ٹرمپ کا اسرائیلی
پارلیمان اور شرم الشیخ میں خطاب
امن کی پیشکش یا یکطرفہ
بیانیہ؟
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 13 اکتوبر کو اسرائیلی
کنیسہ (پارلیمان) سے اپنے خطاب میں غزہ کی جنگ کو ’’اسرائیل کی تاریخی فتح‘‘ قرار
دیا اور کھلے لفظوں میں اعتراف کیا کہ غزہ پر حملوں کے دوران امریکہ نے اسرائیل کو
ہر طرح کا اسلحہ فراہم کیا۔ یہ بیان دراصل اس حقیقت کا اعلان ہے کہ واشنگٹن نہ صرف
سیاسی بلکہ عسکری سطح پر بھی اس جنگ کا براہِ راست فریق رہا ہے۔امریکی صدر نے بڑے
فخر سے کہا کہ 'ہم نے اسرائیل کو وہ سب کچھ دیا جو اسے چاہیے تھا'۔حتی کہ بے تکلفی
میں یہ بھی کہہ گئے کہ 'بی بی (نیتن یاہو) مجھ سے
اسلحے کی فرمائشیں کرتے تھے۔ ایسے ایسے ہتھیاروں کی، جن کے بارے میں خود مجھے بھی
علم نہیں تھا'۔یہ جملہ غزہ کے قتلِ عام پر ایک غیر اخلاقی تفاخر کے مترادف
تھا۔ اس بیان سے ان خدشات کو مزید تقویت ملی کہ غزہ میں اسرائیل اور اسکے سہولت
کاروں نےانسانی حقوق، جنگی قوانین اور اخلاقی حدود کی دھجیاں بکھیر دیں۔
جنگ کا اختتام یا اسرائیل کی فتح؟
صدر
ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہاکہ
یہ
صرف ایک جنگ کا اختتام نہیں، بلکہ دہشت اور موت کے دور کا خاتمہ ہے۔ان کے الفاظ نے
اس تاثر کو تقویت دی کہ امریکہ اس خونریزی کو انسانی و اخلاقی بحران کے بجائےاسرائیل
کی کامیابی کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی ٹرمپ کو
"تاریخی دوست" قرار دیا اور ان کے امن منصوبے کو اسرائیل کی فتح سے
تعبیر کیا۔
مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ
امن
منصوبے کے تحت صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر مزاحمت کاروں کو غیر مسلح کرنے کا مطالبہ
دہرایا۔یہ شرط فلسطینیوں کیلئے کسی طور قابل قبول نہیں،کیونکہ اس کا مطلب اپنی بقا
سے دستبرداری ہے۔ جب تک آزادوخومختار ریاست کا قیام اور خودمختاری یقینی نہیں
بنائی جاتی، فلسطینی، قبضہ کردی کیخلاف مسلح مزاحمت کواپنا ناقابل تنسیخ دفاعی حق
سمجھتے ہیں۔ اس نکتے پر اختلاف نے امن منصوبے کی ساکھ کو متنازع بنا دیا ہے۔
امن منصوبے پر شکوک و شبہات
خطاب
کے دوران اسرائیلی پارلیمان میں بھی غیر معمولی مناظر دیکھنے میں آئے۔ حزبِ اختلاف
سے تعلق رکھنے والے ہداس (Hadash)پارٹی کے دو ارکانِ پارلیمان نے
"Recognize Palestine" کے پلے کارڈ اٹھا کر احتجاج کیا، جبکہ حکمراں لیکڈ
پارٹی کے ایک رکن نے صدر ٹرمپ کی تقریر کو ’’فتح کا فریب‘‘
اور ’’جھوٹی نمائش‘‘ قرار دے کر اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ یہ منظر اس امر کی علامت
تھا کہ خود اسرائیل کے اندر بھی اس جنگ کے اخلاقی اور سیاسی جواز پر اختلافات گہرے
ہو چکے ہیں۔
امن یا سیاسی مفادات؟
صدر
ٹرمپ کا خطاب بظاہر امن کی نوید تھا، لیکن اس میں اسرائیل کی عسکری کامیابی کو
اجاگر کرنا، فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنے کی کوشش اور امریکی اسلحہ کی فراہمی کے
