Thursday, October 9, 2025

 

درندگی و وحشت کے دو سال ۔

غزہ پر آتش آہن کی موسلا دھار بارش کو دوسال مکمل ہوگئے، ان 730 دنوں میں اہلِ غزہ نے 15 جنوری سے 26 فروری تک جاری رہنے والی 42 دن کی عارضی جنگ بندی کے سوا ایک لمحہ بھی سکون سے نہیں گزارا۔اس عرصے میں تقریباً 67 ہزار فلسطینی جان بحق ہوئے جن میں عورتوں اور بچوں کا تناسب 60 فیصد سے زیادہ ہے۔
ان اعداد و شمار میں وہ ہزاروں افراد شامل نہیں جو اب بھی ملبے تلے دبے ہیں۔بمباری، گولہ باری اور ڈرون حملوں کے ساتھ بدترین ناکہ بندی نے غزہ کو قحط کے دہانے پر پہنچا دیا۔اقوامِ متحدہ کے مطابق 440 افراد بھوک سے دم توڑ گئے جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد شدید زخمی ہیں۔ گویا غزہ کی کل آبادی کا 10 فیصد یا تو مر چکا یا معذور ہے۔

زندگی کی بنیادی سہولیات کا انہدام

آبنوشی کے ذخائر، نکاسیِ آب کے نظام اور 70 فیصد سے زیادہ رہائشی عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ پوری پٹی میں ایک بھی فعال اسپتال باقی نہیں۔جنگی جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے صحافیوں کو خاص نشانہ بنایا گیا،اور ان دو برسوں میں  کئی خواتین سمیت 245 صحافی اپنی جان سے گئے۔

ٹرمپ کا امن منصوبہ — یا نیا جال؟

انتیس ستمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے "غزہ امن منصوبہ" کے نام سے 20 نکاتی فارمولا پیش کیا۔
بادی النظر میں جس کا مقصد “غزہ کو دہشت گردی سے پاک خطہ” بنانا بتایا گیا،لیکن عملی طور پر یہ منصوبہ دائمی قبضے کو قانونی جواز دینے کی کوشش معلوم ہوتا ہے۔منصوبے کی رونمائی کے وقت صدر ٹرمپ کا جارحانہ لب و لہجہ اور ساتھ موجود نیتن یاہو کا متکبرانہ انداز اس تاثر کو مزید گہرا کرتا ہے کہ اصل مقصد امن نہیں بلکہ دباؤ اور تسلط ہے۔ منصوبے کا مرکزی ہدف یہ ہے کہ مزاحمت کار ہتھیار ڈال دیں اور غزہ کے معاملات سے الگ ہو جائیں ۔

عرب و مسلم ممالک کی کمزوری اور میکسیکو کی جرات

حیرت انگیز طور پر سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، پاکستان، ترکیہ، قطر، مصر اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں اس اس شرمناک دستاویز کی غیر مشروط حمائت کرتے ہوئے 'قیامِ امن' کے لئے امریکہ کے ساتھ تعاون بلکہ شراکت داری کا عزم ظاہر کیا۔اس کے برعکس میکسیکو کی صدر کلاؤڈیا شینباؤم (Claudia Sheinbaum) نے دو ٹوک مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ اصل فریق یعنی فلسطینیوں کو شامل کیے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں۔ یہودی پس منظر رکھنے والی شینباؤم اور ایک نسبتاً چھوٹے ملک کی سربراہ ہیں، جنہیں صدر ٹرمپ اکثر حقارت سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن ان کا موقف جوہری طاقت سے مالامال اور مالدار مسلم و عرب ممالک سے کہیں زیادہ مبنی بر انصاف اور باحوصلہ تھا۔

جواب ! وقار کے ساتھ

ٹرمپ کے منصوبے پر مزاحمتی گروہوں نے کہا ہمیں کوئی باضابطہ مسودہ نہیں ملا، لیکن فلسطین کی آزادی تک ہتھیار ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔ دوسرے دن کوانٹیکو، ورجینیا (Quantico, VA) میں دنیا بھر کے مختلف اڈوں اور بحری بیڑوں سے آئے جرنیلوں اور امرائے بحر کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ دہشت گرد گروہ کے پاس جواب دینے کے لیے بس "تین یا چار دن" ہیں اگر انھوں نے ایسا نہ کیا تو انکا انجام افسوسناک ہوگا۔

