ثالثی
کی سز ا۔۔۔ قطر پر میزائیلوں کی بارش
خلیج کی ریت پر قطر ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے
لیکن اسکے قائدین کی بردباری اور معاملہ فہمی نے اسےخطے کی سب سے مؤثر ثالثی قوت
بنا دیا۔واشنگٹن سے قطر کی قربت کا یہ عالم کہ یہاں قائم Al Udeid
Air Base مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے
بڑا فوجی اڈہ اور امریکی مرکزی کمان کا ہیڈکوارٹر ہے۔اس اڈے کو برطانوی شاہی
فضائیہ بھی استعمال کرتی ہے۔
تاہم غزہ
کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی قطر پر خصوصی 'شفقت' رہی ہے۔ایران اور فلسطینی
مزاحمت کاروں سے روابط اور الجزیرہ ٹیلی ویژن کی سرپرستی کا الزام لگاکر سعودی عرب
، متحدہ عرب امارت اور بحرین نے 2017 میں قطر کا بائیکاٹ کیا تو امریکہ نے مذمت سے
گریزکرکے سعودی بیانیے کو تقویت دی۔ اس وقت بھی جناب ڈانلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر تھے
اور 9 ستمبر کو جب اسرائیل نے قطر کی سرزمین پر حملہ کیا تب بھی صدر
ٹرمپ ہی اقتدار میں ہیں۔ اور ایک بار پھر، ان کا ردِعمل افسوس، وضاحت، اور پھر
حملے کی جزوی حمایت پر مشتمل ہے۔
خلیجی
ممالک کے بائیکاٹ کے دوران امریکہ کی بیوفائی کے باوجود قطر نے طالبان اور امریکہ
کے درمیاں امن مذاکرات کی میزبانی کیساتھ اعتماد سازی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
دوحہ کی کوششوں سے ہی 2020 میں امن معاہدہ طئے پایا جس کے نتیجے میں جہاں
چچا سام افغانستان کی دلدل سے نکلنے میں کامیاب ہوئے وہیں قطر عالمی سفارت
کاری کا محور بن کر ابھرا۔
تین
سال بعد قطر نے ایک اور حساس اہم سفارتی کارنامہ انجام دیا جب اسکی کوششوں سے
امریکہ اور ایران قیدیوں کے تبادلے پر رضامند ہوگئے۔ یہ اعصاب شکن مذاکرات دوحہ
میں ہوئے ، قطر نے مالی لین دین کی نگرانی کی اور قانونی ضمانتیں
فراہم کیں۔ پئے در پئے دو کامیابیوں نے قطر
کی غیرجانبدار، قابلِ اعتماد اور مؤثر ثالثی حیثیت کو مستحکم کردیا۔
اسی
بناپر غزہ خونریزی بند کرانے کیلئے قطر کی سفارتی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس دوران
قطر نے قیدیوں کے تبادلے، جنگ بندی، اور انسانی امداد میں اہم کردار اداکیا۔ قطری
حکام نے حماس اور اسرائیل کے درمیان غیر رسمی مذاکرات کی میزبانی کی، امریکہ کے
ساتھ مل کر امن فارمولے پر کام کیا اور دوحہ ایک بار پھر امن کی امید بن کر ابھرا۔
اکتوبر
2023 کو غزہ پر حملے کے آغاز ہی سے یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ اس بار اسرائیل کا ہدف غزہ سے فلسطینیوں کی
بیدخلی ہے اور اس مشن میں امریکہ، اسرائیل کا صرف اتحادی اور پشتیبان ہی نہیں بلکہ
سہولت کار بھی ہے چنانچہ مختلف حلیوں بہانوں سے جنگ بندی کی تجاویز مسترد کی جاتی
رہیں۔ اس سال کے آغاز پر اقتدار سبنبھالتے ہی صدر ٹرمپ نے غزہ کو خالی کراکے وہاں
ایک پرتعیش ساحلی تفریح گاہ (Riviera) قائم کرنے کی
خواہش کا برملا اظہار کیا اور اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جاری ہونے والے بصری
تراشے میں انھوں نے اسے 'ٹرمپ غزہ' کا نام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل غزہ میں عام شہریوں کے قتل عام کیساتھ مزاحمت کاروں کی سیاسی قیادت
کو نشانہ بناتا رہا تاکہ مذاکرات اور فیصلے کرنے والے افراد ہی میسر نہ ہوں۔ اس سال جولائی میں حماس
پولٹ بیورو کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو ایراان میں نشانہ بنایا گیا جسکے بعدانکے
جانشیں یحیئٰ سنوار قتل کردئے گئے۔
نوستمبر کی کاروائی کے بارے میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں
اسکے مطابق اسرائیلی
