Friday, June 27, 2025

 

 تقسیم امداد کے کیمپوں پر فائرنگ، بمباری اور حملوں کا سلسلہ جاری

اسرائیل غزہ میں انسانی حقو ق کی پامالی کا مرتکب ہورہا ہے۔ یورپی یونین کی رپورٹ

مزاحمت کار ہتھیار ڈال کر قیدی رہا کردیں۔ نیتن یاہو کا اصرار

مسجد اقصی مقفل کردی گئی۔ انتہا پسندوں کی جانب سے اسکی شہادت کا خدشہ

جامعہ کولمبیا نیویارک کے طالب علم رہنما محمود خلیل رہا

میں غزہ دوبارہ جاونگا، فریڈمFlotilla کے ولندیزی ملاح کا عزم

ایران پر اسرائیل اور امریکہ کے حملوں کی وجہ سے غزہ دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا، لیکن اسرائیل نے خونریزی کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس ہفتے بھی امدادی مراکز پر راشن کے نام پر موت کی تقسیم جاری رہی اور اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے درجنوں نوجوان جاں بحق ہوئے۔ ابوشہاب کے دہشت گردوں کی سرگرمیاں کم نہیں ہوئیں، لیکن مزاحمت کار ان غنڈوں کی سرکوبی میں کامیاب نظر آ رہے ہیں اور ان کے درجنوں چھاپہ مار فلسطینیوں سے تصادم میں مارے گئے۔ اس دوران پورے غزہ پر بمباری کا سلسلہ بھی جاری رہا اور کئی اسرائیلی فوجی بھی مارے گئے۔

غزہ میں انسانی حقوق کی پامالی پر دنیا کا ردعمل سست ہے، لیکن سوشل میڈیا کی برکت سے یورپ میں اب چوکوں اور چوراہوں پر یہ موضوعِ سخن بن چکا ہے۔ عوامی دباؤ پر یورپی یونین کی سفارتی سروس نے غزہ کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا۔ وزارت خارجہ کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "اسرائیلی اقدامات یورپی یونین کے ساتھ ایسوسی ایشن معاہدے میں موجود انسانی حقوق کی دفعات کی خلاف ورزی کا اشارہ دیتے ہیں۔"

رپورٹ میں مزید وضاحت کی گئی کہ "اسرائیل یورپی یونین-اسرائیل ایسوسی ایشن معاہدے کے آرٹیکل 2 کے تحت انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ غزہ کی ناکہ بندی، شہری علاقوں پر بمباری، ہسپتالوں پر حملے اور اب امدادی مراکز پر فائرنگ ان خلاف ورزیوں کی چند مثالیں ہیں۔ ان اقدامات کو حادثاتی یا Collateral damage کہ کر نظر انداز کرنا ناانصافی ہوگی۔"

اسرائیلی وزیر خارجہ گدون ساعر نے رپورٹ کو متعصبانہ اور یکطرفہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔ انہوں نے یورپی یونین کو لکھے گئے خط میں کہا کہ "اخلاقیات تقاضا کرتی ہیں کہ رپورٹ کی خامیوں پر توجہ دی جائے اور اسے مکمل طور پر مسترد کیا جائے۔" (حوالہ: یورونیوز)

ایرانی میزائل حملوں کی وجہ سے اسرائیل میں عوامی اجتماعات پر پابندی لگائی گئی ہے، جس کی وجہ سے قیدیوں کی واپسی اور غزہ میں جنگ بندی کے لیے مظاہرے بھی معطل ہیں، مگر لواحقین کی سوشل میڈیا مہم زوروں پر ہے۔ اتوار 22 جون کو وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنی زیرزمین پناہ گاہ سے پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ اہل غزہ کو شاندار مستقبل دینا چاہتے ہیں، بشرطیکہ مزاحمت کار ہتھیار ڈال کر قیدیوں کو رہا کریں، تبھی جنگ ختم ہوگی۔

یہ ایک پرانی تجویز ہے جو اسرائیلی اور امریکی رہنما ایک سال سے دہرا رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مزاحمت کار کسی قیمت پر ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور غزہ سے اسرائیلی فوج کی واپسی پر ان کا موقف غیر متزلزل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم کے اس بیان کے دوران میزائل حملے کے الارم بج اٹھے، اور تمام صحافی زیرزمین پناہ گاہ کی طرف دوڑ گئے۔ CNN کے سینئر میزبان اینڈرسن کوپر بھی اسی دن تل ابیب پہنچے تھے۔

ایران پر حملے کے بعد اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کو تالہ لگا دیا ہے۔ جمعہ 13 جون کو نماز فجر کے فوراً بعد نمازیوں کو مسجد سے نکال دیا گیا۔ فوج دروازوں پر پہرہ دے رہی ہے اور کسی کو جانے کی اجازت نہیں۔ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ حفاظتی اقدامات کا حصہ ہے کیونکہ ملک بھر میں اجتماعات پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

وقف بورڈ کے ڈائریکٹر عون بن باز نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "یہ پابندی عوامی حفاظت کے لیے لگائی گئی ہے لیکن ہمیں اس کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ خدشہ ہے کہ اسرائیلی حکومت اس بہانے مسجد کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتی ہے۔"

انہوں نے سوال کیا کہ "اگر ایران-اسرائیل جنگ جلد ختم نہیں ہوتی تو کیا مسجد اقصیٰ غیر معینہ مدت تک بند رہے گی؟" مغربی یروشلم میں دیوار گریہ پر پابندی نہیں ہے، اور 22 جون کو وزیراعظم وہاں عبادت کر کے اخبارات کی سرخیاں بنے۔ ایک تشویشناک افواہ یہ بھی ہے کہ انتہا پسند مسجد اقصیٰ کو مسمار کرنے کی کوشش میں ہیں تاکہ اسے ایرانی میزائل حملے کا شاخسانہ قرار دیا جا سکے۔

گذشتہ ہفتے امریکہ کے وفاقی جج مائیکل فاربیئرز نے جامعہ کولمبیا کے طالب علم رہنما محمود خلیل کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا۔ محمود خلیل پر غزہ نسل کشی کے خلاف تحریک کی قیادت کرنے کا الزام تھا، اور وزیر خارجہ کے حکم پر امیگریشن حکام نے ان کا گرین کارڈ منسوخ کر کے 8 مارچ کو گرفتار کیا تھا۔

محمود خلیل کو لوئیزیانا کے حراستی مرکز میں رکھا گیا جہاں بنیادی سہولتوں کا فقدان تھا۔ جج نے کہا کہ ان کے فرار ہونے کا کوئی امکان نہیں اور ان کے آزاد رہنے سے امن عامہ کو کوئی خطرہ نہیں، لہٰذا انہیں رہا کیا جائے۔

رہا ہوتے ہی محمود خلیل دوبارہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم ہوگئے۔ 22 مارچ کو نیویارک کی سینٹ جان کیتھیڈرل کے باہر بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایران پر امریکہ کے حملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ یہ امریکی عوام کی مرضی کے خلاف ہے۔

گذشتہ ہفتے ہم نے غزہ کی پہلی خاتون ماہی گیر میڈیلین کا ذکر کیا تھا، جن کے نام پر غزہ جانے والے فریڈم فلوٹیلا کی کشتی موسوم ہے۔ آج چند الفاظ اس کشتی کے ولندیزی ملاح وین رینس کے بارے میں۔ وین رینس نے اسرائیلی قید سے رہائی کے بعد وطن ہالینڈ پہنچ کر استقبالیہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ غزہ دوبارہ جانے کے لیے پرعزم ہیں اور جب تک فلسطینیوں پر ظلم و ستم جاری رہے گا، فلوٹیلا کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔

ایرانی میزائل حملوں سے اسرائیل میں خوف و ہراس بڑھ گیا ہے، لیکن غرب اردن میں زبردست جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ ایرانی میزائل حملے کے ایک ٹکڑے نے 14 جون کو الخلیل میں گرا، جسے نوجوانوں نے فاتحانہ گشت کے لیے ایک پک اپ پر لاد کر پورے علاقے میں ایران و فلسطین کے حق میں نعرے لگائے۔ برباد و تباہ حال، لیکن زندہ دل لوگ ہر معاملے میں جشن کا پہلو نکال لیتے ہیں۔

