Thursday, December 12, 2024

 

اسرائیل غزہ میں نسل کشی کا مجرم ہے۔ ایمینسٹی انٹر نیشنل

غزہ میں نئی قبضہ بستیاں تعمیر ہونگی؟؟؟

جنگی جرائم مقدمات کا خطرہ، اسرائیلی فوجیوں کو بیرون ملک جانے سے روکدیا گیا

آسٹریلیا نے سابق اسرائیلی وزیر کوویزا دینے سے انکار کردیا

ڈانلڈ ٹرمپ کے حکم پر مزاحمت کار قیادت کو قطر واپس آنے کی دعوت

انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا مجرم قراردیدیا۔ پانچ دسمبر کو ادارے کی معتمد عام محترمہ اینس کیلیمرد (Angnes Callamard)  کی جانب سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ پر حملے کے دوران اسرائیل نے منظم منصوبہ بندی کیساتھ اہم بنیادی ڈھانچے کو تباہ کیا اور خوراک و ادویات کے علاوہ ضرروی انسانی امداد کی فراہمی روک کر فلسطینیوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل پر  1951 کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے  ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی عسکری اقدامات کا مقصد غزہ کی فلسطینی آبادی کو "سست اور سوچی سمجھی موت" کے عذاب میں مبتلا کرنا ہے۔ رپورٹ کو اشاعت کیلئے جاری کرتے ہوئے محترمہ کیلیمرد نے کہا 'ہمارے ان افسوسناک نتائج کو بین الاقوامی برادری کے لیے خطرے کی گھنٹی کے طور پر کام کرنا چاہیے،  یہ صریح نسل کشی ہے جسے فوری طور پر بند ہونا ضروری ہے'

حسب توقع اسرائیل اور انکے امریکی و یورپی اتحادیوں نے اس رپورٹ کو مسترد کردیا۔ ایمنسٹی پر الزام لگاتے ہوئے اسرائیلی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا 'قابل مذمت اور جنونی تنظیم،  ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بار پھر سفید جھوٹ پر مبنی من گھڑت رپورٹ پیش کی ہے۔ایمنسٹی انٹرنییشنل اسرائیل نے بھی رپورٹ کو مبالغہ آمیز قراردیا۔ ایمنسٹی انٹرنشینل کی اسرائیلی شاخ کا کہنا تھا کہ مقامی افراد کو تحقیقات سے علیحدہ رکھ کر معاملے کو مشکوک بنادیا گیا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں  لگائے گئے الزامات خودساختہ ، بلا ثبوت اور بے بنیاد ہیں چنانچہ امریکہ  نے غزہ نسل کشی کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان سبا شین فشر (Sebastian Fischer)بہت دور کی کوڑی لائے۔ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے بولے 'جب تک “نیت” کے بارے میں ناقابل تردید ثبوت نہ مل جائے نسل کشی ثابت نہیں ہوتی۔ غزہ میں اسرائیل کے کسی بھی قدم سے ثابت نہیں ہوا کہ یہ سب کچھ نسل کشی کی 'نیت' سے کیاجارہاہے'۔ کچھ ایسا ہی موقف اطالوی وزیرخارجہ و نائب وزیراعظم انتونیو تیجانی کاتھا۔ روم میں اپنی جماعت کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا'جو کچھ غزہ میں ہورہا ہے وہ غلط ہے لیکن اسے نسل کشی نہیں کہا جاسکتا'۔

امریکی و یورپی رہنماوں کی ہٹ دھرمی کے باوجود دنیا بھر میں اسرائیلیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ نسل کشی کے الزامات میں ملوث اپنے 30 فوجیوں کو غیر ملک سفر سے پرہیز کی ہدائت کی ہے۔ قبرض سلوانیہ اور ہالینڈ جانیوالے والے 8 فوجی افسروں کو فوری طور پر ملک واپس آنے کا حکم دیدیا گیا اسلئے کہ ان لوگوں کے خلاف مقامی وکلا نے جنگی جرائم کے پرچے کٹوادئے تھے۔ دوسرے ممالک کیلئے عازم سفر تمام فوجیوں سے کہا گیا ہے کہ ٹکٹ خریدنے سے پہلے اسرائیلی وزارت قانون سے مشورہ کرلیں۔

بیلجئیم میں اسرائیل کے عسکری اتاشی کیخلاف جنگی جرائم کی شکائت کردی گئی ہے۔انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں نے کرنل موسیٰ تیترو (Moshe Tetro)کیخلاف تحریری شکائت وزارت داخلہ اور وزارت انصاف کو جمع کرائی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ غزہ تعیناتی کے دوران کرنل صاحب امدادی سامان کی فراہمی میں رکاوٹ ڈال کر جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔خط میں کہا گیا ہے کہ اگر اس مکتوب کا تسلی بخش جواب جلد موصول نہ ہوا تو عدالت سے رجوع کیا جائیگا۔ آسٹریلیا نے فلسطینیوں سے بدسلوکی اور قبضہ گردی کی حمایت پر اسرائیل کی سابق وزیرانصاف ایلے شکر (Ayelet Shaked)کو ویزا دینے سے انکار کردیا۔

بیرون ملک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے دباو کے باوجود غزہ میں اسرائیلی کاروائیوں میں کمی کے کوئی آثار نہیں بلکہ لبنان سے راکٹ حملے رک جانے کے باعث اسرائیلی فضائیہ نے اپنی پوری طاقت ٖغزہ میں جھونک دی ہے۔ شمال میں بیت لاہیہ سے جنوب میں ر فح تک پوری پٹی شدید بمباری کی لپیٹ میں ہے۔ بار بار جبری نقل مکانی کی بنا پر سارا غزہ عملاً  سڑکوں پر ہے۔ غرب اردن ، وادی اردن اور مشرقی بیت المقدس کا بھی یہی حال ہے جہاں فوج کیساتھ قبضہ گردوں نے  لوٹ مار و قتلِ عام کا بازار گرم کررکھا ہے۔

