Tuesday, September 30, 2025

 

اقوام  متحدہ کا اجلاس: غزہ، فلسطین اور عالمی ضمیر کا امتحان

اس ہفتے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں غزہ اور آزاد فلسطینی ریاست موضوعِ سخن بنے رہے، جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے "غزہ امن" کی گردان جاری رہی۔منگل 23 اگست کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکیہ، انڈونیشیا، اردن، مصر اور پاکستان کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے خوشخبری سنائی کہ 'ہم کسی نہ کسی قسم کے امن معاہدے کے قریب ہیں۔'

مغربی کنارے کا مستقبل اور اسرائیلی موقف

اس سے ایک دن قبل صدر کے ایلچی اسٹیو وٹکاف نے اعلان کیا کہ صدر ٹرمپ اسرائیل کو مغربی کنارے کے انضمام (Annexation) کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس اعلان کو فرانس اور سعودی عرب نے سراہتے ہوئے کہا کہ الحاق عالمی برادری کے لیے "سرخ لکیر" ہے جس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے الحاق کی اجازت نہ دینے کے اعلان پر اسرائیلی وزیر خارجہ گدیعون ساعر نے اطالوی اخبار Corriere Della Sera کو انٹرویو میں کہا کہ اسرائیل مقتدرہ فلسطین کے زیرانتظام علاقوں کے انضمام پر غور نہیں کر رہا کیونکہ "ہم فلسطینیوں کو کنٹرول نہیں کرنا چاہتے تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیلی بستیوں میں اسرائیلی قوانین نافذ رہیں گے۔ یعنی عالمی دباو کے نتیجے میں اپنے توسیع پسندانہ روئے سے رجوع کرنے کے بجائے اسرائیل، قبضہ گردی کو قانونی تحفظ دیتے ہوئے Apartheidطرزِ حکمرانی چاہتا ہے جہاں قبضہ گرد اور فلسطینی علاقوں میں دو مختلف قوانین ہوں۔

صدر ٹرمپ کی تقریر – دعوے اور تضاد

اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب میں صدر ٹرمپ نے غزہ امن کے لیے "مخلصانہ خواہشات" کا اظہار کیا لیکن ان کی تقریر کا بڑا حصہ بائیڈن انتظامیہ پر تنقید، اپنی کامیابیوں کے ذکر اور فخریہ شیخی پر مشتمل تھا۔

انھوں نے بہت فخر سے 22 جون کو ہونے والے آپریشن 'مڈنائٹ ہیمر' (Midnight Hammer)کا ذکر کیا جس میں انکے بقول 30 ہزار پونڈ کے 14 بموں نے ایرانی جوہری تنصیات کا نام و نشان مٹادیا۔ امریکی صدر نے دعویٰ کیا کہ ایران کی پوری عسکری قیادت اس آپریشن میں ماردی گئی۔ ایک آزادو خودمختار ملک میں دراندازی بلکہ سرحدوں کی پامالی کے فخریہ ذکر سے امن کیلئے انکےاخلاص کا پتہ چلتا ہے۔ اسی تقریر میں انھوں نے لندن کے رئیس شہر (Mayor)صادق خان پر ذاتی حملے کئے اورصادق خان کو بدترین بلکہ بہت ہی برا میئرقرار دیتے ہوئے اسے برطانیہ کی خراب امیگریشن پالیسی کا شاخسانہ قرادیا۔

نیتن یاہو کا جارحانہ ردعمل

جمعہ26 مارچ کو اسرائیلی وزیراعظم کی جارحانہ تقریر سے امن کی رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی۔ اقوام عالم کے بائیکاٹ کی بناہر ہال کی خالی کرسیوں سے خطاب کرتے ہوئے بن یامین نیتن یاہو نے کہا "(غزہ میں) ہمارا مشن ابھی مکمل نہیں ہوا"۔ آزاد فلسطینی ریاست کو مسترد کرتے ہوئے بولے کہ 7 اکتوبر کے بعد یروشلم سے ایک میل کے فاصلے پر فلسطینیوں کو ریاست دینا ایسا ہے جیسے 11 ستمبر کے بعد نیویارک شہر سے ایک میل کے فاصلے پر القاعدہ کو ریاست دے دی جائے۔اس دوران عمارت کے باہر غزہ نسل کشی کے خلاف زبردست مظاہرہ ہوا جس میں نیویارک کے مقامی یہودیوں نے بھی حصہ کیا۔ اس دوران کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو (Gustave Petro)نے باہر جاکر مظاہرین کیساتھ فری فلسطین کے نعرے لگائے۔ اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ امریکہ نے کولمبین صدر کا ویزہ منسوخ کردیا۔

محمود عباس کا دوغلا موقف

مقتدرہ فلسطین (PA)کے صدر محمود عباس نے اپنے خطاب میں 'عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی' کی پالیسی اختیار کرتے ہوئےاسرائیل کی مذمت کے بعد برائے وزن ِبیت مزاحمت کاروں پر بھی چاند ماری فرمائی۔ارشاد ہوا ہم 7 اکتوبر کو مزاحمت کاروں کی جانب سے کئے گئے اقدامات کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ کارروائیاں جن میں اسرائیلی شہریوں کو نشانہ اور یرغمال بنایا گیا، فلسطینی عوام کی نمائندگی کرتیں ہیں اور نہ ان کی آزادی و خودمختاری کی جائز جدوجہد کی عکاسی کرتی ہیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی دعوت کے باوجود امریکہ نے انہیں ویزا دینے سے انکار کردیا۔

