جلداز جلد فتح حاصل کرکے جنگ بند کردو۔ ڈانلڈ ٹرمپ کی
اسرائیلی وزیراعظم کو تلقین
نابلوس میں فجر کی نماز کے وقت جامع مسجد کو آگ لگادی گئی
شام میں اسرائیلی قبضے کے خلاف عوامی مزاحمت کا آغاز
بچوں پر بمباری جنگ نہیں، ظلم و بربریت ہے، پاپائے روم
مجرم نیتھن یاہو پر زمین تنگ۔ گرفتاری کے ڈر سے پولینڈ کا
دورہ منسوخ
یمن سے تل ابیب پر حملہ۔ ہائپر سانک میزائیل روکنے میں اسرائیل
ناکام
غزہ نسل کشی کے ساڑھے چارسو دن مکمل ہونے کو ہیں لیکن اب تک 'امن'
کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہم نے لفظ امن کوقوسین کا ہالہ اسلئے پہنایا ہے کہ اب
تک اس سمت اٹھائے جانے والے تمام اقدامات اور ان سے پھوٹنے والے امکانات قیدیوں کی
رہائی کیلئے وقتی جنگ بندی یا وحشیانہ بمباری میں عارضی وقفے کی نشاندہی کررہے
ہیں۔ علاقے میں حقیقی امن کیلئے کوئی سنجیدہ ہے اور نہ 'مہذب دنیا' اسکی ضرورت
محسوس کررہی ہے۔
امریکہ کے نومنتخب صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران مشیگن
میں امریکی عربوں سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وہ غزہ کی جنگ بند کروادینگے۔
لیکن جناب ٹرمپ غزہ کی مکمل پامالی تک جنگ جاری رکھنے کیلئے صدر بائیڈن سے زیادہ پر عزم نظر آرہے ہیں۔ موصوف
کی ساری دلچسپی قیدیوں کی رہائی سے ہے اور
وہ یہ ہدف ہر قیمت پر 20 جنوری کو اپنی حلف برداری سے پہلے حاصل کرلینا چاہتے
ہیں۔جہاں تک غزہ جنگ بندی کا تعلق ہے تو وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کی فتح
مبیں کے بعد ہی جنگ بند ہونی چاہیے اور وہ
نیتھن یاہو پر برابر زور دے رہے ہیں کہ جلد از جلد فتح حاصل کرکے جنگ بند کردو۔
امریکہ کےموجودہ امن منصوبے کے مطابق اسرائیل عارضی طور پر حملے
بند کردیگا تاکہ قیدی رہا ہوسکیں اور اسکے بعد اسرائیل اپنا نیا لائحہِ عمل خود
طئے کریگا۔مصر کے جنرل السیسی اور امریکہ کے خلیجی دوست اہل غزہ کو سمجھا رہے ہیں
کہ اگر قیدی رہا ہوگئے تو اسرائیل کیلئے جنگ دوبارہ شروع کرنے کا کوئی اخلاقی جواز
نہیں ہوگا۔یہ بہلاوہ ہے یا خود فریبی؟تاریخِ انسانی شاہد ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی
کیساتھ اخلاق باختگی میں بھی مغربی دنیاکا کوئی ثانی نہیں۔ہندوستان میں ایسٹ انڈیا
کمپنی، ولندیزیوں کی مشرق بعید، فرانسیسیوں کی شمالی افریقہ میں بربریت، امریکہ
میں غلاموں کی تجارت اور دورحاضر میں ویتنام، افغانستان وعراق اسکی چند مثالیں
ہیں۔
قیدیوں کی رہائی کے بعد دوبارہ جنگ شروع ہونے کے امکانات کے بارے
میں اہل غزہ بے حد فکر مند ہیں۔حالیہ امن مذاکرات کے دوران مستضعفین
نے
قطری اور مصری ثالثیوں کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا 'انھیں یقین ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ
اسرائیل کو جنگ بندی کے پہلے مرحلے کی تکمیل کے بعد لڑائی دوبارہ شروع کرنے کی
اجازت دے دیں گے' ۔ اہل غزہ کے اس خدشے کی تقویت ایک سینئر اسرائیلی اہلکار کے بیان
سے ملتی ہے جنھوں نے ٹائمز آف اسرائیل کو بتایا 'وزیر اعظم بن یامین نیتن
یاہو کو یقین ہے کہ پہلے مرحلے کے بعد جنگ دوبارہ شروع کرنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ،
بائیڈن کے مقابلے میں زیادہ لچکدرا ہوگی'۔ گزشتہ ہفتے نیتھن یاہو نے بہت ہی غیر مبہم
لہجے میں کہا تھا کہ 'ا گر ہم ابھی جنگ ختم کر دیتے ہیں تو حماس واپس آ جائے گی، خود کو
بحال کرے گی اور تعمیر نو کے بعد اسرائیل پر دوبارہ حملہ کرے گی، ہم اس صورتحال
میں واپس نہیں جانا چاہتے'۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل
فلسطینی وزارت صحت نے دوہفتہ پہلے جو اعدادوشمار جاری کئے ہیں اسکے
مطابق 7 اکتوبر 2023ء سے شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ میں
شہداء کی تعداد 45,028 اور زخمیوں کی تعداد 106,962 تک پہنچ گئی ہے۔واضح رہے کہ ان
میں ہوہ زاروں لاپتہ افراد شامل نہیں جو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں یا جو تشدد کی تاب نہ لاکر دم توڑ گئے اور لاشوں کو
اسرائیلی فوج نے ٹھکانے لگادیا۔
غزہ کیساتھ غرب اردن، مشرقی یروشلم اور مرتفع جولان سے متصل جبل حرمون کی وادی اور شام کے پرفضامقام
قنیطرہ میں بھی نسلی تطہیر جاری ہے۔ جمعہ 20 دسمبر کو غربِ اردن میں نابلوس کے
مضافاتی علاقے مردہ کی جامعہ مسجد کو قبضہ گردوں نے اسوقت آگ لگادی جب وہاں فجر کی
نماز ہورہی تھی۔حملہ آور دیوار پر عبرانی میں کہ یہ بھی لکھ گئے کہ ' (بدکاروں سے )انتقام
راستبازوں کیلئے خوشی کا سبب ہے۔' صد شکر کہ آتشزدگی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا
حالانکہ مسجد کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔ اسی دن طولکرم
پر ڈرون حملے میں 6 فلسطینی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔مشرقی یروشلم میں بیت المقدس کے قریب فلسطینیوں کے گھروں پر
بلڈوزر چلادئے گئے۔ اسرائیل نے یہاں نئی قبضہ بستی تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا
ہے۔اقوام عالم کی جانب سے خودمختار فلسطینی ریاست پر اصرار کے بعد اسرائیل نے غرب
اردن کیساتھ مشرقی یروشلم سے فلسطینیوں کو نکال کر وہاں قبضہ بستیاں تعمیر کرنے کا
کام تیز کردیا ہے تاکہ اسے اسرائیلی اکثریتی علاقہ بنادیا جائے۔
مقبوضہ عرب علاقوں پر فوج کشی، قتل عام اور پکڑ
دھکڑ کے باجود فلسطینیوں کی پرامن مزاحمت بھی جاری ہے۔ مشرقی یروشلم، رام اللہ،
جنین، نابلوس، الخلیل (Hebron)، اریحہ (Hebron)، قلقیلیہ میں روزانہ مظاہرے ہوریے ہیں۔ گزشتہ ہفتے مسیحی
اکثریتی علاقے بیت اللحم میں آزادی فلسطین کیلئے بڑا جلوس نکالا گیا۔ شام میں بھی اسرائیلی قبضے
