Friday, September 26, 2025

 

وحشیانہ یلغار، امریکی آشیر واد، سفارتی فریب اور تضادات

آسٹریلیا، پرتگال، برطانیہ کینیڈا، فرانس، بیلجیم، لکسمبرگ، مالٹا، سان میرینو اور انڈورا نے فلسطین کو آزاد و خودمختار ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ واشنگٹن کے خیال میں یہ فیصلہ ایک "نمائشی" (performative) قدم ہے۔امریکہ اور اسرائیل کا ردِعمل غیر متوقع ہے اور نہ ہی اس پر کسی تبصرے کی ضرورت، مگر یہ فیصلہ خود فلسطینیوں کے لیے کوئی حقیقی راحت نہیں لایا۔ اس میں 1948 کے بجائے 1967 کی سرحدوں کو حتمی قرار دیا گیا ہے، یعنی فلسطینیوں کو پورے ملک سے بیدخل کرکے صرف غربِ اردن اور غزہ تک محدود کرنے کے توسیع پسندانہ اقدامات کو عملی طور پر جائز تسلیم کرلیا گیا۔اسی کے ساتھ مزاحمتی قوتوں پر پابندیوں کا عزم ظاہر کرتے ہوئے، مستقبل کے فلسطین میں ان کے سیاسی کردار کو ناقابلِ قبول قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ موقف اس لحاظ سے غیر منصفانہ ہے کہ 2006 کے پہلے فلسطینی عام انتخابات میں یہی مزاحمتی تنظیم سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی، اور جب تک نئے انتخابات نہیں ہوتے، اس کا اخلاقی مینڈیٹ قائم ہے۔فلسطین کی آزادی کا مطلب صرف جغرافیائی شناخت نہیں بلکہ سیاسی خود ارادیت بھی ہے، اور تمام نمائندہ قوتوں کو شامل کیے بغیر یہ ہدف حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس تناظر میں تازہ ترین سفارتی "تسلیم" محض کاغذ پر کھینچی ایک ایسی لکیر ہے، جو فلسطینی عوام کی امنگوں اور زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہیں۔

وحشیانہ حملہ اور جامعہ غزہ کی تباہی

غزہ شہر پر 15 ستمبر کو شروع ہونے والی وحشیانہ یلغار جاری ہے اور ہر گزرتے لمحے درندگی میں اضافہ ہورہا ہے۔ دھماکے سے ریزہ ریزہ ہوتی کثیر المنزلہ عمارتوں اور شعلوں میں لپٹے گھروندوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپنےسفاکانہ ٹبصروں کیساتھ وزیردفاع خود پیش کر رہے ہیں۔ غزہ کی اسلامی جامعہ کو زمین بوس کرنے کی تصویر پر "اسلامک" کے گرد قوسین کھینچ کر انھوں نے اپنی نفرت کا خصوصی اظہار کیا۔ ہلاکو اور چنگیز خان بھی مدارس اور کتب خانوں کو جلاتے تھے لیکن ان کے پاس امریکہ کے فراہم کردہ بنکر بسٹر بم نہیں تھے۔

امریکی اسلحہ اور سلامتی کونسل کا چھٹا ویٹو

خون ریزی میں معاونت کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو 6 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ فراہم کرنے کا نوٹس کانگریس کو بھیجا ہے۔ اس کھیپ میں غزہ شہر کے رہائشی علاقوں پر حملوں کے لیے 30 اپاچی ہیلی کاپٹر اور 3000 سے زیادہ بکتر بند گاڑیاں شامل ہیں (حوالہ: وال اسٹریٹ جرنل)۔امریکہ نے 18 ستمبر کو سلامتی کونسل کی اس قرارداد کو ویٹو کردیا جس میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ پاکستان سمیت 10 غیر مستقل ارکان نے یہ تحریک پیش کی تھی اور 15 میں سے 14 ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ امریکی نمائندہ مورگن اورٹیگس (Morgan Ortagus) نے کہا کہ  قرارداد "مزاحمت کاروں کی حمایت میں غلط بیانیوں کو جائز قرار دیتی ہے"۔ یہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے امریکہ کا چھٹا ویٹو ہے۔

اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں کا احتجاج

امریکہ بہادر تو جنگ بندی کے حق میں ہاتھ بلند نہ کرسکے لیکن 16 ستمبر کو اسرائیل کی انسانی حقوق کی  تنظیموں نے اپنی حکومت پر فردِ جرم عائد کردی۔ ایسوسی ایشن فار سول رائٹس ان اسرائیل (ACRI)، فزیشنز فار ہیومن رائٹس، گیسا اور عدالہ نے مشترکہ بیان میں کہا کہ غزہ شہر کے لیے دی گئی اجتماعی انخلا کی دھمکی جبری بے دخلی اور نسلی تطہیر کے مترادف  اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے ۔

حوالہ: ہارٹز(Haaretz)

اقوام متحدہ کا تضاد اور پوپ کی ہچکچاہٹ

اقوامِ متحدہ کی انڈیپنڈنٹ انٹرنیشنل کمیشن آف انکوائری نے اپنی تازہ رپورٹ میں صاف صاف کہدیا کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ کمیشن کی سربراہ نیوی پلے (Navi Pillay) نے اسرائیلی قیادت بشمول وزیراعظم نیتن یاہو، سابق وزیر دفاع یوآف گیلنٹ اور صدر اسحاق ہرزوگ کو براہِ راست ذمہ دار ٹھہرایا۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ وولکر ترک (Volker Turk) نے کہا کہ شواہد تیزی سے جنگی جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہیں لیکن انھوں نے "نسل کشی" کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کیا۔ اسی طرح 19 ستمبر کوپاپائے روم نے غزہ کی صورتحال پر تشویش کا اظہار تو کیا لیکن فوراً وضاحت فرمائی کہ فی الحال ہم اسے "نسل کشی" نہیں کہہ سکتے۔

یورپی یونین کی تاخیر اور تجارتی مفادات

یورپی کمیشن نے 'تجویز' دی ہے کہ اسرائیلی مصنوعات پر فری ٹریڈ سہولت معطل کی جائے۔ اسرائیلی وزرا ایتامار بن گویر (Itamar Ben-Gvir) اور بیزلیل اسموترچ (Bezalel Smotrich) پر پابندیاں لگانے کی سفارش بھی اس تجویز کا حصہ ہے۔ تاہم یورپی ممالک خصوصاً جرمنی مزید وقت چاہتے ہیں۔ یورپی یونین کی سربراہ برائے خارجہ امور محترمہ کایا کالس (Kaja Kallas) نے کہا کہ مقصد اسرائیل کو سزا دینا نہیں بلکہ انسانی بحران کو کم کرنا ہے۔ تاخیر اور ہچکچاہٹ "گوری دنیا" کی ترجیحات کو بے نقاب کررہی ہے۔

غزہ سے سینائی کی طرف دھکیلنے کی سازش

اب غزہ کے مظلوموں کو صحرائے سینائی کی طرف دھکیلنے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں۔ نیتن یاہو نے الزام لگایا کہ مصر،  فلسطینیوں کو "جنگی علاقے میں قید" رکھ کر ان کے انخلا کی راہ روک رہا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ  دباؤ ڈال رہے ہیں کہ مصر اہلِ غزہ کو سینائی میں آباد کرے تاکہ علاقے کو ایک پرتعیش تفریحی مقام (Riviera) میں تبدیل کیا جا سکے۔اس سلسلے میں ٹرمپ انتظامیہ مبینہ طور پر 'بزنس پلان' بھی بناچکی ہے۔ر فح پھاٹک کھولنے پر جنرل السیسی کو آمادہ کرنے کیلئے مصر کے خلاف فوجی کاروائی بھی خارج از امکان نہیں۔

اجڑے دیار اور بچوں کے مزار پر نفع بخش کاروبار

اسرائیلی وزیرِ خزانہ بیزلیل اسموترچ نے تل ابیب میں ایک کانفرنس کے دوران اعلان کیا کہ غزہ کی تباہی نے رئیل اسٹیٹ کے ایک شاندار موقع (Bonanza) کو  جنم دیا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ  ہم نے اس جنگ پر بہت پیسہ خرچ کیا ہے، اب یہ طئے کرنا باقی ہے کہ زمین کو کس تناسب سے تقسیم کیا جائے۔ اسموترچ صاحب نے مزید کہا کہ تباہی ہم نے کر دی ہے، جو شہر کی تعمیرِ نو کا پہلا مرحلہ ہے اور اگلے مرحلے کا بزنس پلان صدر ٹرمپ کی میز پر رکھا ہے۔ حوالہ: ٹائمز آف اسرائیل