قافلہ صمود – سمندر کی مزاحمت

غزہ کی طرف محو سفر قافلہِ صمود 26 ستمبر کو یونان سے روانہ ہوگیا۔پہلے توقع تھی کہ  50 کشتیوں پر مشتمل یہ قافلہ یکم اکتوبر تک غزہ کے ساحل پر ہوگا۔لیکن یکے بعد دیگرے دو کشتیوں میں تیکنیکی خرابی کی وجہ سے مرمت تک یہ سفر روک دیا گیا ہے۔قافلہ صمود کی حٖفاظت کیلئے اٹلی اور اسپین نے اپنے فوجی جہاز بھیج دئے ہیں۔ ہسپانوی وزیراعظم پیدرو سنچیز نے کہا کہ انکی بحریہ، فلوٹیلا پر موجود شہریوں اور امدادی سامان کی حفاظت کو یقینی بنانے کیساتھ صمود کے خلاف ممکنہ جارحیت کا جواب دیگی۔خبر ہے کہ ترک ڈرون قافلے کو فضائی تحفظ فراہم کررہے ہیں۔

سابق کورکمانڈر کی طرف سے اعترافِ ناکامی

دلچسپ بات کہ جسوقت اسرائیلی وزیراعظم اقوام متحدہ میں اپنی عسکری کامیابی پر دنیا کے سامنے شیخی بگھاررہے تھے عین اسی وقت ابلاغ عامہ کے اسرائیلی ذرایع نے فوج کے سابق کمانڈر غزہ ڈویژن جنرل نمرود الونی (Nimrod Aloni) کے الوداعی خطاب کے کچھ سنسنی خیز اقتباسات شایع کردئے۔ اپنی ریٹائر منٹ پر ہونے والی تقریب میں جنرل صاحب نے کہا کہ وہ ایک ایسی فوج چھوڑ کر جا رہے ہیں جس میں ذمہ داری کے تصور کو پامال کر دیا گیا ہے اور ناکامیوں کو تسلیم کرنے کی جرأت ختم ہو گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا'ہم نے سوچا کہ وقت ہمارے حق میں کام کرے گا اور ہم دشمن کو شمال اور جنوب دونوں محاذوں پر قابو میں رکھ لیں گے، لیکن اندازے غلط ثابت ہوئے'۔جنرل الونی کے بقول اسرائیلی فوج نے اپنی ناکامیوں کو چھپانا سیکھ لیا ہے، بجائے اس کے کہ انہیں تحقیق کے میز پر رکھ کر سبق سیکھا جائے۔ حوالہ ٹائمز آف اسرائیل

دوسروں کے نشیمن پھونکنے والوں کے اپنے گھر بھی  ٹوٹ رہے ہیں

غزہ، غربِ اردن، شام، ایران اور یمن میں اسرائیلی فوج کی درندگی سے جارحیت کا شکار مظلوموں پر جو قیامت ٹوٹی اسکا ذکر کرتے ہوئے قلم کانپتا ہے لیکن اس خون آشامی کے تباہ کن اثرات سے اسرائیلی معاشرہ بھی متاثر ہورہا ہے۔ اسرائیلی محکمہ شماریات کے مطابق اس جنگ نے محفوط (Reservists)فوجیوں کے اہل خانہ پر جو منفی اثرات مرتب کئے وہ کچھ اسطرح ہیں:

  • پچاس فیصد فیصد شریکِ حیات نے کہا کہ ان کے ازدواجی تعلقات کو نقصان پہنچا۔
  • تیس فیصد نے اعتراف کیا کہ یہ نقصان علیحدگی یا طلاق کے بارے میں سوچنے تک لے گیا۔
  • دوسو سے 350 دن تک فوجی خدمات انجام دینے والے ریزروسٹ کے گھروں میں تعلقات متاثر ہونے کی شرح 57 فیصد تک پہنچی۔

بچوں پر اثرات:

اکیس  سال سے کم عمر بچوں کے بارے میں 52 فیصد شریکِ حیات نے بتایا کہ ان کی ذہنی حالت پر منفی اثر پڑا۔ یہ شرح ان اہل خانہ میں 63 فیصد تک جا پہنچی جہاں والد نے 200 سے 250 دن تک خدمات انجام دیں۔

انفرادی احتجاج: ضمیر کی آواز

جرمن شہر Fürth کی ایک پیزا شاپ نے نوٹس آویزاں کیا:

"اسرائیلی شہری خوش آمدید نہیں، جب تک وہ اپنی آنکھیں، کان اور دل کھولنے کا فیصلہ نہ کریں۔"

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 3 اکتوبر 2025

ہفت روزہ دعوت 3 اکتوبر 2025

روزنامہ امت کراچی 3 اکتوبر 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 5 اکتوبر 2025


No comments:

Post a Comment