نوٹ: کالم کی املا، لسانی اصلاح اور ابتدائی تحقیق میں ChatGPT (OpenAI) کا معاونتاً استعمال کیا گیا ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 جون 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 27 جون 2025

روزنامہ امت کراچی 27 جون 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 29 جون 2025


 

 ایران کا قطر کے امریکی ڈے پر حملہ

ایران اور اسرائیل جنگ بندی مشکوک نظر آرہی ہے

23 جون کو ایران نے قطر میں قائم امریکی فوجی اڈے "العدید" پر میزائل داغ دیے۔ ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل امیر حاتمی کے مطابق یہ حملہ امریکی بمباری کے جواب میں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا: "ہم نے اتنے ہی میزائل داغے جتنے بم امریکہ نے ہم پر برسائے تھے۔" جنرل حاتمی نے مزید وضاحت کی کہ یہ کارروائی امریکہ کے خلاف تھی، قطر کے عوام سے ہمارے برادرانہ تعلقات قائم ہیں، اسی لیے حملے سے قبل قطر کو پیشگی اطلاع دے دی گئی تھی۔

ابتدائی طور پر قطر کا ردِعمل خاصا سخت تھا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الناصری نے کہا کہ ایران کی کارروائی قطر کی خودمختاری پر حملہ ہے اور ہم اس کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ تاہم بعد ازاں جب قطری افواج نے اعلان کیا کہ ان کا دفاعی نظام تمام میزائلوں کو ناکارہ بنانے میں کامیاب رہا اور کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا، تو وزارت خارجہ نے امید ظاہر کی کہ فریقین بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرلیں گے۔ عسکری ماہرین اس حملے کو علامتی قرار دے رہے ہیں کیونکہ ایران اور قطر قریبی اتحادی ہیں، اور تہران کی جانب سے ایسی کارروائی کی توقع نہیں کی جا سکتی جس سے قطری عوام کو نقصان پہنچے۔

اسی روز عراق میں امریکی فوجی اڈے "کیمپ کوک" پر بھی ڈرون حملہ ہوا۔ بغداد سے شمال میں واقع اس اڈے پر امریکی حکام کے مطابق کوئی نقصان نہیں ہوا۔ حملے کے دوران سعودی عرب، عمان، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اپنی فضائی حدود بند کر دی تھیں تاکہ کسی ممکنہ حملے سے بچا جا سکے۔

ماہرین کے مطابق ایران کا یہ حملہ زیادہ تر علامتی اور بے ضرر تھا۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 8 فیصد کمی دیکھی گئی۔ اگر خطرہ حقیقی ہوتا تو تیل کی قیمتوں میں اضافہ متوقع تھا۔ اسی طرح امریکی اسٹاک مارکیٹ کا ڈاؤ جونز انڈیکس 375 پوائنٹس اوپر گیا اور ایشیائی منڈیوں میں بھی مثبت رجحان دیکھا گیا۔

صدر ٹرمپ نے بھی حملے پر ایک نسبتاً متوازن بیان دیا: "ایران نے متوقع طور پر جوہری تنصیبات کی تباہی کے جواب میں ایک کمزور ردعمل دیا، جس کا مؤثر طریقے سے جواب دیا گیا۔ 14 میزائل داغے گئے، جن میں سے 13 مار گرائے گئے، اور ایک میزائل کو جانے دیا گیا کیونکہ وہ کسی خطرناک مقام کی طرف نہیں جا رہا تھا۔ خوشی ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔"

انہوں نے مزید کہا: "ایران نے پیشگی اطلاع دے کر ایک مثبت قدم اٹھایا، جس سے نقصان کا اندیشہ ٹل گیا۔ شاید ایران اب خطے میں امن و ہم آہنگی کی طرف بڑھنا چاہتا ہے، اور میں اسرائیل کو بھی یہی مشورہ دوں گا۔"

اس بیان کے کچھ ہی دیر بعد صدر ٹرمپ نے ایک اور پیغام میں اعلان کیا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان مکمل جنگ بندی پر اتفاق ہو چکا ہے، جو تقریباً چھ گھنٹے بعد شروع ہو جائے گی اور ابتدائی طور پر 12 گھنٹے جاری رہے گی۔ اس کے بعد اس جنگ کو باضابطہ طور پر ختم سمجھا جائے گا۔

صدر ٹرمپ نے دونوں ممالک کو ان کی استقامت، حوصلے اور فہم پر مبارکباد پیش کی۔ تاہم ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ اسرائیل سے جنگ بندی کا کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا۔ ان کے مطابق: "اگر اسرائیل اپنی جارحیت روک دے تو ایران بھی جوابی کارروائی بند کر دے گا۔"

23 جون کی صبح ایران نے میزائلوں کے چھ شدید حملے کیے، جس کے بعد عراقچی نے ایک بار پھر جنگ بندی کی آمادگی ظاہر کی۔ اسی دوران صدر ٹرمپ نے اعلان کیا: "جنگ بندی نافذ ہو چکی ہے، براہ کرم اس کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔"

منگل 24 جون کی دوپہر اسرائیل نے بھی جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کردی ۔وزیراعظم آفس (PMO) سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ 'ابھرتے شیر' آپریشن نے ایرانی جوہری تنصیبات کی تباہی اور میزایل پروگرام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا ہدف حاصل کرلیا ہے۔ اعلامئے میں متنبہ کیا گیا کہ جنگ بندی کی کسی بھی خلاف ورزی کا تباہ کن جواب دیا جائیگا۔

صدر ٹرمپ امن و شانتی کے منترپڑھتے ہوئےایران کے بارے میں نیک خواہشات کا اظہار کررہے ہیں لیکن انکی تلون مزاجی اور دروغ گوئی کی بنا پرایرانیوں اور فلسطینی کیلئے اعتماد مشکل ہے۔اگرچہ کہ اسرائیل اور ایران کی حالیہ لڑائی کی وجہ تہران کا جوہری پروگرام ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی ایک بڑی وجہ غزہ خونریزی ہے۔ ایران کھل کر غزہ مزاحمت کاروں کی پشت پناہی کررہا ہے جس نے ایران کے خلاف اسرائیل کی نفرت کو مزید بھڑکادیا۔ صدر ٹرمپ جوہری پروگرام اور غزہ نسل کشی دونوں معاملے میں اسرائیل کے حامی ہیں۔ اہل غزہ کو قتل و برباد کرنے کیلئے استعمال ہونے والا ایک ایک بم، میزائیل، گولے اور گولیاں امریکہ کی فراہم کردہ ہیں۔اہل غزہ کی بربادی سے صدر ٹرمپ کا تجارتی مفاد وابستہ ہے وہ غزہ کو پرتعیش Riviera میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جسکے لئے اہل غزہ کی نسل کشی ضروری ہے۔

اسرائیل اور امریکہ و مغرب کو ایران کا نظام حکومت پسند نہیں اور وہ اپنا طریقہ زندگی نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مغرب اسلامی ممالک میں مغربی ثقافت تو چاہتا ہے لیکن اسے ان ملکوں میں جمہوریت پسند نہیں کہ اسکے نتیجے میں ڈاکٹرمورسی، ڈاکٹر مصدق، فلسطین میں اسماعیل ہانیہ، راشدالغنوشی اور الجزائر میں اسلامک فرنٹ حکومت میں آسکتے ہیں۔اسرائیل نے ایران پر حملے کا ایک ہدف Regime Changeقراردیا تھا اور صدر ٹرمپ نے بھی دودن پہلے اپنے MAGAکے وزن پر ایران کیلئے Make Iran Great Againیا MIGA تجویز کیا ہے۔ ان تمام بیانات اور اقدامات کو دیکھتے ہوئے موجودہ جنگ بندی شکوک و شبہات سے خالی نہیں۔

نوٹ: کالم کی املا، لسانی اصلاح اور ابتدائی تحقیق میں ChatGPT (OpenAI) کا معاونتاً استعمال کیا گیا ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 جون 2025


Thursday, June 26, 2025

 

 ایران پر امریکہ  کا حملہ

 قم کے قریب فردو، نطنز اور اصفہان کو نشانہ بنایا گیا

صدر ٹرمپ نے الٹی میٹم ختم ہونے سے پہلے ہی شب خون ماردیا

امن قائم کرو یا سانحہ سہنے کو تیار ہوجاو۔ ایران کو صدر ٹرمپ کی دھمکی

ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں میری انٹیلیجنیس ڈائریکٹر کا تجزیہ غلط ہے۔ صدر ٹرمپ