وزیراندرونی سلامتی اتامر بن گوئر غزہ سے فلسطینیوں کی بیدخلی اور وہاں نئی قبضہ بستیوں کے قیام پر مُصر ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیرعظم  سے ملاقات کے بعد اسرائیلی ریڈیو پر انھوں نےکہا'بن یامین نیتن یاہو نے غزہ سے فلسطینیوں کی 'نقل مکانی' پر "کچھ کھلے پن" کا مظاہرہ کیا ہے۔ بن گوئر کا کہنا تھا کہ 'دشمن کی شکست صرف اسی صورت مکمل ہوگی جب ہم ان سے علاقہ چھین لیں۔انتہا پسند، غزہ میں اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کیلئے نامزد  امریکی سفیر مائک ہکابی کے ذریعے نومنتخب امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ رابطے میں ہیں۔ جناب ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر غزہ کے صاف و شفاف ساحل پر سیاحوں کیلئے آراستہ و پیراستہ Beach Frontتعمیر کرنے کا خیال ظاہرکرچکے ہیں بلکہ کہا جارہا ہے کہ خلیجی و عرب شیوخ اس نفع بخش کاروبار میں سرمایہ کاری کیلئے دامادِ اول سے رابطے میں ہیں۔

ڈانلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران غزہ میں پائیدار امن کا وعدہ کیا تھا لیکن انکی حالیہ بات چیت سے ایسا لگتا ہے کہ انکی ساری دلچسپسی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی سے ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل  کی خاتون اول محترمہ سارا نیتھن یاہو اپنے بیٹے یائر کیساتھ امریکہ آئیں جہاں جناب ٹرمپ نے اپنے پرتعیش گلف کورس میں انھیں پرتکلف عشائیہ دیا۔ سارہ بی بی کیلئے کوشر (یہودی حلال) ڈشوں کا خصوصی بندوبست کیا گیا تھا۔ ملاقات کی جو تفصیل یروشلم پوسٹ میں شایع ہوئی اسکے مطابق سارہ نیتھن یاہو نے ڈانلڈ ٹرمپ کو اسرائیل کے خلاف اہل غزہ کی “بربریت” سے آگاہ کیا اور قیدی رہا کرانے کیلئے مدد کی درخواست کی۔ دوسرے دن اپنے سوشل چبوترے TRUTHپر جناب ٹرمپ نے فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اسرائیلی قیدیوں کو میرے حلف اٹھانے سے پہلے رہا کردو۔ ورنہ اسکے ذمہ داروں کو نشانِ عبرت بنادیا جائیگا۔اسکا اہل غزہ کی طرف سے بہت ہی شائستہ جواب آیا کہ 'مستعضعفین، نسل کشی کے آغاز سے ہی مستقل جنگ بندی کیلئے ایک ایسے معاہدے کے خواہشمند ہیں جس میں قیدیوں کا مکمل تبادلہ شامل ہو، لیکن نیتن یاہو نے ان تمام کوششوں کو سبوتاژ کر دیا۔اہل غزہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2735 پر فوری عمل درآمد کے لیے پرعزم ہیں جو 2 جولائی 2024 کو طے پایا تھا'۔ حوالہ: نیوزویک

اس ضمن میں ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق جناب ڈانلڈ ٹرمپ نے قطر کو حکم دیا ہے کہ مزاحمت کار رہنماوں کو دوحہ واپس بلاکر مذاکرات فوراً شروع کئے جائیں۔کچھ عرصہ پہلے قطر نے صدر بائیڈن کے حکم پر اہل غزہ کی سیاسی قیادت کو ملک سے نکال دیا تھا۔سرکاری اعلان کے مطابق ' معزز مہمانوں' کو نکالا نہیں گیا لیکن چونکہ قطر نے مذاکرات سے ہاتھ اٹھالئے تھے اسلئے یہ لوگ ترکیہ چلے گئے تھے۔معلوم نہیں فلسطینی رہنما کب تک واپس قطر آئینگے۔ لیکن ڈانلڈ ٹرمپ بضد ہیں کہ 20 جنوری کو انکے حلف اٹھانے سے پہلے قیدی رہا کردیے جائیں جبکہ اہل غزہ کہتے ہیں اسرائیلی فوج کی پسپائی سے پہلے قیدی رہا نہیں ہونگے۔ یعنی ایک طرف قصاب، دوسری جناب مضبوط اعصاب۔

امریکہ کی لاممنوعہ ولا مقطوعہ امداد کے باوجود، معصوم فلسطینی بچوں کا لہو اسرائیلی معیشت پر کساد بازاری کی شکل میں اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ شمالی اسرائیل کے اکثر علاقوں میں کاروباری سرگرمیاں 14ماہ سے معطل ہیں اور اب یہی صورتحال باقی اسرائیل کے بازاروں میں بھی نظر آرہی ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ کے مطابق روزمرہ کے سامان کیساتھ سبزی اور پھلوں کی خریداری میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ جریدے نے شام چار بجے یروشلم میں واقع ماہان یہودا سبزی بازار کی ایک تصویر اس تبصرے کے ساتھ شایع کی ہے  کہ ام حالات میں اس وقت یہ بازار کھچاکھچ بھرا ہوتا ہے جبکہ ویرانی کا منظر بہت واضح ہے' ۔ بینک آف اسرائیل (اسٹیٹ بینک) کے مطابق غزہ نسل کشی پر اسرائیل کا خرچ 67ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ علمائےاقتصادیات کا خیال ہے کہ 2024 کے دوران معیشت کی شرح نمو 0.6فیصد سے کم رہی اور اگلے برس بھی بہتری کی کوئی امید نہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے کراچی 13 دسمبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 13 دسمبر 2024

