Thursday, October 16, 2025

 

غزہ میں عارضی امن یا نئی پیش بندی؟

 ٹرمپ منصوبہ، نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی، اور مزاحمتی مؤقف

آٹھ اکتوبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے ان کے امن منصوبے کے پہلے مرحلے کی منظوری دے دی ہے۔امریکی صدر کے مطابق اس مرحلے میں تمام قیدیوں کی رہائی عمل میں آئے گی اور اسرائیلی افواج ایک طے شدہ حد تک پیچھے ہٹیں گی۔ان کے بقول، یہ “مضبوط، پائیدار اور دائمی امن” کی جانب پہلا قدم ہے۔

اسی گفتگو میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ تمام فریقوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے گا۔اس جملے سے یہ تاثر ابھرا کہ ممکنہ طور پر مزاحمت کاروں کے ہتھیار رکھنے یا آئندہ سیاسی عمل سے الگ رہنے کی شرط کو نرم یا خارج کر دیا گیا ہے،جو مبصرین کے نزدیک فلسطینی فریق کے لیے اطمینان بخش اشارہ ہے۔تاہم تھوڑی ہی دیر بعد اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اپنے روایتی متکبرانہ لہجے میں کہا کہ اگر فلسطینی تنظیم غیر مسلح نہ ہوئی تو اسرائیل دوبارہ کارروائی کرے گا۔

مزاحمتی تنظیموں کا مؤقف اور مطالبات

اسی دوران مزاحمت کاروں نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر پیغام جاری کیا کہ غزہ جنگ کے خاتمے، قابض افواج کے انخلا، امدادی سامان کی رسائی، اور قیدیوں کے تبادلے پر مشتمل ایک معاہدہ طئے پاگیا ہے ۔بیان میں امریکی صدر، عرب ثالثوں اور اور بین الاقوامی فریقوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ قابض حکومت (اسرائیل) کو معاہدے کی تمام شقوں پر مکمل عمل درآمد کا پابند بنائیں،اور اسے عمل سے فرار یا تاخیر کی اجازت نہ دیں۔بیان کے اختتام پر یہ واضح کیا گیا کہ فلسطینی مزاحمتی قوتیں آزادی، خودمختاری، اور حقِ خود ارادیت سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گی۔

نیتن یاہو کی وعدہ خلافی اور اختلافات

جنگ بندی پر آمادگی کے ساتھ ہی نیتن یاہو نے وعدہ خلافی و حیلہ طرازی کا آغاز کر دیا۔اسرائیلی عقوبت خانوں میں نظر بند فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر اتفاق ہو چکا تھا، لیکن فہرست میں من مانی تبدیلیاں شروع کر دی گئی۔اس پر مزاحمت کاروں کے سینئر رہنما محمود مرداوی نے اپنے ٹویٹ (X) میں لکھا ہے کہ غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے قیدیوں کی فہرست پر اسرائیل اور فلسطینی گروہ کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے ہیں، جو امن معاہدے کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ جناب مرداوی نے مزید کہاکہ قیدیوں کی فہرست میں من مانی تبدیلی اس اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل پر افواج کے انخلا، تعمیرِ نو، اور سرحدی راستے دوبارہ کھولنے کے معاملات میں اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

اشتعال انگیزی اور اقصیٰ کی بے حرمتی

فائربندی کے معاہدے پر دونوں فریق کی اصولی رضامندی کے بعد اسرائیلی وزیراندرونی سلامتی ایتامار بن گوئر مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوئے اور طنزیہ انداز میں کہا کہ  غزہ کے ہر گھر میں مسجد اقصیٰ کی تصویر لگی ہے لیکن اب ہم اس پہاڑی یعنی گنبد الصخرہ کے مالک ہیں۔ یہ عمل نہ صرف مسلمانوں کے لیے اشتعال انگیز تھا بلکہ اُس وعدے کی بھی صریح خلاف ورزی ہے جو اسرائیل نے 1967 میں بیت المقدس پر قبضے کے بعد اقوامِ متحدہ میں کیا تھا، یعنی القدس شریف میں غیر مسلموں کا داخلہ مسلم اوقاف کی اجازت سے ہوگا اور غیر مسلم وہاں عبادت نہیں کرسکیں گے۔ مزاحمت کاروں نے بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ردعمل کو مذمتی بیان تک محدود رکھا۔

کابینہ اجلاس، ٹرمپ ایلچی، اور انتہاپسند وزرا

کابینہ سے منظوری کے بعد نیتن یاہو نے دس اکتوبر سے فائربندی کا اعلان کردیا اور اسرائیلی فوجوں کو پیچھے ہٹالیا گیا۔ اسرائیلی کابینہ کے اجلاس میں صدر ٹرمپ کے ایلچی برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکاف اور امریکہ کے داماد اول جیرڈ کشنر نے خصوصی شرکت کی۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ نیتن یاہو نے ان لوگوں کو معاہدہ مخالف انتہاپسند وزرا کو مرعوب کرنے کیلئے اجلاس میں بلایا تھا اوریہ حکمت عملی بظاہر کامیاب رہی کہ دین صیہون پارٹی Religious Zionism partyاور عظمت یہود پارٹیOtzma Yehudit partyسے وابستہ وزرا کے علاوہ پوری کابینہ نے معاہدے کی حمائت میں ہاتھ بلند کئے، بلکہ دین صیہون کے ایک وزیرنے بھی پارٹی ہدائت کے برخلاف امن منصوبے کی حمائت میں ووٹ دیا۔ رائے شماری سے پہلے وزیرخزانہ بیزلیل اسموترچ نے کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے فوراً بعد اسرائیل کو پوری طاقت کے ساتھ کارروائی دوبارہ شروع کرنی چاہیے تاکہ غزہ کو ہمیشہ کے لیے غیر مسلح اور کمزور کیا جا سکے۔

امریکی فوجی نگرانی اور شکوک و خدشات

جنگ بندی کی نگرانی اور معاہدے پر عملدرآمد کیلئے صدرٹرمپ  نے اپنے دو سو  فوجی اسرائیل بھجدئے ہیں۔ سرکاری اعلامئے کے مطابق امریکی مرکزی کمان (CENTCOM) کی زیرِ نگرانی یہ فوجی، سول۔ملٹری کوآرڈی نیشن سینٹر (CMCC) کے نام سے ایک خصوصی ٹاسک فورس، قائم کریں گے، جس کا مقصد غزہ میں استحکام اور امدادی سرگرمیوں میں تعاون فراہم کرنا ہے۔اس ٹاسک فورس میں مصر، قطر، ترکی اور متحدہ عرب امارات کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔مرکزی کمان کا کہنا ہےکہ امریکی فوجی غزہ کے اندر تعینات نہیں کئے جائیں گے۔بادی النظر میں یہ استحکام کی کوشش ہے لیکن صدر ٹرمپ کے بیانات کے تناظر میں سوالات جنم لے رہے ہیں کہیں یہ بالواسطہ قبضے یا نگرانی کے مستقل ڈھانچے کی پیش بندی تو نہیں؟

