے۔ امریکی جامعہ میں ریفرنڈم

اسرائیل کی مخالفت پر جامعہ مشیگن کی ڈائریکٹر برطرف

فلسطینی ریاست تسلیم کرنے پر آئرلینڈ میں اسرائیلی سفارتخانہ بند

اسرائیل سے اہل دانش کا انخلا، نئے کاروبار شروع کرنے کی شرح کم ہوگئی

آزادی فلسطین کا اسٹکر چپکانے پر اسرائیلی نوجوان گرفتار

نومنتخب امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ غزہ امن کیلئے شدید دباو ڈال رہے ہیں لیکن اس حوالےسے انکی ترجیحِ  قیدیوں کی رہائی ہے۔ وہ انتخابی مہم کے دوران کہہ چکےہیں کہ اگر 20 جنوری کو انکے حلف اٹھانے سے پہلے قیدی رہا نہ ہوئے تو ذمہ داروں کو اسکی بھاری قیمت ادار کرنی ہوگی۔ بظاہر وہ اسرائیل سے بھی امن کیلئے اصرار کر رہے ہیں لیکن وہ چاہتے ہیں کہ لڑائی کا اختتام اسرائیل کی فیصلہ کن فتح پر ہو۔ آٹھ دسمبر کو مشرق وسطیٰ کیلئے ٹرمپ کے مشیر Steve Witkoffنے ابو ظہبی میں انتہائی دھمکی آمیز انداز میں کہا 'نو منتخب امریکی صدر کی بات کان کھول کر سن لو۔ اگر (ٹرمپ کے )حلف اٹھانے سے پہلے  قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو وہ بہت برا دن ہوگا'۔ دوسرے دن اسی مصرعہ طرح پر گرہ لگاتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے رفقا کو بتایا کہ، شام سے ایران کے انخلا کے بعد اہل غزہ تنہا رہ گئے ہیں اور اب ہم اپنی شرائط پر قیدی رہا کراسکتے ہیں۔

اہل غزہ اسوقت سخت آزمائش میں ہیں۔ اسرائیل اور لبنان امن معاہدے کے بعد کئی اسرائیلی بریگیڈ واپس آگئے ہیں جنکی بڑی تعداد غزہ تعینات کی جارہی ہے۔ اسرائیل کو لبنانی راکٹوں سے نجات مل گئی ہے جسکی وجہ سے بار بار سائرن سے شہروں میں جو ہیجان بپا ہوتا تھا وہ کیفیت بھی اب باقی نہیں اور شمالی علاقوں میں تجارتی سرگرمیاں تیزی سے معمول پر آرہی ہیں۔شام کی جانب سے اسرائیل کو براہ راست کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن ایران سے آنے والا اسلحہ جولان کے راستے لبنانی مزاحمت کاروں تک  پہنچ رہا تھا۔ اس راستے کو بند کرنے کیلئے اسرائیل نے مقبوضہ مرتفع جولان سے ملحق وادی اور جبل حرمون پر قبضہ کرلیا ہے۔ کچھ جغرافیہ دان جبل حرمون کو جبل الشیخ بھی کہتے ہیں۔قبضے کا جواز فراہم کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس کاروائی کا مقصد بدامنی پھیلانے کیئے شام آنے والے ایران نواز لبنانی دہشت گردوں کا راستہ روکنا ہے۔ اسرائیلی وزیردفاع نے اسوقت یقین دلایا تھا کہ یہ عارضی کنٹرول ہے اور اسرائیل جلد یہ علاقہ خالی کردیگا۔ لیکن 13 دسمبر کووزیردفاع اسرائیل کاٹز نے جبل حرمون تعینات سپاہیوں کیلئے گرم وردیوں کے بندوبست کی ہدائت جاری کردی۔ایک سوال کے جواب پر جناب کاٹز نے کہا کہ اسرائیلی فوج موسم سرما جبل حرمون پر گزارے گی