ہفت روزہ رہبر سر ینگر 15 دسمبر 2024


 

شام میں صبح        

یا ہنوز دلی دوراست؟؟؟

آٹھ دسمبر کو روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ صدر بشار الاسد پرامن منتقلی اقتدار کی ہدائت دیکر ملک چھوڑ گئے ہیں۔بعد میں روس کی انٹر فیکس نیوز ایجنسی نے بتایا کہ بشارالاسد کو روس نے انسانی بنیادوں پر پناہ دیدی ہے۔ اس تبدیلی کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ انقلابی دستوں نے شہروں میں فاتحانہ داخلے کیساتھ ہی عام معافی کا اعلان کردیا جسکی وجہ سے اتنی بڑی تبدیلی بلا خون بہائے آگئی۔ یہ وضاحت ضروری یے کہ تبدیلی اقتدار کا آخری مرحلہ  تو پرامن رہا لیکن اس تبدیلی کی بنیادوں میں 1982 کے حماہ قتل عام سے اب تک لاکھوں شامیوں کے لہو کے علاوہ مریم صفت پاکباز بچیوں کی عصمتیں بھی شامل ہیں۔ شام میں طلوع ہونے والی اس صبح کیلئے اخوانیوں کی کئی نسلوں نے جان، مال اور عزت و آبرو کی بے مثال قربانی دی ہے۔

ڈھائی کروڑ نفوس پر مشتمل شام، عرب دنیا کا سیاسی قبرستان کہلاتا تھا۔ جاسوسی کا نظام اسقدر مضبوط و مربوط کہ  شائد"دیواروں کے کان" کا محاورہ شام میں تخلیق کیا گیا ہے۔تاریخی اہمیت کے حامل اس ملک میں گزشتہ پانچ دہائیوں سے مسلط "فوجی بادشاہت" کے بانی صدر بشار الاسد کے والد حافظ الاسد تھے۔ مصر کے حسنی مبارک کی طرح حافظ الاسد نے بھی اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز فضائیہ سے کیا اور  برق رفتاری سے ترقی کرتے ہوئے  صرف دس سال میں فضائیہ کے سربراہ مقرر ہوگئے۔ مصر اور شامی فضائیہ کی بدترین کارکردگی نے 1967میں عربوں کو اپنی تاریخ کی سب سے شرمناک شکست سے دوچار کیااور صرف چھ دنوں میں اسرائیل نے بیت المقدس سمیت جولان کی پہاڑیوں اور صحرائے سینا کے بڑے حصے پرقبضہ کرلیا۔ تاہم انتہائی مہارت کے ساتھ حافظ الاسد نےاس شرمناک شکست کی ذمہ داری اسوقت کے شامی صدر نورالدین الاتاسی (العطاشی) کے سر تھوپ دی۔ فروری 1971میں انھوں نے ایک "اصلاحی انقلاب" کے ذریعےحکومت سنبھالی اور اپنے بھائی رفعت الاسد کو خفیہ پولیس کا سربراہ مقرر کردیا۔ دونوں بھائیوں کا خیال تھا کہ شام کی ترقی کیلئےمذہبی عناصر کی مکمل بیخ کنی ضروری ہے۔ دوسرے عرب ممالک کی طرح شام میں بھی اخوان المسلمون، نوجوانوں میں خاصی مقبول تھی۔ دارالحکومت دمشق کے شمال میں واقع حماہ، حلب اورحمص کے شہر اخوان کےگڑھ سمجھے جاتے تھے۔

جون1980میں صدر حافظ الاسد پر دمشق میں ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ بال بال بچے۔ رفعت الاسد نے اسکا الزام اخوان پر لگادیا اور خواتین سمیت پانچ ہزار سے زیادہ اخوانی کارکن گرفتار کرلئےگئے۔ شہروں میں انکی برہنہ پریڈ کے بعد انھیں صحرا میں واقع تدمر جیل میں بند کردیا گیا۔تمام مردوں کو پھانسی دیدی گئی جبکہ خواتین کی بیحرمتی کرنے کے بعد انکی انکھیں پھوڑ کر گھروں کو واپس بھیج دیا گیا۔ رفعت الاسد نے ایک امریکی صحافی سے بات کرتے ہوئے فخریہ کہا کہ وہ تدمر کے قصاب ہیں اور انھوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک ہزار اخوانیوں کے گلے میں پھانسی کے پھندے ڈالے ہیں۔دو فروری 1982کو رفعت الاسد کی قیادت میں تیس ہزار شامی افواج نے حماہ کا محاصرہ کرلیا۔ شہر کی بجلی کاٹ دی گئی جبکہ شہر کو پانی کی سپلائی روک دی گئی۔ اس دوران شہریوں کے خلاف زھریلی گیس بھی استعمال کی گئی۔ تین ہفتوں کی مسلسل بمباری کے بعد ٹینکوں اور بھاری توپ خانے کی مدد سے شامی فوج شہر میں داخل ہوئی اور حماہ کے ایک ایک گھر کو مکینوں سمیت منہدم کردیا گیا۔ تین مہینے سے زیادہ جاری رہنے والے اس آپریشن میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پچاس ہزار افراد ہلاک ہوئے جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ جان بحق ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔اس آپریشن سے سارا شام دہشت زدہ ہوگیا اور اسکے بعد حافظالاسد کو عوام کی جانب سے کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

