غزہ میں عارضی امن یا نئی پیش بندی؟
ٹرمپ منصوبہ، نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی، اور
مزاحمتی مؤقف
آٹھ اکتوبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا
کہ اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے ان کے امن منصوبے کے پہلے مرحلے کی
منظوری دے دی ہے۔امریکی صدر کے مطابق اس مرحلے میں تمام قیدیوں کی رہائی عمل میں
آئے گی اور اسرائیلی افواج ایک طے شدہ حد تک پیچھے ہٹیں گی۔ان کے بقول، یہ “مضبوط،
پائیدار اور دائمی امن” کی جانب پہلا قدم ہے۔
اسی
گفتگو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ تمام فریقوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے گا۔اس
جملے سے یہ تاثر ابھرا کہ ممکنہ طور پر مزاحمت کاروں کے ہتھیار رکھنے یا آئندہ
سیاسی عمل سے الگ رہنے کی شرط کو نرم یا خارج کر دیا گیا ہے،جو مبصرین کے نزدیک
فلسطینی فریق کے لیے اطمینان بخش اشارہ ہے۔تاہم تھوڑی ہی دیر بعد اسرائیلی
وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنے روایتی متکبرانہ لہجے میں کہا کہ اگر فلسطینی
تنظیم غیر مسلح نہ ہوئی تو اسرائیل دوبارہ کارروائی کرے گا۔
مزاحمتی تنظیموں کا مؤقف اور مطالبات
اسی
دوران مزاحمت کاروں نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر پیغام جاری کیا کہ “
غزہ جنگ کے خاتمے، قابض افواج کے انخلا، امدادی سامان کی رسائی، اور قیدیوں کے
تبادلے پر مشتمل ایک معاہدہ طئے پاگیا ہے ۔”بیان میں امریکی صدر، عرب ثالثوں اور اور بین الاقوامی فریقوں سے مطالبہ کیا گیا
کہ وہ قابض حکومت (اسرائیل) کو معاہدے کی تمام شقوں پر مکمل عمل درآمد کا پابند
بنائیں،اور اسے عمل سے فرار یا تاخیر کی اجازت نہ دیں۔بیان کے اختتام پر یہ واضح
کیا گیا کہ فلسطینی مزاحمتی قوتیں آزادی، خودمختاری، اور حقِ خود ارادیت سے کسی صورت
دستبردار نہیں ہوں گی۔
نیتن یاہو کی وعدہ خلافی اور اختلافات
جنگ بندی پر آمادگی کے ساتھ
ہی نیتن یاہو نے وعدہ خلافی و حیلہ طرازی کا آغاز کر دیا۔اسرائیلی عقوبت خانوں میں
نظر بند فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر اتفاق ہو چکا تھا، لیکن فہرست میں من مانی
تبدیلیاں شروع کر دی گئی۔اس پر مزاحمت کاروں کے سینئر رہنما محمود مرداوی نے اپنے
ٹویٹ (X) میں
لکھا ہے کہ غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے قیدیوں کی فہرست پر اسرائیل اور
فلسطینی گروہ کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے ہیں، جو امن معاہدے کو خطرے میں ڈال
سکتے ہیں۔ جناب مرداوی نے مزید کہاکہ قیدیوں کی فہرست میں من مانی تبدیلی اس اس
بات کو ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل پر افواج کے انخلا، تعمیرِ نو، اور سرحدی راستے
دوبارہ کھولنے کے معاملات میں اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
اشتعال انگیزی اور اقصیٰ کی بے حرمتی
فائربندی کے معاہدے پر دونوں
فریق کی اصولی رضامندی کے بعد اسرائیلی وزیراندرونی سلامتی ایتامار بن گوئر مسجدِ
اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوئے اور طنزیہ انداز میں کہا کہ غزہ کے ہر گھر میں مسجد
اقصیٰ کی تصویر لگی ہے لیکن اب ہم اس پہاڑی یعنی گنبد الصخرہ کے مالک ہیں۔ یہ عمل
نہ صرف مسلمانوں کے لیے اشتعال انگیز تھا بلکہ اُس وعدے کی بھی صریح خلاف ورزی ہے
جو اسرائیل نے 1967 میں بیت المقدس پر قبضے کے بعد اقوامِ متحدہ میں کیا تھا، یعنی
القدس شریف میں غیر مسلموں کا داخلہ مسلم اوقاف کی اجازت سے ہوگا اور غیر مسلم