دس مربع کلومیٹر کا یہ شامی علاقہ ہتھیا نے کے بعدجہاں شام اور لبنان کا اسرائیل سے ملنے والا پورا علاقہ اسرائیل کی کامل گرفت میں ہے وہیں اب شامی دارالحکومت اسرائیل کے براہ راست نشانے پر آگیا کہ اس پہاڑی سلسلے سے دمشق صرف 29 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔یہاں کا پہاڑی مقام قنیطرہ خانہ جنگی کی وجہ سے عملاً غیر آباد ہے خیال تھاکہ کہ امن و امان کی صورتحال بہتر ہوجانے پر نقل مکانی کرنے والوں کی جلد قینطرہ واپسی شروع ہوگی۔ لیکن اسرائیلی بلڈوزروں نے سڑکیں ادھیڑ دیں، قدیم درخت گرادئے، آبپاشی و آبنوشی کے ذخائر، سیوریج تنصیبات اور بجلی کا نظام تباہ کرکے سطح سمندر سے 1010 میٹر بلندی پر واقع یہ خوبصورت صحت افزا مقام انسانی حیات کیلئے ناموزوں بنادیا ہے۔یہ دراصل قبضے کے خلاف ممکنہ عوامی مزاحمت کے امکان کو ختم کرنے کیا گیا کہ نہ شہر آباد ہوگا نہ گوریلے منظم ہونگے۔ شہری سہولتوں تباہ کرنے کی یہی حکمت غربِ اردن کے شہروں اور غزہ میں اختیار کی جارہی ہے۔اسی کیساتھ شام کی عسکری تنصیات پر بنکر بسٹر بموں سے حملے جاری ہیں۔ ہفتہ 14 دسمبر کو پانچ گھنٹوں میں 61 مقامات پر میزائیل حملے ہوئے۔ دوسرے دن شامی بندرگاہ طرطوس پر جو بم گرائے گئے انکا دھماکہ اتنا شدید تھا کہ علاقے کے زلزلہ پیما (Seismic Sensor)نے 3 شدت کا زلزلہ ریکارڈ کیا۔اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ میزائیل سے زیر آب اور زیر زمین اڈوں نشانہ بنایا گیا۔حملے میں فوجی تنصیات کے ساتھ تجارتی گودیاں بھی ملبہ بن کر بحیرہ روم میں جاگریں۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے انقلابِ شام کے قائد احمد الشرعہ المعروف الجولانی نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے زمین پر قبضے اور فضائی حملے قابل مذمت ہیں لیکن تھکن کے باعث انکا ملک نئے تنازعے کے لیے تیار نہیں۔

شام میں بشارالاسد کی معزولی سے پہلے ہی ایران نے اپنے فوجی سازوسامان اور افرادی قوت وہاں سے ہٹالینے کا فیصلہ کرلیاتھااور عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیل نے شام سے یہ اثاثے لبنان منتقل کرنے کی کوشش ناکام بنادی۔ الاسداقتدار کے خاتمہ اسرائیل کے ہاتھوں ایران کی شکست سمجھا جارہا ہے جبکہ متعصب عناصر شام میں تبدیلی اقتدار کو ترک سنیوں کی شیعوں پر فتح قراردے رہے ہیں۔رہبر معظم ایران حضرت علی خامنہ ای نے اپنے ایک بیان میں کہا  'بشار الاسد کو معزول کرنے کی سازش اسرائیل اور امریکہ میں بُنی گئی۔ شام کا ایک پڑوسی ملک بھی اس خونی کھیل میں شریک تھا'۔ رہبرِ ایران نے ترکیہ کا نام لینے سے گریز کیا لیکن اس سے پہلے ایران کے نائب صدر برائے تزویراتی امور جاوید ظریف صاف صاف کہہ چکے تھے کہ 'اس معاملے میں ترکیہ کا کردار بہت واضح ہے'۔