مزاحمتی اعلان اور عوامی استقامت

دس اکتوبر کو جنگ بندی کے نفاذ کے ساتھ ہی مزاحمتی دھڑوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ فلسطینی عوام کے عزم نے جبری بے دخلی (Mass Displacement) کے اسرائیلی منصوبے کو ناکام بنا دیا۔بیان میں اعلان کیا گیا کہ غزہ کی آئندہ حکمرانی کا فیصلہ صرف فلسطینی عوام کریں گے،اور کسی غیر ملکی سرپرستی یا بیرونی نگرانی کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

اسی روز نیتن یاہو نے اپنی دھمکی دہرائی کہ اگر مزاحمتی گروہ غیر مسلح نہ ہوئے تو حملے دوبارہ شروع کیے جائیں گے۔جواب میں ایک فلسطینی عہدیدار نے فرانسیسی خبر رساں اجنس AFP کو بتایا کہ اسلحہ حوالگی کا کوئی امکان نہیں اور اس پر بات چیت بھی نہیں ہوگی۔ اپنے اس عزم کا عملی مظاہرہ کرنے کیلئے مسلح مزاحمت کاروں نے غزہ کی سڑکوں پر گشت شروع کردیا جسے عوام نے پرجوش انداز میں سراہا۔

اسرائیلی درندگی اور انسانی المیہ

جنگ بندی کے اعلان کے باوجود واپس ہوتی اسرائیلی فوج نے غارت گری جاری رکھی۔غزہ کی متعدد عمارتوں کو زمین بوس کر دیا گیا۔ دوسری طرف بمباری بند ہوتے ہی نعرہ تکبیر اور القدس لنا (القدس ہمارا ہے) کے ترانوں کیساتھ شہری اپنے زمین بوس گھروں کو واپس آگئے اوررضاکاروں نے  لاشوں کی تلاش کا کام شروع کردیا۔خیال ہے کہ ہزاروں فلسطینی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔

سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ اسرائیلی فوج نے جاتے جاتے کھلونے نما ٹائم بم ملبے میں بکھیر دیے تاکہ واپس آنے والے بچے اپنی یادگار چیزیں ڈھونڈتے ہوئے ان بموں کا نشانہ بنیں۔ہزاروں بچوں کو زندہ درگور کرنے کے بعد بھی ان درندوں کی پیاس نہیں بجھی۔ آتشیں پیجرز (pagers)سے یہ سینکڑوں لبنانیوں کوموت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔

لبنان اور مغربی کنارے پر حملے

غزہ میں بمباری ختم ہوتے ہی اسرائیل نے جنوبی لبنان کو نشانے پر رکھ لیا ہے جہاں شدید بمباری روز کا معمول ہے۔ رہائشی مکانات کے علاوہ کارخانے اور تجارتی مراکز انکا ہدف ہیں۔ جنوبی لبنان میں تعمیراتی کمپنی کے ڈپو پر حملے میں  300 قیمتی بلڈوزر، ٹرک اور دوسری تعمیراتی مشنری راکھ و خاک ہوگئی۔یہ سامان اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والی سڑکوں کو اور پلوں کی تعمیر نو کیلئے درآمد کیا گیا تھا۔غرب اردن میں بھی غاتگری جاری ہے۔ قبضہ گردوں بیطہ گاوں میں زیتون کی کھڑی فصلوں کو آگ لگادی۔ حملے میں فرانسیسی خبر رساں ایجنسی AFPکے نمائندے کی گاڑی کو بھی فسادیوں نے نذر آتش کردیا۔

عالمی ردِ عمل اور ٹرمپ کی کمزوری

اسرائیل کی یہ دہشتگردی بے سبب نہیں۔امریکہ اور یورپ میں میڈیا کیساتھ اسرائیلی ترغیب کاری (Lobbying)اتنی موثر و مضبوط ہے کہ ٹرمپ جیسا دبنگ صدر بھی مفلوج نظر آتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ٹائمز آف اسرائیل نے انکشاف کیا کہ فون پر نیتن یاہو سے باتیں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ سخت برہم ہوگئے اور انھیں فحش گالی دیتے ہوئے کہا کہ تم ہمیشہ منفی بات کرتے ہو۔ لیکن دودن بعد اس خبر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا ہرگز نہیں، وہ (نیتن یاہو) امن معاہدے کے حوالے سے بہت مثبت سوچ رکھتے ہیں۔جس شخص کی مرعوبیت کا یہ عالم ہو کہ اپنی ہی کہی ہوئی بات پر قائم نہ رہ سکے، وہ اسرائیل کو معقولیت اختیار کرنے پر کیسے مجبور کرسکتا ہے۔

انڈونیشیا کا دوٹوک مؤقف

انڈونیشیا کے وزیرِ قانون و انسانی حقوق نے اعلان کیا ہے کہ ورلڈ آرٹسٹک جمناسٹکس چیمپیئن شپ (World Artistic Gymnastics Championships) کے لیے اسرائیلی ٹیم کو ویزے جاری نہیں کیے جائیں گے۔یہ مقابلے 19 تا 25 اکتوبر تک جکارتہ میں منعقد ہوں گے۔

اسرائیلی قیدیوں کی رہائی

 معاہدےکے مطابق 13 اکتوبر کی صبح غزہ شہر سے 20 اسرائیلی قیدی اور ہلاک ہوجانے والے چار قیدیوں کے جسدِ خاکی ریڈ کراس کے حوالے کر دئے گئے۔ جس کے جواب میں اسرائیلی عقوبت کدووں سے 22 کم عمر بچوں سمیت 1900 قیدی رہا کئے گئے۔ اسرائیلیوں کی مزید 24 لاشیں چند روز میں ریڈ کراس کے حوالے کی جائینگی۔