عراق کے WMDسے ایران کے ایٹم بم تک ۔۔ امریکی جھوٹ کا تسلسل

اسرائیل میں خبروں پر سخت سینسر اور شہریوں کے ملک چھوڑنے پر پابندی

صدر ٹرمپ نے اپنے ناقابلِ اعتبار ہونے کا ایک اور ثبوت دے دیا۔ جمعرات، 19 جون کی صبح صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے قصر مرمریں کی ترجمان محترمہ کیرولائن لیوٹ نے کہا کہ صدر ٹرمپ کے خیال میں بات چیت کے ذریعے ایرانی جوہری تنازعے کا حل ممکن ہے، اس لیے صدر نے ایران میں فوجی مداخلت کے فوری امکان کو مسترد کر دیا ہے اور اس سلسلے میں فیصلہ دو ہفتے بعد کیا جائے گا۔

لیکن صرف دو دن بعد قم کے قریب فردو یورینیم افزودگی پلانٹ، نطنز کے افزودگی کمپلیکس اور اصفہان میں جوہری تحقیقاتی مرکز کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے کی تیاری ایک ہفتے سے جاری تھی۔ ایرانی اور اسرائیلی ماہرین کا خیال ہے کہ قم کے مضافاتی علاقے فردو کا یورینیم افزودگی پلانٹ پہاڑی چٹانوں کے نیچے کئی سو فٹ گہرائی میں ہے اور اس گہرائی تک صرف 30 ہزار پاؤنڈ کے دیوہیکل GBU-57 بنکر بسٹر بم ہی پہنچ سکتے ہیں۔

اپنے پہلے دور اقتدار میں صدر ٹرمپ اس بم سے ملتا جلتا GBU-43/B ننگر ہار، افغانستان پر گرا چکے ہیں، جسے بموں کی ماں یا MOAB کہا جاتا ہے۔ اکیس ہزار 700 پاؤنڈ وزنی اس بم میں 1800 پاؤنڈ بارود بھرا تھا، جبکہ GBU-57 کی دھماکہ خیز قوت 5300 پاؤنڈ ہے۔ یہ بم 200 فٹ موٹی چٹانوں کو چیر کر نیچے پھٹتا ہے۔ ان بھاری بموں کو صرف B2 بمبار ہی لے جا سکتے ہیں۔

حملے سے ایک دن پہلے فاکس نیوز نے اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے خبر دی تھی کہ B2 بمبار امریکی ریاست میزوری کے وہائٹ مین اڈے سے بحرالکاہل میں امریکی کالونی گوام پہنچا دیے گئے ہیں۔ اس سے دو دن پہلے خبر آئی تھی کہ دورانِ پرواز ایندھن بھرنے والے تیس KC-135 ایئر ٹینکر امریکی سے مشرق وسطی بھیجے جا رہے ہیں۔ ساتھ ہی ایران کے ممکنہ جوابی حملے کی پیش بندی کے طور پر قطر کے امریکی اڈے پر موجود تمام طیارے، بحری بیڑوں پر کھڑے کر دیے گئے۔

حملے کی ابتدائی تفصیلات کے مطابق فردو کی یورینیم افزودگی تنصیبات کو چھ GBU-57 بنکر بسٹر بموں سے نشانہ بنایا گیا، جبکہ نطنز اور اصفہان پر 30 ٹاماہاک میزائل سے حملہ ہوا جو امریکی بحری جہازوں سے داغے گئے تھے۔

حملے کے بعد نائب صدر جے ڈی وانس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور وزیر دفاع ہیگ سیتھ کے ہمراہ قوم سے اپنے فاتحانہ خطاب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا کہ آج فردو، نطنز اور اصفہان کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ اس کارروائی کا مقصد ایران کی جوہری افزودگی کی صلاحیت کو ختم کرنا تھا اور یہ ایرانی تنصیبات ختم کر دی گئی ہیں۔ ایران کو اب امن قائم کرنا چاہیے، ورنہ ہمارے نئے حملے بہت شدید ہوں گے۔ ایران کو ردعمل کی صورت میں مزید مہلک حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب امن یا پھر ایران کے لیے سانحہ ہوگا۔فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ ایران کا ردعمل کیا ہوگا، تاہم ایرانی قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ اگر امریکہ نے ایران پر حملہ کیا تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں صدر ٹرمپ نے 2016 سے ایران کے ایٹم بم کا ہوا کھڑا کر رکھا ہے اور وہ مسلسل یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ کسی بھی وقت جوہری بم بنا کر اسرائیل اور علاقے میں امریکہ کے دوسرے اتحادیوں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ تاہم کسی آزاد ذریعے سے جناب ٹرمپ کے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ صرف دو ماہ پہلے، 25 مارچ کو، ان کی ڈائریکٹر انٹیلیجنس شریمتی تلسی گیبارڈ نے امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے سراغرسانی (SSCI) کے روبرو امریکہ اور دنیا بھر کی جمہوریتوں کو حائل خطرات پر رپورٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ:"انٹیلیجنس کمیونٹی کا خیال ہے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنا رہا، اور سپریم لیڈر خامنہ ای نے جوہری ہتھیاروں کے اس پروگرام کی دوبارہ اجازت نہیں دی ہے جسے انہوں نے 2003 میں معطل کر دیا تھا۔"

دوسرے دن موصوفہ نے لفظ بہ لفظ یہی بیان ایوان نمائندگان کی مجلس قائمہ برائے سراغرسانی (HPSCI) کے سامنے دہرایا۔

حملے سے دو روز پہلے جب صدر ٹرمپ کو ایک صحافی نے کہا کہ "انٹیلیجنس کمیونٹی کا خیال ہے کہ ایران جوہری بم نہیں بنا رہا" تو امریکی صدر جھلا کر بولے:"انٹیلیجنس کمیونٹی غلط کہتی ہے۔ ایران کے پاس ہتھیار بنانے کی صلاحیت موجود ہے، چاہے وہ اسے بنا رہا ہو یا نہیں۔"پھر اسی صحافی سے پوچھا کہ انٹیلیجنس کمیونٹی میں کون یہ کہہ رہا ہے؟ جب انھیں بتایا گیا کہ آپ کی انٹیلیجنس ڈائریکٹر تلسی گیبارڈ! تو امریکی صدر فوراً بولے: "گیبارڈ غلط کہتی ہے۔"

شنید ہے کہ صدر ٹرمپ نے برہم ہو کر تلسی گیبارڈ کو قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بلانا چھوڑ دیا ہے۔ تلسی صاحبہ بھی زمانہ و مردم شناس خاتون ہیں، چنانچہ وہ فوراً سجدہ سہو میں گر گئیں اور فرمایا کہ:
"
بددیانت میڈیا نے میرے بیان کو وسیاق و سباق سے ہٹ کر شائع کیا ہے اور یہ کہ ایران ہفتوں یا (زیادہ سے زیادہ) مہینوں میں ایٹم بم بنا سکتا ہے۔"

جھوٹ کی بنیاد پر کسی ملک پر حملہ آور ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ تین مارچ 2003 کو امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور پولینڈ نے یہی کہہ کر عراق پر حملہ کیا کہ صدام حسین نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) بنا رکھے ہیں۔ اس موقع پر فرانس، جرمنی اور نیوزی لینڈ کی سراغرسان اداروں نے دلائل و شواہد کے ساتھ امریکیوں کے اس مفروضے کو غلط ثابت کیا، اور اسی بنا پر یہ ملک حملے میں امریکہ کے ساتھ نہیں گئے۔

اس بات پر امریکی اتنے مشتعل ہوئے کہ کانگریس کیفے ٹیریا کے مینو پر فرنچ فرائی (French Fries) کو فریڈم فرائی سے تبدیل کر دیا گیا۔ کچھ انتہا پسند ارکان کانگریس نے نیو یارک ہاربر پر فرانس کی جانب سے تحفے میں دیے گئے مجسمہ آزادی کو اکھاڑنے کا مطالبہ کیا۔