حافظ الاسد اپنے بڑے بیٹے باصل الاسد کو اپنے بعد صدارت کیلئے تیار کررہے تھے لیکن، باصل ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے چنانچہ ماھر امراض چشم بشار الاسد شام طلب کر لئےگئے جو اس وقت لندن میں اپنا مطب چلارہے تھے۔ ملک واپس آنے پر انھیں فوج میں بھرتی کرلیا گیا اور تربیت مکمل ہوتے ہی بشار جنرل بنادئے گئے۔ حافظ الاسد کے انتقال کے وقت بشار 34 سال کے تھے جبکہ دستور کی رو سے شامی صدر کی کم سے کم عمر چالیس برس تھی، چنانچہ قومی اسمبلی نے آئین میں فوری طور پر ترمیم کرکے صدر کیلئے کم سے کم عمر چونتیس سال کردی اور ڈاکٹر بشار الاسد شام کے صدر منتخب ہوگئے۔

تیونس میں انقلاب کے بعد مصر، الجزائر ،کوئت، لیبیا، یمن، اور بحرین کی طرح شام میں بھی مظاہروں کی باز گشت سنائی دی مگر خفیہ پولیس کی موثر پیش بندیوں کی بناپر کوئی عوامی سرگرمی سامنے نہ آئی۔ پندرہ مارچ 2011کو اردن سے ملحقہ شہر درعا کے ہائی اسکول کی دیوار پر اللہ، السوریہ(شام) اور آزادی کا نعرہ لکھا پایا گیا۔ جلد ہی یہ نعرہ نوشتہ دیوار بن گیا۔ اس ناقابل معافی جسارت پر خفیہ پولیس حرکت میں آئی ور دو سو بچیوں سمیت پانچ سو طلبہ گرفتار کر لیا گیا۔ان طلبہ کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ معصوم بچیوں کی بے حرمتی کی گئی اور  پچاس بچوں کی ان انگلیوں کو کاٹ دیا گیا جن سے انھوں نے نعرے لکھے تھے۔ اس تشدد کیخلاف سارے ملک میں احتجاج ہوا اور اب اللہ، شام اور آزادی کے نعروں کے ساتھ 'ارحل یا بشار' بھی عام ہوگیا۔

بشارالاسد کا کہنا تھا کہ شامی عوام کے خلاف اخوان المسلمون اور کرد  انتہا پسندوں نے اتحاد کرلیا ہے جسے صیہونی سامراج اور ترکی کے اسلام پسندوں کی حمائت حاصل ہے۔ انکا کہنا تھا کہ ترک سرحد پر واقع القامشلی سے کرد بنیادپرست،  دیرالزور کی عراقی سرحد سے القاعدہ کے مسلح دہشت گرد اور مصر و اردن سے اخوان کے جنونی، حلب  میں جمع ہورہے ہیں۔حافظ الاسد نے اخوانیوں کے قتل عام کی ذمہ داری اپنے بھائی رفعت لاسد کو سونپی تھی۔ بشارالاسد نے اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کام کیلئے اپنے بھائی اور ریپبلکن گارڈ کے سربراہ ماہر الاسد کو چن لیا۔ لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی یعنی تشدد کیساتھ مظاہروں میں شدت آگئی۔

جب تشدد سے کام نہ بنا تو صدر اسد نے اس معاملے کو فرقہ وارانہ اور 'نظریاتی رنگ دیدیا۔ ایران کو دہائی دی کہ یہ علویوں اور شیعوں کے خلاف سنیوں کا غدر ہے اور ماسکو کو باور کرایا کہ امریکہ نواز خلیجی ریاستیں شام سے روسی اڈے ختم کرانا چاہتی ہیں۔ایرانی حکومت سازش کو نہ سمجھ سکی اور پورے عزم کیساتھ بشارکی پشت پر آکھڑی ہوئی۔شامیوں کا کہنا ہے کہ ایرانی پاسدان انقلاب  اسلامی (IRGC) کے سپاہی شامی فوجوں کے شانہ بشانہ مظاہرین کے قتل عام میں شریک تھے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ حماہ کے البدر ہسپتال پر حملہ کرنے والے سپاہی فارسی بول رہے تھے۔ شامی حزب اختلاف نے IRGCور لبنانی مزاحمت کاروں پر حزب الاسد ملیشیا کو تربیت دینےکا الزام لگایا۔ تاہم تہران اور حزب اللہ دونوں نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اسے صیہونی و امریکی پرپیگنڈہ قرار دیا۔اسی دوران القاعدہ اور ISISکا 'مصنوعی' ظہور ہوا جسے کچلنے کیلئے امریکی فوج نے دیرالزور میں تیل کے میدانوں کے قریب ڈیرے ڈالدئے۔ ترکیہ کی کرد علیحدگی پسند جماعت PKKکے عسکری جتھے YPGنے ترک فوجوں پر حملے شروع کردئے جواب میں ترک فوجی کاروائی نے تشدد کی لہر کو مزید بڑھادیا۔ خونریزی 13 سال جاری رہی جس میں لاکھوں بے گناہ لقمہ اجل بنے لاتعداد بے گھر ہوئے اور اربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔

بدھ 27 نومبر کو HTSنے مشرقی ادلب اور مغربی حلب کےبڑے علاقے پر قبضہ کرلیا۔ عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بشار اقتدار کے پشت پناہ لبنانی جنگجو اسرائیل کی جانب سے دباو میں تھے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے HTSنے چشم کشا حملہ کرکے سرکاری فوج کو سراسیمہ کردیا اور بشار کے سپاہی مقابلہ کئے بغیر فرار ہوگئے۔ انقلابیوں نے فرار ہوتی فوج کا تعاقب کیا اور دودن میں پورےحلب  پرHTSکاقبضہ ہوگیا۔ انقلابیوں کے سربراہ نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے پیشقدمی جاری رکھی۔ دوسرے دن رستن اور تلبسیہ سرنگوں ہوتے ہی سرکاری فوجوں نے حمص خالی کردیا۔سات دسمبر کی دوپہر HTS کا ہراول دستہ دمشق پر دستک دے رہا تھا۔ اسی دوران جنوب میں درعا اور السویدہ میں سرکاری فوج نے ہتھیار ڈالدئے۔ تمام بڑے شہروں پر قبضے کے بعد بشارالاسد کیلئے دمشق سے نکل کر کہیں اور ٹھکانہ بنانے کی گنجائش باقی نہ بچی تھی چنانچہ وہ اہل خانہ کے ہمراہ روس فرار ہوگئے اورخون آشام الاسد اقتدار کا سورج 53 سال بعد غروب ہوگیا۔

بلا شبہہ شام میں آنے والی پرامن تبدیلی عوامی امنگوں کی ترجمان ہے جسکے لئے اخوانی 1982 سے قربانی دےرہے تھے۔اس جدوجہد میں جانی ومالی نقصانات کیساتھ بعثی درندوں نے ہزاروں باعفت خواتین اور بچیوں کو بے آبرو کیا۔اوباشوں کے مجمع میں پاکباز بچیوں کو بے لباس کرنا اور انکی اجتماعی عصمت دری کو بشارالاسد کی سرپرستی حاصل تھی۔ ستم ظریفی کہ جیلوں کے خفیہ تہہ خانوں میں اب بھی سینکڑوں مظلوم ایڑیاں رگڑ رہے ہیں کہ ان کوٹھریوں تک رسائی کا علم رکھنے والے سرکاری محافظ فرار ہوگئے ہیں اور ان تک پہنچنے کا راستہ کسی کو معلوم نہیں۔

بہیمانہ تشدد اور فرقہ وارانہ نفرت کا بیج بوکر بھی بشارالاسد اپنا اقتدار نہ بچاسکے لیکن اسکے نتیجے میں پیداہونے والی شیعہ سنی خلیج اہل غزہ کیلئے سخت نقصان دہ ہے۔راکٹ حملوں کی صورت میں لبنان سے ملنے والی بلا واسطہ کمک اب معطل ہوگئی ہے۔دوسری جانب ڈانلڈ ٹرمپ ہر قیمت پر قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔فوجی انخلا کے بغیر قیدیوں کی رہائی غزہ کو غرب اردن سے بدتر قبضہ بستی میں تبدیل کرسکتی ہے۔اسرائیلی وزیراعظم HTSکو مبارکباد دینے مقبوضہ جولان میں جبل الغرام تک گئے اورکامیابی کا سہراپنے سر باندھتے ہوئے کہا کہ' الاسد کا زوال ایران اور حزب اللہ کے خلاف ہمارے حملوں کا براہ راست نتیجہ ہے'۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار امریکی قائدین نے بھی کیا ہے۔

لیکن ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔دمشق پر HTSکے قبضے سے ایک رات قبل اسرائیلی وزیردفاع کی زیرصدارت عسکری حکمت پردازوں کا ہنگامی اجلاس ہوا جسکے بعد تل ابیب نے اپنے تحفظات سے واشنگٹن کے علاوہ مصر اور خلیجی 'دوستوں' کو آگاہ کردیا تھا۔اجلاس میں شریک ایک اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بیٹھک کی جو تفصیلات بیان کی اسکے مطابق اسرائیل کے لئے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی کیفیت ہے کہ شام میں ایران کا زوال ایک نئی اسلامی قوت کے کمال و اقبال کا راستہ ہموار کررہا ہے یعنی  out of the frying pan into the fire

الاسد اقتدار کے زوال پر خوشی و مسرت کے مصنوعی اظہار کیساتھ اسرائیلیوں نے شام کے خلاف ننگی جارحیت کا ارتکاب بھی کیا۔فوج نے اپنےایک اعلامئے میں فخر سے کہا کہ اتوار کو بشارالاسد کی معزولی کے بعد سے منگل تک اسرائیلی فضائیہ اور بحری جہازوں نے شام پر 450حملے کئے اور 80فیصد عسکری اثاثے تباہ کردئے گئے۔ جن میں درعا کا مرکزی اسلحہ ڈپو، المزۃ فضائی مرکز، السویدہ میں الخلخلہ عسکری فوجی اڈہ، ترک سرحد کے قریب قامشیلی ائرپورٹ شامل ہیں۔ شامی بحریہ کے جہاز، کشتیاں اور ساحلی تنصیبات برباد کردی گئیں۔ اسرائیلی فوج نے جبل حرمون (جبل الشیخ) پر بھی قبضہ کرلیا۔ یہ پہاڑی سلسلہ شام و لبنان کی سرحد ہے۔ شام کے 10 کلومیٹر علاقے پر قبضےکا جواز فراہم کرتے ہوئے اسرائیلی فوج نے کہا کہ کاروائی کا مقصد بدامنی پھیلانے کیئے شام آنے والے ایران نواز لبنانی دہشت گردوں کا راستہ روکنا ہے۔اسوقت اسرائیلی فوج دمشق سے 25 کلومیٹر دور مورچے لگائے ہوئے ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 13 دسمبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 13 دسمبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 15 دسمبر 2024


