Wednesday, December 25, 2024

 

ڈانلڈ ٹرمپ!!! دنیا کے ہر پرکشش اثاثے پر نظر ۔ اب نہرِ پاناما

نومنتخب امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کے توسیع پسندانہ عزائم کے حوالے سے کینیڈا اور گرین لینڈ کا ذکر ہم اس سے پہلے ایک نشست میں کرچکے ہیں۔ کنیڈا کا معاملہ تو فی الحال ایک بھونڈے مذاق سے زیادہ کچھ نہیں اور گرین لینڈ کا شگوفہ کو بھی جناب ٹرمپ کاروبارِ جائیداد (Real Estate)کے تناظر میں نظر انداز کیا جاسکتا ہے کہ ہر پرفضا مقام کو دیکھ کر انکی رال ٹپک پڑتی ہے۔

لیکن نہر پاناما (Panama Canal)پر جناب ٹرمپ نے 'قبضے' کی بات کی ہے

وسطِی امریکہ میں 82 کلومیٹر یہ مصنوعی نہر بحرالکاہل (Pacific)کو بحر اوقیانوس (Atlantic)سے ملاتی ہے۔نہر کھودنے کا منصوبہ 1881 میں فرانس نے بنایالیکن پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے معاملہ نقشے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ دودہائی بعد 1904 میں امریکی سرمائے سے نہر کی کھدائی شروع ہوئی اور 1914 میں اسے بحری ٹریفک کیلئے کھول دیا گیا۔ ایک اندازے کے مطابق سالانہ 14 ہزار جہاز اس  13 میٹر گہری نہر سے گزرتے ہیں۔ جن سے محصولات کی مد میں پانامہ سرکار کی آمدنی کا تخمینہ 7ارب 20 کروڑ ڈالر ہے۔

نہر کی ملکیت کیلئے پناما اور امریکہ کے درمیان مسلسل کشیدگی رہی اور کئی بار پانامہ کے عوام کا امریکی فوج سے خونریز تصادم ہوا۔ نومبر 1956 میں مصر کی جانب سے نہر سوئر کو قومیانے کے عمل نے پاناما کے عوام کو حوصلہ دیا اور 'نہر پانامہ ہماری ہے' ایک عوامی نعرہ بن گیا۔ دسمبر 1974 سے امریکہ اور پاناما کے درمیان بات چیت کا آغاز ہوا۔ صدر جمی کارٹر نے  1977میں اقتدار سنبھالتے ہی نہر پر پاناما کی مکیت تسلیم کرتے ہوئے ملک کے فوجی حکمراں جنرل عمر توریہوس (Omar Torrijos)سے مذاکرات شروع کئے اور سات اکتوبر کو نہر کی پاناما حوالگی کے معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ معاہدے کے تحت یہ نہر تمام ممالک کیلئے کھلی رہیگی اور اس سے عسکری جہازوں اور جنگی سازومان کے نقل و حمل کی اجازت نہیں ہوگی۔ آزمائشی مدت مکمل ہوتے پر 31 دسمبر 1999کو نہر کی ملکیت پانامہ کو منتقل ہوتے پر مقتدرہ نہر پانامہ (ACP)نے کھلے مقابلے (open bidding)کے بعد اسکا انتظام و انصرام  Hutchison Whampoaکے حوالے کردیا گیا جو ہانک گانگ کے ادارے  Lai Ka Shingکی ملکیت ہے۔

ہفتہ 21 دسمبر کو تین جناب ڈانلڈ ٹرمپ نے کہا کہ نہر پاناما سے گزرنے والے امریکی جہازوں پر بھاری محصولات عائد کئے جارہے ہیں جو کارٹر توریہوس معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے لہٰذا امریکہ یہ نہر اپنی ملکیت میں واپس لینے کا اختیار رکھتا ہے۔ دوسرے روز ٹرمپ صاحب اپنے مطالبے میں سیاست کا رنگ بھرتے ہوئے بولے کہ 'نہر غلط ہاتھوں میں جاسکتی ہے'۔ موصوف  کااشارہ چین کی طرف تھا۔ پاناما کے صدر ہوزے ملینو نے اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ نہر، پانامہ کا اٹوٹ انگ اور اسکی ملکیت پر انکی قوم کسی بات چیت کیلئے تیار نہیں۔ پاناما کے صدر نے کہا کہ محصولات تمام ممالک کیلئے یکساں اور شایع شدہ ہیں اورکسی قسم کا امتیازی سلوک ممکن نہیں۔جناب ٹرمپ کا اصرار برقرار ہے اور وہ 'احمقانہ معاہدہ' کرنے پر سابق صدر جمی کارٹر کو بھی تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔

جناب ٹرمپ کی گل افشانیوں کااچھا پہلو یہ ہے کہ فی الحال انکی کینیڈا، گرین لینڈ اور نہر پاناما یعنی  نظر شمالی و وسطی امریکہ کی جانب ہے۔ اللہ کرے وہ اگلے چار سال اپنی توجہ وہیں مرکوز رکھیں اور باقی دنیا انکے  شر سے محفوظ رہے۔

آپ مسعود ابدالی  کی   پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔


No comments:

Post a Comment