Wednesday, October 8, 2025

 

پون نصف صدی کی 'وحشت'  ہے، دوچار برس کی بات نہیں

طوفان الاقصیٰ کے دو سال مکمل ہوگئے۔ امریکہ اور مغربی دنیا غزہ میں قید اسرائیلی جنگی قیدیوں کا ماتم کررہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے گلوگیر لہجے میں کہا کہ گزشتہ دو سال میں ایک دن بھی وہ قیامت ان کے ذہن سے محو نہیں ہوئی جو 7 اکتوبر 2023 کو معصوم اسرائیلیوں پر ٹوٹی۔اب صدر ٹرمپ کو یہ کون سمجھائے کہ دوسال پہلے کا واقعہ ’’قیامت‘‘نہیں بلکہ جیل توڑنے کی کارروائی تھی۔ ورنہ لاکھوں فلسطینی 1948 سے اپنے ہی وطن میں غریب الوطنی کا عذاب اور قیامت بھگت رہے ہیں۔متکبرین شاید نہ سمجھ سکیں، مگر سلیم الفطرت قارئین کے لیے اس المیے کے تاریخی پس منظر پر چند سطور۔

بحرِ روم کے مشرقی ساحل پر 41 کلومیٹر طویل یہ پٹی جنوب میں 12 اور شمال میں 6 کلومیٹر چوڑی ہے۔ قطاع غزہ (Gaza Strip) کے 365 مربع کلومیٹر رقبے پر 24 لاکھ سے زائد انسان بستے ہیں،  یعنی فی مربع کلومیٹر 6500 افراد۔یہ ننھا سا قطعۂ ارض کبھی عثمانی خلافت کا حصہ تھا جسے 1918 میں برطانیہ نے اپنی نوآبادی بنالیااور29 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ نے برطانوی قبضے کو تسلیم کر کے فلسطین کی تقسیم کا فیصلہ کیا۔ اس ’’تقسیم‘‘ میں وہی انصاف کیا گیا جو تاجِ برطانیہ کی روایت ہے: آبادی میں 32 فیصد یہودیوں کو 56 فیصد علاقہ دے دیا گیا، جبکہ فلسطینیوں کو صرف 42 فیصد زمین ملی۔حضرت عیسیٰؑ کے مقام پیدائش بیت اللحم سمیت بیت المقدس کو Corpus Separatum یعنی مشترکہ اثاثہ قرار دیاگیا۔اسرائیلی علاقے میں یہودی باشندوں کی تعداد پانچ لاکھ اور عربوں کی تعداد 4لاکھ 38ہزار تھی جبکہ فلسطین میں 10 ہزار یہودی اور 8 لاکھ 18 ہزار عرب آباد تھے۔

قبضے کا آغاز اور نَبکۃ الکبریٰ

تقسیم کا اعلان ہوتے ہی مسلح اسرائیلیوں نے عرب علاقوں پر حملے شروع کردئے۔ برطانوی فوج جو امن کی ذمہ دار تھی، تماشائی بنی رہی  بلکہ جاتے جاتے اپنا اسلحہ اسرائیلیوں کے حوالے کردیا۔ برطانوی فوج کی واپسی سے ایک ماہ پہلے 5 اپریل 1948 کو اسرائیلی فوج بیت المقدس میں داخل ہوگئی، حالانکہ اقوام متحدہ کے مطابق وہاں کسی ہتھیار کی اجازت نہ تھی۔ نہتے فلسطینیوں کی مزاحمت کچل دی گئی۔قتل عام میں مفتی اعظم کے بھتیجے عبدالقادر حسینی سمیت سینکڑوں فلسطینی شہید ہوئے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد میں صراحت کے ساتھ لکھا تھا کہ تقسیم فلسطین عارضی ہے اور اسے ریاست کی بنیاد نہیں بنایا جائیگا لیکن 14 مئی 1948 کو ڈیوڈ بن گوریان نے ریاستِ اسرائیل (Eretz Yisrael) کے قیام کا اعلان کردیا، جسے امریکہ اور روس نے فوراً تسلیم کرلیا۔ اسوقت ہیری ٹرومن امریکہ کے صدر اور مشہور کمیونست رہنما جوزف اسٹالن روس کے سربراہ تھے۔

