Thursday, September 18, 2025

 

دو ریاستی حل یا سفارتی فریب؟

تضادات اور امکانات

جمعہ 12 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کرلی۔ اس سے صرف 24 گھنٹے پہلے اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ ارضِ اسرائیل میں کوئی فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوگی۔

سعودی عرب اور فرانس کی اس مشترکہ قرارداد کو 'نیو یارک اعلامیہ' کا نام دیا گیاہے۔رائے شماری کے دوران 142 ممالک نےتحریک  کے حق میں ہاتھ بلند کئے۔امریکہ، اسرائیل، ارجنٹینا اور ہنگری سمیت 10 ممالک نے مخالفت میں ووٹ دیا، جبکہ 12 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ مسلم اکثریتی ممالک میں صرف البانیہ غیر جانبدار رہا، ورنہ پوری اسلامی دنیا نے قرارداد کی حمایت کی۔ اعلامیہ میں غزہ  جنگ کے خاتمے اور دو ریاستی حل کے مؤثر نفاذ کے لیے ٹھوس اور ناقابلِ واپسی اقدامات کی بات کی گئی ہے۔تاہم یہ قرارداد محض علامتی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ اقوام متحدہ میں قوتِ نافذہ کا اختیار صرف سلامتی کونسل کے پاس ہے، جہاں امریکہ کا ویٹو یقینی ہے۔ اس اعتبار سے یہ قرارداد ایک سیاسی اشارہ ضرور ہے، مگر عملی پیش رفت کی ضمانت نہیں۔

غیر حقیقی مطالبات

قرارداد میں فلسطینی مزاحمتی تنظیم سے کہا گیا ہےکہ وہ تمام یرغمالیوں کو رہا کرے اور غزہ سے اپنی حکمرانی ختم کرکے ہتھیار مقتدرہ فلسطین (PA) کے حوالے کردے۔یہ مطالبہ زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا، کیونکہ رام اللہ میں بھی PA کا اثر محدود ہے جبکہ غزہ میں اس کی عملداری نہ ہونے کے برابر ہے۔ مزید برآں، 2006 کے انتخابات میں مزاحمتی قوت کو عوامی مینڈیٹ ملا تھا، جو نئے انتخابات تک اخلاقی طور پر قائم رہیگا۔

ٹو اسٹیٹ یا فورٹی ایٹ (Two State or Forty Eight)

اقوام متحدہ کی قرارداد اگرچہ دو ریاستی حل کو "عملی" اور "ناقابلِ واپسی" راستہ قرار دیتی ہے، لیکن فلسطینی عوام کی ایک بڑی تعداد اب اس تصور کو مسترد کر چکی ہے۔ ان کے لیے دو ریاستی حل 1967 کی سرحدوں تک محدود اور اسرائیلی قبضے کو ایک مستقل حقیقت کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں "فورٹی ایٹ" کا مطالبہ،یعنی 1948 سے پہلے کی فلسطینی ریاست کی بحالی اب عوامی سطح پر ایک مزاحمتی بیانیہ بن چکا ہے۔ یہ مطالبہ نوآبادیاتی نظام کو مسترد کرتے ہوئے انصاف کی بنیاد پر تمام فلسطینیوں کی واپسی اور واحد ریاست کے اصول پر زور دیتا ہے۔

اس تناظر میں اقوام متحدہ کی قرارداد، چاہے کتنی ہی "عملی" کیوں نہ ہو، فلسطینی عوام کی اجتماعی آواز سے ہم آہنگ نہیں۔ خاص طور پر جب اس میں غزہ کی مزاحمتی قیادت سے ہتھیار ڈالنے اور اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا ہےجبکہ ان کا اخلاقی مینڈیٹ آج بھی قائم ہے۔یہ تضاد اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عالمی برادری کی سفارتی کوششیں زمینی حقائق اور عوامی جذبات سے کٹی ہوئی ہیں۔ یایوں کہئے کہ اس قرارداد نے سفارت کاری کے کاغذ پر ایک نئی لکیر ضرور کھینچی ہے، مگر فلسطین کے خونی افق پر کوئی نئی حقیقت نہیں تخلیق کی۔اگر دو ریاستی حل کو آگے بڑھانا ہے تو اسے فلسطینی عوام کی امنگوں، تاریخی شعور اور سیاسی حقیقتوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوگا، ورنہ یہ صرف ایک علامتی مشق ہی رہے گی۔

قطر پر حملہ، امریکہ کی مذمت اور اسرائیلی لابی کا دباؤ

جنرل اسمبلی میں منظور کردہ دوریاستی امن منصوبے  کے مستقبل کا اندزاہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قطر پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کی قرارداد امریکہ نے اس شرط پر منظور ہونے دی کہ اس میں اسرائیل کا نام نہیں لیا جائیگا۔ یعنی جارحیت کی مذمت تو ہوئی، مگر جارح کا نام لیے بغیر۔