فضائیہ نے 15 جنگی طیارے استعمال کیے، جنہوں نے دوحہ کے قریب کتارہ ثفافتی مرکز (Katara Cultural Village)کی ایک رہائشی عمارت پر 10 سے زائد بم گرائے۔
دوہزار کلومیٹر طویل سفر کے دوران امریکی و برطانوی ٹینکربردار طیاروں سے اسرائیلی بمباروں میں کئی بار ایندھن بھرا گیا۔
عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ صحرائے نقب (Negev)کے اڈے سے اڑان بھرنےوالے اسرائیلی طیارے خلیج کے اوپر پرواز کرتے ہوئے بحرین
یا متحدہ عرب امارات کے قریب سے قطر کی حدود میں داخل ہوئے۔ قطر جانے کیلئے اردن،
عراق اور سعودی فضائی حدود کا استعمال بھی بعید از قیاس نہیں لیکن اردن نے اپنی
ٖفضائی حدود استعمال ہونے کی دوٹوک تردید کی ہے۔ قطر
نے اربوں ڈالر خرچ کرکے امریکہ سے پیٹریاٹ ، ناروے کا NASAMS-2اور برطانوی ساختہ Rapier دفاعی نظام خریدے ہیں لیکن وقت پڑنے پر جدید ترین طیارہ و میزائیل
شکن ٹیکنالوجی مہمل ثابت ہوئی
اسرائیلی حملے کا ہدف مذاکراتی وفد کے سربراہ خلیل الحیة، پولٹ
بیورو کے شریک سربراہ زاہر جباری، شوریٰ کونسل کے سربراہ محمد
درویش، سینئررہنما نزار عوض اللہ اور بین لاقوامی
امور کے ذمہ دار خالد مشعل تھے۔ حملہ عصر کے وقت ہوا اور موبائل فون کے سگنلز کو نشانہ بناکر میزائیل داغے
گئے۔ اللہ کا کرنا کہ یہ لوگ اپنے موبائل فون دفتر میں چھوڑ کر نماز پڑھنے مسجد
گئے ہوئے تھے چنانچہ محفوظ رہے لیکن دفتر میں موجود دس کارکنان منزل مراد پاگئے جن
میں خلیل الحیہ کا جوانسال بیٹا بھی شامل ہے۔حملے میں قطر
کی داخلی سلامتی فورس "لخویا" کاایک
اہلکار بھی جاں بحق ہوا۔
اس معاملے میں امریکہ کا
معاملہ 'صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں والاہے۔ اپنی غیر جانبداری اور قطر
سے دوستی جتاتے ہوئے امریکی صدر نے فرمایا کہ العدید اڈے پر نصب دفاعی نظام نے
اسرائیلی طیاروں کی آمد بھانپ کر قطر کو پیشگی مطلع کردیا تھا لیکن قطری وزارت
خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے ہہ کہہ کر بھانڈا پھوڑ دیا کہ امریکہ کی جانب سے
ہمیں 'پیشکی اطلاح' دھماکوں کے بعد ملی۔سی این این کے مطابق اسرائیلی حکام نے
شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملے سے پہلے امریکہ کو مطلع کردیا گیا
تھا، کچھ ایسی ہی بات امریکی حکام نے کی.
غیر جانبدار ذرایع کہہ رہے
ہیں کہ یہ کاروائی امریکہ کو اعتماد میں لے کر کی گئی ہے۔ امریکہ کے ملوث ہونے کا
عندیہ اس بات سے بھی ملتا ہے کہ حملے کے وقت مزاحمت کار قیادت غزہ امن کے امریکی
منصوبے پر غور کررہی تھی اور اس اجتماع کا امریکہ کو پتہ تھا۔
وائٹ
ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیویٹ نے امریکہ کے سرکاری موقف کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ
یہ حملہ نہ اسرائیل کے مفاد میں ہے، نہ امریکہ کے۔ قطر ایک خودمختار ریاست اور
امریکہ کا قریبی اتحادی ہے۔صدر ٹرمپ نے حملے کی جگہ پر افسوس کا اظہار کیا، مگر
ساتھ ہی کہا حماس کا خاتمہ ایک قابلِ قدر مقصد ہے، اور یہ واقعہ امن کا موقع بن
سکتا ہے۔یہ تضادات اتفاقی یا پہلا واقعہ نہیں بلکہ یہ امریکی خارجہ پالیسی کی
مستقل دو رخیت کا آئینہ ہے۔
اسرائیل
نے مزاحمت کار قیادت کا ہرجگہ تعاقب کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ چنانچہ قطر پر
دوبارہ حملہ بعید از قیاس نہیں بلکہ اسرائیلی عسکری ذرایع کا کہنا ہے کہ اس نوعیت
کی کاروائی کادوسری ہدف ترکیہ ہوسکتا ہے جہاں مبینہ طور پر چند مزاحمت کار موجود
ہیں۔ صحافتی ذرایع خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اسرائیل اب قطر میں الجزیرہ ٹیلی ویژن
کو نشانہ بنانے کی کوشش کریگا۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپشل کراچی، 12 ستمبر 2015
انڈیا ٹومارو https://indiatomorrow.net/
No comments:
Post a Comment