Thursday, July 14, 2022

جاپان کے سابق وزیر اعظم کا قتل

 

جاپان کے سابق وزیر اعظم کا قتل

جاپان کے سابق وزیراعظم شنزو آبے (Shinzo Abe) 8 جولائی کو  قتل کردئے گئے۔ وہ جنوب مشرقی  جاپان کے شہر Naraمیں اپنی جماعت  لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک جلسے سے خطاب کررہے تھے کہ انھیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ۔ واقعے کے دودن بعد،  اتوار 10جولائی کو جاپانی ایوانِ بالا یعنی ہاوس آف کونسلرز (House of Councilors)کی 245 میں سے 124 نشستوں پر انتخابات ہونے تھے۔ آفرین ہے جاپانی قوم پر کہ اس  بہیمانہ قتل کے باوجود  یہ انتخابات وقت پر ہونےا ور تمام جماعتوں نے انتخابی مہم  بھرپو انداز میں جاری رکھی۔وزیراعظم اور مقتول رہنما کی جماعت  لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ فیومیو کشیدہ نے قوم سے اپنے خطاب میں کہاکہ ' ہم اپنےقائد پر چلنے والی گولیوں کا انتقام پرچیوں (ووٹوں) سے لیں گے'

ایوان بالا (سینیٹ) کو جاپانی سینگین (Sangiin)کہتے ہیں۔ اسے آپ ہندوستان کی  راجیہ سبھا یا پاکستان کی سینیٹ سمجھیں۔ سینگین کی مدت 6 سال ہے اور اسے کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ ہر تین سال بعد نصف کے قریب ارکان کی مدت پوری ہوجاتی ہے۔ جاپان میں ایوان بالا کی ساٹھ فیصد نشستوں پر پاکستان اور ہندوستان کی طرح حلقہ وار چناو ہوتا ہے جبکہ 40 فیصد ارکان متناسب نمائندگی کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں۔جناب  ایبے کے قتل سے انکی  حکمران جماعت کو زبردست سیاسی فائدہ پہنچا اور جن 124 نشستوں پر اتخابات ہوئے ان میں سے 83  لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی جھولی میں آگریں۔اتوار کو ووٹ ڈالنے کا تناسب 52 فیصد رہا، گزشتہ انتخاب میں 48 فیصد رجسٹرد جاپانی ووٹروں نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔

شنزو ایبے کا  مبینہ قاتل 41 سالہ ٹیٹسوا یاماگامی(Tetsuya Yamagami) جاپانی فوج کا سابق سپاہی ہے۔اس نے اپنے ابتدائی اعترافی بیان میں کہا کہ  اسے سابق وزیراعظم کی معاشی پالیسوں  اور 'غریب کُش' اقدامات پر سخت غصہ تھا اور اس نے جناب ایبے کو جان سے مارنے کیلئے انکے سینے کا نشانہ لیا۔

حکمرانوں اور سیاسی رہنماوں کا قتل لرزہ خیز تو ہے لیکن یہ واقعات انہونے شمار نہیں ہوتے۔ امریکہ کے چار صدور دورانِ اقتدار قتل کئے جاچکے ہیں۔ جن میں سب سے مشہور ابراہام لنکن ہیں جنھیں وہائٹ ہاوس کے تھیٹر میں ایک کھیل دیکھتے ہوئے 1865 میں چند فٹ کے فاصلے سے نشانہ بنایا گیا۔ صدر جیمز گارفیلڈ 1881 میں دارالحکومت کے ریلوے اسٹیشن پر گولیوں سے بھون دئے گئے۔۔صدر ولیم مک کنلی 1901 اور صدر رجان ایف کینیڈی 1963 میں قتل ہوئے۔ صدر کینیڈی کے قتل کے 5 سال بعد انکے چھوٹے بھائی سینٹر رابرٹ کینیڈی کو  لاس انجیلس کے ہوٹل میں گولی مار دی گئی۔ سینٹر صاحب کا مبینہ قاتل سرحان سرحان ایک مسیحی فلسطینی ہے جو امریکہ کی اسرائیل نواز پالسی پر سخت برہم تھا۔ سرحان سرحان کیلی فورنیاکے ایک وفاقی قید خانے میں عمر قید بھگت رہا ہے۔برطانوی وزیراعظم اسپینسر پرسِول (Spencer Perceval) مئی 1812 میں قتل ہوئے۔