Thursday, December 5, 2024

 

لبنان اسرائیل مشکوک جنگ بندی

امریکہ اسرائیل کیلئے لبنانی مزاحمت کاروں کی جاسوسی کریگا

شام تنازعہ اور سنی شیعہ نفرت کی لہر

اہل غزہ کہیں تنہا نہ رہ جائیں؟؟؟

اسرائیل کا سب سے بڑا اخبار، انتقام کا شکار

گزشتہ منگل امریکی صدر بائیڈن نے اعلان کیا کہ اسرائیل اور لبنانی مزاحمت کار فائر بندی پر رضامند ہوگئے ہیں اور 26 نومبر کو مقامی وقت کے مطابق صبح چار بجے اس پر عملدرآمد شروع ہوگیا۔اپنی تقریر میں امریکی صدر نے جنگ شروع کرنے کی ذمہ داری لبنانی مزاحمت کاروں پر ڈالدی۔اعلان میں Ceasefireکے بجائے  Cessation of Hostilitiesیعنی'کشیدگی کے خاتمے' کا لفظ استعمال ہوا ہے۔اسکی وضاحت کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ یہ امن معاہدہ نہیں بلکہ پائیدار امن کیلئےراستہ ہموار کرنے کی ایک کوشش ہے۔اس معاہدے کا دورانیہ 60 دن ہے۔اس عرصے میں فوجی انخلا اور سرحد پر لبنانی مسلح افواج کی تعیناتی کا عمل مکمل کرلیا جائیگا۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ لبنانی مزاحمت کار نہر لیطانی یا Litani Riverکی دوسری جانب رہینگے، یعنی سرحد سے 29 کلومیٹر کے فاصلے پر۔فائر بندی پر آمادگی ظاہر کرتے نیتھن یاہو نے جو بیان جاری کیا اسکے ایک ایک لفظ سے رعونت ٹپک رہی تھی۔ انھوں نے صاف صاف کہا کہ مزاحمت کاروں کی جانب سے فائربندی کی معمولی سی خلاف ورزی کا اسرائیل بھرپور جواب دیگا۔

نیتھن یاہو کا فرعونی لہجہ اپنی جگہ لیکن تل ابیب نے 24 نومبر کو اشدود کے بحری اڈے پر راکٹ حملوں کے فوراً بعد ہی جنگ بندی پر رضامندی کے اشارے دینے شروع کردئے تھے۔اس دن مزاحمت کاروں نے اشدود پر  بیک وقت 340 راکٹ داغے۔ عین اسی وقت تل ابیب کے مضافاتی علاقوں سمیت اسرائیل کا بڑا حصہ راکٹ حملوں کی زد میں آگیا اور 40 لاکھ اسرائیلیوں کو زیرزمین پناہ گاہوں کا رخ کرنا پڑا، گویا نصف کے قریب آبادی ان حملوں کا نشانہ بنی۔مزاحمت کاروں نے  اتنی بڑی تعداد میں ایک ساتھ راکٹ پھینکے کہ امریکی ساختہ آئرن ڈوم دفاعی نظام عملاً مفلوج ہوگیا۔ اشدود بندرگاہ کو نقصان پہنچنے سے اسرائیل کی بحری تجارت متاثر ہوئی ہے۔ چند روز قبل راکٹ حملے میں اشدود کے قریب واقع  حیفہ بندرگاہ کے تیل ٹرمینل کو نقصان پہنچا تھا جسکی وجہ سے درآمدی خام تیل اب اشدود پر اتارا جارہاہے۔جنوب میں خلیج عقبہ کی ایلات بندرگاہ، بحیرہ احمر سے گزرنے والے جہازوں پر حوثیوں کے حملوں کی وجہ سے پہلے ہی مفلوج ہے۔

دوسرے دن جب فوج کے سربراہ جنرل ہرزی حلوی جواب طلبی کیلئے وزیراعظم کے روبروپیش ہوئے تو اسرائیلی میڈیا کے مطابق انھوں نے نیتھن یاہو کو مشورہ دیا کہ جتنی جلد ممکن ہو لبنانی مزاحمت کاروں سے امن معاہدہ کرلیں۔ انکے راکٹ اور میزائیل ہر گزرتے دن کیساتھ مہلک اور تیر بہدف ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارا فضائی دفاعی راکٹوں کی اس بارش کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اسرائیلی جرنیل کا کہنا تھا کہ 14 ماہ کے دوران جنوبی لبنان پر 12500 فضائی حملے  کئے گئے اور زمینی کاروائی کیئے 14 بریگیڈ فوج استتعمال ہورہی ہے۔شدید ترین بمباری اور مزاحمت کار قیادت کو راستے سے ہٹادینے کے باوجود اسرائیل پر حملوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور اب لبنانی راکٹ دارالحکومت تک پہنچ رہے ہیں۔ فوجی بریفنگ کے بعد شام کو جب وزیراعظم نے عسکری قیادت کی رپورٹ کابینہ کے سامنے رکھی تو وزیراندرونی سلامتی اتامربن گوئر کے سوا تمام وزرا نے جنگ بندی کی منظوری دیدی اور امریکہ میں اسرائیل کے سفیر نے امریکی صدر کو فائر بندی کیلئے اسرائیل کی رضامندی سے صدر بائیڈن کو آگاہ کردیا۔