بلاشبہہ 53 سال کے جبر سے نجات پر شامی بہت خوش ہیں۔ لاکھوں بے گناہوں کو عقوبت کدے سے رہائی نصیب ہوئی لیکن اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی شیعہ سنی کشیدگی نے فلسطینیوں کو اندیشہ ہائے دوردرازمیں مبتلا کردیاہے۔ بدترین بمباری، بھوک اور مکمل تباہی کو اہل غزہ نے اب تک بہت خندہ پیشانی اور حوصلے سے جھیلا۔ بہیمانہ جبرکے مقابلے میں انکے پرعزم صبرکی ساری دنیا معترف ہے لیکن شام سے ایران کی پسپائی کے بعد وہ خود کو دیوار سے لگا محسوس کررہے ہیں۔ اہل غزہ کو قیادت کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ سیاسی رہنما اسماعیل ہانیہ، انکے جانشین یحییٰ سنوار اور عسکری کمانڈر ابراہیم المصری تینوں اپنے رب کے پاس ہیں۔ مذکرات کے دوران ان کلیدی افراد کی کمی بری طرح محسوس کی جارہی ہے۔  

ٹرمپ کا دباو اور زمینی صورتحال کا جبر اہل غزہ کو امن کیلئے اپنی شرایط نرم کرنے پر مجبور کرتا نظر آرہا ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے انکشاف کیا کہ غزہ کے مزاحمت کار اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے پہلے ہی کچھ قیدی رہا کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ اس سے پہلے غزہ کا موقف تھا کہ اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا سے پہلے قیدی رہا نہیں ہونگے۔

موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنا کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ عارضی جنگ بندی کے دوران کچھ قیدی رہا کردئے جائینگے۔ امریکی آن لائن خبر ایجنسی Axios کا کہنا ہے کہ مستضعفین نے اپنی تحویل میں موجود قیدیوں کی جزوی فہرست قطر اور مصری حکام کے حوالے کردی ہے جن میں کچھ امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ خیال ہے کہ پہلے مرحلے میں امریکی شہریوں کو رہا کیا جائیگا۔ واضح رہے کہ یہ خبر وال اسٹریٹ جرنل اور Axiosنے جاری کی ہے، تادم تحریر اہل غزہ نے اسکی تصدیق یا تردید نہیں کی

غزہ کی امن پر آمادگی کے باوجود وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے۔ سبت (ہفتہ) پر سبزی کاٹنے کیلئے بھی چھری استعمال کرنا منع ہے لیکن 13 دسمبر کو غروب افتاب سے  14 دسمبر کو سبت کے اختتام تک وسطی غزہ پر بلا تعطل بمباری کی گئی اور اسکولوں سمیت متاثرین کی پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خان یونس میں نصر اسپتال پر بمباری سے 36 بچے اور خواتین جاں بحق ہوگئے۔ اس ہفتے ایک نئی تبدیلی یہ دیکھنے کو ملی کہ غرب اردن میں اسرائیلی فوج کیساتھ اب مقتدرہ فلسطین (PA)بھی سرگرم ہوگئی ہے اورمقتدرہ فوج کے ہاتھوں جنین میں ایک فلسطینی جاں بحق ہوگیا۔

ڈانلڈ ٹرمپ کے جارحانہ دھمکیاں، اسرائیلی بمباری اور اب ایران کی جانب سے حمائت میں کمی اہل غزہ کیلئے پریشانی کا باعث  تو ہے لیکن سیاسی محاذ پر امریکہ سے ایک چشم کشا کامیابی ،انتہائی موقر تعلیمی ادارے جامعہ ییل Yaleکا ریفرنڈم ہے۔ استصواب کے نتائج کچھ اسطرح رہے:

سوال نمبر ایک: کیا ییل کو فوجی ہتھیار بنانے والے، اسلحہ فراہم کرنے والے اور اسرائیل کو مسلح کرنے والے اداروں میں سرمایہ کاری کا انکشاف کرنا چاہئے؟  نتیجہ: ہاں 83 فیصد

سوال نمبر دو: کیا ییل کو ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری سے الگ ہوجانا چاہئے۔ نتیجہ: ہاں 76فیصد