برصغیر میں آزادی کے بعد رہنماوں کے قتل کی پہلی المناک وارادت جنوری 1948 میں ہوئی جب مہاتما گاندھی قتل کردئے گئے جسکے تین سال بعد اکتوبر 1951 میں پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوبزادہ لیاقت علی خان مارے گئے، 1984 میں بھارتی وزیراعظم شریمتی اندرا گاندھی ایک حملے میں اپنی جان سے گئیں اور دسمبر  2007 میں پاکستان کی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو گولیوں کا نشانہ بنیں۔ سوئے اتفاق کہ لیاقت علی خان کو راولپنڈی کے کمپنی باغ  میں جلسہ عام سے  خطاب کے دوران ہدف بنایا گیا۔ بعد میں کمپنی باغ کا نام لیاقت باغ رکھدیا گیا جہاں جلسہ عام سے خطاب کے بعد واپس جاتے ہوئے بینظیر بھٹو پرگولی چلائی گئی۔

عرب دنیا کے مقتول  رہنماوں  کا ذکر کیا جائے تو  مصر کے صدر انوارالسادات 1970 میں فوجی پریڈ کے دوران ایک سپاہی کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے جبکہ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز کو بھرے دربار میں انکے بھتیجے نے قتل کردیا۔ لیبیا کے معمر قذافی 2011 کی عوامی بغاوت کے دوران ہجوم کے ہاتھوں مارے گئے۔

جاپان کا شمار دنیاکے چند محفوظ ترین ملکوں میں ہوتا ہے۔ وہاں  خودکشی تو عام ہے لیکن قتل کی واردتیں بہت کم ہوتی ہیں۔ جاپان میں امریکہ کے برخلاف عام لوگوں کو پستول یا بندوق رکھنے کی اجازت نہیں اور شکار کیلئےلائسنس بھی کڑی جانچ پڑتال کے بعد ملتا ہے۔جناب ایبے کے خون سے پہلے گزشتہ 63 سال کے دوران وہاں صرف دو سیاسی قتل ہوئے ، 1960 میں سوشلسٹ پارٹی کے رہنما انیجیرو اسانوما(Inejiro Asanama) کو ایک بدنام زمانہ جرائم پیشہ گروہ نے تلوار سے کاٹ کر ہلاک کردیا تھا۔اس نوعیت کا آخری قتل 2007 میں ہوا جب ناگاساکی کے امیرِ شہر ایچو ایتو (Iccho Ito) کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا۔ سیاسی قتل سے ناآشنا جاپانی اپنے سابق وزیراعظم کے قتل پر اب تک سکتے  میں ہیں۔فروری 1986میں ایسی ہی کیفیت سوئیڈن پر طاری ہوئی تھی جب وزیراعظم الوف پامے Olof Palme کو اسوقت قتل کردیا گیا جب وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ سنیما سے فلم دیکھ کر پیدل ایوان وزیراعظم واپس آرہے تھے۔ سوئیڈن  ا ب بھی نسبتاً پرامن ملک ہے لیکن اسوقت اعتمادکا یہ عالم تھا کہ وزیراعظم اور اعلیٰ حکومتی عمال نجی سرگرمیوں کے دوران محافظوں کےبغیر سفر کرتے تھے۔

شنزوآبے طویل ترین مدت تک وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر رہنے والے جاپانی سیاست دان تھے۔انکے اقتدار کا مجموعی دوارنیہ 9 سال سے زائد رہا۔جناب ایبے نے 21 ستمبر 1954 کو ایک صاحبِ ثروت و اقتدار گھرانے  میں آنکھ کھولی۔ انکا ننہیال اور ددھیال دونوں ہی کا تعلق مقتدر طبقے سے تھا۔ امریکہ سے پبلک پالیسی میں اعلیٰ تعلیم کے بعد 1993 میں  وہ ملک کے جنوب مغربی  جاپان کے ساحلی شہر  یاما گچی  (Yamaguchi) سے ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) کے رکن منتخب ہوئے اور 2021 تک ہر انتخاب میں مسلسل کامیاب ہوتے رہے۔ وہ ستمبر  2006 میں وزیر اعظم منتخب ہوئے، اسوقت ایبے صاحب کی عمر 52 برس تھی اور انکا شمار جاپان کے سب سے کم عمر وزیر اعظم میں ہوتا تھا۔اس سے قارئین اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جاپانی قوم کتنی تیزی سے بوڑھی ہورہی ہے۔

