Tuesday, September 30, 2025

 

غزہ امن منصوبہ: امن یا قبضے کی نئی شکل؟

آج (29 ستمبر) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ امن کا 21 نکاتی منصوبہ جاری کردیا، جس کا مقصد غزہ میں جاری جنگ کو ختم کرنا اور اس علاقے کو "انتہا پسندی و دہشت گردی سے پاک" خطہ بنانا بتایا جا رہا ہے۔ اسرائیلی عبرانی میڈیا نے منصوبے کے اہم نکات شائع کیے ہیں، جو کچھ اسطرح ہیں:

  • غزہ کی پٹی کو غیر فوجی زون بنایا جائے گا تاکہ اسرائیل کو کوئی سیکورٹی خطرہ نہ رہے۔
  • اگر مزاحمت کاروں نے اس منصوبے کو قبول کرلیا تو تمام فوجی کارروائیاں معطل کر دی جائیں گی اور اسرائیلی سپاہ بتدریج پیچھے ہٹ جائیگی۔
  • 72 گھنٹوں کے اندر تمام زندہ اسرائیلی یرغمالیوں اور زخمیوں کو رہا کرنا لازمی ہوگا۔
  • اس کے بعد اسرائیل 250 عمر قید یافتہ فلسطینی قیدیوں اور غزہ کے مزید 1700 نظربندوں کو رہا کرے گا، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔
  • ہر اسرائیلی یرغمالی کی باقیات کے بدلے غزہ کے 15 باشندوں کی باقیات لوٹائی جائیں گی۔
  • وہ ارکانِ مزاحمت جو ہتھیار ڈال کر پُرامن بقائے باہمی پر راضی ہوں گے، انہیں عام معافی دے دی جائے گی۔
  • غزہ سے نکلنے کے خواہشمندوں کو محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا۔
  • غزہ میں فوری انسانی امداد بھیجی جائے گی، بنیادی ڈھانچے کی بحالی، ہسپتالوں، بیکریوں اور ملبے کی صفائی کی جائے گی۔
  • امداد کے داخلے اور تقسیم کی نگرانی اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے کریں گے۔ رفح کراسنگ دونوں سمتوں میں کھولی جائے گی۔
  • غزہ کا کنٹرول ایک فلسطینی ٹیکنوکریٹک کمیٹی کو دیا جائے گا، جس کی نگرانی صدر ٹرمپ کی سربراہی میں قائم "امن کونسل" کرے گی۔
  • یہ کمیٹی عوامی خدمات کا انتظام سنبھالے گی اور غزہ کے باشندوں کے مفادات کی نگراں ہوگی۔
  • ایک خصوصی اقتصادی زون قائم کیا جائے گا، جہاں سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
  • غزہ کے باشندے اپنی مرضی سے قیام یا ترکِ وطن کا انتخاب کر سکیں گے۔

بظاہر یہ منصوبہ امن کے نام پر پیش کیا گیا ہے، لیکن اس کی روح اور ساخت کو دیکھتے ہوئے یہ اسرائیلی مفادات کے تحفظ کے لیے ترتیب دیا گیا پروگرام معلوم ہوتا ہے۔

سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ مذاکرات میں تنازعے کے اصل فریق،  یعنی مزاحمت کاروں  کو مدعو ہی نہیں کیا گیا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی مقدمے کا فیصلہ اصل مدعا اور علیہ کو سنے بغیر کر دیا جائے۔ جب فریقِ نزاع ہی اعتماد میں نہیں، تو یہ معاہدہ کس طرح پائیدار اور مؤثر ثابت ہو سکتا ہے؟ منتخب فلسطینی قیادت اور عوامی شمولیت کے بغیر طے پانے والامنصوبہ ایک "انتظامی بندوبست" ہوگا، نہ کہ پائیدار امن کی جانب پیشقدمی۔

اس منصوبے کا مصالحت کار، امریکہ عملاً اسرائیل کا سب سے بڑا حامی اور سہولت کار ہے۔ چنانچہ اس کی غیر جانبداری پر مزاحمت کاروں کا اعتماد کرنا ممکن ہی نہیں۔ قطر اور مصر نے کسی حد تک مزاحمت کاروں کی نمائندگی ضرور کی، لیکن یہ دونوں ممالک بھی باضابطہ طور پر مزاحمت کاروں کو "دہشت گرد" قرار دیتے ہیں، اس لیے ان کی نمائندگی بھی محض رسمی دکھائی دیتی ہے۔

