جنگ بندی کے باوجود فائرنگ
اور بھوک کا محاصرہ
"خیالات کی
پولیس" — اظہارِ رائے کی نئی جیل
غزہ: جنگ بندی کے باوجود فائرنگ
فائر بندی کے آغاز پر ہی غزہ
شہر کے الشجاعیہ محلے میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے پانچ فلسطینی جاں بحق ہوگئے۔
دوسرے دن اسرائیلی فائرنگ نے مزید چار فلسطینیوں کہ جان لے لی اور چار دن بعد 17
اکتوبر کو مشرقی غزہ کے علاقے الزیتون میں ایک گاڑی پر ڈرون حملہ ہوا جس میں ایک
ہی خاندان کے 7 ننھے بچوں اور دو خواتین سمیت 11 افراد جاں بحق ہوگئے۔ وسطی غزہ کے
شہر البریج پر 19 اکتوبر کو بمباری کیساتھ ٹینکوں سے شیلینگ کی گئی جس میں چالیس
فلسطینی جاں بحق ہوئے۔ اسی دن جوابی کاروائی میں مزاحمت کاروں نے میجر سمیت 2
اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک اور تین کو زخمی کردیا۔ غزہ میں جنگ بندی کے بعد 13 سے 19اکتوبر
تک اسرائیل نے فائربندی کی 80 خلاف ورزیاں کی ہیں یعنی 13 سے زیادہ حملے اور فائرنگ روزانہ۔ان حملوں میں 97 فلسطینی جاں بحق
اور 230 شدید زخمی ہوئے۔
اقوام
متحدہ کی نمائندہ فرانسسکا البانیز (Francesca Albanese) نے اس
صورتحال کو امن کے بجائے دھوکا قرار دیا۔ انھوں نے X (سابق ٹوئٹر) پر لکھا کہ اسرائیل کے نزدیک جنگ بندی (Ceasefire)کا
مطلب ہےتم بند کرو، میں فائر کروں ۔البانیز صاحبہ نے کہا کہ جب تک قبضہ، نسل پرستی
(Apartheid) اور
نسل کشی ختم نہیں ہوجاتی، بائیکاٹ، پابندیاں اور سرمایہ نکالنے کی مہم جاری رہنی
چاہیے۔
معاشی محاصرہ
فائربندی کے بعد بھی اسرائیل
بھوک کو بطور ہتھیاراستعمال کررہا ہے۔ ماہی گیری اہل غزہ کیلئے ٰایک بڑا ذریعہ
معاش ہے جسے پابندیاں لگا کر ختم کردیاگیااور اسرائیلی بحریہ فائرنگ کے ذریعے اس پر عملدرآمد کر
رہی ہے۔ غرب اردن میں بھی معاشی قتل عام جاری ہے۔ اسرائیلی فوج نے رام اللہ
کے گاوں کوبر کو اسوقت نشانہ بنایا جب فلسطینی کسان اپنی زمینوں پر زیتون کی فصل
کاٹ رہے تھے۔ ایسی ہی واردات الخلیل (ہیبرون) کے گاوں ریحیا میں ہوئی جہاں کٹائی
روکنے کیلئے کسانوں پر اندھادھند فائرنگ کی گئی اور گولی لگنے سے 11 سالہ محمد
بہجت الحلاج جاں بحق ہوگیا۔
کامیاب بائیکاٹ مہم، اسرائیلی
"شوق" ختم ہوگیا
جہاں اسرائیل، غزہ اور غرب
اردن میں بمباری کیساتھ فلسطیینیوں کا معاشی قتل عام کررہا ہے وہیں دنیا بھر کے
سلیم الفطرت و انصاف پسند طبقات نے نسل کشی کی پشتیبانی کرنے والے کاروبار کےخلاف
بائیکاٹ کی مہم تیز کردی ہے۔امریکہ
کے مقبول کوشر (یہودی حلال) ریسٹورنٹ "شوق" (Shouk) نے دار الحکومت واشنگٹن ڈی سی اور اس کے نواحی علاقوں میں اپنی
تمام شاخیں بند کر دی ہیں۔ "شوق" عبرانی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے بازار، جیسے عربی
میں "سوق"۔ یہ ریسٹورنٹ کوشر اور مشرق وسطیٰ کے کھانوں کے لیے مشہور
تھا، اس کا "شوق برگر" فوڈ نیٹ ورک اور واشنگٹن پوسٹ کے حالیہ جائزوں