ٹائمز آف لندن نے 5 مارچ 2003 کو معروف تجزیہ نگار ڈیوڈ کریکنل کا ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا جو انہوں نے دوسرے ماہرین کے علاوہ برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ رابن کوک اور برطانوی سراغرساں ایجنسی M16 کے سابق ڈائریکٹر جان اسکارلیٹ سے تفصیلی گفتگو کے بعد تحریر کیا تھا۔ تمام ماہرین اس بات پر متفق تھے کہ عراق کے پاس WMD نہیں ہے۔

فاضل تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ حملے سے دو ہفتے قبل برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلئیر نے بھی یہ تسلیم کر لیا کہ WMD کی اطلاع غلط ہے، لیکن انہوں نے مبینہ طور پر فرمایا:"حملے کی تیاریاں مکمل ہیں اور عین وقت پر کارروائی روک دینے سے کمزوری کا تاثر ابھرے گا۔"

اس بات کا ذکر خود صدر ٹرمپ نے 2016 کی انتخابی مہم کے دوران کیا۔ اس وقت صدر بش کے بھائی جیب بش ریپبلکن پارٹی کی ٹکٹ کے لیے جناب ٹرمپ کے حریف تھے۔ ایک مباحثے کے دوران جب جیب بش نے اپنے      بھائجان کی تعریف کی تو جواب آیا:"ہاں، وہی جس نے عراق میں WMD کا جھوٹا دعویٰ کرکے ایک ملک کو تباہ کر دیا۔"

چار سال بعد، 2020 کی مہم کے دوران جب سابق وزیر خارجہ انجہائی کولن پاول نے جناب ٹرمپ کو جھوٹا کہا تو موصوف تڑخ کر بولے:"واہ بھئی واہ، جس شخص نے عراقی WMD کے بارے میں سفید جھوٹ بولا وہ مجھے جھوٹا کہہ رہا ہے۔"

امریکی حملے کے ساتھ ایران اور اسرائیل کے ایک دوسرے پر حملے جاری ہیں۔ گزشتہ تین چار دنوں میں ایرانی میزائلوں کے نشانے درست اور مزید مہلک ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ بعض دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ ایران جو فرطِ صوتی یا hypersonic میزائل داغ رہا ہے وہ غیر مرئی (Stealth) ہیں۔

بیس جون کی صبح پھینکا جانے والا میزائل امریکہ کے آئرن ڈوم دفاعی نظام کو چکنا چور کر کے بیر سبع کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ اس سے پہلے خیال تھا کہ ایران ایک ساتھ بڑی تعداد میں میزائل فائر کرتا ہے اور ان سب کو روکنا آئرن ڈوم کے لیے ممکن نہیں اور کچھ میزائل اس سے بچ کر نکل جاتے ہیں۔ لیکن اب اکیلا میزائل آئرن ڈوم کی حفاظتی دیوار روند گیا۔ ایران کے فضائی دفاعی نظام میں بھی بہتری نظر آ رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے ایرانیوں نے اسرائیل کا جدید ترین ہرمس Hermes 900 ڈرون اصفہان میں مار گرایا۔ عبرانی میں خوشاف یا ستارہ کہلانے والا یہ پرندہ 30 ہزار فٹ کی بلندی پر پ300 کلو گرام وزنی بارود اٹھا کر مسلسل 30 گھنٹے پرواز کرسکتا ہے۔

میزائل حملوں سے اسرائیل میں شدید ہیجان اور خوف و ہراس ہے۔ سائرن بجتے ہی پناہ گاہوں کی طرف دوڑتے ہوئے گر کر اور ایک دوسرے سے ٹکرا کر زخمی ہونے والے اسرائیلیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ سیڑھیوں سے گرنے اور پھسلنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی ہڈیاں ٹوٹی ہیں۔ ایرانی میزائلوں سے زیادہ اسرائیلی بدحواسی میں زخمی ہو رہے ہیں۔

اب کچھ پناہ گاہوں میں ضعیف و معذور افراد، پرامید خواتین اور بچوں کے لیے مستقل رہائش کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ پناہ گاہوں میں صفائی کا بحران بھی ہے کہ بیت الخلا کثرت استعمال کی وجہ سے ابل رہے ہیں اور تعفن ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔ فوجی حکام مسلسل ہدایات دے رہے ہیں کہ پناہ گاہوں کی طرف سکون اور اطمینان سے جائیں لیکن جب جان پر بنی ہو تو توازن و احتیاط ذرا مشکل ہے۔ اسی بنا پر 22 جون کو ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا گیا۔

اسرائیلی فوج کی داخلی کمان (Home Command) نے جو احکامات جاری کیے ہیں، اس کے مطابق جلسے، اجتماعات، عوامی تقریبات پر پابندی ہوگی۔ تعلیمی ادارے بند رہیں گے اور صرف ضروری دکانیں کھلی رہیں گی۔

ایرانی میزائل حملوں سے گھبرا کر متمول اسرائیلی ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں لیکن حکومت نے شہریوں کے ملک سے باہر جانے پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر دی ہے۔ دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ اس وقت فضائی سفر محفوظ نہیں۔ بڑی تعداد میں اسرائیلی بحری راستے سے یونانی قبرص اور خلیج عقبہ سے مصر کے پر تعیش مقام شرم الشیخ "ہجرت" کر گئے ہیں۔ زمینی راستے سے بھی کچھ اسرائیلی مصر اور اردن جا رہے ہیں۔

بدھ 18 جون کو اسرائیلی کابینہ نے اس ضمن میں ایک قرارداد منظور کر لی جس کے مطابق حکومت کی سربراہی میں قائم ہونے والی استثنائی کمیٹی کی منظوری کے بعد ہی شہری بیرون ملک سفر کر سکتے ہیں۔ سول سوسائٹی سے وابستہ تنظیم Movement for Quality Government نے کابینہ کے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسرائیلی صحافی سنسرشپ اور نقل و حرکت پر پابندی سے بے حد پریشان ہیں۔ غزہ کے بعد اب سارا اسرائیل صحافیوں کے لیے no go area بن گیا ہے اور صحافیوں کو "مٹر گشتئ" کی اجازت نہیں۔ فوج کا محکمہ اطلاعات ہر چار گھنٹے بعد پریس نوٹ جاری کرتا ہے جو اب خبر کا واحد ذریعہ ہے۔ اس کے مقابلے میں ایران نے غیر ملکی صحافیوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔

سی این این کے نمائندے فریڈ پلیٹگن نے تہران میں قومی ٹیلی ویژن کی اس جلی ہوئی عمارت کے اندر سے رپورٹنگ کی جو اسرائیلی حملے میں تباہ ہو چکی ہے۔ جمعہ کو ایرانیوں کے مظاہرے کی روداد بھی امریکی صحافیوں نے براہ راست سنائی، جس میں ایک شخص نے مکا لہراتے ہوئے کہا:"امریکہ اور اسرائیل ہمیں موت سے ڈراتے ہیں۔ شہادت ہمارے لیے شہد سے میٹھی ہے۔"

حملے کے بعد ایرانی مجلس (پارلیمان) نے آبنائے ہرمز (Strait of Hormuz) بند کرنے کی قرارداد منظور کر لی۔ ملک کی قومی سلامتی کونسل سے توثیق کے بعد اسے حتمی منظوری کے لیے رہبرِ ایران حضرت آئت اللہ علی خامنہ ای کو پیش کیا جائے گا۔

ایک سو ساٹھ کلومیٹر طویل آبنائے ہرمز خلیج فارس کو خلیج عمان سے ملاتی ہے یعنی یہ خلیج فارس کو کھلے سمندر سے ملانے کا واحد آبی راستہ ہے۔ کویت، بحرین اور قطر کی سمندر تک رسائی کا یہ واحد راستہ ہے۔ دنیا کا ایک تہائی تیل اسی راستے سے گزرتا ہے۔

