Thursday, September 25, 2025

 

پاک سعودی  دفاعی معاہدہ: نئی شراکت یا پرانے تجربات کی تکرار؟

سترہ ستمبر کو وزیراعظم شہباز شریف اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے باہمی دفاع کے تزویراتی معاہدے (Strategic Mutual Defense Agreement) پر دستخط کیے، جس میں کہا گیا ہے کہ "کسی ایک ملک پر حملہ، دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا"۔ اگرچہ معاہدے میں جوہری ہتھیاروں کا ذکر نہیں، لیکن سعودی حکام نے عندیہ دیا ہے کہ یہ معاہدہ "تمام دفاعی ذرائع" کا احاطہ کرتا ہے۔ جسکا مطلب ہوا کہ اسلام آباد کی جانب سے ریاض کو جوہری تحفظ کی فراہمی خارج از امکان نہیں۔بادی النظر میں یہ معاہدہ قطر پر اسرائیلی حملے کا ردعمل محسوس ہوتا ہے، لیکن پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ اس پر کئی مہینے سے بات چیت چل رہی تھی اور یہ قطر پر اسرائیلی حملے کا ردعمل نہیں۔پاکستانی وزیرخارجہ کے مطابق کچھ دوسرے ممالک نے بھی اس معاہدہ کا حصہ بننے کی خواہش ظاہر کی ہے۔

ریاض  کی بدلتی ترجیحات

امریکہ ایک عرصے سے سعودی عرب کا دفاعی شراکت دار ہے۔ سعودی فوج امریکی اسلحے سے لیس ہے اور فوجی افسران امریکی عسکری اکیڈمیوں میں تربیت پارہے ہیں۔ لیکن "طوفان الاقصیٰ" کے بعد امریکہ کی کھلی اسرائیل نوازی نے ولی عہد محمد بن سلمان کو کو نئے خدشات سے دوچار کردیا۔امریکہ سے دفاعی شراکت داری  نے سعودی عرب کو ماضی میں بعض علاقائی ممالک سے شدید کشیدگی میں بھی دھکیلا۔ ایران کے ساتھ تعلقات ایک وقت میں بالکل منقطع رہے، یمن میں ایران نواز حوثیوں کے ساتھ براہِ راست جنگ لڑی گئی، اور شام میں بشارالاسد کی معزولی تک تعلقات خراب رہے۔ تاہم اب سعودی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ ریاض نے تہران کے ساتھ تعلقات بحال کیے اور اس کے نتیجے میں حوثیوں کے ساتھ کشیدگی بھی کم ہوگئی ہے۔

اسی طرح روس اور چین کے ساتھ بھی سعودی تعلقات میں گرمجوشی آئی ہے۔ سعودی عرب نے روس سے  Pantsir-S1  فضائی دفاعی نظام سمیت دیگر اسلحہ خریدا ہے، جس کی مالیت تقریباً 2 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ یہ خریداری روس پر مغربی پابندیوں کے باوجود کی گئی، جس پر امریکہ اور یورپی یونین نے اعتراض کیا۔ اسلحے کے لیے چین کی دفاعی کمپنیوں سے بھی بات چیت جاری ہے۔ یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ محمد بن سلمان ملکی دفاع کے باب میں  تنوع کے خواہشمند ہیں

قطر کا تجربہ اور خطے کی فکری بے چینی

اسرائیلی حملے کے دوران قطری افواج کی بے بسی نے خطے کے ممالک کو چونکا دیا۔ دوحہ نے اربوں ڈالر خرچ کرکے امریکہ سے پیٹریاٹ ، ناروے کا NASAMS-2اور برطانوی ساختہ  Rapier دفاعی نظام خریدے، لیکن  یہ سب کچھ ہوتے ہوئے دفاع تو دور کی بات، قطر اسرائیلی طیاروں کا پتہ لگانے میں بھی ناکام رہا۔ماہرین کے مطابق یہ ناکامی  ٹیکنالوجی کی نہیں بلکہ فوجی مہارت اور تربیت کی کمی کا نتیجہ ہے۔