سوال نمبر تین: کیا ییل کو فلسطینی اسکالرز اور طالب علموں میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے تاکہ تعلیم کے یکساں مواقع کے وعدے (Commitment)کو پورا کیا جاسکے۔ نتیجہ: ہاں 79 فیصد۔

جامعہ ییل کی وقف (Endowment)رقم 41 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ دوسری جانب امریکی جامعات میں جبر بھی اپنے عروج پر ہے۔  جامعہ مشیگن کی ڈائریکٹر برائے تنوع،برابری اور شمولیت (DEI)ڈاکٹر راشل ڈاوسن کو سام دشمنAntisemitic تبصرہ کرنے پر ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے جامعہ کی اسرائیل نواز پالیسی پر جھنجھلا کر یہ کہدیا تھا کہ 'جامعہ دولتمند یہودیوں کے کنٹرول میں ہے'۔ ایسی ہی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ سفارتی میدان میں ہورہا ہے۔ فلسطینی ریاست تسلیم کرنے اسرائیل نے آئر لینڈ میں  اپنا سفارتخانہ بند کردیا۔

غزہ اور جنوبی لبنان کو ریت کو ڈھیر بنادینے، شام کے فوجی اثاثے ایک ایک کرکے پھونک دینے اور مستضعفین کی سیاسی اور عسکری قیادت کے قتل کے باجود خوف کا یہ عالم ہے وزیراعظم نیتھن یاہو کے خلاف کرپشن کے مقدمے کی سماعت زیر زمین بنکر میں ہورہی ہے۔ یہ ہیجان پورے معاشرے پر طاری ہے۔ تیس نومبرکو ایک نوجوان اسرائیلی Andrey Khrzhanovskiy نے فوجی قبرستان کے ایک چوبی ستون پر فلسطین آزاد کرو کا اسٹکر چپکاکر اس منظر کو سوشل میڈیا پر نصب کردیا۔ یہ بھولا یہودی بچہ سمجھ رہا تھا کہ مشرق وسطیٰ کی اکلوتی جمہوریت میں ایک بے ضرر اسٹکر چپکادینا کوئی بڑی بات نہیں اس لئے اس نے اسے بے نامی رکھنے کے بجائے پوسٹ پر اپنی تصویر بھی لگادی۔اس پر اسرائیل بھر میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ خفیہ ادارے شاباک نے تحقیقات شروع کردیں اور اندرے کو تل ابیب کے ایک ریستوران سے اسوقت گرفتار کرلیا گیا جب وہ دوستوں کے ساتھ سبت منارہا تھا۔

جہاں  فلسطینیوں کے حق آزادی کیلئے کمزور ہی سہی لیکن خود اسرائیل سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں وہیں مستکبرین بھی یکجان ہیں۔ہالینڈ کے انتہاپسند رہنما گیرت وائلڈرز،  شام میں عسکری تنصیبات کو تباہ کرنے پر مبارکباد دینے بنفس نفیس یروشلم آئے اور کہا 'نیتھن یاہو نے ایک سال کے عرصے میں غزہ مزاحمت کاروں کو کچل کر، لبنانی دہشت گردوں کو شکست دے کر اور ایران کو نمایاں طور پر کمزور کرکے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے اس سے کہیں زیادہ کام کیا ہے جو یورپی یونین 70 سالوں میں نہ کرسکی۔

اور آخر میں اسرائیلی مرکز دانش Resilient, Innovative and Sustainable Economy (RISE) کی ایک رپورٹ۔ رائزکے مطابق پرکشش مراعات اور بہتر مستقبل کی تلاش میں اسرائیلی ماہرین کے ملک سے باہر جانے کی شرح بہت بڑھ گئی ہے جسکی وجہ سے ملک میں ٹیکنالوجی کے نئے ادارے قائم نہیں ہورہے۔ یہ رجحان کئی سال سے ہے لیکن غزہ جنگ کے نتیجے میں ماہرین کے جانے کی رفتار تیز ہوجانے سے نئے کاروبار شروع کرنے کی شرح 45 فیصد کم ہوگئی ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 20 دسمبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 20 دسمبر 2024