غزہ میں جنگ بندی اور امن منصوبے کی ابتدائی منظوری بلاشبہ ایک اہم پیش رفت ہے، تاہم اسرائیلی اقدامات، قیدیوں کی فہرست میں تبدیلی، اور مسجد اقصیٰ میں اشتعال انگیز واقعات نے اس عمل کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی جانب سے غیر ملکی نگرانی کو مسترد کرنا اور غزہ کی آئندہ حکمرانی کے حق میں دوٹوک مؤقف اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ خطے میں پائیدار امن صرف اس وقت ممکن ہے جب تمام فریقوں کے حقوق، تحفظات اور مطالبات کو مساوی طور پر تسلیم کیا جائے۔اس پورے منظرنامے نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ امن کی سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیلی ہٹ دھرمی، امریکی دوغلا پن، اور عالمی اداروں کی مصلحت پسندی ہے۔غزہ میں بمباری  بند لیکن ظلم کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 17 اکتوبر 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 17 اکتوبر 2025

روزنامہ امت کراچی 17 اکتوبر 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 19 اکتوبر 20255


Wednesday, October 15, 2025

 

 

ٹرمپ کا اسرائیلی پارلیمان اور شرم الشیخ میں خطاب

امن کی پیشکش یا یکطرفہ بیانیہ؟

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 13 اکتوبر کو اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان) سے اپنے خطاب میں غزہ کی جنگ کو ’’اسرائیل کی تاریخی فتح‘‘ قرار دیا اور کھلے لفظوں میں اعتراف کیا کہ غزہ پر حملوں کے دوران امریکہ نے اسرائیل کو ہر طرح کا اسلحہ فراہم کیا۔ یہ بیان دراصل اس حقیقت کا اعلان ہے کہ واشنگٹن نہ صرف سیاسی بلکہ عسکری سطح پر بھی اس جنگ کا براہِ راست فریق رہا ہے۔امریکی صدر نے بڑے فخر سے کہا کہ 'ہم نے اسرائیل کو وہ سب کچھ دیا جو اسے چاہیے تھا'۔حتی کہ بے تکلفی میں یہ بھی کہہ گئے کہ 'بی بی (نیتن یاہو) مجھ سے اسلحے کی فرمائشیں کرتے تھے۔ ایسے ایسے ہتھیاروں کی، جن کے بارے میں خود مجھے بھی علم نہیں تھا'۔یہ جملہ غزہ کے قتلِ عام پر ایک غیر اخلاقی تفاخر کے مترادف تھا۔ اس بیان سے ان خدشات کو مزید تقویت ملی کہ غزہ میں اسرائیل اور اسکے سہولت کاروں نےانسانی حقوق، جنگی قوانین اور اخلاقی حدود کی دھجیاں بکھیر دیں۔

جنگ کا اختتام یا اسرائیل کی فتح؟

صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہاکہ یہ صرف ایک جنگ کا اختتام نہیں، بلکہ دہشت اور موت کے دور کا خاتمہ ہے۔ان کے الفاظ نے اس تاثر کو تقویت دی کہ امریکہ اس خونریزی کو انسانی و اخلاقی بحران کے بجائےاسرائیل کی کامیابی کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی ٹرمپ کو "تاریخی دوست" قرار دیا اور ان کے امن منصوبے کو اسرائیل کی فتح سے تعبیر کیا۔

مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ

امن منصوبے کے تحت صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ دہرایا۔یہ شرط فلسطینیوں کیلئے کسی طور قابل قبول نہیں،کیونکہ اس کا مطلب اپنی بقا سے دستبرداری ہے۔ جب تک آزادوخومختار ریاست کا قیام اور خودمختاری یقینی نہیں بنائی جاتی، فلسطینی، قبضہ کردی کیخلاف مسلح مزاحمت کواپنا ناقابل تنسیخ دفاعی حق سمجھتے ہیں۔ اس نکتے پر اختلاف نے امن منصوبے کی ساکھ کو متنازع بنا دیا ہے۔

امن منصوبے پر شکوک و شبہات

خطاب کے دوران اسرائیلی پارلیمان میں بھی غیر معمولی مناظر دیکھنے میں آئے۔ حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے ہداس (Hadash)پارٹی کے دو ارکانِ پارلیمان نے "Recognize Palestine" کے پلے کارڈ اٹھا کر احتجاج کیا، جبکہ حکمراں لیکڈ پارٹی کے ایک رکن نے صدر ٹرمپ کی تقریر کو ’’فتح کا فریب‘‘ اور ’’جھوٹی نمائش‘‘ قرار دے کر اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ یہ منظر اس امر کی علامت تھا کہ خود اسرائیل کے اندر بھی اس جنگ کے اخلاقی اور سیاسی جواز پر اختلافات گہرے ہو چکے ہیں۔

امن یا سیاسی مفادات؟

صدر ٹرمپ کا خطاب بظاہر امن کی نوید تھا، لیکن اس میں اسرائیل کی عسکری کامیابی کو اجاگر کرنا، فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنے کی کوشش اور امریکی اسلحہ کی فراہمی کے اعتراف جیسے عوامل اس منصوبے کو ایک "امن معاہدے" سے زیادہ ایک "سیاسی فتح" کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جب تک تمام فریقوں کے تحفظات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، امن کا خواب صرف تقریروں تک محدود رہے گا۔ صدر ٹرمپ کا  خطاب اسرائیل میں تو ’’فتح کا جشن‘‘ بن گیا لیکن کیا دنیا  اس ’’امن‘‘ کو تسلیم کر لے گی جس کی قیمت ایک پوری قوم کے وجود سے وصول کی جا رہی ہے؟ یا پھر تاریخ اسے  ’’فتح کا فریب‘‘ قرار دے گی؟

شرم الشیخ کانفرنس: امن کی پیشکش یا سیاسی دباؤ؟

اسرائیلی پارلیمان سے خطاب کے بعد صدر ٹرمپ، مصر کے ساحلی مقام شرم الشیخ پہنچے، جہاں انہوں نے غزہ امن منصوبے کے 20 نکاتی معاہدے پر قطر، مصر اور ترکیہ کے سربراہان کے ساتھ دستخط کیے۔ دلچسپ بات کہ تنازع کے دونوں فریق یعنی اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی گروہ  دستخط کنندگان میں شامل نہیں ۔ اس تقریب میں مشرق وسطیٰ کے قائدین کے علاوہ فرانس، اٹلی، برطانیہ اور جرمنی سمیت 30 ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔

صدر ٹرمپ نے یہاں خطے میں "نئے آغاز" کا عزم ظاہر کیا، مگر ان کے الفاظ اور لہجے سے وہ ایک غیر جانبدار ثالث کے بجائے اسرائیلی مؤقف کے ترجمان محسوس ہوئے۔ انہوں نے فلسطینیوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے درمیان موجود "نفرت کی خبیث قوتوں" کو نکال باہر کریں اور اسرائیل کو گرانے کے بجائے اپنی قوم کی تعمیر پر توجہ دیں۔ گویا صدر ٹرمپ فلسطینی جدوجہد کو داخلی انتشار اور نفرت سے تعبیر کرتے ہیں، جو اسرائیلی بیانیے کا عکاس ہے۔

صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہاکہ آپ جیت چکے ہیں اور اب آپ تعمیر کر سکتے ہیں۔ اس جملے سے نہ صرف اسرائیل کے فاتح اور فلسطینیوں کے شکست خوردہ ہونے کا تاثر ابھرا بلکہ صدر ٹرمپ  کے خیال میں مزاحمت کاروں کی شکست اسرائیل کیساتھ امریکہ کے عرب دوستوں کی بھی کامیابی ہے۔ابراہیم معاہدے کو "اچھا کاروبار" قرار دینا اور اس پر قائم رہنے والے ممالک کی "وفاداری" کی تعریف کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی ترجیحات میں سیاسی اور معاشی مفادات کو انسانی حقوق پر فوقیت حاصل ہے۔

آخر میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ قلعےاور دیواریں کھڑی کرنے کے بجائے ایسی بنیاد ڈالی جائے جو تجارت اور رابطے کو قریب لائے۔بظاہر یہ ایک خوش آئند تصور ہے، مگر جب ایک فریق کو فاتح قرار دیتے ہوئے دوسرے کو غیر مسلح کرنے کی شرط رکھی جائے، تو یہ عدم توازن امن کی بنیاد نہیں بن سکتا۔

شرم الشیخ کی تقریر، اسرائیلی پارلیمان سے خطاب کے تسلسل میں، صدر ٹرمپ کے کردار کو ثالث کے بجائے فریق کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اس تناظر میں، فلسطینیوں کونظرانداز کرنا امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 17 اکتوبر 2025


Thursday, October 9, 2025

 

درندگی و وحشت کے دو سال ۔

غزہ پر آتش آہن کی موسلا دھار بارش کو دوسال مکمل ہوگئے، ان 730 دنوں میں اہلِ غزہ نے 15 جنوری سے 26 فروری تک جاری رہنے والی 42 دن کی عارضی جنگ بندی کے سوا ایک لمحہ بھی سکون سے نہیں گزارا۔اس عرصے میں تقریباً 67 ہزار فلسطینی جان بحق ہوئے جن میں عورتوں اور بچوں کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ ہے۔
ان اعداد و شمار میں وہ ہزاروں افراد شامل نہیں جو اب بھی ملبے تلے دبے ہیں۔بمباری، گولہ باری اور ڈرون حملوں کے ساتھ بدترین ناکہ بندی نے غزہ کو قحط کے دہانے پر پہنچا دیا۔اقوامِ متحدہ کے مطابق 440 افراد بھوک سے دم توڑ گئے جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد شدید زخمی ہیں۔ گویا غزہ کی کل آبادی کا 10 فیصد یا تو مر چکا یا معذور ہے۔

زندگی کی بنیادی سہولیات کا انہدام

آبنوشی کے ذخائر، نکاسیِ آب کے نظام اور 70 فیصد سے زیادہ رہائشی عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ پوری پٹی میں ایک بھی فعال اسپتال باقی نہیں۔جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے صحافیوں کو خاص نشانہ بنایا گیا،اور ان دو برسوں میں  کئی خواتین سمیت 245 صحافی اپنی جان سے گئے۔

ٹرمپ کا امن منصوبہ — یا نیا جال؟

انتیس ستمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "غزہ امن منصوبہ" کے نام سے 20 نکاتی فارمولا پیش کیا۔
بادی النظر میں جس کا مقصد “غزہ کو دہشت گردی سے پاک خطہ” بنانا بتایا گیا،لیکن عملی طور پر یہ منصوبہ دائمی قبضے کو قانونی جواز دینے کی کوشش معلوم ہوتا ہے۔منصوبے کی رونمائی کے وقت صدر ٹرمپ کا جارحانہ لب و لہجہ اور ساتھ موجود نیتن یاہو کا متکبرانہ انداز اس تاثر کو مزید گہرا کرتا ہے کہ اصل مقصد امن نہیں بلکہ دباؤ اور تسلط ہے۔ منصوبے کا مرکزی ہدف یہ ہے کہ مزاحمت کار ہتھیار ڈال دیں اور غزہ کے معاملات سے الگ ہو جائیں ۔

عرب و مسلم ممالک کی کمزوری اور میکسیکو کی جرات

حیرت انگیز طور پر سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، پاکستان، ترکیہ، قطر، مصر اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں اس اس شرمناک دستاویز کی غیر مشروط حمائت کرتے ہوئے 'قیامِ امن' کے لئے امریکہ کے ساتھ تعاون بلکہ شراکت داری کا عزم ظاہر کیا۔اس کے برعکس میکسیکو کی صدر کلاؤڈیا شینباؤم (Claudia Sheinbaum) نے دو ٹوک مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ اصل فریق یعنی فلسطینیوں کو شامل کیے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں۔ یہودی پس منظر رکھنے والی شینباؤم اور ایک نسبتاً چھوٹے ملک کی سربراہ ہیں، جنہیں صدر ٹرمپ اکثر حقارت سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن ان کا موقف جوہری طاقت سے مالامال اور مالدار مسلم و عرب ممالک سے کہیں زیادہ مبنی بر انصاف اور باحوصلہ تھا۔

جواب ! وقار کے ساتھ

ٹرمپ کے منصوبے پر مزاحمتی گروہوں نے کہا ہمیں کوئی باضابطہ مسودہ نہیں ملا، لیکن فلسطین کی آزادی تک ہتھیار ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔ دوسرے دن کوانٹیکو، ورجینیا (Quantico, VA) میں دنیا بھر کے مختلف اڈوں اور بحری بیڑوں سے آئے جرنیلوں اور امرائے بحر کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ دہشت گرد گروہ کے پاس جواب دینے کے لیے بس "تین یا چار دن" ہیں اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو انکا انجام افسوسناک ہوگا۔

یکم اکتوبر کو معاہدے کا مسودہ مل جانے کی تصدیق کرتے ہوئے پر مزاحمت کاروں نےاعلان کیا کہ متن کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا جارہا ہے اور دوتین دن میں اسکا جواب دیدیا جائیگا۔بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے 3اکتوبر کو امریکی صدر نےالٹی میٹم جاری کردیا کہ 7 اکتوبر تک ہمارا منصوبہ قبول کرلو یعنی ہتھیار ڈالدو، ورنہ فنا کردئے جاوگے۔