میں بہترین قرارپایا۔ریستوران مالکان کا کہنا ہے کہ بائیکاٹ، ہراسانی، اور آمدنی
میں کمی کی بنا پر کاروبار جاری رکھنا ممکن نہیں ۔
امن معاہدے کا مستقبل: غیر مسلح کرنے کی ضد
امن
معاہدے کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل کا اصرار ہے کہ
مزاحمت کار غیر مسلح ہوں، مگر فلسطینی حریت پسند اسے غلامی کی پیشگی شرط سمجھتے
ہیں۔ صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر مزاحمت کار غیر مسلح نہ ہوئے تو امریکہ “قوت
کے استعمال” سے گریز نہیں کرے گا۔ لاشوں کی واپسی پر اسرائیل
کے اصرار نے معاملے کو مزید نازک کردیا یے۔مزاحمت کاروں کا کہنا ہے کہ جو لاشیں
ملیں وہ اسرائیل کے حوالے کردی گئیں۔باقی باقیات ملبے تلے دبی ہیں جنھیں نکالنے کیلئے بلڈوزر اور
دوسرے آلات میسر نہیں اور اس کام میں وقت لگے گا۔امریکی ٹیلی ویژن CBSکو انٹرویو میں صدر
ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیووٹکاف نے بھی کہا کہ فلسطینی مزاحمت کار قیدیوں کی لاشیں ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے
ہیں، اور اسے تاخیری حربہ قرار دینا درست نہں۔
لیکن اسرائیل نے اس تاخیر کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے مصر کی سرحد پر
رفح پھاٹک بند کردیا ۔
تعمیر نو اور پانی کی تلاش
غیر ملکی مدد کا انتظار کئے
بغیر غزہ کے بلدیاتی اداروں نے تعمیر نو کا کام شروع کردیا ہے اور پہلے مرحلے میں
سڑکیں اور گلیوں سے ملبہ اٹھایا جارہاہے تاکہ امدادی سامان لے کر آنے والی گاڑیوں
کی آمدورفت آسان ہوجائے۔ غزہ میں اسوقت سب سے مشکل
پانی کا حصول ہے کہ اسرائیلیوں نے سمندری پانی کو میٹھا بنانے کے پلانٹ تباہ اور
کنویں بند کردئے ہیں۔ امدادی سامان کیساتھ ساتھ آنے والے پانی کے ٹینکروں پر لوگوں
کا دارومداد ہے۔ خواتین اور چھوٹے چھوٹے
بچے ہاتھوں میں بالٹیاں لئے پانی کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہیں۔
احتساب کی بازگشت: یورپ اور عالمی عدالت کی کارروائیاں
عالمی سطح پر اسرائیلی قیادت کے احتساب کا مطالبہ جاری ہے۔ گزشتہ
ہفتے ریڈیو کادی ناثیر (Cadena Ser) سے گفتگو کرتے ہوئے ہسپانوی وزیراعظم پیدرو سانچیز (Pedro
Sánchez)
نے
کہا کہ امن کا مطلب معافی نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں نسل کشی کے
ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے ، چاہے وہ بندوق تھامے ہوں یا پسِ پردہ جنگی مشین
کے سہولت کار۔
دوسری طرف عالمی فوجداری
عدالت (ICC)نے
اسرائیلی قیادت کے پروانہ گرفتاری منسوخ کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ وارنٹ کی
تنسیخ کیلئے عدالت پر امریکہ کا شدید دباو تھا لیکن 17 اکتوبر کو عدالت نے وزیراعظم نیتن یاہو اور سابق وزیرِ
دفاع گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم کے وارنٹس برقرار رکھنے کا حکم جاری کردیا۔ اس سے
اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی عدالت امریکی دباؤ کے سامنے بھی قانون کی بالادستی کے
