جہنم
کے دروازے، نسل کشی اور عالمی ضمیر کا امتحان
باقون کالزعتر والزیتون
پانچ ستمبر کی صبح، امریکی ساختہ لیزر
گائیڈڈ میزائلوں سے غزہ شہر کے مغربی حصے میں واقع پندرہ منزلہ برج "مشتھی
السکنی" (رہائشی ٹاور) کو سینکڑوں مکینوں سمیت زمین بوس کر دیا گیا۔ وزیرِ
دفاع اسرائیل کاٹز نے اس حملے کے بعد اعلان کیا کہ "ہم
نے غزہ پر جہنم کے دروازے کھول دیے ہیں"۔ دوسرے
دن نوید سنائی کہ 8 ستمبر کو ایک خونی Hurricaneغزہ سے ٹکرائیگا۔اس روز بنکر بسٹر بموں اور میزائیلوں سے شہرکی کئی
کثیرالمنزلہ عمارات و مساجد مسمار کردی گئیں۔ غزہ کی فضاوں پر شیطانی رقص تادم
تحریز جاری ہے۔ پٹی پر جہنم کے دروازے کھولدینے کا وعدہ سب سے پہلے صدر
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں کہا تھا۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ: 21 ہزار بچے معذور، 29 ہزار مزید
خطرے میں
دنیا
غزہ میں 19 ہزار سے زائد بچوں کے قتل کا ماتم کر رہی ہے۔
لیکن گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے ادارے UN
Committee on the Rights of Persons with Disabilities نے ایک رپورٹ جاری کی ، جس کے مطابق 21ہزار
بچے مستقل طور پر معذور ہو چکے ہیں اور مزید 29 ہزار نونہال زخمی ہیں جنکا اگر بروقت علاج نہ ہوا تو
انکی بڑی تعداد بھی معذور ہوسکتی ہے۔یہ
اعداد و شمار صرف جسمانی نہیں، اخلاقی زلزلے کی نمائندگی کرتے ہیں۔
کھلے
چھت کے قیدخانے سے لے کر تنگ و تاریک کھولیوں تک بھوک کا راج
اسرائیلی عدالتِ عظمیٰ نے 8
ستمبر کوایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فلسطینی قیدیوں کو خوراک سے محروم
رکھنا غیر قانونی ہے۔ جج حضرات نے یہ رائے انسانی حقوق کی تنظیموں Association of Civil Rights in Israel (ACRI)، اور Gisha کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں پر دی جن میں کہا گیا تھا کہ
حکومت کی خوراک کم کرنے کی پالیسی کی وجہ سے قیدیوں میں غذائی قلت، کمزوری اور بعض
میں اموات بھی ہورہی ہیں۔چیف جسٹس اُزِی فوگل مین (Uzi Vogelman)، جسٹس اسحاق عمت (Isaac Amit)اور جسٹس جارج کرا (George Karra)پر مشتمل بینچ نے قرار دیا کہ قیدیوں کو کم از کم روزانہ تین وقت
کا کھانا دینا لازمی ہے تاکہ ان کی "بنیادی سطح کی زندگی" برقرار رہے۔
بات آرام دہ زندگی یا آسائش کی نہیں، بلکہ قانون کے مطابق زندہ رہنے کی بنیادی
شرائط کی ہے۔یہ دراصل عدالتی اعتراف ہے کہ اسرائیل غزہ و غرب اردن سے اپنے عقوبت
تک ہرجگہ بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے۔
امریکی سینیٹروں کی چشم دید گواہی
ریاست
میری لینڈ کے سینیٹر کرس وین ہالن (Chris Van Hollen)اور ریاست اوریگن
کے سینیٹر جیف مرکلے (Jeff Merkley) نے فلسطین کا تفصیلی دورہ