سعودی عرب بحری آمد و رفت کے لیے بحیرہ احمر استعمال کر سکتا ہے لیکن اس کے تیل و گیس کے تمام بڑے میدان خلیج یا اس کے ساحل پر ہیں، اس لیے تیل کی نقل و حمل آبنائے ہرمز سے ہی ہوتی ہے۔ سعودی عرب East West پائپ لائن کے ذریعے خلیج کے کنارے ابقیق سے خام تیل بحیرہ احمر کی بندرگاہ ینبوع کے راستے بھیج سکتا ہے لیکن اس راستے میں آبنائے باب المندب کا پلِ صراط حائل ہے جس پر حوثی نشانچی بیٹھے ہیں۔ امریکہ اس آبنائے پر ایران کی بالادستی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرے گا۔آبنائے ہرمز کا جنوبی ساحل متحدہ عرب امارات اور عمانی علاقہ مسندم سے ملتا ہے جہاں عسکری حلقوں کے خیال میں امریکہ نے ایک فوجی اڈا قائم کر رکھا ہے۔

نوٹ: کالم کی املا، لسانی اصلاح اور ابتدائی تحقیق میں ChatGPT (OpenAI) کا معاونتاً استعمال کیا گیا ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 27 جون 2024

ہفت روزہ دعوت دہلی 27 جون 2


024

روزنامہ امت کراچی 27 جون 2024

ہفت روزہ رہبر سرینگر 27 جون 2027



Thursday, June 19, 2025

 

امریکہ نے نیتن  یاہو کی کشتیِ اقتدار ڈوبنے سے بچالی

غزہ میں تقسیم امداد کے کیمپوں پر فائرنگ اور بمباری

ابو شہاب مافیا اور مزاحمت کاروں میں تصادم

اسرائیلی فوج کو افرادی قلت کا سامنا،  عرب و دروز دہشت گرد میدان میں اتار دئے گئے

امریکہ کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں میں اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے

قافلہ صمود کی آڑ میں اخوانی مصر پر چڑھائی کررہے ہیں۔ جنرل السیسی کا واویلہ

غزہ کی پہلی خاتون ماہی گیر کا ذکر اور گرٹیا تھورنبرگ کا امریکی صدر سے مکالمہ

امریکہ کی کوششوں بلکہ دباو سے نیتن یاہو اپنی کرسی بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسرائیل میں امریکہ کے سفیر مائک ہکابی نے حریدی رہنماوں سے مسلسل گفتگو کرکے انھیں حکومتی اتحاد کا حصہ بنا رہنے پر آمادہ کرلیا۔ اور رائے شماری کے دوران کنیسہ (پارلیمان)تحلیل کرنے کی قرارداد 53 کے مقابلے میں 61 ووٹوں سے مستردکردی گئی۔ مزے کی بات کہ رائے شماری سے ایک دن پہلے حزب اختلاف کے ہمراہ صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے متحدہ توریتِ یہود  (UTJ) اور پاسبان توریت یا Shasنے قرارداد برائے تحلیلِ پارلیمان کی حمائت کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ بہادر نیتن یاہو کی حکومت تو بچا گئے لیکن وعدہ خلافی کی وجہ سے حریدی اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔اتحاد سے وابستہ جماعت، اسرائیل یونین (Agudath Yisrael)کے سربراہ اور وزیرہاوسنگ اسحاق گولڈنوف کابینہ سے مستعفی ہوگئے۔ تحریک کی ناکامی کے دوسرے ہی دن اسرائیل نے ایران پر حملہ کردیا۔ اسرائیلی علمائے سیاست کا خیال ہے کہ اگر پارلیمان تحلیل ہوجاتی تب بھی نگران وزیراعظم تو نیتن یاہو ہی رہتے لیکن سیاسی اعتبار سے سے لاچار وزیراعظم خونریزی کا نیا کھیل شروع نہ کرسکتے تھے۔

غزہ میں امدادی سامان کے کیمپوں پر موت کی تقسیم کا مکروہ عمل جاری رہا اور قطار بنائے لوگوں پر فائرنگ سے سینکڑوں نوجوان اپنی جانوں سے گئے۔ ہفتہ 14 جون کو خان یونس سے امداد لیکر جانیوالے لوگوں پر بمباری بھی کی گئی جس سے 40 افراد جاں بحق اور سینکڑون زخمی ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے اپنے اس وحشیانہ قدم کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ جس راستے سے واپس جارہے تھے وہ پہلے سے اعلان شدہ جنگی علاقہ ہے۔ بمباری سے غزہ کے تمام ہسپتال زمیں بوس ہوچکے اور اب غیر ملکی غیرسرکاری تنظیموں یا NGOsکے مراکز اسرائیلی فوج کے نشانے پر ہیں۔ بارہ جون کو دیرالبلاح میں فرانسیسی  تنظیم Doctors Without Borders پر میزائیل حملہ کیا گیا جس میں چار بچوں سمیت، آٹھ افراد جاں بحق ہوگئے۔تنطیم کا کہنا ہے کہ اس عمارت پر واضح نشانات موجود تھے اور اسرائیلی فوج کو بھی مطلع کیا جاچکا تھا کہ یہاں صرف زخمی بچے اور انکے لواحقین کو آنے کی اجازت ہے۔

اسرائیل نے جرائم پیشہ ابو شہاب کی قیادت میں غنڈوں کا جو جتھہ بنایا ہے، اسکی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں اور مزاحمت کاروں کو گھات لگاکر نشانہ بنانے کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ صحافتی حلقوں کا خیال ہے کہ اسرائیلی فوج کےدروز چھاپہ مار ابوشہاب مافیا کیساتھ مل کر مزاحمت کاروں پر حملے کررہے ہیں بلکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مقتدرہ فلسطین (PA)نے بھی اپنے جنگجو اس کام کیلئے غزہ بھیج دئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے مزاحمت کاروں کی کاروائی میں ابوشہاب جتھے کہ 12 دہشت گرد مارے گئے۔

غزہ میں خانہ جنگی اور مزاحمت کاروں کی پشت میں چھرا گھونپنے کیلئے دہشت گرد تنظیم منظم کرنے کی ایک بڑی وجہ فوج میں افرادی قوت کی کمی ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیل کو فوری طور پر 7000 نئے لڑاکا سپاہیوں کی ضرورت ہے لیکن انکے بھرتی مراکز پر الو بول رہے ہیں۔ حریدی قیادت نے اپنے 'لڑکوں' کو بھرتی دفاتر کے قریب بھی جانے سے منع کردیا ہے اور غیر حریدی کہہ رہے ہیں اگر مدارس کے طلبہ کو غیر اعلانیہ استثنیٰ ملا ہوا ہے تو ہماری جان بھی فالتو نہیں۔غزہ سے آنے والے بیساکھیوں پر گھسٹتے اور رہنما کتے یا سفید چھڑی لئے راستے ٹٹولتے جوانانِ رعنا کو دیکھ عام لڑکے خوفزدہ ہوگئے ہیں لہٰذا فوج کیلئے کرائے کے دہشت گرد بھرتی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

بحری راستے سے غزہ پہنچنے میں ناکامی کے بعد تیونس سے روانہ ہونے والے قافلہ صمود میں شمولیت کیلئے دنیا بھر سے لوگ قاہرہ کیلئے عازم سفر ہیں لیکن مصری حکومت اسکی حوصلہ شکنی کررہی ہے۔ سرکاری ذرایع ابلاغ قافلہ صمود کو شمالی افریقہ کے اخوانیوں کا مصر پر دھاوا قرار دے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ مراکش سے سینکڑوں افراد پرواز کے ذریعے قاہرہ پہنچے جنھیں فوراً واپس مراکش بھیج دیا گیا۔ فرانس، ہالینڈ اور میکسیکو سے بھی انسانی حقوق کے کارکن قاہرہ پہنچے ہیں۔ اب تک انھیں صحرائے سینائی کو غزہ سے ملانے والے ر فح پھاٹک تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ قاہرہ کی خواہش ہے کہ یہیں ائرپورٹ کے باہر غزہ سے یکجہتی کا علامتی مظاہرہ کرکے یہ لوگ اپنے ملک واپس چلے جائیں۔