اقتدار سنبھالتے ہی جناب ایبے نے اپنے قدامت پسند منشور پر جارحانہ انداز عملدرآمد شروع کردیا۔حکومتی اخراجات میں کمی کیلئے سماجی فلاح و بہبود اور اجتماعی خیر کے کئی پرواگرام بند کردئے گئے۔ اسوقت امریکہ میں شوقِ کشور کُشائی میں ڈوبے جارج بش برسراقتدار تھے۔اپنے امریکی دوست کے زیر اثر جناب ایبے نے بھی دفاعی اخراجات میں بھاری اضافہ کردیا اور ساتھ ہی شمالی کوریا کے خلاف انکا لہجہ بڑا سخت ہوگیا۔ اس دوران بحرالکاہل پر نظر رکھنے انھوں نے جاپان، ہندوستان، آسٹریلیا اور امریکہ کے مابین چار فریقی مکالمہ برائے تحفظ (Quadrilateral Security Dialogue) المروف Quadکی تجویز پیش کی جسے صدر بش کی جانب سے زبردست پزیرائی نصیب ہوئی۔ کواڈ کا آغاز تو مکالمے کی صورت میں ہوا لیکن جلد ہی  یہ معاہدہِ اربعہ کی شکل میں ان چار ملکوں کی بحریہ کا عسکری اتحاد بن گیا۔چین کا خیال ہے کہ کواڈ بحرالکاہل کا نیٹو ہے جسکا مقصد ضرورت پڑنے پر بحر جنوبی سے بحر ہندکی طرف آنے اور جانیوالے بحری ٹریفک کو قابو کرنا ہے۔ بحر ِجنوبی چین سے بحر ہند کی طرف آنے والا راستہ آبنائے ملاکا سے ہوکر گزرتاہے جسکی نگرانی کیلئے ہند ناو سینا (بھارتی بحریہ) نے بحر انڈمان اور خلیج بنگال کے قریب امریکی و آسٹریلوی بحریہ کے تعاون سے جنگی جہاز تعینات کردئے ہیں۔اسی دوران شینزو ایبے نے امریکی صدر کے اصرار پر اضافی فوجی دستے اور مہلک ہتھیار افغانستان بھیجے۔

ان اقدامات سے انھیں مغرب میں  تو پزیرائی نصیب ہوئی لیکن فوجی اخراجات میں اضافے اور سماجی بہبود کے پروگراموں میں کٹوٹی کو جاپانی عوام نے پسند نہیں کیا۔اسی کیساتھ جناب ایبے کے بعض وزرا کے بارے میں بدعنوانیوں کی کچھ کہانیاں بھی منظر عام پر آئیں اور   2007 کے پارلیمانی انتخابات میں حزب اختلاف کی ڈیموکریٹک پارٹی نے ایوان بالا حکمراں جماعت سے چھین لیا اور جناب ایبے نے وزارت عظمیٰ سے استعفی دیدیا۔

پانچ سال بعد 2012 کے انتخابات میں انکی جماعت نے ایوان نمائندگان کی 480 میں  سے294 نشستیں جیت لیں لیکن ایوان بالا میں انکے مخالفین کو برتری حاصل تھی۔ جاپانی آئین کے تحت ایوان بالا ایوان نمائندگان  کی کسی بھی قرارداد، ضابطہِ قانوں یا فیصلوں کو مسترد کرسکتا ہے اور اس ویٹو کو  غیر موثر کرنے کیلئے ایوان نمائندگان کی دوتہائی اکثریت ضروری ہے چنانچہ جناب ایبے نے واضح اکثریت  کے باوجود دوتہائی حمائت کیلئے  ٓمذہبی خیالات کی حامل انتہائی  قدامت پسند جماعت نیو کمیٹو پارٹی (NKP)سے مل کر مخلوط حکومت بنالی۔جناب ایبے کی قیادت میں حکمراں اتحاد نے 2014اور اسکے بعد 2017 کے انتخابات میں پالیمانی برتری برقرار رکھی اور وہ  پہلے مدت کے بعد مسلسل تین  بار جاپان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔اسطرح انھیں  کم عمر کیساتھ سب سے طویل عرصے تک جاپان کاوزیراعظم رہنے کا اعزاز حاصل ہوا، جس ملک میں وزرائے اعظم کے اقتدار کی اوسط عمر ڈیڑھ سال ہے وہاں انجہانی  نے 9 سال حکومت کی۔

