Thursday, September 18, 2025

 

او آئی سی  کی بے بسی اور امت کا امتحان

 دوحہ اجلاس کا ادھورا بیانیہ

عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں کا ایک ہنگامی اجلاس 15 ستمبر کو دوحہ میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس کا مقصد 9 ستمبر کو قطر کے دارالحکومت پر اسرائیلی حملے کے بعد کی صورتحال پر غور اور جارحیت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی وضع کرنا تھا۔

پاکستان، ترکیہ، ملائیشیا اور ایران کی جانب سے تجاویز تو پیش کی گئیں، مگر کوئی ٹھوس عملی منصوبہ سامنے نہ آیا۔

  • وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اقوام متحدہ سے اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے اور عرب-اسلامی ٹاسک فورس کی تشکیل کی تجویز دی، مگراسرائیل کے خلاف سفارتی مہم کی کوئی حکمت عملی بیان ہوئی نہ ٹاسک فورس کے خدوخال واضح کئےگئے۔
  • ترک صدر رجب طیب ایردوان نے اسرائیل پر اقتصادی دباؤ ڈالنے کی بات کی، لیکن انکی تقریر میں آذربائیجان سے اسرائیل کو تیل کی ترسیل روکنے جیسے کسی عملی اقدام کا ذکر نہ تھا۔ واضح رہے کہ یہ تیل ترک بندرگاہ جیحان (Ceyhan) سے اسرائیلی ٹینکروں پر لادا جاتا ہے۔
  • ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزیشکیان اور ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم نے مسلم ممالک سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی اپیل کی، مگر مصر، اردن، بحرین، مراکش، ترکیہ اور متحدہ عرب امارات نے اس پر کوئی آمادگی ظاہر نہ کی۔

قطری امیر کا خطاب: جوش، حقیقت اور بے بسی

اجلاس سے قطری امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کا خطاب سخت اور جوشیلا تھا۔ انہوں نے اسرائیلی حکومت کو "اقتدار کی جنونیت، تکبر اور خون کی پیاس میں مبتلا" قرار دیا اور کہا کہ ثالثوں پر حملہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کو امن میں کوئی دلچسپی نہیں، بلکہ وہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔قطری امیر نے غزہ میں جاری جنگ میں 65 ہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت کا ذکر کیا۔ انھوں نے نیتن یاہو کی توسیع پسندانہ سوچ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے شامی زمین پر قبضہ کیا اور اب جنوبی لبنان سے انخلاء پر تیار نہیں۔تاہم، قطری قیادت کی گفتگو عملی بے بسی کا شکار رہی۔ اربوں ڈالر کے امریکی و برطانوی دفاعی نظام کی موجودگی میں اسرائیلی طیارے حملہ کر کے چلے گئے اور قطر کو ان کی آمد کی آہٹ تک محسوس نہ ہوئی۔

سفارتی احتیاط،  سیاسی مصلحت، اندرونی تضاد

ایران پر اسرائیلی حملوں اور یمن میں اسرائیلی مداخلت یا تباہی کا براہِ راست ذکر قطری امیر کی تقریر میں نہیں آیا۔حالانکہ اسرائیل اور امریکہ نے ایران اور یمن میں وحشیانہ کارروائیاں کی ہیں۔خطے میں ان حملوں پر شدید ردِعمل بھی موجود ہے۔قطر،  ایران اور امریکہ کے درمیاں ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ ایران کا ذکر نہ کرنا شاید سفارتی توازن برقرار رکھنے کی کوشش ہو۔ جبکہ یمن کے معاملے پر خلیج یکسو نہیں اور ان ممالک کی سفارتی کشیدگی سے خود کو باہر رکھنے کیلئے امیر قطر نے گفتگو میں احتیاط برتی۔

خلیج تعاونی کونسل کا اعلان ۔۔  دفاعی اتحاد یا علامتی بیانیہ؟

خلیجی تعاون کونسل (GCC) نے اپنےاجلاس میں مشترکہ دفاعی نظام کو فعال کرنے اور فوجی کمان کا اجلاس دوحہ میں بلانے کا اعلان کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ GCC کے کسی ایک رکن پر حملہ، تمام پر حملہ تصور کیا جائے گا۔اجلاس کے بعد GCC کے ترجمان ماجد محمد الانصاری نے بتایا کہ خلیجی ممالک کی فوجی قیادت کے درمیان مشاورت جاری ہے تاکہ علاقائی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط کیا جا سکے۔

