Thursday, December 5, 2024

 

لبنان اسرائیل مشکوک جنگ بندی

امریکہ اسرائیل کیلئے لبنانی مزاحمت کاروں کی جاسوسی کریگا

شام تنازعہ اور سنی شیعہ نفرت کی لہر

اہل غزہ کہیں تنہا نہ رہ جائیں؟؟؟

اسرائیل کا سب سے بڑا اخبار، انتقام کا شکار

گزشتہ منگل امریکی صدر بائیڈن نے اعلان کیا کہ اسرائیل اور لبنانی مزاحمت کار فائر بندی پر رضامند ہوگئے ہیں اور 26 نومبر کو مقامی وقت کے مطابق صبح چار بجے اس پر عملدرآمد شروع ہوگیا۔اپنی تقریر میں امریکی صدر نے جنگ شروع کرنے کی ذمہ داری لبنانی مزاحمت کاروں پر ڈالدی۔اعلان میں Ceasefireکے بجائے  Cessation of Hostilitiesیعنی'کشیدگی کے خاتمے' کا لفظ استعمال ہوا ہے۔اسکی وضاحت کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ یہ امن معاہدہ نہیں بلکہ پائیدار امن کیلئےراستہ ہموار کرنے کی ایک کوشش ہے۔اس معاہدے کا دورانیہ 60 دن ہے۔اس عرصے میں فوجی انخلا اور سرحد پر لبنانی مسلح افواج کی تعیناتی کا عمل مکمل کرلیا جائیگا۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ لبنانی مزاحمت کار نہر لیطانی یا Litani Riverکی دوسری جانب رہینگے، یعنی سرحد سے 29 کلومیٹر کے فاصلے پر۔فائر بندی پر آمادگی ظاہر کرتے نیتھن یاہو نے جو بیان جاری کیا اسکے ایک ایک لفظ سے رعونت ٹپک رہی تھی۔ انھوں نے صاف صاف کہا کہ مزاحمت کاروں کی جانب سے فائربندی کی معمولی سی خلاف ورزی کا اسرائیل بھرپور جواب دیگا۔

نیتھن یاہو کا فرعونی لہجہ اپنی جگہ لیکن تل ابیب نے 24 نومبر کو اشدود کے بحری اڈے پر راکٹ حملوں کے فوراً بعد ہی جنگ بندی پر رضامندی کے اشارے دینے شروع کردئے تھے۔اس دن مزاحمت کاروں نے اشدود پر  بیک وقت 340 راکٹ داغے۔ عین اسی وقت تل ابیب کے مضافاتی علاقوں سمیت اسرائیل کا بڑا حصہ راکٹ حملوں کی زد میں آگیا اور 40 لاکھ اسرائیلیوں کو زیرزمین پناہ گاہوں کا رخ کرنا پڑا، گویا نصف کے قریب آبادی ان حملوں کا نشانہ بنی۔مزاحمت کاروں نے  اتنی بڑی تعداد میں ایک ساتھ راکٹ پھینکے کہ امریکی ساختہ آئرن ڈوم دفاعی نظام عملاً مفلوج ہوگیا۔ اشدود بندرگاہ کو نقصان پہنچنے سے اسرائیل کی بحری تجارت متاثر ہوئی ہے۔ چند روز قبل راکٹ حملے میں اشدود کے قریب واقع  حیفہ بندرگاہ کے تیل ٹرمینل کو نقصان پہنچا تھا جسکی وجہ سے درآمدی خام تیل اب اشدود پر اتارا جارہاہے۔جنوب میں خلیج عقبہ کی ایلات بندرگاہ، بحیرہ احمر سے گزرنے والے جہازوں پر حوثیوں کے حملوں کی وجہ سے پہلے ہی مفلوج ہے۔