گزشتہ نشست میں ہم نے امریکی مرکزِ دانش Pew Researchکی جانب سے دنیا کے 24 ملکوں کے ایک جائزے کا ذکر کیا تھا جسکے مطابق دنیا میں اسرائیل کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔ اب 12 جون کو شایع ہونے والی امریکہ کی دونوں بڑی جماعتوں کے بارے میں ایک رپورٹ جو جامعہ کونی پیّاک (Quinnipiac)نے جاری کی ہے۔ 1929 میں قائم ہونے والی ریاست کینٹی کٹ کی یہ نجی دانشگاہ جو پہلے کنیٹی کٹ کالج کہلاتی تھی، رائے عامہ کا جائزہ لینے میں مہارت رکھتی ہے۔ جامعہ کے حالیہ جائزے کے مطابق ریپبلکن پارٹی کے 64 فیصد حامی اسرائیل کے طرفدار ہیں اور سات فیصد فلسطینیوں کے ہمدرد۔ ایک برس پہلے 78 فیصد ریپبلکن، اسرائیل کے حامی تھے۔ دوسری جانب ڈیموکریٹک پارٹی کے 12 فیصد ووٹر اسرائیل اور 60 فیصد فلسطینیوں کے حامی ہیں۔ مئی 2024 میں 30 فیصد ڈیموکریٹس، اسرائیل کے حامی تھے۔

امریکی جامعات کیساتھ عدالتی سطح پر غزہ نسل کشی کے خلاف مزاحمت جاری ہے۔ کئی ماہ سے قید جامعہ کولمبیا کے طالب علم رہنما محمود خلیل کی درخواست ضمانت ایک بار پھر مسترد کردی گئی۔ وفاقی جج Michael Farbiarzنے محمود کی درخواست ضمانت پر اپنے فیصلے میں لکھا کہ 'خلیل کے وکلا یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ انکے موکل کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔ مسٹر محمود ایمیگریشن جج کی عدالت میں درخواست ضمانت دائر کریں'۔ انھیں جج صاحب نے سماعت کے دوران تبصرہ کیا تھا کہ 'بادی النظر میں محمود خلیل کی گرفتاری نامناسب لگتی ہے'۔ دلچسپ بات کہ محمود خلیل اور دوسرے بہت سے طالب علموں پر بنیادی الزام کیمپس پر خیمہ زنی ہے۔ امریکی جامعات سے تو احتجاجی کیمپ اکھڑوادئے گئے لیکن اب پیرس میں کئی جگہ خیمہ بستیاں آباد ہوگئی ہیں۔

اور آخر میں غزہ کی ایک حوصلہ مند خاتون کا ذکرکہ جنکا نام فریڈم Flotilla کے حوالے سے ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کا استعارہ بن گیا۔ غزہ کی طرف جانے والی کشتی کو مدلین کا نام دیا گیاتھا۔اکتیس سالہ مدلين کُلاب غزہ کی پہلی مچھیرنی  (fisherwoman)ہیں۔ غزہ کے ساحل پر ماہی گیری آسان نہیں کہ وہاں اسرائیلی بحریہ کی کشتیاں عاملینِ بحر کو ہراساں کرتی رہتی ہیں۔ کئی بار تلاشی کے نام پر ماہی گیروں سے بدتمیزی اور تشدد عام ہے۔ یہ لٹیرے دن بھر پکڑی جانیوالی مچھلیاں بھی چھین لیتے ہیں۔

مدلین نے پانچ سال کی عمر میں اپنے والد کیساتھ ماہی گیری شروع کی۔ جب میدلین 13 سال کی تھیں تو انکے والد شدید بیمار بلکہ معذود ہوگئے۔ چنانچہ مدلین نے ماہی گیری کی ذمہ داری سنبھال لی۔ میدلین کی جرات غزہ کے مچھیروں میں مثال بنی ہوئی ہے۔ وہ اسرائیلی بحریہ کی مداخلت کا 'مرادنہ وار' مقابلہ کرتی ہیں۔غزہ پر بمباری کے دوران میدلین کی کشتیاں تباہ ہوگئیں، جال جل گئے لیکن انھیں اسکا کوئی غم نہیں۔ 'کہتی ہیں میرا صرف اثاثہ تلف ہوا، میری بہنوں کے تو سہاگ اجڑ گئے اور گود ویران ہوگئی۔ آزادی بڑی قیمتی شئے ہے جسکی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی اور ہم اسکے لئے تیار ہیں'۔میدلین چار بچوں کی ماں ہیں جبکہ ایک نئے مہمان کی آمد آمد ہے۔ میدلین کی جرات سے متاثر ہوکر غزہ جانے والی کشتی کا نام میدلین رکھا گیا۔

اسی حوالے سے ایک اور فولادی لڑکی کا صدر ٹرمپ سے الیکٹرانک مکالمہ بھی قارئین کو دلچسپ محسوس ہوگا۔ قافلہ آزادی یا Flotilla کی قائد پر طنز کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا “ گریٹا تھورنبرگ جیسی "عجیب و غرب" اور مغلوب الغضب' لڑکی کو Anger management کے نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے'۔ جواب میں گریٹا نے امریکی صدر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا' ہاں میں شدید غصے میں تھی اور ہوں، لیکن مجھے علاج کی نہیں بلکہ دنیا کو (غزہ نسل کشی پر) مجھ جیسی مزید غصہ کرنے والی لڑکیوں کی ضرورت ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 20 جون 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 20 جون 2025

روزنامہ امت کراچی 20 جون 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 22 جون 2025


 

ایران پر اسرائیل کا حملہ

 صدر ٹرمپ کا دوغلا کردار یا اصل چہرہ؟؟

جاسوسوں نے ایران کی پشت لہولہان کردی، عسکری و سائنسی قیادت کا خاتمہ

ایرانی میزائیلوں نے اسرائیل کے بہت سے علاقوں کو غزہ بنادیا

اسرائیل کی سب سے بڑی تیل ریفاینری اور تحقیقاتی دانشگاہ تباہ

شہری، تہران فوراً خالی کردیں۔ صدر ٹرمپ کی وارننگ

اسرائیل نے 13 جون کو صبح تین بجے ایران پر حملہ کردیا۔تل ابیب سے جاری ہونے والے فوجی اعلامئے کے مطابق 200 طیاروں نے  ایران کے طول و عرض میں 100 سے زیادہ مقامات کو نشانہ بنایا جن میں دارالحکومت تہران، اصفہان، شیراز، مشرقی آذربائجان اور نطنز شامل ہیں۔ نظنز میں مبینہ طور پر یورینیم افزودہ کرنے کی زیرزمین تنصیبات ہیں اسلئے وہاں بنکر بسڑ بم استعمال کئے گئے۔ شیراز بھی خاص نشانہ بنا کہ وہاں میزائیل بنانے کے کارخانے ہیں۔ حملے میں پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (IRGS)کے سربراہ میجر جنرل حسین سلام، فوج کے چیف آف اسٹاف جنرل محمد باقری، قائد خاتم الانبیا ؐکمانڈ (جوائنٹ چیف آف اسٹاف) جنرل غلام علی رشید، رہبرِ ایران حضرت آئت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر سلامتی علی شمخانی، سینئر جوہری سائنسدان محمد مہدی طہرانچی، فریدون عباسی اور درجنوں  دوسرے ماہرین جاں بحق ہوگئے۔

مغربی دنیا کو مسلم ممالک کی جوہری صلاحیتوں پر ہمیشہ 'تشویش' رہی ہے چنانچہ 7 جون 1981 کو اسرائیل نے عراق کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا، جسے آپریشن بیبلیون  (Babylon) کا نام دیا گیا۔ اسرائیل کے 15 طیارے اردن اور سعودی عرب کی فضائی حدود سے گرز کر عراق پہنچے اور صرف چند منٹوں میں ری ایکٹر مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔

پاکستان کے مسلم بم کا بھی بہت شور تھا لیکن اسی دوران 11 مئی 1998کو ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کردئے اور دنیا بھر کے دباو کو نظر انداز کرتے ہوئے  28 مئی کو چھ کامیاب تجربات کرکے پاکستان جوہری ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا۔اسکے بعد قوم نے پابندیوں کاعذاب سہا لیکن یہ آزادی و خودمختاری کی بہت معمولی قیمت تھی۔