امریکی سیاست اور اسرائیلی لابی

امریکی سیاستدان اب نیٹو اتحادیوں کو بھی دھمکانے لگے ہیں۔ ریپبلکن رہنما محترمہ ایلیس اسٹیفانک (Elise Stefanic) اور سینیٹر رک اسکاٹ (Rick Scott) نے اتحادی ممالک پر زور دیا ہےکہا کہ وہ فلسطینی ریاست کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ دوسری طرف وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق صدر ٹرمپ نے اپنے مشیروں سے کہا کہ نیتن یاہو انھیں "دھوکہ دے رہے ہیں" لیکن وہ لابی کے دباؤ کے باعث کھل کر کچھ نہیں کہہ سکتے۔امریکی حکام کے مطابق صدر ٹرمپ اسرائیلی فیصلوں پر اکثر ناخوش رہتے ہیں، جس کی بازگشت نجی نشستوں میں سنائی دیتی ہے، مگر وہ نیتن یاہو کے امریکی پالیسی سے متصادم اقدامات کو برداشت کر لیتے ہیں۔ یہ ہے اسرائیلی ترغیب کاری(Lobby) کی اصل طاقت کہ ایک سپر پاور کا صدر بھی کھل کر حقیقت بیان نہیں کر سکتا۔

قیدیوں کے اہلِ خانہ کا احتجاج

بیس ستمبر کو مزاحمت کاروں نے "زندہ" قیدیوں کی الوداعی تصویر جاری کی، جس پر عبرانی اور عربی میں درج تھا: "نیتن یاہو کے غرور اور جنرل زامیر کی تابع داری کے باعث، یہ الوداعی تصویر ہے جو غزہ میں کارروائی کے آغاز کے وقت جاری کی گئی۔" اس پر قیدیوں کے لواحقین لرز کر رہ گئے اور وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر دھرنا ڈال دیا۔ ایک قیدی متان زانگاؤکر (Matan Zangauker) کی والدہ نے کہاکہ نیتن یاہو اقتدار کے لیے اپنی ہی قوم کو قربان کر رہے ہیں۔ ایک اور قیدی متان انگرسٹ (Matan Angrest) کی والدہ نے فوجی سربراہ ایال زامیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا "آپ نیتن یاہو کے غلام ہیں یا اپنی قوم کے محافظ؟"

فنکاروں کا بائیکاٹ اور عالمی یکجہتی

چار سو سے زائد بین الاقوامی فنکاروں نے اسرائیل میں جاری مظالم کے خلاف بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ موسیقی کے گروپس Massive Attack، Rina Sawayama اور Japanese Breakfast نے اپنی موسیقی اسرائیلی اسٹریمنگ پلیٹ فارمز سے ہٹا لی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "ثقافت خود بموں کو نہیں روک سکتی لیکن یہ سیاسی جبر کو مسترد کرنے اور انصاف کی طرف عوامی رائے منتقل کرنے میں مدد کر سکتی ہے"۔

بائیکاٹ مہم ۔۔کارفور کی شوخی کافور  

مسلم قائدین کی خاموشی کے باوجود عوامئ سطح پر اسرائیل نواز مصنوعات اور کاروبار کے خلاف بائیکاٹ  مہم میں شدت آرہی ہے۔ فرانسیسی سپر مارکیٹ Carrefour نے کوئت میں اپنی دوکان بڑھادینے کا اعلان کردیا۔ عوامی دباؤ کے باعث یہ ادارہ بحرین، عمان اور اردن سے اپنا کاروبار پہلے ہی لپیٹ چکا ہے۔کارفور اسرائیلی فوجیوں کو تحائف فراہم کرنے اور غیر قانونی بستیوں میں شراکت داری پر عالمی تنقید کا نشانہ بنی ہوئی  ہے۔

صمود فلوٹیلا

"صمود فلوٹیلا" 15 ستمبر کو تیونس کی بنزرت (Bizerte) بندرگاہ سے غزہ کے لیے روانہ ہوا۔ اس قافلے میں 44 ممالک کے ارکان پارلیمان اور انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما مشتاق احمد خان بھی اس کارواں میں شریک ہیں۔

یمن: قلم اور کیمرے کے دشمن

غزہ کی طرح یمن میں بھی صحافی اسرائیلی بمباری کا نشانہ ہیں۔منگل 16 ستمبر کو صنعاء پر حملے میں 31 صحافی شہید ہوئے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 26 ستمبر 2025

ہفت روزہ دعوت دہلی 26 ستمبر 2025

روزنامہ امت کراچی 26 ستمبر 2025

ہفت روزہ سرینگر 28 ستمبر 2025


No comments:

Post a Comment