کیا اور واپسی
پر 4 ستمبر کو واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ نیتن یاہو حکومت غزہ میں کھلی اور
مغربی کنارے میں سست روی کے ساتھ نسلی تطہیر کر رہی ہے۔ فلسطینیوں کے گھروں،
اسکولوں اور اسپتالوں کو تباہ کر کے انہیں زبردستی بے دخل کیا جا رہا ہے۔ڈیموکریٹک
پارٹی کے ان سینیٹروں کے مطابق، امریکا و
اسرائیل کا مبینہ منصوبہ ہے کہ 20 لاکھ فلسطینیوں کو
جبراً بے دخل کرنے کے بعد غزہ کو 10 سال کے لیے امریکی کنٹرول میں دے کر اسے سیاحتی مرکز میں تبدیل کردیاجائے۔اس منصوبے کو
سرمایہ کاری کا لبادہ اوڑھا کر فلسطینیوں کی جبری ہجرت کو "رضاکارانہ"
ظاہر کیا جا رہا ہے، جو دراصل ایک سنگین دھوکہ ہے۔ انھوں
نےیورپی اور عرب ممالک پر زور دیا کہ وہ متحد ہوکر نیتن یاہو کو فلسطینیوں کی جبری
بے دخلی سے روکیں اور دو ریاستی حل کو زندہ رکھیں۔
غرب اردن میں قبضہ گردوں کی دہشت
مشرقی
بیت المقدس کے قریب متنازعہ E1 سیٹلمنٹ پروجیکٹ
کی منظوری کے بعد، فوجی سرپرستی میں فلسطینی بستیوں پر قبضہ گردوں
(Settlers) کے
حملے روز کا معمول بن چکے ہیں۔چار ستمبر کی رات کو جنوبی غرب اردن کے شہر الخلیل
کے قصبے خلة الضبع پر مسلح قبضہ گردوں نے دھاوا بول دیا۔ ڈنڈوں اور آہنی مکوں سے
خواتین، ضعیفوں اور بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ چھ ماہ کی بچی سمیت 14 افراد زخمی
ہوئے۔ ایک ضعیف العمر شخص علی اور ان کی اہلیہ امینہ کی ہڈیاں توڑ دی گئیں۔ غنڈوں کے جانے کے بعد فوج نے گھر گھر تلاشی کے دوران ایک سو
کے قریب فلسطینیوں کو گرفتا کرلیا۔شمال میں جنین سے لے کر جنوبی کونے پر حطہ تک ہر شہر پر قصبہ قبضہ گردحملہ آور
ہیں۔
جنگ بندی کا سراب
جہاں
تک جنگ بندی کا تعلق ہے تو غزہ شہر پر بھرپور حملے کے بعد امن کی امید معدوم ہوچکی
ہے۔تین ستمبرکو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جنگ بندی
کی ایک دھمکی آمیز پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ “مزاحمتی گروہ کو کہو کہ وہ تمام 20 یرغمالیوں کو فوراً رہا کردے، 2 یا 5 یا 7 نہیں، (ایسا ہوا تو) حالات
فوراً بدل جائیں گے اور جنگ ختم ہو جائے گی“۔ ابھی اس بیان کی
سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ وزیراعظم نیتن یاہو نے متکبرانہ لیجے میں کہدیا کہ
مزاحمت کاروں کے اسلحہ ڈالنے سے پہلے جنگ بند نہیں ہوگی۔اسی کیساتھ انھوں نے سینہ
پھلاکر بتایا کہ اسرائیلی فوج نے مزاحمت کاروں کے ترجمان کا خاتمہ کردیا ہے۔عالمی
برادری بھی حد درجہ احتیاط اور مصلحت کا شکار ہے۔ گزششتہ ہفتے اعلان ہوا کہ فرانسیسی صدر اور سعودی ولی عہد 22 ستمبر کو
نیویارک میں فلسطین و غزہ کی صورتحال پر بات کرینگے۔ روزانہ دو سو اموات کے بیچ تین ہفتے کی تاخیر ’’خاک ہو
جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک‘‘ کے مصداق ہے۔
اسرائیلی
فوج میں تھکن اور مراعات کا لالچ
نیتن یاہو کی خون آشامی اور تکبر اپنی جگہ لیکن اسرائیلی فوج میں
تھکن خوف اور بیزاری بہت نمایاں ہے۔ غزہ پر یلغار کے لیے 50
ہزار
ریزرو سپاہیوں کو طلب کیا گیا، مگر بڑی تعداد میں چھٹی کی درخواستیں موصول ہوئیں۔ انھیں
لبھانے کے لیے "مجاہد (Fighter) کارڈ" متعارف
کرایا گیاہے، جس میں ہر سپاہی کو سالانہ پانچ ہزار شیکل (ایک ہزار ڈالر) تک شاپنگ اور تفریح کے کریڈٹ دیے جائیں گے۔ وزیرِ دفاع کے
مطابق یہ ’’اعتراف اور قدردانی‘‘ جبکہ
وزیرِ خزانہ کے خیال میں یہ محافظوں کیلئے قوم کا "تحفہ" ہے۔ مراعاتی
رشوت ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیلی فوج دفاع کا قومی
ادارہ نہیں بلکہ مراعات یافتہ وحشی مافیا بن چکی ہے۔
اسرائیلی سیاست کا داخلی بحران
عسکری پہلو کیساتھ سیاسی محاذ پر بھی بیچینی بہت واضح ہے۔ قائدِ
حزبِ اختلاف یائر لاپید (Yair Lapid) نے تل ابیب میں اپنی جماعت یش عتید (Yesh Atid) کے
کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "نیتن یاہو کی
پالیسیوں نے اسرائیل کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اگر یہ اتحاد دوبارہ
اقتدار میں آ گیا، تو یہ صہیونیت کے خاتمے کے مترادف ہوگا۔"
قیدیوں کی مائیں، زنجیروں میں احتجاج
جیسے جیسے غزہ شہر پر
اسرائیلی حملے میں شدت آرہی ہے، قیدیوں کے
لواحقین کا اضطراب بھی بڑھتا جارہا ہے۔یروشلم میں وزیرِاعظم کی رہائش گاہ کے قریب
احتجاجی مظاہرے میں اسیر نوجوانوں کی مائیں انات انگرسٹ (Anat Angrest)اور وکی کوہن(Vicky Cohen) غم و غصے سے بے قابو ہوگئیں۔وکی کوہن نے بھرائی ہوئی آواز میں
کہاکہ 'وزیراعظم صاحب! آپ کی تاخیر سےمیرا بچہ سسک سسک کر مر رہا ہے۔ یرغمالی آپ
کی تقریروں، وضاحتوں اور بہانوں کے انتظار میں نہیں رہ سکتے۔ اگر آپ کو واقعی
پرواہ ہوتی تو میرا بچہ آج میرے ساتھ گھر پر ہوتا' ۔مظاہرین نے قیدیوں کی اذیت کے
علامتی اظہار کیلئےزنجیریں پہن رکھی تھیں۔
دانشوروں کی بغاوت
ممتاز اسرائیلی دانشور و مورخ ڈاکٹر Fania Oz Slazbeergerنے ٹویٹر (X)پر اسرائیلی فوجیوں سے درخواست کی ہے کہ وہ
غزہ جانے سے انکار کردیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا ہے کہ مسیحائی (Messianic)دائیں بازو کی جنونیت نے
اسرائیل کو تنہا کردیا ہے لہذا اب لڑائی سے انکار کے علاوہ اس بحران سے نکلنے کا
اور کوئی راستہ نہیں۔
قافلۂ صمود پر حملہ؟؟؟
غزہ
کی طرف محو سفر صمود کا ہراول دستہ تیونس کے قریب ہے۔منگل 9
ستمبر کی رات کارواں کے ایک جہاز پر آگ بھڑک اٹھی، تاہم فوری کارروائی سے شعلے
بجھا دیے گئے اورکوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔منتظمین کے خیال میں یہ ایک ڈرون حملہ