روزنامہ امت کراچی 20 دسمبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 22 دسمبر 2024



Thursday, December 12, 2024

 

اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مجرم ہے۔ ایمینسٹی انٹر نیشنل

غزہ میں نئی قبضہ بستیاں تعمیر ہونگی؟؟؟

جنگی جرائم مقدمات کا خطرہ، اسرائیلی فوجیوں کو بیرون ملک جانے سے روکدیا گیا

آسٹریلیا نے سابق اسرائیلی وزیر کوویزا دینے سے انکار کردیا

ڈانلڈ ٹرمپ کے حکم پر مزاحمت کار قیادت کو قطر واپس آنے کی دعوت

انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا مجرم قراردیدیا۔ پانچ دسمبر کو ادارے کی معتمد عام محترمہ اینس کیلیمرد (Angnes Callamard)  کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ پر حملے کے دوران اسرائیل نے منظم منصوبہ بندی کیساتھ اہم بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا اور خوراک و ادویات کے علاوہ ضرروی انسانی امداد کی فراہمی روک کر فلسطینیوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل پر  1951 کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے  ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی عسکری اقدامات کا مقصد غزہ کی فلسطینی آبادی کو "سست اور سوچی سمجھی موت" کے عذاب میں مبتلا کرنا ہے۔ رپورٹ کو اشاعت کیلئے جاری کرتے ہوئے محترمہ کیلیمرد نے کہا 'ہمارے ان افسوسناک نتائج کو بین الاقوامی برادری کے لیے خطرے کی گھنٹی کے طور پر کام کرنا چاہیے،  یہ صریح نسل کشی ہے جسے فوری طور پر بند ہونا ضروری ہے'

حسب توقع اسرائیل اور انکے امریکی و یورپی اتحادیوں نے اس رپورٹ کو مسترد کردیا۔ ایمنسٹی پر الزام لگاتے ہوئے اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا 'قابل مذمت اور جنونی تنظیم،  ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بار پھر سفید جھوٹ پر مبنی من گھڑت رپورٹ پیش کی ہے۔ایمنسٹی انٹرنییشنل اسرائیل نے بھی رپورٹ کو مبالغہ آمیز قراردیا۔ ایمنسٹی انٹرنشینل کی اسرائیلی شاخ کا کہنا تھا کہ مقامی افراد کو تحقیقات سے علیحدہ رکھ کر معاملے کو مشکوک بنادیا گیا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں  لگائے گئے الزامات خودساختہ ، بلا ثبوت اور بے بنیاد ہیں چنانچہ امریکہ  نے غزہ نسل کشی کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان سبا شین فشر (Sebastian Fischer)بہت دور کی کوڑی لائے۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے بولے 'جب تک “نیت” کے بارے میں ناقابل تردید ثبوت نہ مل جائے نسل کشی ثابت نہیں ہوتی۔ غزہ میں اسرائیل کے کسی بھی قدم سے ثابت نہیں ہوا کہ یہ سب کچھ نسل کشی کی 'نیت' سے کیاجارہاہے'۔ کچھ ایسا ہی موقف اطالوی وزیرخارجہ و نائب وزیراعظم انتونیو تیجانی کاتھا۔ روم میں اپنی جماعت کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا'جو کچھ غزہ میں ہورہا ہے وہ غلط ہے لیکن اسے نسل کشی نہیں کہا جاسکتا'۔