وہاں عبادت نہیں کرسکیں گے۔ مزاحمت کاروں نے بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے
ردعمل کو مذمتی بیان تک محدود رکھا۔
کابینہ اجلاس، ٹرمپ ایلچی، اور انتہاپسند وزرا
کابینہ سے منظوری کے بعد نیتن یاہو نے دس اکتوبر سے فائربندی کا
اعلان کردیا اور اسرائیلی فوجوں کو پیچھے ہٹالیا گیا۔ اسرائیلی کابینہ کے اجلاس
میں صدر ٹرمپ کے ایلچی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکاف اور امریکہ کے داماد اول جیرڈ
کشنر نے خصوصی شرکت کی۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ نیتن یاہو نے ان لوگوں کو
معاہدہ مخالف انتہاپسند وزرا کو مرعوب کرنے کیلئے اجلاس میں بلایا تھا اوریہ حکمت
عملی بظاہر کامیاب رہی کہ دین صیہون پارٹی Religious Zionism
partyاور عظمت یہود پارٹیOtzma Yehudit partyسے وابستہ وزرا کے علاوہ پوری کابینہ نے معاہدے کی حمائت میں ہاتھ
بلند کئے، بلکہ دین صیہون کے ایک وزیرنے بھی پارٹی ہدائت کے برخلاف امن منصوبے کی حمائت
میں ووٹ دیا۔ رائے شماری سے پہلے وزیرخزانہ بیزلیل اسموترچ نے کہا کہ یرغمالیوں کی
رہائی کے فوراً بعد اسرائیل کو پوری طاقت کے ساتھ کارروائی دوبارہ شروع کرنی چاہیے
تاکہ غزہ کو ہمیشہ کے لیے غیر مسلح اور کمزور کیا جا سکے۔
امریکی فوجی نگرانی اور شکوک و خدشات
جنگ بندی کی نگرانی اور
معاہدے پر عملدرآمد کیلئے صدرٹرمپ نے اپنے
دو سو فوجی اسرائیل بھجدئے ہیں۔ سرکاری
اعلامئے کے مطابق امریکی مرکزی کمان (CENTCOM) کی زیرِ نگرانی یہ فوجی، سول۔ملٹری کوآرڈی نیشن سینٹر (CMCC) کے نام سے ایک خصوصی ٹاسک
فورس، قائم کریں گے، جس کا مقصد غزہ میں استحکام اور امدادی سرگرمیوں میں تعاون
فراہم کرنا ہے۔اس ٹاسک فورس میں مصر، قطر، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے نمائندے
بھی شامل ہوں گے۔مرکزی کمان کا کہنا ہےکہ امریکی فوجی غزہ کے اندر تعینات نہیں کئے
جائیں گے۔بادی النظر میں یہ استحکام کی کوشش ہے لیکن صدر ٹرمپ کے بیانات کے تناظر
میں سوالات جنم لے رہے ہیں کہیں یہ بالواسطہ قبضے یا نگرانی کے مستقل ڈھانچے کی
پیش بندی تو نہیں؟
مزاحمتی اعلان اور عوامی استقامت
دس
اکتوبر کو جنگ بندی کے نفاذ کے ساتھ ہی مزاحمتی دھڑوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا
کہ فلسطینی عوام کے عزم نے جبری بے دخلی (Mass
Displacement) کے
اسرائیلی منصوبے کو ناکام بنا دیا۔بیان میں اعلان کیا گیا کہ غزہ کی آئندہ حکمرانی
کا فیصلہ صرف فلسطینی عوام کریں گے،اور کسی غیر ملکی سرپرستی یا بیرونی نگرانی کو
قبول نہیں کیا جائے گا۔
اسی
روز نیتن یاہو نے اپنی دھمکی دہرائی کہ اگر مزاحمتی گروہ غیر مسلح نہ ہوئے تو حملے
دوبارہ شروع کیے جائیں گے۔جواب میں ایک فلسطینی عہدیدار نے فرانسیسی خبر رساں اجنس
AFP کو بتایا کہ اسلحہ حوالگی کا کوئی
امکان نہیں اور اس پر بات چیت بھی نہیں ہوگی۔ اپنے اس عزم کا عملی مظاہرہ کرنے
کیلئے مسلح مزاحمت کاروں نے غزہ کی سڑکوں پر گشت
شروع کردیا جسے عوام نے
پرجوش انداز میں سراہا۔
اسرائیلی درندگی اور انسانی المیہ
جنگ
بندی کے اعلان کے باوجود واپس ہوتی اسرائیلی فوج نے غارت گری جاری رکھی۔غزہ کی
متعدد عمارتوں کو زمین بوس کر دیا گیا۔ دوسری
طرف بمباری بند ہوتے ہی نعرہ تکبیر اور القدس لنا (القدس ہمارا ہے) کے ترانوں
کیساتھ شہری اپنے زمین بوس گھروں کو واپس آگئے اوررضاکاروں نے لاشوں کی تلاش کا کام شروع کردیا۔خیال ہے کہ
ہزاروں فلسطینی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
سب
سے المناک پہلو یہ ہے کہ اسرائیلی فوج نے جاتے جاتے کھلونے نما ٹائم بم ملبے میں