پاک فضائیہ کی کارکردگی اور اعتماد سازی

دوسری طرف اس سال مئی میں پاک بھارت فضائی تصادم نے پاک فضائیہ کو نئی وقعت دی۔ اس موقع پر پاکستانی ہوابازوں نے جس مہارت اور حوصلے کا مظاہرہ کیا، اُس نے  ملکی سطح پر اعتماد کو تقویت بخشنے کیساتھ دنیا کو پیغام دیا کہ پاکستان اپنی فضائی سرحدوں کا دفاع کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔پاکستانی فضائیہ (PAF) نے نہ صرف دراندازی کو روکا بلکہ الیکٹرانک وارفیئر، ریڈار جیمنگ، اور نشانہ بازی میں واضح  برتری دکھائی۔امریکی صدر ٹرمپ نے بھی کئی بار پاک فضائیہ کی تیکنیکی مہارت کا مبہم اعتراف کیا۔

سعودی دفاع کا امریکہ پر سے انحصار ختم کرنے کیلئے محمد بن سلمان کو ایک بااعتماد شراکت دار کی تلاش تھی اور  پاک فضائیہ کی کارکردگی دیکھ کر انھوں نے ایک ایسے ملک کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرنے میں زیادہ دلچسپی لی جس نے عملی طور پر اپنی صلاحیت ثابت کر دی ہے۔ معاہدے کی بنیاد اسی اعتماد پر رکھی گئی اور قطر پر اسرائیلی حملے نے اسے منطقی انجام تک پہنچادیا۔

ماضی کے تجربات اور نئے سوالات

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدہ بظاہر ایک نئی پیش رفت ہے لیکن اگر اسے ماضی کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں کہ پاکستان کسی بین الاقوامی یا علاقائی دفاعی اتحاد کا حصہ بنا ہے۔پاکستان نے آزادی کے چند سال بعد ہی دو بڑے فوجی اتحادوں میں شمولیت اختیار کی تھی:

سیٹو (SEATO) یعنی ’’جنوب مشرقی ایشیائی معاہدہ‘‘، جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کمیونزم کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے بنایا تھا اور سینٹو (CENTO) جسے ابتدا میں معاہدہِ بغداد کہا جاتا تھا۔

ان اتحادوں میں پاکستان نے بھرپور شمولیت کی، مگر جب 1965 اور 1971 کی جنگیں ہوئیں تو یہ معاہدے کسی کام نہ آئے۔ بلکہ امریکہ نے الٹا پاکستان پر اسلحے کی پابندیاں عائد کر دیں۔ یوں یہ اتحاد پاکستان کے لیے سودمند ہونے کے بجائے قومی سلامتی کو مزید کمزور کر گئے۔

اسی طرح 2015 میں سعودی قیادت میں اسلامی فوجی اتحاد (IMCTC) قائم ہوا، جس کے سربراہ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بنائے گئے۔ یہ اتحاد 41 اسلامی ممالک پر مشتمل تھا۔پاکستان کی عسکری قیادت کو اس اتحاد میں مرکزی حیثیت حاصل رہی لیکن اتحاد اب تک کوئی بڑی عسکری کارروائی نہیں کر سکا اور اکثر مبصرین کے نزدیک یہ علامتی رہا ہے۔

سعودی عرب، چین اور بھارت ۔۔ سفارتی توازن

اس اتحاد سے ہندوستان کے لیے ایک نفسیاتی اور سفارتی دباؤ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں سوال اٹھتا ہےکہ  اگر مستقبل میں پاک بھارت فوجی تصادم کی نوبت آئی تو کیا سعودی افواج بھارت کے خلاف میدان میں اتریں گی؟ جواب سادہ نہیں۔ سعودی عرب کے بھارت سے تجارتی، توانائی اور سفارتی روابط خاصے گہرے ہیں۔ لہٰذا، معاہدے کی عملی تشریح شاید فوجی مداخلت سے زیادہ سفارتی دباؤ یا انٹیلیجنس تعاون تک محدود رہے۔پاکستان کے علاوہ چین بھی بھارت کا تزویراتی حریف اور سعودی عرب کا تجارتی شراکت دار ہے۔یہی پہلو سعودی عرب کو ممکنہ ثالث بناتا ہے۔ اگر مستقبل میں پاک بھارت یا چین بھارت تنازع شدت اختیار کرتا ہے، تو سعودی سفارتکاری امن کی راہ ہموار کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے، خاص طور پر اگر وہ اسلامی اتحاد، تجارتی مفادات اور علاقائی استحکام کو ایک ساتھ لے کر چلے۔