اسی کیساتھ اسرائیل کے عبرانی ٹی وی چینل 12 نے انکشاف کیا کہ چچاسام نے اسرائیل کو لبنانی مزاحمت کاروں کی جاسوسی جاری رکھنے کی تحریری یقین دہانی کروائی ہے۔ چینل 12 کے مطابق معاہدے کی اضافی دستاویز یا Side letterمیں وعدہ کیا گیا ہے کہ لبنانی مزاحمت کاروں کو ایران سے ملنے والی امداد پر کڑی نظر رکھی جائیگی اور ان خفیہ معلومات تک اسرائیل کی رسائی کو یقینی بنایا جائیگا۔ لبنان امن کیلئے سہ رکنی معاہدہ کیا گیا ہے جسکا ایک فریق (ضامن) امریکہ ہے۔ سائیڈ لیٹر کی شکل میں ضمنی معاہدہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان ہے

جنگ بندی سے چند گھنٹہ قبل اسرائیل نے جنوبی لبنان پر آتش و آہن کی خوفناک بارش کی اور اوسطاً ہر دومنٹ پر 20 بم برسائے گئے۔ مزاحمت کاروں نے بھی اسکا ترکی بہ ترکی جواب دیا اور انکے راکٹوں نے کریات شمعونہ کے لاری اڈے کو تباہ کردیا۔

فائر بندی نافذ ہوتے ہی اسرائیل کی جانب سے اسکی خلاف ورزی شروع ہوگئی اور گھر واپس آتے لبنانیوں پر اسرائیلی فوج نے  فائرنگ کی۔ اس کاروائی کی متکبرانہ منطق پیش کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا کہ' ہم نے اب تک اسرائیلی متاثرین کو اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت نہیں دی لہذا لبنانیوں کی واپسی برداشت نہیں کی جاسکتی'۔اسی دوران جنوبی لبنان کو یہ کہہ کر ڈرونوں کا نشانہ بنایا گیاکہ دہشت گرد دوبارہ صف بندی کررہے تھے۔لبنانی  مزاحمت کاروں کی جانب سے فائربندی کے احترام کے باوجود اسرائیل کے سرحدی علاقوں میں خوف کی فضا قائم ہے۔اسکول تاحکم ثانی بند ہیں اور اسرائیلی وزیردفاع اسرائیل کاٹز نے پارلیمان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ سرحدی علاقے  کے رہائشیوں کو فی الحال گھر واپس جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بندی اس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ اسکے نتیجے میں جنوبی لبنان کے  ان لاکھوں افراد کو کچھ راحت نصیب ہوگی جو گزشتہ 14 ماہ سے بمباری کا عذاب سہہ رہے ہیں۔ غزہ کے مزاحمت کاروں نے بھی لبنان اسرائیل فائربندی کا خیر مقدم کیا ہے لیکن فلسطینی عوام اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا ہوگئےہیں۔خیال ہے کہ لبنان سے فارغ ہونے والی چار ڈویژن فوج غزہ کا رخ کریگی اور نیتھن یاہو لبنان میں شکست کا بدلہ اہل غزہ سے لینگے۔ لبنانی راکٹوں کی وجہ سے غزہ کے لوگوں کو بالواسطہ مدد مل رہی تھی جو اب ختم ہوچکی ہے۔ غزہ میں قحط کی صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے۔گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی ایجنسی World Food Program(WFP)نے انکشاف کیا کہ غزہ کے لوگوں کو دن میں صرف ایک وقت کھانا میسر ہے اور وہ بھی نان اور شوربہ یا چند کھجور۔ زیرزمین پانی میں نمکیات کا تناسب اتنا بڑھ گیا ہے کہ یہ کھاری پانی آبنوشی کے قابل نہیں، اہل غزہ کو فی کس صرف 3 لٹر میٹھا پانی یومیہ مل رہا ہے۔

دوسری طرف شامی صدر بشار الاسد اور انکے مخالفین کے درمیان لڑائی میں شدت آجانے سے سنی شیعہ کشیدگی بھی عروج پر ہے۔یہاں فروری1982 میں بشار الاسد کے والد حافظ الاسد نے اخوان المسلمون کے خلاف ایک خونی آپریشن کیا تھاجسکے نتیجے میں حماہ شہر ملبے کا ڈھیر بن گیا اور خواتین و بچوں سمیت ایک لاکھ سے زیادہ اخوانی قتل ہوئے۔جب 17دسمبر 2010 کو تیونس سے آزادی جمہور کی تحریک شروع ہوئی جسے ربیع العربی یا Arab Spring کا نام دیا گیا تو شام بھی اسکی لپیٹ میں آیا اور اردن کی سرحد پر واقع شہر، درعا سے طلبہ نے تحریک شروع کی۔ صدر بشارلاسد نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسے کچلنے کیلئے طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا اور اسے سنی شیعہ رنگ دیدیا۔ چنانچہ ایران بشار کی پشت پر کھڑاہوگیا اور لبنان کی ایران نواز ملیشیا نے حکومت مخالف مظاہرین کو کچلنے میں بشار فوج کی بھرپور مدد کی۔ حافظ الاسد کے دور میں حماہ کی شامت آئی، اس بار حکومتی مخالفین نے  اسکے شمال میں ترکیہ کی سرحد پر حلب (Aleppo) اور ادلب کو اپنا مرکز بنایا۔ جنوری 2012 سے شامی افواج اور لبنانی ملیشیا نے مخالفین کے خلاف خوفناک آپریشن کا آغاز کیا اور روسی فضائیہ نے بمباری کرکے دونوں شہر کو کھنڈر بنادیا۔ ایک اندازے کے مطابق حلب اور ادلب میں 3 لاکھ سے زیادہ افراد مارے گئے اور 2016 تک مزاحمت کاروں نے حلب خالی کردیا۔مارچ 2020 میں معاہدہ کرکے حکومتی مخالفین ادلب سے بھی نکل گئے۔ اس جنگ میں بھاری جانی اور مالی نقصان کیساتھ شیعہ سنی کشیدگی بلکہ نفرت اتنی سخت ہوگئی کہ شامی مزاحمت کاروں کی عسکری تنظیم هيئة تحرير الشام یا HTSکے کچھ عناصر نے حماس کو اپنا دشمن کہنا شروع کردیا کہ ایران اور لبنانی مزاحمت کار اہل غزہ کے  حامی ہیں۔