کے خلاف عوامی مزاحمت کا آغاز ہوگیاہے۔ درعا صوبے کے گاوں معریہ میں مظاہرین نے 'شام
ہمارا ہے'، 'صیہونی قبضہ نامنظور' اور 'فلسطین کو آزاد کرو' کے نعرے لگائے۔ اسرائیلی
فوج کی فائرنگ سے کئی نوجوان زخمی ہوگئے جن میں سے ایک مجروح ماہرالحسینی کی حالت
نازک ہے۔
خفیف ہی سہی لیکن عالمی سطح پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کا سلسلہ
جاری ہے۔ جبالیہ کے موسےٰ بن نصیر ہائی اسکول پر بمباری اور معصوم بچوں کی شہادت
سے پاپائے روم اعلیٰ حضرت پوپ فرانسس بے
حد غمگین ہیں۔ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا 'بچوں پر بمباری جنگ نہیں ظلم
و بربریت ہے۔ یہ سن کر میرا دل ڈوباجارہا ہے جسکی مذمت کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں۔ میلادمسیح ؑ کی تقریبات کے آغاز پر
ویٹیکن کے معروف سینٹ پیٹرز اسکوائر میں پاپائے روم کے سامنے پیش کئے جانیوالا
نومولود، فلسطینی کفیہ میں لپٹا دکھایا
گیا۔اس موقع پر پوپ فرانسس نے کہا ان بھائیوں اور بہنوں کو یاد کرو، جو بیت اللحم
(یروشلم میں مسیحؑ کی جائے پیدائش)، غرب اردن، غزہ اور دنیا کے دیگر حصوں میں، جنگ کے المیے کا
شکار ہیں۔ مزید ارشاد ہوا کہ جنگ، تشدد، اور ہتھیاروں کی تجارت افسوسناک ہے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پوپ فرانسس کا بیان و
ردعمل غلط فہمی اور زمینی حقائق سے لاعلمی
کا نتیجہ ہے۔
سفارتی سطح پر اسرائیل اور آئرلینڈ کے درمیاں خلیج مزید گہری ہوگئی
ہے۔سترہ دسمبر کو آئرلینڈ میں فلسطین کی سفیر ڈاکٹر جیلان وہبہ عبدالمجید کی اسناد
سفارت وصول کرنے تقریب سے خطاب کرتے ہوئےآئرلینڈ کے صدر مائیکل ہگنز نے کہا کہ
اسرائیل تمام عرب علاقوں میں قبضہ بستیاں تعمیر کرنا چاہتا ہے اور اگر اسکا بس چلے
تو وہ صحرائے سینائی (مصر) میں بھی اسرائیلی بستیاں قائم کردے۔اسرائیلی وزیرخارجہ
گدون سعر نے اس پر شدید ردعمل بلکہ اشتعال کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئرش صدر کو سام
دشمن جھوٹا Anti Semitic Lier قرار دیدیا۔
گژشتہ ماہ جب ہالینڈ نے اعلان کیا کہ انکا ملک اسرائیلی وزیراعظم
کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (ICC)کے پروانہ گرفتاری کی تعمیل میں مکمل تعاون
کریگا تو بطور احتجاج جناب گدون سعر نے اپناپہلے سے طئے
شدہ شدہ دورہ ہالینڈ منسوخ کردیا۔اب وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو نے Auschwitzیبیگار کیمپ کی آزادی کی
تقریب میں شرکت کیلئے پولینڈ نہ جانے کا عندیہ دیا ہے۔ کیمپ کو نازیوں سے آزاد
کرانے کی 80 سالہ تقریب 27جنوری کو ہورہی ہے جس میں شاہ برطانیہ سمیت مغربی دنیا
کے اہم رہنما شرکت کرینگے۔ نیتھن یاہو کو ڈر ہے کہ کہیں عالمی فوجداری عدالت (ICC)کے وارنٹ پر پولستانی حکومت