دوسرے دن جب فوج کے سربراہ جنرل ہرزی حلوی جواب طلبی کیلئے وزیراعظم کے روبروپیش ہوئے تو اسرائیلی میڈیا کے مطابق انھوں نے نیتھن یاہو کو مشورہ دیا کہ جتنی جلد ممکن ہو لبنانی مزاحمت کاروں سے امن معاہدہ کرلیں۔ انکے راکٹ اور میزائیل ہر گزرتے دن کیساتھ مہلک اور تیر بہدف ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارا فضائی دفاعی راکٹوں کی اس بارش کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسرائیلی جرنیل کا کہنا تھا کہ 14 ماہ کے دوران جنوبی لبنان پر 12500 فضائی حملے  کئے گئے اور زمینی کاروائی کیئے 14 بریگیڈ فوج استتعمال ہورہی ہے۔شدید ترین بمباری اور مزاحمت کار قیادت کو راستے سے ہٹادینے کے باوجود اسرائیل پر حملوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور اب لبنانی راکٹ دارالحکومت تک پہنچ رہے ہیں۔ فوجی بریفنگ کے بعد شام کو جب وزیراعظم نے عسکری قیادت کی رپورٹ کابینہ کے سامنے رکھی تو وزیراندرونی سلامتی اتامربن گوئر کے سوا تمام وزرا نے جنگ بندی کی منظوری دیدی اور امریکہ میں اسرائیل کے سفیر نے امریکی صدر کو فائر بندی کیلئے اسرائیل کی رضامندی سے صدر بائیڈن کو آگاہ کردیا۔

اسی کیساتھ اسرائیل کے عبرانی ٹی وی چینل 12 نے انکشاف کیا کہ چچاسام نے اسرائیل کو لبنانی مزاحمت کاروں کی جاسوسی جاری رکھنے کی تحریری یقین دہانی کروائی ہے۔ چینل 12 کے مطابق معاہدے کی اضافی دستاویز یا Side letterمیں وعدہ کیا گیا ہے کہ لبنانی مزاحمت کاروں کو ایران سے ملنے والی امداد پر کڑی نظر رکھی جائیگی اور ان خفیہ معلومات تک اسرائیل کی رسائی کو یقینی بنایا جائیگا۔ لبنان امن کیلئے سہ رکنی معاہدہ کیا گیا ہے جسکا ایک فریق (ضامن) امریکہ ہے۔ سائیڈ لیٹر کی شکل میں ضمنی معاہدہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان ہے

جنگ بندی سے چند گھنٹہ قبل اسرائیل نے جنوبی لبنان پر آتش و آہن کی خوفناک بارش کی اور اوسطاً ہر دومنٹ پر 20 بم برسائے گئے۔ مزاحمت کاروں نے بھی اسکا ترکی بہ ترکی جواب دیا اور انکے راکٹوں نے کریات شمعونہ کے لاری اڈے کو تباہ کردیا۔

فائر بندی نافذ ہوتے ہی اسرائیل کی جانب سے اسکی خلاف ورزی شروع ہوگئی اور گھر واپس آتے لبنانیوں پر اسرائیلی فوج نے  فائرنگ کی۔ اس کاروائی کی متکبرانہ منطق پیش کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ' ہم نے اب تک اسرائیلی متاثرین کو اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت نہیں دی لہذا لبنانیوں کی واپسی برداشت نہیں کی جاسکتی'۔اسی دوران جنوبی لبنان کو یہ کہہ کر ڈرونوں کا نشانہ بنایا گیاکہ دہشت گرد دوبارہ صف بندی کررہے تھے۔لبنانی  مزاحمت کاروں کی جانب سے فائربندی کے احترام کے باوجود اسرائیل کے سرحدی علاقوں میں خوف کی فضا قائم ہے۔اسکول تاحکم ثانی بند ہیں اور اسرائیلی وزیردفاع اسرائیل کاٹز نے پارلیمان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سرحدی علاقے  کے رہائشیوں کو فی الحال گھر واپس جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بندی اس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ اسکے نتیجے میں جنوبی لبنان کے  ان لاکھوں افراد کو کچھ راحت نصیب ہوگی جو گزشتہ 14 ماہ سے بمباری کا عذاب سہہ رہے ہیں۔ غزہ کے مزاحمت کاروں نے بھی لبنان اسرائیل فائربندی کا خیر مقدم کیا ہے لیکن فلسطینی عوام اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا ہوگئےہیں۔خیال ہے کہ لبنان سے فارغ ہونے والی چار ڈویژن فوج غزہ کا رخ کریگی اور نیتھن یاہو لبنان میں شکست کا بدلہ اہل غزہ سے لینگے۔ لبنانی راکٹوں کی وجہ سے غزہ کے لوگوں کو بالواسطہ مدد مل رہی تھی جو اب ختم ہوچکی ہے۔ غزہ میں قحط کی صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے۔گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی ایجنسی World Food Program(WFP)نے انکشاف کیا کہ غزہ کے لوگوں کو دن میں صرف ایک وقت کھانا میسر ہے اور وہ بھی نان اور شوربہ یا چند کھجور۔ زیرزمین پانی میں نمکیات کا تناسب اتنا بڑھ گیا ہے کہ یہ کھاری پانی آبنوشی کے قابل نہیں، اہل غزہ کو فی کس صرف 3 لٹر میٹھا پانی یومیہ مل رہا ہے۔