یکم اکتوبر کو معاہدے کا مسودہ مل جانے کی تصدیق کرتے ہوئے پر مزاحمت کاروں نےاعلان کیا کہ متن کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا جارہا ہے اور دوتین دن میں اسکا جواب دیدیا جائیگا۔بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے 3اکتوبر کو امریکی صدر نےالٹی میٹم جاری کردیا کہ 7 اکتوبر تک ہمارا منصوبہ قبول کرلو یعنی ہتھیار ڈالدو، ورنہ فنا کردئے جاوگے۔

اسی روز قطر سے جاری کردہ پیغام میں کہا گیا کہ مزاحمتی تحریک غزہ کی پٹی پر جنگ کے خاتمے، قیدیوں کے تبادلے، فوری امداد کی ترسیل، پٹی پر قبضے اور فلسطینیوں کی نقل مکانی کی تردید کے لیے عرب، اسلامی، بین الاقوامی برادری  اورامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کی قدر کرتی ہے۔جنگ کے خاتمے اور پٹی سے اسرائیل کے مکمل انخلا کو یقینی بنانے کے لیے، تحریک اعلان کرتی ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے منصوبے میں بیان کردہ تبادلے کے فارمولے،  اس پر عمل کے لیے زمینی حالات مہیا کرنے اور زندہ و فوت شدگان، کو رہا کرنے پر رضامند ہے۔اس تناظر میں، تحریک فوری طور پر ثالث کاروں کے ذریعے تفصیلات طئے کرنے کے لیے مذاکرات پر اپنی آمادگی کی تصدیق کرتی ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنے منصوبے کے جواب میں مزاحمت کاروں کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ غزہ پر بمباری فوری طور پرروکدی جائے۔صدر ٹرمپ کا بیان جاری ہوتے ہی اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل ایال زامیز نے اپنی فوجوں کو حکم دیا کہ قیدیوں کی رہائی کیلئے کشدیدگی کم کرنا ضروری ہے لہذا تاحکم ثانی غزہ شہر ہر حملے روج دئے جائیں۔لیکن یہ اعلان حقیقت کا روپ نہ دھار سکا اور غزہ پر حملے تادم تحریز جاری ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اس پراسرائیل کی گوشمالی کے بجائے مزاحمت کاروں کی جانب ایک اور دھمکی داغدی کہ معاہدے پر دستخط میں جلدی کرو ورنہ یہ پیشکش منسوخ سمجھو۔

گالی اور دھمکی

یوم کپر کی تعطیل ختم ہونے پر 4 اکتوبر کو اسرائیلی وزیراعظم گفتگو کرتے ہوئےمزاج یار کچھ برہم ہوگیا اور ٹائمز آٖ ف اسرائیل کے مطابق امریکی صدر نے نیتن یاہو کو گالیاں دیں۔ لیکن فون رکھتے ہی ٹرمپ صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا چنانچہ انھوں نے بطور کفارہ اعلان کیا کہ اگر مزاحمت کاروں نےغزہ کے اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش کی تو انھیں فنا کردیا جائیگا۔اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے مصر کے ساحلی مقام شرم الشیخ میں 20 نکاتی منصوبے اور اس میں ترمیم پر گفتگو کرنے کیلئے مزاحمت کار پولٹ بیورو کے سربراہ  خليل الحية کی قیادت میں ایک وفد قاہرہ پہنچ چکا ہے۔ خلیل صاحب کو اسرائیل نے قطر میں نشانہ بنایا تھا جس میں وہ تو مٖحفوظ رہے مگر انکا جوانسال بیٹا منزلِ مراد پاگیا۔

انخلا یا نیا قبضہ؟

چار اکتوبر  کو صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر اعلان کیا کہ اسرائیل نے غزہ میں ابتدائی انخلا کی لکیر پر اتفاق کر لیا ہے۔لیکن جاری کردہ نقشے کے مطابق یہ انخلا نہیں بلکہ موجودہ قبضے کی توثیق تھی کیونکہ اسرائیل پہلے ہی غزہ کے 70 فیصد علاقے پر قابض ہے،اور منصوبے کے مطابق وہ رفح، خان یونس، شمالی غزہ اور بفر زون پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے گا۔ جب قبضہ برقرار ہے، تو اسے انخلا کون مانے گا؟غیرجانبدار سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ انخلا کا یہ نقشہ مزاحمت کاروں کیلئے قابل قبول نہیں اور وہ کچھ کلیدی ترمیم تجویز کرینگے۔