اسی دوران لیبیاکے مسلم بم کاواویلہ بلند ہوا۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے لیبیا پر اتنی سخت پابندیاں عائد کیں کہ 19 دسمبر 2003 کو کرنل معمر قذافی پابندیاں ہٹانے کے عوض تمام جوہری، کیمیاوی اور حیاتیاتی ہتھیارختم کر نے پر آمادہ ہوگئے۔ جسکے بعد لیبیا نے یورینیم افزودگی کا سامان، سینٹری فیوجز حتیٰ کہ  جوہری ہتھیاروں کے ڈیزائن بھی امریکا کے حوالے کر دیے۔ یہیں سے ڈاکٹر عبدلقدیر خان کے خلاف پروپیگنڈے کا آغاز ہوا۔امریکی CIAاور برطانیہ کی M16 نے الزام لگایا کہ نام نہاد قدیر نیٹ ورک نے ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو یورینیم افزودگی کی ٹیکنالوجی اور جوہری ہتھیاروں کے ڈیزائن فراہم کیے تھے۔اس بے بنیاد الزام کی بنیاد پر  پرویزمشرف نے ڈاکٹر صاحب کو ٹیلی ویژن پر ڈانٹا اور توہین کی۔

جہاں تک ایران کے جوہری پروگرام کا تعلق ہے تو اسکا آغاز 1950میں Atoms for Peaceکے نام سےامریکہ ایران مشترکہ منصوبے کے طور پر ہوا، لیکن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد جب امریکہ ایران دوستی بدترین دشمنی میں تبدیل ہوگئی تو جوہری تعاون ختم کردیا گیا۔اس صدی کے آغاز پر ایران کے اسلامی بم کی بات شروع ہوئی اور 2003 میں جوہری توانائی کے عالمی ادارے IAEA نے انکشاف کیا کہ ایران، یورینیم کو جوہری ہتھیار بنانے کے معیار پر افزودہ کرریا ہے۔ تہران نے اسکی سختی سے تردید کی لیکن 2006 میں اس پر سخت پابندیاں عائد کردی گئیں۔ ستم ظریفی کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی روس اور چین نے ان انسانیت سوز پابندیوں کی قرارداد کو ویٹو نہیں کیا۔

پابندیوں سے پریشان ہوکر ایران مذکرات پر راضی ہوا اور 2013 میں بات چیت کے آغاز سے  پہلےرہبرِ ایران حضرت آئت اللہ علی خامنہ ای نے فتویٰ جاری کیا کہ بڑے پیمانے پرانسانوں کوہلاک کرنے والے ہتھیار بنانا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے لہذا ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار نہیں بنائیگا۔ ان مذکرات میں سلامتی کونسل کے پانچوں ارکان کے ساتھ جرمنی بھی شامل تھا اسی لئے یہ  P5+1مذاکرات کے نام سے مشہور ہوا۔ دوسال کی بات چیت اور مول تول کے بعد اپریل 2015کو  Joint Comprehensive Plan of Action یا JCPOA کے عنوان سے معاہدہ طئے پاگیا جسے فارسی میں برجام کہتے ہیں۔فریق ممالک کی پارلیمان سے توثیق کے بعد یہ معاہدہ 16 جنوری 2016سے نافذ العمل ہوگیا۔ معاہدے کے مطابق ہر چھ ماہ بعد IAEAنے ایرانی تنصیبات کا تفصیلی معائنہ کیا اور ہر بار انسپیکٹروں نے رپورٹ دی کہ ایران JCPOAپر اسکی الفاظ اور روح کے مطابق عمل کررہاہے۔ معائینہ کنندگان میں امریکی ماہرین بھی شامل تھے۔اسرائیل کو یہ معاہدہ پسند نہیں تھا اور اس معاملے پر اپنے تحفظات بلکہ ناراضگی کا اظہار کرنے نیتن یاہو بنفس نفیس واشنگٹن آئے لیکن صدر اوباما کا کہنا تھا کہ جس معاہدے کی کانگریس کے دونوں ایوانوں نے توثیق کی ہو اسکی پاسداری میرا آئینی فرض ہے۔

اپنی 2016 کی انتخابی مہم کے دوران ڈانلڈ ٹرمپ نے JCPOAپر سخت تنقید کرتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ انتخاب جیت کئے تو  معاہدہ ختم کردیا جائیگا اور 8 مئی 2018کو صدر ٹرمپ کے ایک حکم پر امریکہ اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہوگیا۔اسی کیساتھ ایران پر سخت پابندیاں عائد کردیں گئیں۔ دلچسپ بات کہ صڈر ٹرمپ کے فیصلے سے دوماہ پہلے ہی انسپیکٹروں نے تنصیبات کے تفصیلی جائزے کے بعد all okکی رپورٹ دی تھی۔ اصولی طور پر دیکھا جائے تو امریکی صدر وعدہ خلافی اور معاہدہ شکنی کے مرتکب ہوئے تھے لیکن باقی پانچ دستخط کنندگان صدر ٹرمپ کے فیصلے پر تشویش اور افسوس سے آگے نہ بڑھے۔ امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے باوجود ایران معاہدے کی شرائط پوری کرتا رہا۔

اس سال 20 جنوری کو حلف اٹھاتے ہی انھوں نے ایران پر جوہری پروگرام ختم کرنے  کیلئے دباو ڈالنا شروع کیا اور خود کو امن پسند ثابت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ بات چیت کے کئی دور چلے۔امریکہ کا اصرار تھا کہ ایران جوہری پروگرام بالکل ختم کردے جبکہ ایران نے موقف اختیار کیا کہ پرامن مقاصد کیلئے جوہری توانائی کا حصول اسکا حق ہے چنانچہ یورینیم افزودگی کی زیادہ سے زیادہ حد مقررکردی جائے۔ دوسری طرف نیتن یاہو ایرانی تنصیبات پر حملے کیلئے بیتاب تھے کہ وہ اسکے لئے دوسال سے تیاری کررہے تھے۔میڈیا کے سامنے صدر ٹرمپ بار بار یہی کہتے کہ معاملہ بات چیت سے حل ہوجائیگا اور میں نیتن یاہو پر زور دے رہا ہوں کہ جنگ و جدل مسئلے کا حل نہیں۔

دس جون کو یہ خبر آئی کہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں اپنے سفارتخانوں سے ٖغیر ضروری عملے کو ملک واپس بلالیا ہے  جبکہ مقامی ملازمین سے کہا گیا ہے کہ وہ رخصت پر چلے جائیں۔ ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں مقیم امریکی شہریوں کو احتیاط کی ہدائت کردی گئی۔ اب یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ اسرائیل ایران ہر حملے کیلئے پرعزم ہے۔اگرچہ کہ امریکی وزارت خارجہ یہ تاثر دے رہی تھی کہ ایران پر حملے کے اسرائیلی فیصلے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن نیتن یاہو نے یہ سب کچھ صدر ٹرمپ کی آشیرواد سے کیا۔

آخر کار 13 جون کو بدترین بمباری سے حملے کا آغاز ہوا اور پہلے ہی ہلے میں ایران کی عسکری اور جوہری پروگرام کی تیکنیکی قیادت راستے سے ہٹادی گئی۔  ابھرتے شیر یا Rising Lionنامی آپریشن کی ابتدائی کامیابی میں اسرائیل کی عسکری صلاحیتوں سے زیادہ انکی جاسوسی اور شاطرانہ سراغرسانی کا بڑا ہاتھ ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے  سراغرساں اداروں کے حوالے سے جو تفصیلات فراہم کی ہیں اسکے مطابق

  • اسرائیل کا ادارہِ سراغرسانی،  موساد تقریباً ایک سال سے معلومات جمع کررہا تھا اور اس مقصد کیلئے سینکڑوں ایرانی جاسوس بھرتی کئے گئے جنھوں نے سارے ملک میں اہم تنصیبات کے بہت قریب رہائش اختیار کی۔ ایرانی فوج و پاسداران کے کلیدی اہلکاوں اور جوہری سائنسدانوں کی نقل و حرکت کی روزانہ کی بنیاد پر نقل و حرکت کا ریکاڑد تیار کیاگیا۔
  • ان ایجنٹوں کیلئےخصوصی ہتھیاراسرائیل سے ایران اسمگل کئے گئے جن میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے امریکی ساختہ SAMمیزائیل اور مہلک دستی بم شامل ہیں۔ایجنٹوں کو فراہم کئے جانیوالے سام میزائیل میں ترمیم کرکے انکا سائز اتنا چھوٹا کردیا گیا تھا کہ انھیں گاڑی کی سیٹ کے نیچے ذخیرہ کیا جاسکے۔