اسرائیل کے قیام کیساتھ ہی فوج نے فلسطینی بستیوں کو گھیر لیا اور 7لاکھ انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح غزہ کی طرف دھکیل دیا گیا۔ ساحلی پٹی پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کرکے سمندر تک رسائی کو ناممکن بنادیا اورکھلی چھت (Open Air) کے اس جیل خانے میں فلسطینی ٹھونس دیے گئے۔فلسطینیوں کا جبری اخراج 15 مئی 1948کو مکمل ہوا جسے فلسطینی یوم النکبہ یا بڑی تباہی کا دن کہتے ہیں۔

دیوارِ نسل پرستی اور اوسلو کا فریب

جون 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے غزہ اور صحرائے سینائی پر قبضہ کرلیا۔امن بات چیت کے دوران 1993 میں معاہدہ اوسلو کے تحت غزہ کا انتظام فلسطینی مقتدرہ (PA) کے سپرد کیا گیا، لیکن قبضہ برقرار رہا۔گویا دوسال قبل شروع ہونے والی پُرتشدد کاروائی، اچانک پھوٹ پڑنے والی خونریزی نہیں بلکہ 1948 سے اہل غزہ اپنے لہو میں غسل کررہے ہیں۔حالیہ کشیدگی کا آغاز  گزشتہ سال دسمبر میں قائم ہونے والی  متعصب ترین حکومت سے ہوا۔اس حکومت کو کسی اور نے نہیں خود اسرائیلی سراغرساں ادارے موساد کے سابق سربراہ تامر پاردو نے نسل پرست یا apartheidریاست قراردیا (حوالہ ٹائمز آف اسرائیل)۔ اس سے پہلے  اسرائیلی کالونیوں  اور  فلسطینی آبادی کے درمیان  کنکریٹ کی  بلندوبالا دیواار کو امریکہ کے سابق صدر  انجہانی جمی کارٹر apartheid wall  کا نام دے چکے ہیں(ملاحظہ ہو کارٹر صاحب کی  کتاب Palestine: Peace not Apartheid)

القدس اور الوَضع القائم کا چیلنج

عثمانی دور سے بیت المقدس مغربی یا یہودی کوارٹر اور القدس شریف الشرقی (East Jerusalem) المعروف مسلم کوارٹرمیں تقسیم ہے۔ مسجد اقصٰی، اس سے متصل دالان اور گنبدِ صخرا مشرقی حصے میں ہے۔ اسرائیلی  قبضے کے بعد اقوام متحدہ کی نگرانی میں جو معاہدہ ہوا اسکے تحت بیت المقدس کی تقسیم برقرار رہنی ہے۔ یعنی نہ مسلمان بلااجازت مغربی حصے جائینگے اور نہ غیر مسلم مشرقی جانب۔ یہ دراصل مشہور زمانہ الوضع الزاہن یا Status Quo Lawکا تسلسل تھا جو 1757میں عثمانیوں نے منظور کیا تھا۔ نیتتن یاہو انتظامیہ کے وزیراندرونی سلامتی اتامر بن گوئر اور وزیرخزانہ اس قانون کو غیر منصفانہ  قرار دیتے ہیں۔ بن گوئر نے صاف صاف کہا کہ  مسلمانوں کیلئے تقدیس کے اعتبار سے مکہ اور مدینہ کے بعد مسجد اقصیٰ تیسرے نمبر پر ہے جبکہ ہر ہاہبیت (Har haBayit) المعروف Temple Mount ہم یہودیوں کا مقدس ترین مقام ہے۔ وزیر اندرونی سلامتی خود ایک سے زیادہ بار فوج کی نگرانی میں مسجد اقصیٰ تک آچکے ہیں۔جب مسٹر گوئر کے دالانِ  مسجد اقصیٰ میں دندنانے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اعتراض اٹھا تو  اسرائیل کے مستقل نمائندے جیلاد اردن  صاحب نے فرمایا کہ '1967 میں Status Quoمعاہدہ  جاری رکھنے پر اسرائیل کی رضامندی عالمی برادری کے غیر منصفانہ دباو کا نتیجہ تھی'۔