اسی روز قطر سے جاری کردہ پیغام میں کہا گیا کہ مزاحمتی تحریک غزہ کی پٹی پر جنگ کے خاتمے، قیدیوں کے تبادلے، فوری امداد کی ترسیل، پٹی پر قبضے اور فلسطینیوں کی نقل مکانی کی تردید کے لیے عرب، اسلامی، بین الاقوامی برادری  اورامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کی قدر کرتی ہے۔جنگ کے خاتمے اور پٹی سے اسرائیل کے مکمل انخلا کو یقینی بنانے کے لیے، تحریک اعلان کرتی ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے منصوبے میں بیان کردہ تبادلے کے فارمولے،  اس پر عمل کے لیے زمینی حالات مہیا کرنے اور زندہ و فوت شدگان، کو رہا کرنے پر رضامند ہے۔اس تناظر میں، تحریک فوری طور پر ثالث کاروں کے ذریعے تفصیلات طئے کرنے کے لیے مذاکرات پر اپنی آمادگی کی تصدیق کرتی ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنے منصوبے کے جواب میں مزاحمت کاروں کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ غزہ پر بمباری فوری طور پرروکدی جائے۔صدر ٹرمپ کا بیان جاری ہوتے ہی اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل ایال زامیز نے اپنی فوجوں کو حکم دیا کہ قیدیوں کی رہائی کیلئے کشدیدگی کم کرنا ضروری ہے لہذا تاحکم ثانی غزہ شہر ہر حملے روج دئے جائیں۔لیکن یہ اعلان حقیقت کا روپ نہ دھار سکا اور غزہ پر حملے تادم تحریز جاری ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اس پراسرائیل کی گوشمالی کے بجائے مزاحمت کاروں کی جانب ایک اور دھمکی داغدی کہ معاہدے پر دستخط میں جلدی کرو ورنہ یہ پیشکش منسوخ سمجھو۔

گالی اور دھمکی

یوم کپر کی تعطیل ختم ہونے پر 4 اکتوبر کو اسرائیلی وزیراعظم گفتگو کرتے ہوئےمزاج یار کچھ برہم ہوگیا اور ٹائمز آٖ ف اسرائیل کے مطابق امریکی صدر نے نیتن یاہو کو گالیاں دیں۔ لیکن فون رکھتے ہی ٹرمپ صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا چنانچہ انھوں نے بطور کفارہ اعلان کیا کہ اگر مزاحمت کاروں نےغزہ کے اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش کی تو انھیں فنا کردیا جائیگا۔اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے مصر کے ساحلی مقام شرم الشیخ میں 20 نکاتی منصوبے اور اس میں ترمیم پر گفتگو کرنے کیلئے مزاحمت کار پولٹ بیورو کے سربراہ  خليل الحية کی قیادت میں ایک وفد قاہرہ پہنچ چکا ہے۔ خلیل صاحب کو اسرائیل نے قطر میں نشانہ بنایا تھا جس میں وہ تو مٖحفوظ رہے مگر انکا جوانسال بیٹا منزلِ مراد پاگیا۔

انخلا یا نیا قبضہ؟

چار اکتوبر  کو صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر اعلان کیا کہ اسرائیل نے غزہ میں ابتدائی انخلا کی لکیر پر اتفاق کر لیا ہے۔لیکن جاری کردہ نقشے کے مطابق یہ انخلا نہیں بلکہ موجودہ قبضے کی توثیق تھی کیونکہ اسرائیل پہلے ہی غزہ کے 70 فیصد علاقے پر قابض ہے،اور منصوبے کے مطابق وہ رفح، خان یونس، شمالی غزہ اور بفر زون پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے گا۔ جب قبضہ برقرار ہے، تو اسے انخلا کون مانے گا؟غیرجانبدار سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ انخلا کا یہ نقشہ مزاحمت کاروں کیلئے قابل قبول نہیں اور وہ کچھ کلیدی ترمیم تجویز کرینگے۔

قافلہ صمود پر حملہ اور کارکنوں کی گرفتای

یکم اکتوبر کو اسرائیلی بحریہ نے قافلہ صمود کے گرد گھیرا ڈالدیا اور کشتیوں کے مواصلاتی نظام کو مفلوج کرنے بعد مسلح سپاہیوں نے ان کشتیوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اسرائیل کے 20 سے زیادہ  جنگی جہازوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا اور مجموعی طور پر 42 کشتیوں پر قبضہ کرکے 44 ممالک کے 470 کارکن حراست میں لئے گئے۔ قافلے کی پولستانی پرچم بردار کشتی میرنییٹ Marinetteانے اسرائیلی جہازوں کو غچہ دیکر غزہ کی جانب سفر برقرار رکھا لیکن 3 اکتور کو میرینیٹ بھی اسرائیلی قزاقی کا شکار ہوگئی۔ قافلہ صمود پر حملے کے خلاف ساری دنیا میں شدید رد عمل سامنے آیا۔ اٹلی اور فرانس میں بندرگاہ پر محنت کش علامتی ہرٹال پر چلے گئے۔ اسپین، یونان، فرانس اورآسٹریلیا میں زبردست مظاہرے ہوئے۔

قافلہ صمود کے گرفتار کارکنوں پر اسرائیلی تشدد

دوران حراست گرفتار کارکنوں خاص طور سے سالارِ قافلہ گریٹا تھنبرگ (Greta Thunberg) کو تشدد و بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔ملائی کارکن حزوینی حلمی (Hazwani Helmi) اور امریکی ونڈفیلڈ بیور (Windfield Beaver) نے رائٹرز کو بتایا کہ ہم سے جانوروں کی طرح سلوک کیا گیا۔ گریٹا تھنبرگ کو زبردستی اسرائیلی جھنڈا اوڑھایا گیا۔اطالوی کونسلر پاؤلو رومانو کا کہنا تھا کہ ہمیں زمین پر گٹھنوں کے بل بٹھایا گیا، ذرا سا ہلنے پر مارپڑتی، اسرائیلی محافظ گالیاں دیتے اور نفسیاتی تشدد کرتے تھے۔اسرائیل نے ان الزامات کو “مکمل جھوٹ” قرار دیا۔ اب تک پاکستان امریکہ، برطانیہ، اٹلی، اردن، کوئت، لیبیا، الجزائر، موریطانیہ، ملائیشیا، بحرین، مراکش، سوئٹزرلینڈ، تیونس اور ترکیہ کے 137 کارکن رہا ہوچکے ہیں۔ جن میں جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمدخان بھی شامل ہیں،