اعتراف جیسے عوامل اس منصوبے کو ایک "امن معاہدے" سے زیادہ ایک
"سیاسی فتح" کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جب تک تمام فریقوں کے تحفظات کو
سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، امن کا خواب صرف تقریروں تک محدود رہے گا۔ صدر ٹرمپ
کا خطاب اسرائیل میں تو ’’فتح کا جشن‘‘ بن
گیا لیکن کیا دنیا
اس ’’امن‘‘ کو تسلیم کر لے گی جس کی قیمت ایک پوری قوم کے وجود سے وصول کی
جا رہی ہے؟ یا پھر تاریخ اسے ’’فتح کا
فریب‘‘ قرار دے گی؟
شرم
الشیخ کانفرنس: امن کی پیشکش یا سیاسی دباؤ؟
اسرائیلی پارلیمان
سے خطاب کے بعد صدر ٹرمپ، مصر کے ساحلی مقام شرم الشیخ پہنچے، جہاں انہوں نے غزہ
امن منصوبے کے 20 نکاتی معاہدے پر قطر، مصر اور ترکیہ کے سربراہان کے ساتھ دستخط
کیے۔ دلچسپ بات کہ تنازع کے دونوں فریق یعنی اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی
گروہ دستخط کنندگان میں شامل نہیں ۔ اس
تقریب میں مشرق وسطیٰ کے قائدین کے علاوہ فرانس، اٹلی، برطانیہ اور جرمنی سمیت 30
ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔
صدر ٹرمپ نے یہاں
خطے میں "نئے آغاز" کا عزم ظاہر کیا، مگر ان کے الفاظ اور لہجے سے وہ
ایک غیر جانبدار ثالث کے بجائے اسرائیلی مؤقف کے ترجمان محسوس ہوئے۔ انہوں نے
فلسطینیوں کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے درمیان موجود "نفرت کی خبیث قوتوں"
کو نکال باہر کریں اور اسرائیل کو گرانے کے بجائے اپنی قوم کی تعمیر پر توجہ دیں۔ گویا
صدر ٹرمپ فلسطینی جدوجہد کو داخلی انتشار اور نفرت سے تعبیر کرتے ہیں، جو اسرائیلی
بیانیے کا عکاس ہے۔
صدر ٹرمپ نے یہ
بھی کہاکہ آپ جیت چکے ہیں اور اب آپ تعمیر کر سکتے ہیں۔ اس
جملے سے نہ صرف اسرائیل کے فاتح اور فلسطینیوں کے شکست خوردہ ہونے کا تاثر ابھرا
بلکہ صدر ٹرمپ کے خیال میں مزاحمت کاروں
کی شکست اسرائیل کیساتھ امریکہ کے عرب دوستوں کی بھی کامیابی ہے۔ابراہیم معاہدے کو
"اچھا کاروبار" قرار دینا اور اس پر قائم رہنے والے ممالک کی
"وفاداری" کی تعریف کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی
ترجیحات میں سیاسی اور معاشی مفادات کو انسانی حقوق پر فوقیت حاصل ہے۔
آخر میں صدر ٹرمپ
نے کہا کہ قلعےاور دیواریں کھڑی کرنے کے بجائے ایسی بنیاد ڈالی جائے جو تجارت
اور رابطے کو قریب لائے۔بظاہر
یہ ایک خوش آئند تصور ہے، مگر جب ایک فریق کو فاتح قرار دیتے ہوئے دوسرے کو غیر
مسلح کرنے کی شرط رکھی جائے، تو یہ عدم توازن امن کی بنیاد نہیں بن سکتا۔
شرم الشیخ کی
تقریر، اسرائیلی پارلیمان سے خطاب کے تسلسل میں، صدر ٹرمپ کے کردار کو ثالث کے
بجائے فریق کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اس تناظر میں، فلسطینیوں کونظرانداز کرنا امن
کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 17 اکتوبر 2025
No comments:
Post a Comment