عجیب اتفاق کہ اسرائیل لبنان فائر بندی کے دوسرے روز HTSنے حلب پر زبردست حملہ کردیا۔ شامی فوج اس اچانک کاروائی کیلئے تیار نہ تھی اور صرف چار دن میں HTSنے حلب اور ادلب پر قبضہ کرلیا۔ قبضہ چھڑانے کیلئے روسی فٖضائیہ ان دونوں شہروں پر شدید بمباری کررہی ہے اور خبروں کے مطابق اسرائیل سے لڑنے والے لبنانی مزاحمت کاروں نے بشارالاسد کی نصرت کیلئے اب حلب اور ادلب کا رخ کرلیا ہے۔ شیعہ سنی نفرت کا یہ عالم ہے کہ  شامی حزب اختلاف کے رہنما فہد المصری نے اسرائیلی چینل 12 سے گفتگو کرتے ہوئے کہا 'ہم اسرائیلی قیادت سے درخواست کرتے ہیں کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شام میں ایرانی اور لبنان کے ایران نوازعناصر کو نشانہ بنایا جائے'

یہ صورتحال اہل غزہ کیلئے انتہائی پریشان کن ہے۔ انکی نظریاتی وابستگی بشارالاسد کے ظلم کا نشانہ بننے والے شام کے اخوانیوں سے ہے اور وہ پرزور و عملی حمائت پر لبنانی مزاحمت کاروں کے بھی مشکور ہیں جبکہ شیعہ سنی کے نام سے ہونے والے نئی صف بندی نے ایران اور لبنانی مزاحمت کاروں کو اخوان دشمن بشارالاسد کی پشت پر لاکھڑا کیا ہے۔ شام کی صورتحال پر مزید گفتگو کسی دوسری نشست میں۔

نومنتخب صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ برسراقتدار آکر امریکی جامعات میں اسرائیل مخالف مظاہروں پر پابندی لگادیگے۔شہہ پاکرانتہاپسند عناصر نے ابھی سے سختی شروع کردی ہے۔اسناد کے اجرا میں تعطل، امتحان دینےپر پابندی، خفیہ ایجنسیوں سے تحقیقات کی دھمکی سمیت تمام اوچھے ہتھکنڈے  استعمال ہورہے ہیں۔ تہوار شکرانہ (Thanksgiving)کی پریڈ کے سامنے غزہ نسل کشی کےخلاف مظاہرے پر پولیس جھپٹ پڑی اور بینر چھین کر کئی کارکن گرفتار کرلئے گئے۔ امریکہ کے پڑوسی ملک کنیڈا کے وزیراعظم ٹروڈو، مانٹریال میں مظاہرے کے دوران نیتھن یاہو کا پتلا نذرآتش کئے جانے پر سخت برہم ہیں اور انھوں نے اسکے ذمے داروں کے  خلاف سام دشمنی یا Antisemitism کا پرچہ کٹوانے کا عندیہ دیا ہے۔

اختتام پر اسرائیل میں صحافت کی حالت زار کا ذکر

الجزیرہ پر پابندی کے بعد حکومت نے اسرائیل کے سب سے بڑے اور قدیم اخبار الارض (Haaretz)کا مزاج درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔الارض عبرانی اور انگریزی دونوں میں شایع ہوتا ہے۔ حکومتی فیصلے کے مطابق سرکاری دفاتر کیلئے اب یہ پرچہ نہیں خریدا جائیکا۔ حکومتی اشتہارات کی بندش ہوگی۔ سرکاری تقریبات میں انکے نمائندوں کو مدعو کیا جائیگا اور نہ حکومتی اعلامیوں کی نقول الارض کو بھیجی جائینگی، پارلیمانی گیلری میں انکے نمائندوں کا داخلہ منع ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ نزلہ گرنے کی وجہ یہ ہے کہ اخبار کے طابع اور ممتاز صحافی اموس شوکن (Amos Schocken)نے گزشتہ ماہ ایک مرکزِدانش Berl Katznelson Foundationکی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'نیتھن یاہو حکومت ان علاقوں میں غیر قانونی آبادکاری کو جاری اور تیز کرنا چاہتی ہے جو فلسطینی ریاست کے لیے بنائے گئے تھے۔ فلسطینی آبادی پر ظالمانہ نسل پرست حکومت مسلط ہے۔ اس کے نتیجے میں حکومت کو ہتھیائی اراضی کے تحفظ اور فلسطینی مجاہدین آزادی سے لڑائی دونوں کا خرچہ برداشت کرنا پڑرہا ہے'

اسرائیلی حکومت کے خیال میں مزاحمت کاروں کو مجاہدین آزادی کہہ کہ شوکن صاحب دہشت گردوں کی پشت پناہی، اعانت اور سہولت کاری کے مرتکب ہوئے ہیں

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 6دسمبر 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 6 دسمبر 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 8 دسمبر 2024