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا

تشدد اور گرفتاریوں کے باوجود اٹلی سے 100 نئے کارکنان،جن میں صحافی اور طبی عملہ شامل ہیں،3 اکتوبر کو کشتیِ ضمیر (Conscience Boat) پر سوار ہو کر غزہ کی سمت روانہ ہوگئے۔یعنی ظلم نے راستے بند کر دیے،لیکن ضمیر والے اب بھی غزہ تک رسائی کے لیے پرعزم ہیں۔

بائیکاٹ کی لہریں

ہالینڈ کے سب سے بڑے پنشن فنڈ ABP نے امریکی کمپنی Caterpillar میں اپنی 40 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری ختم کر دی کیونکہ اسرائیلی فوج انہی بلڈوزروں سے غزہ اور غربِ اردن میں گھروں کو مسمار کر رہی ہے۔ کیٹر پلر میں ABP کی سرمایہ کاری کا حجم 40 کروڑ ڈالر کے قریب ہے

افسوسناک

یہودی مذہبی تہوار یوم کپر (توبہ و استغار) پر مانچسٹر کایہودی معبد (Synagogue) نشانہ بنا۔ جس میں دو افراد ہلاک ہوئے۔مبینہ حملہ آور جہاد الشامی نامی شخص پولیس کی فائرنگ میں مارا گیا۔یہ عمل قابلِ مذمت  اور اسرائیلی درندگی سے نفرت کے باوجودکسی بھی عبادت گاہ  پر حملہ انسانیت کے منافی ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 10 اکتوبر 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 10 اکتوبر 2025

روزنامہ امت کراچی 10 اکتوبر 2025

ہفت روزہ رہبر سری نگر 12 اکتوبر 2025


 

 

 

 

 

Wednesday, October 8, 2025

 

پون نصف صدی کی 'وحشت'  ہے، دوچار برس کی بات نہیں

طوفان الاقصیٰ کے دو سال مکمل ہوگئے۔ امریکہ اور مغربی دنیا غزہ میں قید اسرائیلی جنگی قیدیوں کا ماتم کررہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے گلوگیر لہجے میں کہا کہ گزشتہ دو سال میں ایک دن بھی وہ قیامت ان کے ذہن سے محو نہیں ہوئی جو 7 اکتوبر 2023 کو معصوم اسرائیلیوں پر ٹوٹی۔اب صدر ٹرمپ کو یہ کون سمجھائے کہ دوسال پہلے کا واقعہ ’’قیامت‘‘نہیں بلکہ جیل توڑنے کی کارروائی تھی۔ ورنہ لاکھوں فلسطینی 1948 سے اپنے ہی وطن میں غریب الوطنی کا عذاب اور قیامت بھگت رہے ہیں۔متکبرین شاید نہ سمجھ سکیں، مگر سلیم الفطرت قارئین کے لیے اس المیے کے تاریخی پس منظر پر چند سطور۔

بحرِ روم کے مشرقی ساحل پر 41 کلومیٹر طویل یہ پٹی جنوب میں 12 اور شمال میں 6 کلومیٹر چوڑی ہے۔ قطاع غزہ (Gaza Strip) کے 365 مربع کلومیٹر رقبے پر 24 لاکھ سے زائد انسان بستے ہیں،  یعنی فی مربع کلومیٹر 6500 افراد۔یہ ننھا سا قطعۂ ارض کبھی عثمانی خلافت کا حصہ تھا جسے 1918 میں برطانیہ نے اپنی نوآبادی بنالیااور29 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ نے برطانوی قبضے کو تسلیم کر کے فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ اس ’’تقسیم‘‘ میں وہی انصاف کیا گیا جو تاجِ برطانیہ کی روایت ہے: آبادی میں 32 فیصد یہودیوں کو 56 فیصد علاقہ دے دیا گیا، جبکہ فلسطینیوں کو صرف 42 فیصد زمین ملی۔حضرت عیسیٰؑ کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت بیت المقدس کو Corpus Separatum یعنی مشترکہ اثاثہ قرار دیاگیا۔اسرائیلی علاقے میں یہودی باشندوں کی تعداد پانچ لاکھ اور عربوں کی تعداد 4لاکھ 38ہزار تھی جبکہ فلسطین میں 10 ہزار یہودی اور 8 لاکھ 18 ہزار عرب آباد تھے۔

قبضے کا آغاز اور نَبکۃ الکبریٰ

تقسیم کا اعلان ہوتے ہی مسلح اسرائیلیوں نے عرب علاقوں پر حملے شروع کردئے۔ برطانوی فوج جو امن کی ذمہ دار تھی، تماشائی بنی رہی  بلکہ جاتے جاتے اپنا اسلحہ اسرائیلیوں کے حوالے کردیا۔ برطانوی فوج کی واپسی سے ایک ماہ پہلے 5 اپریل 1948 کو اسرائیلی فوج بیت المقدس میں داخل ہوگئی، حالانکہ اقوام متحدہ کے مطابق وہاں کسی ہتھیار کی اجازت نہ تھی۔ نہتے فلسطینیوں کی مزاحمت کچل دی گئی۔قتل عام میں مفتی اعظم کے بھتیجے عبدالقادر حسینی سمیت سینکڑوں فلسطینی شہید ہوئے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں صراحت کے ساتھ لکھا تھا کہ تقسیم فلسطین عارضی ہے اور اسے ریاست کی بنیاد نہیں بنایا جائیگا لیکن 14 مئی 1948 کو ڈیوڈ بن گوریان نے ریاستِ اسرائیل (Eretz Yisrael) کے قیام کا اعلان کردیا، جسے امریکہ اور روس نے فوراً تسلیم کرلیا۔ اسوقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونست رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔

اسرائیل کے قیام کیساتھ ہی فوج نے فلسطینی بستیوں کو گھیر لیا اور 7لاکھ انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح غزہ کی طرف دھکیل دیا گیا۔ ساحلی پٹی پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کرکے سمندر تک رسائی کو ناممکن بنادیا اورکھلی چھت (Open Air) کے اس جیل خانے میں فلسطینی ٹھونس دیے گئے۔فلسطینیوں کا جبری اخراج 15 مئی 1948کو مکمل ہوا جسے فلسطینی یوم النکبہ یا بڑی تباہی کا دن کہتے ہیں۔