دوسری طرف شامی صدر بشار الاسد اور انکے مخالفین کے درمیان لڑائی میں شدت آجانے سے سنی شیعہ کشیدگی بھی عروج پر ہے۔یہاں فروری1982 میں بشار الاسد کے والد حافظ الاسد نے اخوان المسلمون کے خلاف ایک خونی آپریشن کیا تھاجسکے نتیجے میں حماہ شہر ملبے کا ڈھیر بن گیا اور خواتین و بچوں سمیت ایک لاکھ سے زیادہ اخوانی قتل ہوئے۔جب 17دسمبر 2010 کو تیونس سے آزادی جمہور کی تحریک شروع ہوئی جسے ربیع العربی یا Arab Spring کا نام دیا گیا تو شام بھی اسکی لپیٹ میں آیا اور اردن کی سرحد پر واقع شہر، درعا سے طلبہ نے تحریک شروع کی۔ صدر بشارلاسد نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسے کچلنے کیلئے طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا اور اسے سنی شیعہ رنگ دیدیا۔ چنانچہ ایران بشار کی پشت پر کھڑاہوگیا اور لبنان کی ایران نواز ملیشیا نے حکومت مخالف مظاہرین کو کچلنے میں بشار فوج کی بھرپور مدد کی۔ حافظ الاسد کے دور میں حماہ کی شامت آئی، اس بار حکومتی مخالفین نے  اسکے شمال میں ترکیہ کی سرحد پر حلب (Aleppo) اور ادلب کو اپنا مرکز بنایا۔ جنوری 2012 سے شامی افواج اور لبنانی ملیشیا نے مخالفین کے خلاف خوفناک آپریشن کا آغاز کیا اور روسی فضائیہ نے بمباری کرکے دونوں شہر کو کھنڈر بنادیا۔ ایک اندازے کے مطابق حلب اور ادلب میں 3 لاکھ سے زیادہ افراد مارے گئے اور 2016 تک مزاحمت کاروں نے حلب خالی کردیا۔مارچ 2020 میں معاہدہ کرکے حکومتی مخالفین ادلب سے بھی نکل گئے۔ اس جنگ میں بھاری جانی اور مالی نقصان کیساتھ شیعہ سنی کشیدگی بلکہ نفرت اتنی سخت ہوگئی کہ شامی مزاحمت کاروں کی عسکری تنظیم هيئة تحرير الشام یا HTSکے کچھ عناصر نے حماس کو اپنا دشمن کہنا شروع کردیا کہ ایران اور لبنانی مزاحمت کار اہل غزہ کے  حامی ہیں۔

عجیب اتفاق کہ اسرائیل لبنان فائر بندی کے دوسرے روز HTSنے حلب پر زبردست حملہ کردیا۔ شامی فوج اس اچانک کاروائی کیلئے تیار نہ تھی اور صرف چار دن میں HTSنے حلب اور ادلب پر قبضہ کرلیا۔ قبضہ چھڑانے کیلئے روسی فٖضائیہ ان دونوں شہروں پر شدید بمباری کررہی ہے اور خبروں کے مطابق اسرائیل سے لڑنے والے لبنانی مزاحمت کاروں نے بشارالاسد کی نصرت کیلئے اب حلب اور ادلب کا رخ کرلیا ہے۔ شیعہ سنی نفرت کا یہ عالم ہے کہ  شامی حزب اختلاف کے رہنما فہد المصری نے اسرائیلی چینل 12 سے گفتگو کرتے ہوئے کہا 'ہم اسرائیلی قیادت سے درخواست کرتے ہیں کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شام میں ایرانی اور لبنان کے ایران نوازعناصر کو نشانہ بنایا جائے'