امریکہ بہادر کی جانب سے اسرائیل کے اس درجہ لاڈوپیار کے بعد جنرل اسمبلی سے منظور ہونے والے دوریاستی امن منصوبے کے بارے میں کسی کو خوش فہمی میں مبتلا نہیں رہنا چایئے۔ سلامتی کونسل میں منظور ہونے والی مذمتی قرارداد کے باوجود اسرائیل اسے جارحیت تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور نیتن یاہو نے قطری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ فلسطینی تحریک مزاحمت سے وابستہ تمام افراد کو ملک بدر یا انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے ورنہ یہ کام اسرائیل خود کریگا۔ فوج کے سربراہ ایال ضامر بھی کہہ چکے ہیں کہ مزاحمتی تحریک کے رہنماوں کادنیا میں ہر جگہ تعاقب کیا جائیگا اور قطر پر دوبارہ حملے کے علاوہ ترکیہ میں مہم جوئی بھی خارج از امکان نہیں کہ تحریک مزاحمت سے وابستہ کچھ افراد مبینہ طور پر استنبول میں ہیں۔ اسرائیل اس سے پہلے تحریک کے سابق سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ایران میں قتل کرچکا ہے۔ اسرائیلی دہشت گردی کے بے قابو ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ سات سے نو ستمبر تک 72 گھنٹوں کے دوران اسرائیل نے  فلسطین، لبنان، شام،قطر،یمن اور تیونس کو جارحیت کا نشانہ بنایا۔

قطر پر حملہ اور امریکی تضاد

قطر پر حملے کے بعد صدر ٹرمپ کے بیان سے امریکہ میں اسرائیلی ترغیب کاری (Lobbying)کی قوت کا اندازہ ہوتا ہے۔ امریکی صدر نے قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئےکہا کہ یہ کاروائی امریکہ کے مفاد میں ہےنہ اسرائیل کے، بلکہ اس نے قطر جیسے قریبی اتحادی کو ناراض کر دیا ہے ۔ مگر اسی سانس میں انھوں نے مزاحمت کاروں کا خاتمہ ایک قابلِ قدر ہدف" بھی قرار دے دیا۔آن لائن خبر رساں ایجنسی POLITCO کے مطابق اس واقعہ پر ٹرمپ انتظامیہ، عوامی سطح پر ظاہر کئے گئے غصے سے کہیں زیادہ برہم ہے۔ یہ دوغلا پن امریکی سیاست کا المیہ بھی ہےاور اسرائیلی لابی کے اثرورسوخ کی نشانی بھی۔ کیا واشنگٹن واقعی امن چاہتا ہے؟ یا اسرائیلی لابی کے دباؤ میں صرف بیانیہ سنوار رہا ہے؟

نوآبادیاتی منصوبے اور نئی بستیاں

گیارہ ستبمبر کو وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے مقبوضہ مغربی کنارے میں بستیوں کے توسیعی منصوبے کی باضابطہ توثیق کر دی جسکا اعلان گزشتہ ماہ وزیر خزانہ بیزلیل اسموترچ نے کیا تھا۔اس منصوبے کے تحت قائم ہونے والی قبضہ گرد بستی،  مشرقی یروشلم، بیت اللحم اور رام اللہ کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا کر دے گی۔ مغربی کنارے کے شمالی اور جنوبی حصوں کے ایک دوسرے سے کٹ جانے کے بعد فلسطینی ریاست کا قیام عملاً ناممکن ہو جائے گا۔ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے پر قبضہ کیا تھا اور بین الاقوامی قانون کے مطابق یہاں قائم کی جانے والی تمام اسرائیلی بستیاں غیر قانونی ہیں۔ لیکن عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے اسرائیل اپنی بستیوں کو اس طرح پھیلا رہا ہے کہ مستقبل میں فلسطینی ریاست کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔

غزہ نسل کشی اور امریکی سیاست میں انتہا پسندی کی نئی لہر

صدر ٹرمپ اور امریکی قدامت پسندوں کی جانب سے غزہ نسل کشی کی حمائت اور اسرائیل کی غیرمشروط پشت پناہی نے امریکہ میں ہیجانی ماحول پیدا کردیا ہے۔معروف قدامت پسند سیاسی رہنما اور Turning Point USA کے شریک بانی Charlie Kirk کو امریکی ریاست یوٹا (Utah)کی جامعہ یوٹا ویلی (UVU) میں تقریر کرتے ہوئے 10 ستمبر کو قتل کردئے گئے۔