اصول پر سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔دیکھنا ہے کہ عدالت اسرائیل کے دائرۂ اختیار
کے چیلنج پر کب اور کیا فیصلہ سناتی ہے۔
امریکی عدالت کا فیصلہ: آئین قومیت سے بالاتر ہے
اسی
دوران امریکہ میں وفاقی جج ولیم ینگ (William Young) نے ایک تاریخی
فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ میں قیام پزیر غیرملکیوں کو بھی اظہارِ رائے کی وہی
آزادی حاصل ہے جو امریکی شہریوں کو ہے۔جج ینگ کے مطابق حکومت نے ایسے غیر ملکی طلبہ
و اساتذہ کو نشانہ بنایا جو غزہ جنگ کے خلاف مظاہروں میں شریک ہوئے تھے۔فاضل جج نے خبردار کیا کہ “نظریاتی جلاوطنی
(Ideological Deportation)” آزادیِ اظہار کی روح کے منافی ہے۔کیا
امریکی سپریم کورٹ، جس میں صدر ٹرمپ کے نظریاتی حلیف ججوں کی اکثریت ہے، اس فیصلے
کو برقرار رکھے گی؟
آزادیِ اظہار رائے، خیالات کی پولیس — مغرب کا نیا چہرہ
لندن میں آزادی اظہار کا نیا
پہلو سامنے آیا جب اسرائیل کے خلاف نعرہ لگانے والے طالب علم سموئیل ولیمز کو
جامعہ آکسفورڈ نے معطل اور پولیس نے گرفتار کرلیا۔ اسی دوران جرمنی میں آزادیِ اظہار پر ایک سیاہ باب رقم
ہوا۔معروف مصنف اور سابق
رکنِ پارلیمان یورگن ٹوڈن ہوفر
(Jürgen Todenhöfer) کو ایک ٹویٹ
پیغام بھیجنے کے 'جرم' میں گرفتارکرلیاگیا۔جناب یورگن نے ٹویٹ میں لکھا تھا کہ 'مسٹر نیتن یاہو! کیا آپ
کا ضمیر کبھی احتجاج نہیں کرتا جب آپ فلسطینیوں کے ساتھ وہی کچھ کرتے ہیں جو منحوس
نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا؟'
پولیس
نے کئی ہفتے ان کے گھر کی نگرانی کی، پھر چھاپہ مار کر فون اور کمپیوٹر ضبط کر
لیے۔عائد فردجرم کے مطابق انہوں نے Holocaust کے
مفہوم کو ہلکا یا trivialize کیا۔حالانکہ انہوں نے اپنی کتاب میں واضح
طور پر لکھا تھا کہ 'ہولوکاسٹ جرمن تاریخ کا سب سے بڑا جرم تھا، اور رہے گا۔'
گرفتاری کے وقت پولیس کو بیان دیتے ہوئے یورگن ٹوڈن ہوفر نے کہا 'اگر فلسطین میں
امن اور آزادی کے لیے بولنے کی سزا قید ہے، تو یہ میرے لیے باعثِ عزت ہوگی۔'
افکاروخیالات
کی اس جبری تطہیر کیلئے مغرب نے "Thought Policing"
کی پھبتی وضع کی ہے۔ اس حوالے سے افغانستان، ایران، شمالی کوریا اور چین سخت تنقید
کا نشانہ بنے ہوئے ہیں لیکن سوچ اور اظہار خیال پر پابندی اب مغربی جمہوریتوں کے
ماتھے کا جھومر بن چکی ے۔
غزہ
کی جنگ بظاہر رک چکی ہے، مگر انصاف اور انسانی وقار کی جنگ ابھی جاری ہے۔ اسرائیلی
درندگی کے بعد اب عالمی ضمیر کا امتحان شروع ہوا ہے۔کیا ہماری دنیا، قانون،
انسانیت اور مساوات کے اصولوں پر کھڑی رہ سکے گی یا پھر طاقت کے سامنے خاموشی
اختیار کر لے گی؟
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی، 24 اکتوبر 2025
ہفت روزہ دعوت دہلی، 24 اکتوبر 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 26 اکتوبر 2025

No comments:
Post a Comment