اگر اسرائیل نے سعودی عرب پر حملہ کیا تو کیا پاکستان اس کے خلاف میدان میں اترے گا؟

اس سوال کا جواب پیچیدہ ہے۔ فلسطین کی حمایت پاکستان کی بنیادی پالیسی ہے،  لیکن سعودی دفاع کے لئے اسرائیل پر حملہ ایک ایسا قدم ہوگا جس کے عالمی اثرات اور داخلی نتائج بہت شدید ہو سکتے ہیں۔ سعودی ذرایع کا کہنا ہے کہ انھیں اسرائیل کی جانب سے باقاعدہ فوج کشی کا کوئی خدشہ نہیں لیکن قطر کی طرز کا فضائی حملہ ہوسکتا ہے۔ سعودیوں کے پاس جدید مغربی طیارے اور فضائی دفاعی نظام موجود ہیں اور ریاض انکے  موثر استعمال کیلئے پاکستان کی تیکنیکی استعداد و پیشہ ورانہ مہارت سے  استفادے کا خواہاں  ہے۔ تاہم اس حوالے سے چند قانونی و عملی مسائل واضح ہیں۔امریکی ساختہ ہتھیاروں کی خرید و فروخت عام طور پر End-User Agreements اور برآمدی شرائط کے تابع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستان کو فراہم کیے گئے F-16 طیارے بھارت پر حملے کے لیے استعمال نہیں کیے جا سکتے۔ اسی لیے یہ سوال کہ سعودی عرب امریکی ساختہ طیاروں یا میزائل شکن نظاموں کو پاکستانی عملہ یا ہتھیاروں کے ساتھ کیسے استعمال کرے گا، پیچیدہ انتظامی اور قانونی پہلو رکھتا ہے۔ بعض صحافتی حلقوں کے مطابق، سعودی عرب کے دفاع کے لئے پاکستان چینی ساختہ J-10 طیارے اور جدید ترین میزائل سعودی اڈوں پر تعینات کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں زیادہ امکان یہی ہے کہ پاکستان کا تعاون خفیہ معلومات کے تبادلے( انٹیلیجنس شیئرنگ)، دفاعی مشاورت، فضائی حملوں کے دفاع، طیارہ و میزائل شکن نظام کی تنصیب اور حملہ آور طیاروں کو پسپا کرنے تک محدود رہے گا۔ اسرائیل پر  جوابی حملہ اس دفاعی معاہدے کا حصہ نہیں ۔

اگر افغانستان سے پاکستان پر حملہ ہوا تو کیا ہوگا؟

بدقسمتی سے پاک افغان تعلقات مثالی نہیں اور اسلام آباد کو افغانستان کی جانب سے سرحدی دراندازی اور تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کی پشت پناہی کی شکائت ہے۔حالیہ دنوں چمن، طورخم اور دیگر سرحدی علاقوں میں جھڑپیں بھی ہو چکی ہیں۔اگر خدانخواستہ کبھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان عسکری تصادم کی نوبت آگئی تو کیا سعودی عرب پاکستان کی حمایت میں افغانستان کے خلاف کارروائی کرے گا؟تزویراتی مفادات، مذہبی و تاریخی حساسیت اور عسکری پیچیدگیوں کی بناپر زیادہ امکان یہی ہے کہ سعودی عرب اپنی فوج میدان میں اتارنے کے بجائے مالی امداد، اسلحہ اور سفارتی دباو کے ذریعے پاکستان کی مدد کرے گا۔

عسکری اتحاد یا نظریاتی قیادت؟

پاک سعودی معاہدہ صرف دفاعی وعدہ نہیں بلکہ اسلامی دنیا کی اجتماعی سوچ، عسکری اعتماد اور سفارتی جرات کا مظہر ہے لیکن اس کے عملی اطلاق، اخلاقی حدود اور سفارتی ترجیحات ابھی واضح ہونا باقی ہیں۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 26 ستمبر 2025

روزنامہ امت کراچی 26 ستمبر 2025


No comments:

Post a Comment