·         امریکی اسلحہ ساز کمپنی Dyneticsکے  GPSنطام سے آراستہ  Small Glide Munition (SGM) میزائیل بھی فراہم کئے گئے۔ ساڑھے چار انچ قطر کے ساڑھے تین فٹ لمبے SGMمیں اعلیٰ معیار کا بارود پھرا ہوتا ہے جو گاڑیوں سے داغے جاسکتے ہیں۔

  • مقامی ریڈار میں خلل ڈالنے کیلئے  Jamming Devicesبھی اسرائیل سے ایران لائے گئے۔
  • موساد کے انکشاف کا سب سے سنسنی خیز پہلو یہ ہے کہ کئی شہروں میں خود کش ڈرون کے خفیہ اڈے بھی بنے۔

حملے سے کچھ پہلے سام میزائیل، اہم تنصیبات کے قریب کھلے علاقوں میں نصب کردئے گئے، جسکا مقصد  ایرانی طیارہ شکن میزائیلوں کو نشانہ بنانا تھا۔کاروائی کے آغازپر جیسے ہی اسرائیلی طیاروں نے بمباری شروع کی، سام میزائیلوں نے ایران کے دفاعی نظام کو غیر موثر کردیا اور انتہائی درستگی کیساتھ SMGاہداف پر داغ دئے گئے۔ ساتھ ہی فوجی اڈوں اور دفاعی تنصیبات کو ڈرون سے نشانہ بنایا گیا۔یعنی آسمان سے آتش و آہن کی بارش کو تنصیبات کے قریب سے برسنے والے میزائیلوں اور ڈرون کی ضرب نے دوآتشہ کردیا۔ چند ہفتہ پہلے اس سے ملتی جلتی حکمت عملی یوکرین نے روس پر ضربِ کاری کیلئے اختیار کی تھی۔ اتوار 15 جون کو بھی اسرائیلی جاسوسوں نے اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور تہران کے پانچ کار بم دھماکوں میں ایک درجن کے قریب جوہری سائنسدان، ماہرین کیمیا، ارضیات، طبیعات و ریاضی جان بحق ہوگئے۔اسرائیل نے اسی انداز میں عراقی سائنسدانوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔

یہ تفصیلات موساد نے جاری کی ہیں اور اس شیخی میں  'بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ داستاں کیلئے' کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن اسرائیل نے جس درستگی سے فوجی قیادت اور سائینسدانوں کا نشانہ بنایا ہے وہ صرف بمباری سے ممکن نہیں۔ اگر موساد کی جاریکردہ کہانی میں ذرہ برابر بھی حقیقت ہے تو اس سے ایرانی وزارت داخلہ اور محکمہ سراغرسانی کی صلاحیتوں پر سوالات اٹھتے ہیں۔ مہلک ہتھیار اور ڈرون اسمگل کر کے ایران لائے گئے اور انھیں انتہائی حساس تنصیبات کے قریب ذخیرہ کیا گیا۔ ڈرون کے اڈے بنے،  کاروائی سے ایک دن پہلے سام میزائیل نصب کئے گئے اور موساد کے آپریشن کی ایرانیوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ کیا یہاں بھی جعفر از بنگال، صادق یا دکن کی تاریخ دہرائی گئی ہے؟

پشت میں لگنے والی اس ضرب کاری کے باوجود ایران نے دوسرے دن ڈرون اور میزائیل حملوں سے جوابِ آں غزل کا اغاز کیااور اسرائیل کے طول و عرض کو بہت مہارت سے نشانہ بنایا۔ایرانیوں نے اتنی بڑی تعداد میں میزائیل ایک ساتھ داغے کہ امریکہ کا جدید ترین دفاعی نظام مفلوج ہوگیا اور مہلک سلیمان میزائیلوں نے  تیر (Arrow)،غلیلِ داودؑ (David Sling)،آہنی گنبد (Iron Dome)اورآہنی شہتیر (Iron Beam)کی چار پرتوں کو چیر کر تل ابیب سے حیفہ تک اسرائیل کے کئی شہروں کو آگ کی گیند میں تبدیل کردیا۔ اسرائیلی فوج کے ہیڈکوارٹر، حیٖفہ میں تیل کی سب سے بڑی ریفاینری، حیفہ بندرگاہ کی کئی گودیوں اور تل ابیب کے قریب مایہ ناز تحقیقاتی مرکزWeizmann Institute of Science کو آگ لگ گئی۔ سائنسی علوم پر تحقیقات کا یہ موقر ادارہ جامعہ ریہووٹ Rehovotکا حصہ ہے۔اسکے علاوہ دارالحکومت، اسکے مضافاتی فیشن ایبل علاقے ریشون لی زائن (Rishon Lezion)اور ساحلی شہر بیت یام کا بڑا علاقہ ملبے کا ڈھیر بن گیا۔

اس معاملے پر ٹرمپ انتظامیہ کے متضاد بیانات سے امریکی صدر کا دوغلا کردار آشکار ہوا۔ حملے کے فوراً بعد وزیرخارجہ مارکو روبیو نے دوٹوک انداز میں کہا کہ حملے کا فیصلہ اسرائیل نے خود کیا ہے اورہمارا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں لیکن جمعہ کی شام سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکہ کے نمائندے  نے کہا 'اسرائیل نے ایران پر حملے سے قبل امریکہ کو مطلع کردیا تھا'۔موصوف نےمزید فرمایا کہ ہر خودمختار ملک کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اور اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرکے اپنے اس حق کا دفاع کیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس کاروائی پر خوشی کا اظیار کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے اپنے نجی پلیٹ فارم پر  کہا'میرے خیال میں یہ شاندار کاروائی تھی۔ہم نے انہیں (ایران) ایک موقع دیا لیکن انھوں نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔انہیں سخت مار پڑی، بہت ہی سخت۔ اس سے سخت مار ممکن نہ تھی۔ ابھی تو اور بہت کچھ آنے والا ہے۔

مغربی ممالک کے روئے اور طرزعمل میں بھی تضادات نمایاں رہے۔ ایک طرف فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے ایران کو مذاکرات کی پیشکش کی تو دوسری جانب 16 جون کو کینیڈا کے  G-7سربراہی اجلاس کے افتتاحی بیان میں کہا گیا کہ 'اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اورایران کو جوہری ہتھیار نہیں بنانے دیا جائیگا'۔اجلاس کے دوران اٹلی اور فرانس کی تجویز پرایک قرارداد کا متن تیار ہوا جس میں اسرائیل اور ایران پر زور دیا گیا کہ وہ کشیدگی ختم کرکے مذکرات کی راہ ہموار کریں لیکن صدر ٹرمپ نے مسودے پر دستخط سے انکار کردیا۔ صدر ٹرمپ G-7سربراہ کانفرنس ادھوری چھوڑ کر 16 جون کی شب وطن واپس پہنچ گئے جہاں انھوں نے اپنی سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا۔دوسری جانب بحیرہ جنوبی چین میں تعینات طیارہ بردار جہاز USS Nimitz  مشرق وسطیٰ روانہ ہوچکا ہے۔ امریکی صدر نے اہل تہران سے کہا کہ وہ فوری طور پر شہر خالی کردیں۔اس سے پہلے امریکی صدر نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا تھا کہ ایران(جوہری) معاہدے پر  فوراً دستخط کردے اسلئے کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں رکھ سکتا۔

صدر ٹرمپ نے اپنا متنوع اور متضاد رویہ برقرار رکھتے ہوئے وطن واپسی کیلئے جہاز پر سوار ہونے سے پہلے G-7 کے اُس مشترکہ بیان پر دستخط کردئے جس سے انھوں نے صبح اختلاف کیا تھا۔بیان میں سات بڑی معیشتوں کے سربراہوں نے کہا کہ'ہم ایرانی بحران کے پرامن حل پر زور دیتے ہیں تاکہ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کم اور غزہ میں جنگ بند ہو'۔ اسی کیساتھ جناب ٹرمپ نے  نائب صدر وانس اور اپنے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف کو ہدائت کی کہ کشیدگی کم کرنے کیلئے ایران سے بات چیت شروع کی جائے۔ امریکی آن لائن خبر رساں ایجنسی Axiosکے مطابق اسٹیو وٹکاف اور ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی کے درمیان ملاقات ایک دودن میں متوقع ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 20 جون 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 20 جون 2025

روزنامہ امت کراچی 20 جون 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 22 جون 2025