 OIC اور عرب لیگ میں بیانات کی حد تک یکجہتی

اوآئی سی  اور عرب لیگ کے مشترکہ اعلامیے میں اسرائیلی حملے کی شدید مذمت اور قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔بیان میں اسرائیل کی جانب سے قطر کو دوبارہ نشانہ بنانے کی دھمکیوں پر تشویش کا اظہار بھی ہوا،لیکن اسکے لئے کسی تزویراتی حکمت عملی کا ذکر سامنے نہ آیا۔ جی سی سی کے معتمد عام جاسم محمد البدیوی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو روکنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کا اسرائیل پر اثر ہے، اور اب وقت آ گیا ہے کہ وہ اسے استعمال کرے۔میر کیا سادہ ہیں۔۔۔

OIC کی تاریخ، زوال اور متبادل کی تلاش

اسلامی تعاون تنظیم (OIC)کا قیام 1969 میں مسجد اقصٰی کی آتشزدگی کا ردعمل تھا۔ تاسیس کے وقت اس کا مقصد مسلم ممالک کا اتحاد، مظلوموں کی آواز بننا اور عالمی سطح پر اسلامی دنیا کے مفادات کا تحفظ طئے پایا لیکن نصف صدی بعد  OIC عملاً مفلوج ہو چکی ہے۔اس کی قراردادیں صرف کاغذی بیانات، اجلاس صرف رسمی تصاویر اور  قیادت خلیجی طاقتوں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے۔

کوالالمپور کانفرنس OIC کا متبادل؟

تنظیم کو فعال بنانے کیلئے 18 سے 20 دسمبر 2019 ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ایک چوٹی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ترکی، ایران، قطر اور دیگر مسلم ممالک کے رہنماؤں، دانشوروں اور اسکالرز نے شرکت کی ۔اس کانفرنس کا مقصد  مسلم دنیا کو درپیش مسائل، اسلاموفوبیا، معاشی پسماندگی، اور سیاسی انتشار کا حل اور OIC کی غیر مؤثر حیثیت کے متبادل پر غور کرناتھا۔ دلچسپ بات کہ اس بیٹھک کے تجویز کنندگان میں سب سے اہم کردار پاکستانی وزیرِ اعظم عمران خان کا تھا لیکن سعودی دباؤ کے باعث عین وقت پر پاکستان نے شرکت سے معذرت کر لی، جس نے مسلم دنیا میں نئی سفارتی صف بندی اور قیادت کے بحران کو مزید واضح کر دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان کو امت کی قیادت کا موقع ملا، مگر خانصاحب  نے ریال کی سفارت کاری کو ترجیح دی

قیادت یا مفاہمت؟

یہ OICکو فعال کرنے کا آخری موقع تھا جو ضائع کردیا گیا اور اب صورتحال یہ ہے کہ مسجد اقصی کی آتشزدگی پر امت کی قیادت کا عزم لے کر بننے والی  OIC غزہ کی نسل کشی، قطر پر حملے اور فلسطینی قیادت کے قتل پر صرف بیانات جاری کر رہی ہے۔ تنظیم کی قیادت ان ممالک کے زیرِ اثر ہے جنھوں نےاسرائیل سے تعلقات بڑھائے  اور اب OIC کو اپنے مفادات کے مطابق چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔حالیہ عرب-اسلامی سربراہی اجلاس میں اسرائیل کے "بزدلانہ" حملے کی مذمت تو کی گئی، مگر کوئی ٹھوس سیاسی یا اقتصادی منصوبہ سامنے نہ آیا، خلیج تعاونی کونسل نے مشترکہ دفاعی نظام کی بات کی، مگر  عملی مزاحمت کا کوئی نقشہ پیش نہیں کیا گیا۔

کیا امتِ مسلمہ نئی قیادت، نئی صف بندی اور نئی مزاحمت کے لیے تیار ہے؟ یا OIC کو تاریخ کا ایک ناکام تجربہ مان کر اسرائیل اور امریکہ کے سامنے ہتھیار رکھ دینے ہی میں عافیت سمجھی جائے گی؟

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 19 ستمبر 2025


۔

No comments:

Post a Comment