دیوارِ نسل پرستی اور اوسلو کا فریب

جون 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے غزہ اور صحرائے سینائی پر قبضہ کرلیا۔امن بات چیت کے دوران 1993 میں معاہدہ اوسلو کے تحت غزہ کا انتظام فلسطینی مقتدرہ (PA) کے سپرد کیا گیا، لیکن قبضہ برقرار رہا۔گویا دوسال قبل شروع ہونے والی پُرتشدد کاروائی، اچانک پھوٹ پڑنے والی خونریزی نہیں بلکہ 1948 سے اہل غزہ اپنے لہو میں غسل کررہے ہیں۔حالیہ کشیدگی کا آغاز  گزشتہ سال دسمبر میں قائم ہونے والی  متعصب ترین حکومت سے ہوا۔اس حکومت کو کسی اور نے نہیں خود اسرائیلی سراغرساں ادارے موساد کے سابق سربراہ تامر پاردو نے نسل پرست یا apartheidریاست قراردیا (حوالہ ٹائمز آف اسرائیل)۔ اس سے پہلے  اسرائیلی کالونیوں  اور  فلسطینی آبادی کے درمیان  کنکریٹ کی  بلندوبالا دیواار کو امریکہ کے سابق صدر  انجہانی جمی کارٹر apartheid wall  کا نام دے چکے ہیں(ملاحظہ ہو کارٹر صاحب کی  کتاب Palestine: Peace not Apartheid)

القدس اور الوَضع القائم کا چیلنج

عثمانی دور سے بیت المقدس مغربی یا یہودی کوارٹر اور القدس شریف الشرقی (East Jerusalem) المعروف مسلم کوارٹرمیں تقسیم ہے۔ مسجد اقصٰی، اس سے متصل دالان اور گنبدِ صخرا مشرقی حصے میں ہے۔ اسرائیلی  قبضے کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں جو معاہدہ ہوا اسکے تحت بیت المقدس کی تقسیم برقرار رہنی ہے۔ یعنی نہ مسلمان بلااجازت مغربی حصے جائینگے اور نہ غیر مسلم مشرقی جانب۔ یہ دراصل مشہور زمانہ الوضع الزاہن یا Status Quo Lawکا تسلسل تھا جو 1757میں عثمانیوں نے منظور کیا تھا۔ نیتتن یاہو انتظامیہ کے وزیراندرونی سلامتی اتامر بن گوئر اور وزیرخزانہ اس قانون کو غیر منصفانہ  قرار دیتے ہیں۔ بن گوئر نے صاف صاف کہا کہ  مسلمانوں کیلئے تقدیس کے اعتبار سے مکہ اور مدینہ کے بعد مسجد اقصیٰ تیسرے نمبر پر ہے جبکہ ہر ہاہبیت (Har haBayit) المعروف Temple Mount ہم یہودیوں کا مقدس ترین مقام ہے۔ وزیر اندرونی سلامتی خود ایک سے زیادہ بار فوج کی نگرانی میں مسجد اقصیٰ تک آچکے ہیں۔جب مسٹر گوئر کے دالانِ  مسجد اقصیٰ میں دندنانے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اعتراض اٹھا تو  اسرائیل کے مستقل نمائندے جیلاد اردن  صاحب نے فرمایا کہ '1967 میں Status Quoمعاہدہ  جاری رکھنے پر اسرائیل کی رضامندی عالمی برادری کے غیر منصفانہ دباو کا نتیجہ تھی'۔

طوفان الاقصیٰ — ایک دھماکہ، برسوں کی دباؤ کا نتیجہ

غربِ اردن پر روزانہ چھاپوں اور اہلِ غزہ پر بمباریوں کے ساتھ، سعودی عرب اور اسرائیل کے قریب آتے تعلقات نے فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ ستمبر 2023 میں اسرائیلی وزیرِ مواصلات کے ریاض میں شاہی مہمان بننے اور وہاں عبادت کرنے کی خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔اسی پس منظر میں 6 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی بمباری کے بعد اہلِ غزہ نے 7 اکتوبر کی صبح ’طوفان الاقصیٰ‘ کا آغاز کیا۔پانچ ہزار سے زائد راکٹ داغے گئے، سرحدی چوکیوں پر قبضہ ہوا، اور کئی فوجی قلعے زیرِ تسلط آگئے۔ کرنل رائے لیوی اور کرنل جاناتھن اسٹائنبرگ سمیت درجنوں اسرائیلی افسر مارے گئے، سینکڑوں قیدی بنے۔اسرائیلی خفیہ ادارے موساد اور شاباک اپنی تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود بے بس ہوگئے۔ فلسطینیوں کی منصوبہ بندی اور جرات نے اسرائیل کی ’’ناقابلِ تسخیر‘‘ ساکھ کو چکناچور کردیا۔

جنگی جنون اور سیاسی استحکام

اس خونریزی سے وزیراعظم نیتن یاہو کی ڈولتی  حکومت کو استحکام نصیب ہوا۔ طوفان الاقصیٰ سے پہلے عدالتی اصلاحات بل کے معاملے پر حزب اختلاف نے سارے اسرائیل کو سر پر اٹھارکھاتھا۔ حتیٰ کہ اسرائیل کے امریکی اور یورپی اتحادی بھی نیتن یاہو کے ان اقدامات کو اسرائیل جمہوریت کیلئے بد شگونی قرار دے رہے تھے، لیکن جنگی جنون میں جمہوریت، آزاد عدلیہ و آزادیِ اظہار رائے کے نعرے تحلیل ہوگئے  اور حزب اختلاف مخالفت ترک کرکے 'ہنگامی کابینہ' کا حصہ بن گئی۔

سعودی اسرائیل رومانس میں کھنڈت

جہاں یہ  کشیدگی اسرائیلی حکومت کیلئے حزب اختلاف کی مزاحمت سے وقتی نجات کا باعث بنی ہے تو سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑگیا۔ حملے کے فوراً بعد اسوقت کے امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن نے  سعودی، اور قطری وزرائے خارجہ کو فون کرکے ان سے مزاحمت کاروں  کی مذمت کیلئے کہا لیکن دونوں ملکوں کی وزارت خارجہ نے اس حملے کو  اسرائیلی کاروائیوں کا نتیجہ اورخونریزی کا  ذمہ دار اسرائیل کو ٹھیرایا۔امریکی ٹیلی ویژن بلوم برگ کے الفاظ میں 'چھ اکتوبر سے پہلے ریاض اور تل ابیب  تعلقات کو معمول پر لانے کے  تاریخی معاہدے کے  بہت قریب پہنچ چکے تھے لیکن  فلسطینیوں  نے مشرق وسطیٰ کے ازسرنو تشکیل کے امریکی خواب  کو آگ لگادی'