تھا لیکن تیونس کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ علاقے میں کسی ڈرون کی موجودگی کے شواہد
نہیں ملے اور آگ لگنے کی ممکنہ وجہ شارٹ سرکٹ تھی۔
عالمی عوامی ردعمل
حکومتوں کی بے حسی کے باجود عوامی سطح پر یورپ میں ردعمل شدید
ہوتاجارہاہے۔ صنعتِ سنگھار (Cosmetics) سے وابستہ برطانوی کمپنی Lush نے فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر 3 ستمبر کو ایک دن کے لیے
اپنی تمام دکانیں، ویب سائٹ اور فیکٹریاں بند رکھیں۔ ادارے نے اپنے اعلامئے میں
کہا "اگرچہ Lush ایک
دن کی آمدنی کھو رہی ہے، مگر اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ برطانوی حکومت اور عوامی
خزانے کو بھی اس دن ٹیکس کی آمدنی نہیں ملے گی"۔ لش کا یہ قدم یہ اس
بات کا ثبوت ہے کہ جب حکومتیں خاموش ہوں، تو ضمیر رکھنے والے ادارے بولتے ہیں۔
ہارورڈ بمقابلہ ٹرمپ: عدالت نے "یہود دشمنی"
کو پردہ قرار دیا
نسل کشی کے خلاف مظاہروں کو سام دشمنی یا Antisemitismقراردینے کی ٹرمپ منطق کو امریکی عدالت نے
مسترد کردیا۔امریکی صدرنے یہ الزام لگاکر جامعہ ہاروڈ کی دو
ارب ڈالر سے زائد کی وفاقی گرانٹ روک دی تھی۔جامعہ نے اس فیصلے ے خلاف اپیل دائر
کردی اور 3 ستمبر کو وفاقی جج ایلیسن بوروگز (Allison Burroughs)نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ٹرمپ انتظامیہ نے "یہود دشمنی"
کو محض ایک بہانے اور پردے کے طور پر استعمال کیا یہ دراصل ملک کی نمایاں جامعات پر ایک نظریاتی اور سیاسی
حملہ تھا"۔ فیصلے کے بعد ہارورڈ کی منجمد شدہ گرانٹ بحال کر دی گئی۔
یہ معاملہ آزادیِ اظہارِ رائے اور سیاسی انتقام کے درمیان کشمکش کی تازہ مثال ہے۔
ڈاکٹر عمر حرب کی بھوک سے موت: علم کی شمع بجھ گئی
غزہ
میں سینکڑوں بچے بھوک سے جاں بحق ہو چکے ہیں اور 4 ستمبر کو بھوک نے ایک استاد کو بھی
چاٹ لیا۔ممتاز دانشور و معلم ڈاکٹر عمر حرب بھوک سے دم توڑ گئے۔ ان کے بیوی بچے
دسمبر میں اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن چکے تھے۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم۔۔ تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ
کیا کئے
نوشتۂ دیوار: زعتر اور زیتون کی گواہی
ملبے
کی ایک سل پر کسی حوصلہ مند نے لکھ دیا:"باقون کالزعتر
والزیتون"یعنی ہم باقی رہیں گے، جیسے زعتر اور
زیتون۔زعتر مزاحمت کی خوشبو ہے اور زیتون فلسطین کی پہچان۔ یہ اس عزم کا اعلان ہے
کہ گھر تباہ ہوں یا شہر اجڑ جائیں، ہم اپنی زمین اور شناخت سے کبھی دستبردار نہیں
ہوں گے۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 12 ستمبر 2025
ہفت روزہ
دعوت دہلی 12 ستمبر 2025
ہفت روزہ رہبر سرینگر 14 ستمبر 2025
No comments:
Post a Comment