امریکی و یورپی رہنماوں کی ہٹ دھرمی کے باوجود دنیا بھر میں اسرائیلیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ نسل کشی کے الزامات میں ملوث اپنے 30 فوجیوں کو غیر ملک سفر سے پرہیز کی ہدائت کی ہے۔ قبرض سلوانیہ اور ہالینڈ جانیوالے والے 8 فوجی افسروں کو فوری طور پر ملک واپس آنے کا حکم دیدیا گیا اسلئے کہ ان لوگوں کے خلاف مقامی وکلا نے جنگی جرائم کے پرچے کٹوادئے تھے۔ دوسرے ممالک کیلئے عازم سفر تمام فوجیوں سے کہا گیا ہے کہ ٹکٹ خریدنے سے پہلے اسرائیلی وزارت قانون سے مشورہ کرلیں۔

بیلجئیم میں اسرائیل کے عسکری اتاشی کیخلاف جنگی جرائم کی شکائت کردی گئی ہے۔انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں نے کرنل موسیٰ تیترو (Moshe Tetro)کیخلاف تحریری شکائت وزارت داخلہ اور وزارت انصاف کو جمع کرائی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ غزہ تعیناتی کے دوران کرنل صاحب امدادی سامان کی فراہمی میں رکاوٹ ڈال کر جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ اگر اس مکتوب کا تسلی بخش جواب جلد موصول نہ ہوا تو عدالت سے رجوع کیا جائیگا۔ آسٹریلیا نے فلسطینیوں سے بدسلوکی اور قبضہ گردی کی حمایت پر اسرائیل کی سابق وزیرانصاف ایلے شکر (Ayelet Shaked)کو ویزا دینے سے انکار کردیا۔

بیرون ملک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے دباو کے باوجود غزہ میں اسرائیلی کاروائیوں میں کمی کے کوئی آثار نہیں بلکہ لبنان سے راکٹ حملے رک جانے کے باعث اسرائیلی فضائیہ نے اپنی پوری طاقت ٖغزہ میں جھونک دی ہے۔ شمال میں بیت لاہیہ سے جنوب میں ر فح تک پوری پٹی شدید بمباری کی لپیٹ میں ہے۔ بار بار جبری نقل مکانی کی بنا پر سارا غزہ عملاً  سڑکوں پر ہے۔ غرب اردن ، وادی اردن اور مشرقی بیت المقدس کا بھی یہی حال ہے جہاں فوج کیساتھ قبضہ گردوں نے  لوٹ مار و قتلِ عام کا بازار گرم کررکھا ہے۔

وزیراندرونی سلامتی اتامر بن گوئر غزہ سے فلسطینیوں کی بیدخلی اور وہاں نئی قبضہ بستیوں کے قیام پر مُصر ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیرعظم  سے ملاقات کے بعد اسرائیلی ریڈیو پر انھوں نےکہا'بن یامین نیتن یاہو نے غزہ سے فلسطینیوں کی 'نقل مکانی' پر "کچھ کھلے پن" کا مظاہرہ کیا ہے۔ بن گوئر کا کہنا تھا کہ 'دشمن کی شکست صرف اسی صورت مکمل ہوگی جب ہم ان سے علاقہ چھین لیں۔انتہا پسند، غزہ میں اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کیلئے نامزد  امریکی سفیر مائک ہکابی کے ذریعے نومنتخب امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ رابطے میں ہیں۔ جناب ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر غزہ کے صاف و شفاف ساحل پر سیاحوں کیلئے آراستہ و پیراستہ Beach Frontتعمیر کرنے کا خیال ظاہرکرچکے ہیں بلکہ کہا جارہا ہے کہ خلیجی و عرب شیوخ اس نفع بخش کاروبار میں سرمایہ کاری کیلئے دامادِ اول سے رابطے میں ہیں۔

ڈانلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران غزہ میں پائیدار امن کا وعدہ کیا تھا لیکن انکی حالیہ بات چیت سے ایسا لگتا ہے کہ انکی ساری دلچسپسی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی سے ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل  کی خاتون اول محترمہ سارا نیتھن یاہو اپنے بیٹے یائر کیساتھ امریکہ آئیں جہاں جناب ٹرمپ نے اپنے پرتعیش گلف کورس میں انھیں پرتکلف عشائیہ دیا۔ سارہ بی بی کیلئے کوشر (یہودی حلال) ڈشوں کا خصوصی بندوبست کیا گیا تھا۔ ملاقات کی جو تفصیل یروشلم پوسٹ میں شایع ہوئی اسکے مطابق سارہ نیتھن یاہو نے ڈانلڈ ٹرمپ کو اسرائیل کے خلاف اہل غزہ کی “بربریت” سے آگاہ کیا اور قیدی رہا کرانے کیلئے مدد کی درخواست کی۔ دوسرے دن اپنے سوشل چبوترے TRUTHپر جناب ٹرمپ نے فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اسرائیلی قیدیوں کو میرے حلف اٹھانے سے پہلے رہا کردو۔ ورنہ اسکے ذمہ داروں کو نشانِ عبرت بنادیا جائیگا۔اسکا اہل غزہ کی طرف سے بہت ہی شائستہ جواب آیا کہ 'مستعضعفین، نسل کشی کے آغاز سے ہی مستقل جنگ بندی کیلئے ایک ایسے معاہدے کے خواہشمند ہیں جس میں قیدیوں کا مکمل تبادلہ شامل ہو، لیکن نیتن یاہو نے ان تمام کوششوں کو سبوتاژ کر دیا۔اہل غزہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2735 پر فوری عمل درآمد کے لیے پرعزم ہیں جو 2 جولائی 2024 کو طے پایا تھا'۔ حوالہ: نیوزویک

اس ضمن میں ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق جناب ڈانلڈ ٹرمپ نے قطر کو حکم دیا ہے کہ مزاحمت کار رہنماوں کو دوحہ واپس بلاکر مذاکرات فوراً شروع کئے جائیں۔کچھ عرصہ پہلے قطر نے صدر بائیڈن کے حکم پر اہل غزہ کی سیاسی قیادت کو ملک سے نکال دیا تھا۔سرکاری اعلان کے مطابق ' معزز مہمانوں' کو نکالا نہیں گیا لیکن چونکہ قطر نے مذاکرات سے ہاتھ اٹھالئے تھے اسلئے یہ لوگ ترکیہ چلے گئے تھے۔معلوم نہیں فلسطینی رہنما کب تک واپس قطر آئینگے۔ لیکن ڈانلڈ ٹرمپ بضد ہیں کہ 20 جنوری کو انکے حلف اٹھانے سے پہلے قیدی رہا کردیے جائیں جبکہ اہل غزہ کہتے ہیں اسرائیلی فوج کی پسپائی سے پہلے قیدی رہا نہیں ہونگے۔ یعنی ایک طرف قصاب، دوسری جناب مضبوط اعصاب۔

امریکہ کی لاممنوعہ ولا مقطوعہ امداد کے باوجود، معصوم فلسطینی بچوں کا لہو اسرائیلی معیشت پر کساد بازاری کی شکل میں اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ شمالی اسرائیل کے اکثر علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں 14ماہ سے معطل ہیں اور اب یہی صورتحال باقی اسرائیل کے بازاروں میں بھی نظر آرہی ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ کے مطابق روزمرہ کے سامان کیساتھ سبزی اور پھلوں کی خریداری میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ جریدے نے شام چار بجے یروشلم میں واقع ماہان یہودا سبزی بازار کی ایک تصویر اس تبصرے کے ساتھ شایع کی ہے  کہ ام حالات میں اس وقت یہ بازار کھچاکھچ بھرا ہوتا ہے جبکہ ویرانی کا منظر بہت واضح ہے' ۔ بینک آف اسرائیل (اسٹیٹ بینک) کے مطابق غزہ نسل کشی پر اسرائیل کا خرچ 67ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ علمائےاقتصادیات کا خیال ہے کہ 2024 کے دوران معیشت کی شرح نمو 0.6فیصد سے کم رہی اور اگلے برس بھی بہتری کی کوئی امید نہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے کراچی 13 دسمبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 13 دسمبر 2024

ہفت روزہ رہبر سر ینگر 15 دسمبر 2024