زندگی اور اسباب زندگی غارت لیکن نا امیدی نام کو نہیں

دو برس کی تباہی اور پون صدی کی محرومی کے بعد بھی اہلِ غزہ کی نگاہیں آزادی کی صبح پر جمی ہوئی ہیں۔کھلی چھت کے نیچے قیامت جھیلنے والوں سے حوصلہ چھیننا ممکن نہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 10 اکتوبر 2025


Thursday, October 2, 2025

 

وزیراعظم شہباز شریف کی صدر ٹرمپ سے ملاقات

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف اور فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کو عالمی میڈیا نے غیر معمولی اہمیت دی۔ دلچسپ پہلو یہ تھا کہ پاکستانی وفد کو صدر ٹرمپ کے دفتر تک پہنچنے میں معمولی تاخیر ہوئی اور میڈیا پر صدر ٹرمپ کو یہ کہتے سنا گیا"عظیم رہنما وزیراعظم پاکستان اور فیلڈ مارشل عاصم منیر آرہے ہیں، لگتا ہے ہمارے بیضوی آفس کی حسن آفرینی نے انہیں روک لیا ہے۔" ماضی میں امریکی صدور کے انتظار میں تیسری دنیا کے رہنماؤں کو کھڑا رہنا پڑتا تھا، مگر یہاں منظر الٹ تھا۔

ملاقات کا ایجنڈا—معیشت سے کرپٹو کرنسی تک

اس مختصر ملاقات کا کوئی باضابطہ اعلامیہ جاری نہیں ہوا۔ تاہم شہباز شریف نے پاکستانی صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ملاقات دلچسپ اور حوصلہ افزا تھی۔ ان کے مطابق بات چیت معیشت، انسداد دہشت گردی، معدنیات، مصنوعی ذہانت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مجازی سکے (کرپٹو کرنسی) جیسے موضوعات پر ہوئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ معدنیات اور تجارتی معاہدے باہمی مفاد کے تحت طے پائیں گے۔ بظاہر یہ ایک روایتی سفارتی نشست تھی، مگر اس کے پس منظر اور مضمرات کہیں زیادہ اہم ہیں۔

سیاسی و عسکری قیادت کا ایک صفحے پر ہونا

ملاقات کا سب سے منفرد پہلو یہ تھا کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے مشترکہ طور پر صدر ٹرمپ سے ملاقات کی۔ یہ منظر اس امر کی علامت ہے کہ خارجہ پالیسی کے حساس معاملات پر سول اور ملٹری ہم آہنگ ہیں۔ ماضی میں یہ یکجہتی کم ہی دکھائی دی۔ تاہم ناقدین اسے پاکستان کے جمہوری ڈھانچے میں فوجی کردار کے بڑھتے ہوئے اثر کی علامت بھی سمجھتے ہیں۔

ٹرمپ کا امن بیانیہ اور پاکستان کی آزمائش

یہ ملاقات ایسے وقت ہوئی جب ٹرمپ خود کو مشرقِ وسطیٰ میں "امن کے پیامبر" کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کی شمولیت انہیں ایک سفارتی سہارا دے سکتی ہے، جبکہ پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ عالمی منظرنامے پر اپنی حیثیت منوائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کشمیر اور فلسطین جیسے حساس مسائل پر اپنی ترجیحات مؤثر انداز میں سامنے رکھ سکا؟ ٹرمپ کے اسرائیل نواز جھکاؤ کے باعث یہ امتحان مزید مشکل ہو جاتا ہے۔

عمران خان اور شہباز شریف کا تقابلی جائزہ

پاکستانی تاریخ میں امریکی صدور سے ملاقاتیں ہمیشہ نمایاں اہمیت کی حامل رہی ہیں۔ عمران خان اور ٹرمپ کی جولائی 2019 کی ملاقات آج بھی یادگار ہے۔ خان ایک مقبول عوامی لیڈر کے طور پر وائٹ ہاؤس گئے تھے اور اپنی بے ساختگی اور عوامی انداز سے امریکی میڈیا میں بھی چھا گئے۔ اس کے برعکس شہباز شریف کا انداز زیادہ روایتی اور بیوروکریٹک تھا۔ وہ ایک منتظم اور "پالیسی امپلیمنٹر" کے طور پر سامنے آئے۔

ایک اور فرق یہ تھا کہ خان پارلیمانی اکثریت اور عوامی مینڈیٹ کے ساتھ واشنگٹن پہنچے تھے اور فوجی قیادت پس منظر میں رہی۔ اس کے برعکس شہباز شریف کے ساتھ آرمی چیف نمایاں طور پر شریک تھے۔ اس نے "ڈبل لیڈرشپ" کا تاثر دیا جو کچھ کے نزدیک مضبوط سفارتی ٹیم کی علامت ہے، مگر دوسروں کے خیال میں اندازیہ جمہوری خلا کی نشاندہی کرتا ہے۔

تصویر اور حقیقت—پاکستان کی خارجہ پالیسی کا چیلنج

ٹرمپ کا رویہ بھی مختلف رہا۔ وہ عمران خان کو "گریٹ لیڈر" کہہ کر عوامی مقبولیت کو اجاگر کرتے تھے، جبکہ شہباز اور عاصم منیر کے ساتھ ان کا لہجہ زیادہ محتاط اور "ڈیل میکنگ" والا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ آج پاکستان کو زیادہ اس کی افادیت اور سلامتی کردار کے زاویے سے دیکھتے ہیں، نہ کہ کرشماتی قیادت کے تناظر میں۔

یہ فرق اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان کی امریکہ سے تعلقات سازی اب زیادہ ادارہ جاتی اور محتاط رخ اختیار کر رہی ہے۔ تاہم سوال برقرار ہے کہ کیا پاکستان اس موقع کو اپنے قومی مفادات کے لیے حقیقی نتائج میں ڈھال سکے گا یا یہ ملاقات محض ایک خیر سگالی تصویر تک محدود رہ جائے گی۔یہ ملاقات نہ تو محض رسمی تھی اور نہ ہی تاریخ ساز۔ اصل امتحان یہ ہے کہ پاکستان اپنی قومی ترجیحات کو کس جرأت اور حکمت کے ساتھ عملی شکل دیتا ہے۔ تصویر اور حقیقت کے درمیان کا فاصلہ ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کی اصل آزمائش ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 3 اکتوبر 2025