قافلہ صمود پر حملہ اور کارکنوں کی گرفتای

یکم اکتوبر کو اسرائیلی بحریہ نے قافلہ صمود کے گرد گھیرا ڈالدیا اور کشتیوں کے مواصلاتی نظام کو مفلوج کرنے بعد مسلح سپاہیوں نے ان کشتیوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اسرائیل کے 20 سے زیادہ  جنگی جہازوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا اور مجموعی طور پر 42 کشتیوں پر قبضہ کرکے 44 ممالک کے 470 کارکن حراست میں لئے گئے۔ قافلے کی پولستانی پرچم بردار کشتی میرنییٹ Marinetteانے اسرائیلی جہازوں کو غچہ دیکر غزہ کی جانب سفر برقرار رکھا لیکن 3 اکتور کو میرینیٹ بھی اسرائیلی قزاقی کا شکار ہوگئی۔ قافلہ صمود پر حملے کے خلاف ساری دنیا میں شدید رد عمل سامنے آیا۔ اٹلی اور فرانس میں بندرگاہ پر محنت کش علامتی ہرٹال پر چلے گئے۔ اسپین، یونان، فرانس اورآسٹریلیا میں زبردست مظاہرے ہوئے۔

قافلہ صمود کے گرفتار کارکنوں پر اسرائیلی تشدد

دوران حراست گرفتار کارکنوں خاص طور سے سالارِ قافلہ گریٹا تھنبرگ (Greta Thunberg) کو تشدد و بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔ملائی کارکن حزوینی حلمی (Hazwani Helmi) اور امریکی ونڈفیلڈ بیور (Windfield Beaver) نے رائٹرز کو بتایا کہ ہم سے جانوروں کی طرح سلوک کیا گیا۔ گریٹا تھنبرگ کو زبردستی اسرائیلی جھنڈا اوڑھایا گیا۔اطالوی کونسلر پاؤلو رومانو کا کہنا تھا کہ ہمیں زمین پر گٹھنوں کے بل بٹھایا گیا، ذرا سا ہلنے پر مارپڑتی، اسرائیلی محافظ گالیاں دیتے اور نفسیاتی تشدد کرتے تھے۔اسرائیل نے ان الزامات کو “مکمل جھوٹ” قرار دیا۔ اب تک پاکستان امریکہ، برطانیہ، اٹلی، اردن، کوئت، لیبیا، الجزائر، موریطانیہ، ملائیشیا، بحرین، مراکش، سوئٹزرلینڈ، تیونس اور ترکیہ کے 137 کارکن رہا ہوچکے ہیں۔ جن میں جماعت اسلامی کے رہنما مشتاق احمدخان بھی شامل ہیں،

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا

تشدد اور گرفتاریوں کے باوجود اٹلی سے 100 نئے کارکنان،جن میں صحافی اور طبی عملہ شامل ہیں،3 اکتوبر کو کشتیِ ضمیر (Conscience Boat) پر سوار ہو کر غزہ کی سمت روانہ ہوگئے۔یعنی ظلم نے راستے بند کر دیے،لیکن ضمیر والے اب بھی غزہ تک رسائی کے لیے پرعزم ہیں۔

بائیکاٹ کی لہریں

ہالینڈ کے سب سے بڑے پنشن فنڈ ABP نے امریکی کمپنی Caterpillar میں اپنی 40 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری ختم کر دی کیونکہ اسرائیلی فوج انہی بلڈوزروں سے غزہ اور غربِ اردن میں گھروں کو مسمار کر رہی ہے۔ کیٹر پلر میں ABP کی سرمایہ کاری کا حجم 40 کروڑ ڈالر کے قریب ہے

افسوسناک

یہودی مذہبی تہوار یوم کپر (توبہ و استغار) پر مانچسٹر کایہودی معبد (Synagogue) نشانہ بنا۔ جس میں دو افراد ہلاک ہوئے۔مبینہ حملہ آور جہاد الشامی نامی شخص پولیس کی فائرنگ میں مارا گیا۔یہ عمل قابلِ مذمت  اور اسرائیلی درندگی سے نفرت کے باوجودکسی بھی عبادت گاہ  پر حملہ انسانیت کے منافی ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 10 اکتوبر 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 10 اکتوبر 2025

روزنامہ امت کراچی 10 اکتوبر 2025

ہفت روزہ رہبر سری نگر 12 اکتوبر 2025


 

 

 

 

 

No comments:

Post a Comment