یہ صورتحال اہل غزہ کیلئے انتہائی پریشان کن ہے۔ انکی نظریاتی وابستگی بشارالاسد کے ظلم کا نشانہ بننے والے شام کے اخوانیوں سے ہے اور وہ پرزور و عملی حمائت پر لبنانی مزاحمت کاروں کے بھی مشکور ہیں جبکہ شیعہ سنی کے نام سے ہونے والے نئی صف بندی نے ایران اور لبنانی مزاحمت کاروں کو اخوان دشمن بشارالاسد کی پشت پر لاکھڑا کیا ہے۔ شام کی صورتحال پر مزید گفتگو کسی دوسری نشست میں۔

نومنتخب صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ برسراقتدار آکر امریکی جامعات میں اسرائیل مخالف مظاہروں پر پابندی لگادیگے۔شہہ پاکرانتہاپسند عناصر نے ابھی سے سختی شروع کردی ہے۔اسناد کے اجرا میں تعطل، امتحان دینےپر پابندی، خفیہ ایجنسیوں سے تحقیقات کی دھمکی سمیت تمام اوچھے ہتھکنڈے  استعمال ہورہے ہیں۔ تہوار شکرانہ (Thanksgiving)کی پریڈ کے سامنے غزہ نسل کشی کےخلاف مظاہرے پر پولیس جھپٹ پڑی اور بینر چھین کر کئی کارکن گرفتار کرلئے گئے۔ امریکہ کے پڑوسی ملک کنیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو، مانٹریال میں مظاہرے کے دوران نیتھن یاہو کا پتلا نذرآتش کئے جانے پر سخت برہم ہیں اور انھوں نے اسکے ذمے داروں کے  خلاف سام دشمنی یا Antisemitism کا پرچہ کٹوانے کا عندیہ دیا ہے۔

اختتام پر اسرائیل میں صحافت کی حالت زار کا ذکر

الجزیرہ پر پابندی کے بعد حکومت نے اسرائیل کے سب سے بڑے اور قدیم اخبار الارض (Haaretz)کا مزاج درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔الارض عبرانی اور انگریزی دونوں میں شایع ہوتا ہے۔ حکومتی فیصلے کے مطابق سرکاری دفاتر کیلئے اب یہ پرچہ نہیں خریدا جائیکا۔ حکومتی اشتہارات کی بندش ہوگی۔ سرکاری تقریبات میں انکے نمائندوں کو مدعو کیا جائیگا اور نہ حکومتی اعلامیوں کی نقول الارض کو بھیجی جائینگی، پارلیمانی گیلری میں انکے نمائندوں کا داخلہ منع ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ نزلہ گرنے کی وجہ یہ ہے کہ اخبار کے طابع اور ممتاز صحافی اموس شوکن (Amos Schocken)نے گزشتہ ماہ ایک مرکزِدانش Berl Katznelson Foundationکی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'نیتھن یاہو حکومت ان علاقوں میں غیر قانونی آبادکاری کو جاری اور تیز کرنا چاہتی ہے جو فلسطینی ریاست کے لیے بنائے گئے تھے۔ فلسطینی آبادی پر ظالمانہ نسل پرست حکومت مسلط ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت کو ہتھیائی اراضی کے تحفظ اور فلسطینی مجاہدین آزادی سے لڑائی دونوں کا خرچہ برداشت کرنا پڑرہا ہے'

اسرائیلی حکومت کے خیال میں مزاحمت کاروں کو مجاہدین آزادی کہہ کہ شوکن صاحب دہشت گردوں کی پشت پناہی، اعانت اور سہولت کاری کے مرتکب ہوئے ہیں

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 6دسمبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 6 دسمبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 8 دسمبر 2024


No comments:

Post a Comment