منصوبے کا مرکزی ہدف یہ ہے کہ مزاحمت کار ہتھیار ڈال دیں اور غزہ کے معاملات سے الگ ہو جائیں۔ دوسری طرف، بفر زون کی شکل میں اسرائیل کا دائمی قبضہ تسلیم کر لیا جائے۔ عبوری بندوبست کی سربراہی صدر ٹرمپ کو دینے کیساتھ سابق برطانوی وزیرِاعظم ٹونی بلئر کو بھی کلیدی کردار عطا ہونے کا عندیہ دیا گیا ہے، حالانکہ عراق میں ان کا کردار پہلے ہی مشکوک اور متنازع سمجھا جاتا ہے۔

صدر ٹرمپ نے معاہدے کے اعلان کے دوران اپنے خطاب میں خونریزی کا ذمہ دار مزاحمت کاروں کو ٹھہرایا، جبکہ اسرائیل کی درندگی کو جواز اور تعریف سے نوازا۔ انہوں نے 2005 کے اسرائیلی انخلا کو "امن کی خاطر ایک خوبصورت علاقہ چھوڑنے" سے تعبیر کیا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل نے اپنا نہیں بلکہ قبضہ کیا ہوا خطہ خالی کیا تھا، اور یہ انخلا بھی فلسطینی مزاحمت کے نتیجے میں پارلیمان کے "Disengagement Law" کے تحت جبر کے ساتھ ہوا تھا۔صدر ٹرمپ نے اسرائیلی قیدیوں اور ان کی قربانیوں کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا، مگر ہزاروں فلسطینی شہداء کا ذکر تک نہ آیا۔ یہ رویہ منصوبے کی یکطرفہ نوعیت کو بے نقاب کرتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد خطے کی صورتِ حال کس سمت جائے گی؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ غزہ کو ایک بین الاقوامی تفریحی مقام بنانے کا منصوبہ ہے، جس کی تعمیر کے لیے سرمایہ اور حفاظت کے لیے زورِ بازو عرب و اسلامی دنیا سے حاصل کیا جائے گا۔

کیا مزاحمت کار اس منصوبے کو قبول کرلیں گے؟

 تادمِ تحریر انہیں اس منصوبے کا مسودہ بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ اگر انہوں نے اسے مسترد کر دیا، تو غالب امکان ہے کہ خطے میں ایک نئی کشمکش جنم لے گی، جس کے اثرات عالمی سطح پر محسوس کیے جائیں گے۔صدر ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ اگر مزاحمت کاروں نے معاہدے کو رد کیا تو انھیں کچلنے کیلئےاسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہوگی۔جب دو برس کی مسلسل بمباری مزاحمت کو ختم نہ کر سکی تو ایک تحریری معاہدہ کس طرح "ڈی ریڈیکلائزیشن" کا ہدف حاصل کر سکے گا؟

سفارتی پیشرفت اور منصوبے کی رونمائی کرتے ہوئے صدر ٹرمپ لب ولہجہ اور سب سے بڑھ کر ساتھ کھڑے نیتن یاہو کے تکبر سے چور روئے کے تناظرمیں یہ منصوبہ امن کی بجائے غزہ کو ایک نئے دباؤ اور دائمی قبضے کے حصار میں جکڑنے کی کوشش معلوم ہوتا ہے۔ اصل سوال وہی ہے کہ کیا امن طاقت کے زور پر قائم کیا جا سکتا ہے؟

بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ

دلچسپ امر یہ ہے کہ منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی غوروفکر اور باہمی گفت وشنید کے بغیر سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، قطر اور مصر کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ان "مخلصانہ کوششوں" کا خیرمقدم کرتے ہوئےخطے میں امن کے قیام کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون بلکہ شراکت داری کا عزم ظاہر کیا۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 3 اکتوبر 2025

انڈیا ٹومارو (نگریزی ترجمہ) 30 ستمبر 2025


No comments:

Post a Comment