طوفان الاقصیٰ — ایک دھماکہ، برسوں کی دباؤ کا نتیجہ

غربِ اردن پر روزانہ چھاپوں اور اہلِ غزہ پر بمباریوں کے ساتھ، سعودی عرب اور اسرائیل کے قریب آتے تعلقات نے فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکا۔ ستمبر 2023 میں اسرائیلی وزیرِ مواصلات کے ریاض میں شاہی مہمان بننے اور وہاں عبادت کرنے کی خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔اسی پس منظر میں 6 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی بمباری کے بعد اہلِ غزہ نے 7 اکتوبر کی صبح ’طوفان الاقصیٰ‘ کا آغاز کیا۔پانچ ہزار سے زائد راکٹ داغے گئے، سرحدی چوکیوں پر قبضہ ہوا، اور کئی فوجی قلعے زیرِ تسلط آگئے۔ کرنل رائے لیوی اور کرنل جاناتھن اسٹائنبرگ سمیت درجنوں اسرائیلی افسر مارے گئے، سینکڑوں قیدی بنے۔اسرائیلی خفیہ ادارے موساد اور شاباک اپنی تمام تر ٹیکنالوجی کے باوجود بے بس ہوگئے۔ فلسطینیوں کی منصوبہ بندی اور جرات نے اسرائیل کی ’’ناقابلِ تسخیر‘‘ ساکھ کو چکناچور کردیا۔

جنگی جنون اور سیاسی استحکام

اس خونریزی سے وزیراعظم نیتن یاہو کی ڈولتی  حکومت کو استحکام نصیب ہوا۔ طوفان الاقصیٰ سے پہلے عدالتی اصلاحات بل کے معاملے پر حزب اختلاف نے سارے اسرائیل کو سر پر اٹھارکھاتھا۔ حتیٰ کہ اسرائیل کے امریکی اور یورپی اتحادی بھی نیتن یاہو کے ان اقدامات کو اسرائیل جمہوریت کیلئے بد شگونی قرار دے رہے تھے، لیکن جنگی جنون میں جمہوریت، آزاد عدلیہ و آزادیِ اظہار رائے کے نعرے تحلیل ہوگئے  اور حزب اختلاف مخالفت ترک کرکے 'ہنگامی کابینہ' کا حصہ بن گئی۔

سعودی اسرائیل رومانس میں کھنڈت

جہاں یہ  کشیدگی اسرائیلی حکومت کیلئے حزب اختلاف کی مزاحمت سے وقتی نجات کا باعث بنی ہے تو سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑگیا۔ حملے کے فوراً بعد اسوقت کے امریکی وزیرخارجہ ٹونی بلینکن نے  سعودی، اور قطری وزرائے خارجہ کو فون کرکے ان سے مزاحمت کاروں  کی مذمت کیلئے کہا لیکن دونوں ملکوں کی وزارت خارجہ نے اس حملے کو  اسرائیلی کاروائیوں کا نتیجہ اورخونریزی کا  ذمہ دار اسرائیل کو ٹھیرایا۔امریکی ٹیلی ویژن بلوم برگ کے الفاظ میں 'چھ اکتوبر سے پہلے ریاض اور تل ابیب  تعلقات کو معمول پر لانے کے  تاریخی معاہدے کے  بہت قریب پہنچ چکے تھے لیکن  فلسطینیوں  نے مشرق وسطیٰ کے ازسرنو تشکیل کے امریکی خواب  کو آگ لگادی'

زندگی اور اسباب زندگی غارت لیکن نا امیدی نام کو نہیں

دو برس کی تباہی اور پون صدی کی محرومی کے بعد بھی اہلِ غزہ کی نگاہیں آزادی کی صبح پر جمی ہوئی ہیں۔کھلی چھت کے نیچے قیامت جھیلنے والوں سے حوصلہ چھیننا ممکن نہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 10 اکتوبر 2025


No comments:

Post a Comment