وزیراعظم شہباز شریف کی صدر ٹرمپ سے
ملاقات
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع
پر پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف اور فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کو عالمی میڈیا نے غیر معمولی اہمیت دی۔ دلچسپ
پہلو یہ تھا کہ پاکستانی وفد کو صدر ٹرمپ کے دفتر تک پہنچنے میں معمولی تاخیر ہوئی
اور میڈیا پر صدر ٹرمپ کو یہ کہتے سنا گیا"عظیم رہنما
وزیراعظم پاکستان اور فیلڈ مارشل عاصم منیر آرہے ہیں، لگتا ہے ہمارے بیضوی آفس کی
حسن آفرینی نے انہیں روک لیا ہے۔" ماضی
میں امریکی صدور کے انتظار میں تیسری دنیا کے رہنماؤں کو کھڑا رہنا پڑتا تھا، مگر
یہاں منظر الٹ تھا۔
ملاقات کا ایجنڈا—معیشت سے کرپٹو کرنسی تک
اس
مختصر ملاقات کا کوئی باضابطہ اعلامیہ جاری نہیں ہوا۔ تاہم شہباز شریف نے پاکستانی
صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ملاقات دلچسپ اور حوصلہ افزا تھی۔ ان کے مطابق بات
چیت معیشت، انسداد دہشت گردی، معدنیات، مصنوعی ذہانت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور
مجازی سکے (کرپٹو کرنسی) جیسے موضوعات پر ہوئی۔ وزیراعظم نے کہا کہ معدنیات اور
تجارتی معاہدے باہمی مفاد کے تحت طے پائیں گے۔ بظاہر یہ ایک روایتی سفارتی نشست
تھی، مگر اس کے پس منظر اور مضمرات کہیں زیادہ اہم ہیں۔
سیاسی و عسکری قیادت کا ایک صفحے پر ہونا
ملاقات
کا سب سے منفرد پہلو یہ تھا کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے مشترکہ طور پر
صدر ٹرمپ سے ملاقات کی۔ یہ منظر اس امر کی علامت ہے کہ خارجہ پالیسی کے حساس
معاملات پر سول اور ملٹری ہم آہنگ ہیں۔ ماضی میں یہ یکجہتی کم ہی دکھائی دی۔ تاہم
ناقدین اسے پاکستان کے جمہوری ڈھانچے میں فوجی کردار کے بڑھتے ہوئے اثر کی علامت
بھی سمجھتے ہیں۔
ٹرمپ کا امن بیانیہ اور پاکستان کی آزمائش
یہ
ملاقات ایسے وقت ہوئی جب ٹرمپ خود کو مشرقِ وسطیٰ میں "امن کے پیامبر"
کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کی شمولیت انہیں ایک سفارتی سہارا
دے سکتی ہے، جبکہ پاکستان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ عالمی منظرنامے پر اپنی حیثیت
منوائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کشمیر اور فلسطین جیسے حساس مسائل پر اپنی
ترجیحات مؤثر انداز میں سامنے رکھ سکا؟ ٹرمپ کے اسرائیل نواز جھکاؤ کے باعث یہ
امتحان مزید مشکل ہو جاتا ہے۔
عمران خان اور شہباز شریف کا تقابلی جائزہ
پاکستانی
تاریخ میں امریکی صدور سے ملاقاتیں ہمیشہ نمایاں اہمیت کی حامل رہی ہیں۔ عمران خان
اور ٹرمپ کی جولائی 2019 کی ملاقات آج بھی یادگار ہے۔ خان ایک مقبول عوامی لیڈر کے
طور پر وائٹ ہاؤس گئے تھے اور اپنی بے ساختگی اور عوامی انداز سے امریکی میڈیا میں
بھی چھا گئے۔ اس کے برعکس شہباز شریف کا انداز زیادہ روایتی اور بیوروکریٹک تھا۔
وہ ایک منتظم اور "پالیسی امپلیمنٹر" کے طور پر سامنے آئے۔
ایک
اور فرق یہ تھا کہ خان پارلیمانی اکثریت اور عوامی مینڈیٹ کے ساتھ واشنگٹن پہنچے
تھے اور فوجی قیادت پس منظر میں رہی۔ اس کے برعکس شہباز شریف کے ساتھ آرمی چیف
نمایاں طور پر شریک تھے۔ اس نے "ڈبل لیڈرشپ" کا تاثر دیا جو کچھ کے
نزدیک مضبوط سفارتی ٹیم کی علامت ہے، مگر دوسروں کے خیال میں اندازیہ جمہوری خلا
کی نشاندہی کرتا ہے۔
تصویر اور حقیقت—پاکستان کی خارجہ پالیسی کا چیلنج
ٹرمپ
کا رویہ بھی مختلف رہا۔ وہ عمران خان کو "گریٹ لیڈر" کہہ کر عوامی
مقبولیت کو اجاگر کرتے تھے، جبکہ شہباز اور عاصم منیر کے ساتھ ان کا لہجہ زیادہ
محتاط اور "ڈیل میکنگ" والا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ آج پاکستان
کو زیادہ اس کی افادیت اور سلامتی کردار کے زاویے سے دیکھتے ہیں، نہ کہ کرشماتی
قیادت کے تناظر میں۔
یہ فرق
اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ پاکستان کی امریکہ سے تعلقات سازی اب زیادہ ادارہ
جاتی اور محتاط رخ اختیار کر رہی ہے۔ تاہم سوال برقرار ہے کہ کیا پاکستان اس موقع
کو اپنے قومی مفادات کے لیے حقیقی نتائج میں ڈھال سکے گا یا یہ ملاقات محض ایک خیر
سگالی تصویر تک محدود رہ جائے گی۔یہ ملاقات نہ تو محض رسمی تھی اور نہ ہی تاریخ
ساز۔ اصل امتحان یہ ہے کہ پاکستان اپنی قومی ترجیحات کو کس جرأت اور حکمت کے ساتھ
عملی شکل دیتا ہے۔ تصویر اور حقیقت کے درمیان کا فاصلہ ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی
کی اصل آزمائش ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 3 اکتوبر 2025
No comments:
Post a Comment