اکتیس سالہ چارلی کرک کو امریکہ میں قدامت پسند نوجوانوں کی تحریک کا علامتی چہرہ سمجھا جاتا تھا۔ وہ Fox News اور دیگر دائیں بازو کے پلیٹ فارمز پر نمایاں تبصرہ نگار، صدر ٹرمپ کے پرجوش حامی اور اعلیٰ تعلیم و لبرل پالیسیوں کے شدید ناقد تھے۔ کرک خود کو اسرائیل نواز راسخ العقیدہ مسیحی قرار دیتے تھے۔ جب صدر ٹرمپ نے یروشلم میں امریکی سفارتخانہ منتقل کیا تو کرک نے اس اقدام کو تاریخی قرار دیا اور نئی عمارت کا دورہ کرنے یروشلم بھی گئے۔غزہ پر اسرائیلی درندگی کے خلاف امریکی جامعات میں ہونے والے مظاہروں پر کرک سخت برہم تھے۔ ان کے مطابق امریکہ میں یہود دشمن جذبات کی کوئی گنجائش نہیں۔

چارلی کرک پر یہ حملہ صرف ایک شخص کو نشانہ بنانے کا واقعہ نہیں بلکہ یہ امریکہ کے سیاسی منظرنامے میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی، نفرت اور تشدد کی علامت بھی ہے۔ کرک ایک ایسا چہرہ تھے جو بیک وقت محبت اور نفرت، حمایت اور تنقید، امن اور اشتعال کا مرکز رہے۔

یورپی یونین کا محتاط بیانیہ اور فلوٹیلا پر تنقید

غزہ قتل عام پر یورپی عوام کی شدید ناراضگی کے  باوجود یورپی یونین کے سرکاری موقف پراحتیاط اور سیاسی مفادات کی چھاپ بہت واضح ہے۔ گزشتہ ہفتے یونین کی ترجمان محترمہ Eva Hrncirova نے غزہ کی طرف محو سفر قافلے (Flotilla) پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'یونین،  فلوٹیلا کی حوصلہ افزائی کرتی ہے نہ اسے مدد پہنچانے کا موثر ذریعہ سمجھتی ہے۔ہمارا خیال ہے کہ اس قسم کی کوششوں سے علاقے میں کشیدگی بڑھے گی۔' یہ غیر ضروری بیان 44 ممالک کے کارکنان، ارکانِ پارلیمان اور ماہرینِ قانون پر حملے کے لئے اسرائیل کو جواز فراہم کرسکتا ہے۔

صحافت پر قدغن، میڈیا سے خوف اور ICC گرفتاری کا اندیشہ

غزہ پر حملے کے بعد سے اسرائیل میں بدترین سنسر نافذ ہے۔ مغربی کنارے میں الجزیرہ ٹی وی کے دفاتر بند کر دیے گئے ہیں اور نہتے فلسطینیوں کے ساتھ صحافی بھی اسرائیلی فوج کے خاص نشانے پر ہیں۔ اب نیتن یاہو اسرائیلی صحافیوں سے بھی خوفزدہ  دکھائی دیتے ہیں۔ کیمرے اور قلم کا خوف اب اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ 11 ستمبر کو اُنکے  دفتر نے اعلان کیا کہ اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرنے جب وزیراعظم  نیویارک روانہ ہونگے تو "تیکنیکی وجوہات" کی بنا پر کسی صحافی کو وزیراعظم کے سرکاری جہاز پرِ صہیون (Wing of Zion) میں نشست نہیں دی جائے گی۔نیویارک کے سفر میں صحافیوں کو ساتھ نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ یورپ میں نیتن یاہو کے خلاف عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے جاری کردہ پروانہِ گرفتاری پر عمل درآمد کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کو اندیشہ ہے کہ اگر کسی ہنگامی صورتحال کے باعث ان کے جہاز کو یورپ میں کہیں اترنا پڑ گیا تو گرفتاری کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اسی لئےپرواز کے لیے ایسے راستے کا انتخاب کیا جائیگا جس میں پرِ صہیون صرف ان ممالک کی فضائی حدود میں رہے جو ICC کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتے۔اگر جہاز پر صحافی موجود ہوئے تو وہ غیر ضروری طویل راستہ اختیار کرنے پر وزیراعظم سے سوال کرسکتے ہیں اور اگر جہاز کو یورپ میں کہیں اترنا پڑا تو ممکنہ گرفتاری کی خبر عالمی میڈیا کی سرخی بن سکتی ہے۔ اسی ایندیشہ ہائے دوردراز نے نیتن یاہو کو کیمروں اور قلم سے خوفزدہ کردیا ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 19 ستمبر 2025

ہفت وزہ دعوت دہلی 19 دستمبر 2025

روزنامہ امت کراچی 19 ستمبر 2025

ہفت روزہ رہبر سرینگر 21 ستمبر 2025


No comments:

Post a Comment