انھیں گرفتار نہ کرلے۔
بدترین پابندیوں اور قحط کے باوجود اہل غزہ کی مزاحمت جاری ہے۔
گزشتہ ہفتے مزاحمت کاروں نے کئی اسرائیلی سپاہیوں کو چھرے مار کرہلاک کردیا۔دوسری
طرف یمن سے پھینکے جانیوالے ڈرونوں اور میزائیلوں نے تل ابب میں سراسیمگی پھیلادی
ہے۔ جمعرات 19 دسمبر کو یمن سے داغے جانیوالے
میزئیل نے تل ابیب کے مضافاتی علاقے رعمت گن کو نشانہ بنایا۔حملے میں کوئی کانی
نقصان تو نہٰیں ہوا لیکن پرائمری اسکول بالکل تباہ ہوگیا۔ رئیس شہر کے مطابق، اسکول
کی تعمیر نو پر ایک کروڑ ڈالر خرچ ہونگے۔ اسی دن رات کو اسرائیلی فضائیہ نے یمن کے دارالحکومت صنعا پر زبردست بمباری
کی۔ اسرائیلی عوام کا حوصلہ بلند کرنے کیلئے یمن کی طرف بھیجے جانیوالے امریکی
ساختہ F16کی روانگی براہ راست دکھائی
گئی جسے خواتین ہواباز اڑارہی تھیں۔مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ دشمن کی تل ابیب تک
پہنچ سے اسرائیل خوفزدہ نہیں اورمردانِ جری کیساتھ خواتین بھی آہنی عزم رکھتی ہیں۔
بمباروں کے واپس آنے پر وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ حوثی میزائیل داغنا تو کیا اب وہ
میزائیل سازی کے قابل بھی نہیں رہے۔لیکن ابھی اس دعوے کی گھن گرج تھمی بھی نہ تھی
کہ دوسرے دن یمنیوں نے تل ابیب کا نشانہ لیکر ایک Hypersonicمیزائل داغ دیا۔ہائپر سانک
کا مطلب ہے آواز سے کم ازکم چار گنا تیز رفتار۔میزائیل شام کے وقت ایک پارک میں
گرا۔کوئی جانی نقصان نہ ہوالیکن دھماکے سے خوفزدہ ہوکر وہاں موجود ہزاروں افراد پناہ
گاہوں کی طرف بھاگے اور اس بھگدڑ میں 16 افراد کو چوٹیں آئیں۔ چند روز پہلے بھی
میزائیل حملےکا سائرن بجنے پر دوڑتے ہوئے ایک دوسرے سے ٹکرا کر طبی عملے سمیت پانچ
افراد زخمی ہوگئے تھے۔
اور قلم کے ایک مزدور کی شہادت پر گفتگو کا
اختتام۔ الجزیرہ کے جوانسال عکاس (فوٹوگرافر) احمد الالواح 15 دسمبر کو اسرائیلی ڈرون کا نشانہ بن گئے۔
عالمی کمیٹی برائے تحفظ صحافیان (CPJ)کے مطابق 20 دسمبر تک غزہ میں 141 صحافی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا
کرتے ہوئے اپنی جان سے گئے۔ غزہ، جنوبی لبنان اور غرب اردن میں ہلاک و زخمی ہونے
والوں صحافیوں کی غالب اکثریت الجزیرہ اور دوسرے عرب خبر رساں اداروں سے وابستہ
افراد کی ہے لیکن ظلم و جبر کی حکائت قلمبند کرنے کی کوشش میں امریکی خبر رساں ادارے، ایسوسی ایٹیڈ پریس اور
رائٹرز، روسی Sputnik،
فرانیسی AFP کیساتھ اسرائیلی ٹیلی ویژن Ynet،
چینل 12 اور الارض Haaretzکے
صحافیوں نے بھی قلم کی حرمت کیلئے اپنے سینہ و سر پیش کئے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 دسمبر 2024
ہفت روزہ دعوت دہلی 27 دسمبر 2024
روزنامہ امت کراچی 27 دسمبر 2024
ہفت روزہ رہبر سرینگر 29 دسمبر 2024
No comments:
Post a Comment