بکھیر دیے تاکہ واپس آنے والے بچے اپنی یادگار چیزیں ڈھونڈتے ہوئے ان بموں کا
نشانہ بنیں۔ہزاروں بچوں کو زندہ درگور کرنے کے بعد بھی ان درندوں کی پیاس نہیں
بجھی۔ آتشیں پیجرز (pagers)سے یہ سینکڑوں لبنانیوں کوموت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔
لبنان اور مغربی کنارے پر حملے
غزہ میں بمباری ختم ہوتے ہی
اسرائیل نے جنوبی لبنان کو نشانے پر رکھ لیا ہے جہاں شدید بمباری روز کا معمول ہے۔
رہائشی مکانات کے علاوہ کارخانے اور تجارتی مراکز انکا ہدف ہیں۔ جنوبی لبنان میں
تعمیراتی کمپنی کے ڈپو پر حملے میں 300
قیمتی بلڈوزر، ٹرک اور دوسری تعمیراتی مشنری راکھ و خاک ہوگئی۔یہ سامان اسرائیلی
بمباری سے تباہ ہونے والی سڑکوں کو اور پلوں کی تعمیر نو کیلئے درآمد کیا گیا
تھا۔غرب اردن میں بھی غاتگری جاری ہے۔ قبضہ گردوں
بیطہ گاوں میں زیتون کی کھڑی فصلوں کو آگ لگادی۔ حملے میں فرانسیسی خبر رساں
ایجنسی AFPکے نمائندے کی گاڑی کو بھی فسادیوں نے نذر آتش
کردیا۔
عالمی ردِ عمل اور ٹرمپ کی کمزوری
اسرائیل کی
یہ دہشتگردی بے سبب نہیں۔امریکہ اور یورپ میں میڈیا کیساتھ اسرائیلی ترغیب کاری (Lobbying)اتنی موثر و مضبوط ہے کہ ٹرمپ جیسا دبنگ صدر بھی مفلوج نظر آتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ٹائمز آف
اسرائیل نے انکشاف کیا کہ فون پر نیتن یاہو سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ سخت برہم
ہوگئے اور انھیں فحش گالی دیتے ہوئے کہا کہ تم ہمیشہ منفی بات کرتے ہو۔ لیکن دودن
بعد اس خبر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہرگز نہیں، وہ (نیتن یاہو) امن معاہدے کے
حوالے سے بہت مثبت سوچ رکھتے ہیں۔جس شخص کی مرعوبیت کا یہ عالم ہو کہ اپنی ہی کہی
ہوئی بات پر قائم نہ رہ سکے، وہ اسرائیل کو معقولیت اختیار کرنے پر کیسے مجبور
کرسکتا ہے۔
انڈونیشیا کا دوٹوک مؤقف
انڈونیشیا
کے وزیرِ قانون و انسانی حقوق نے اعلان کیا ہے کہ ورلڈ آرٹسٹک جمناسٹکس چیمپیئن شپ
(World Artistic Gymnastics Championships) کے لیے اسرائیلی
ٹیم کو ویزے جاری نہیں کیے جائیں گے۔یہ مقابلے 19 تا 25 اکتوبر تک جکارتہ میں
منعقد ہوں گے۔
اسرائیلی قیدیوں کی رہائی
معاہدےکے مطابق 13 اکتوبر کی صبح غزہ شہر سے 20
اسرائیلی قیدی اور ہلاک ہوجانے والے چار قیدیوں کے جسدِ خاکی ریڈ
کراس کے حوالے کر دئے گئے۔ جس کے جواب میں اسرائیلی عقوبت کدووں سے 22 کم عمر بچوں
سمیت 1900 قیدی رہا کئے گئے۔ اسرائیلیوں کی مزید 24 لاشیں چند روز میں ریڈ کراس کے
حوالے کی جائینگی۔
غزہ
میں جنگ بندی اور امن منصوبے کی ابتدائی منظوری بلاشبہ ایک اہم پیش رفت ہے، تاہم
اسرائیلی اقدامات، قیدیوں کی فہرست میں تبدیلی، اور مسجد اقصیٰ میں اشتعال انگیز
واقعات نے اس عمل کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے غیر
ملکی نگرانی کو مسترد کرنا اور غزہ کی آئندہ حکمرانی کے حق میں دوٹوک مؤقف اس امر
کی غمازی کرتا ہے کہ خطے میں پائیدار امن صرف اس وقت ممکن ہے جب تمام فریقوں کے
حقوق، تحفظات اور مطالبات کو مساوی طور پر تسلیم کیا جائے۔اس پورے منظرنامے نے ایک
بار پھر ثابت کیا ہے کہ امن کی سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیلی ہٹ دھرمی، امریکی دوغلا
پن، اور عالمی اداروں کی مصلحت پسندی ہے۔غزہ میں بمباری بند لیکن ظلم کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 17 اکتوبر
2025
ہفت روزہ دعوت دہلی 17 اکتوبر 2025
روزنامہ امت کراچی 17 اکتوبر 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 19 اکتوبر 20255