دوسرے بہت سے رہنماوں کی طرح  کرونا کی وبا شینزوایبے کے زوال کا سبب بنی۔ اس نامراد سے نبٹنے کیلئے ایبے سرکار نے جو اقدامات اٹھائے وہ عوام میں خاصے غیر مقبول تھے۔ اسی دوران انکی صحت بھی خراب ہوگئی۔قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ جناب ایبے بڑی آنت کے سرطان میں مبتلا تھے چنانچہ انھوں نے گزشتہ برس 28 اگست کو اسعفیٰ دیدیا اور انکے معتمد یوشی سوگا (Yushihide Suga)وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ جناب سوگا بہت جلد عوام میں غیر مقبول ہو گئے اور صرف تیرہ ماہ بعد انھوں نے پارٹی قیادت سے استعفیٰ دیدیا۔ اب مسٹر فیومیو کشیدہ وزیراعظم ہیں۔ سیاست کے ڈھنگ نرالے ہیں کہ 2020 سے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی غیر مقبولیت کا سلسلہ شروع ہوا اور ڈر تھا کہ اتوار کو ایوان بالا کے انتخابات میں حکمراں جماعت کو ہزیمت کا سامنا ہوگالیکن جناب ایبے کے قتل  نے پانسہ پلٹ دیا اور اب ایوان زیریں کے ساتھ حکمراں جماعت کو ایوا ن بالا میں بھی برتری حاصل ہوگئی ہے۔

آنجہانی جاپانی تاریخ کے سب سے قدامت پسند وزیراعظم ہونے کے سساتھ تعصب و تنگ نظری کی حد تک قوم پرست تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپانی فوج کے مظالم کی ذکر پر موصوف مشتعل ہوجاتے تھے اور بات بے بات پھٹ پڑنے کی عادت سے  جاپان کا قریب ترین علاقائی حلیف جنوبی کوریا بھی ان سے نالاں تھا ۔

جاپانی کی شرح پیدائش میں کمی اور تیزی سے بوڑھی ہوتی آبادی  کا موصوف کو شدت سے احساس تھا۔ انکے دور میں شرح پیدائش بڑھانے کے لیے کئی پالیسیاں وضع کی گئیں۔ دفاتر اور کارخانوں میں نوجوان والدین کے لیے کام کی جگہ کو دوستانہ بنایا گیا۔ ماؤں کیلئے دورانِ رضاعت تنخواہ کے ساتھ تعطیل اور دوسری  مراعات کا اعلاں کیا گیا۔ نوزائیدہ بچوں کیلئے خصوصی وظیفے جاری ہوئے۔افرادی قوت کیلئے ویزے کی پابندیوں کو بھی نرم کیا گیا لیکن  شام، عراق،  لیبیا اور دوسرے علاقے عرب پناہ گزینوں کی جاپان میں آبادکاری کی تجویز شینزو ایبے نے یکسر مسترد کردی۔

اس قتل کا بنیادی محرک سرمایہ دارانہ نظام کا وہ ظالمانہ پہلو ہے جو ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانیوالوں کو آگے بڑھنے کا موقعہ فراہم کرنے کے بجائے ان بدنصیبوں کی ناداری کا سبب اس طبقے کی نااہلی اور کام چوری کو قراردیتا ہے۔ یاماگامی اسی طبقے کا ایک فرد ہے جس کی محرومی نے انتقام کی ایسی آگ اسکے دل میں بھڑکادی جس نے اسے جناب ایبے کے قتل کیلئے یکسو کردیا۔ جاپانی سراغرساں ادارے اور تحقیقات کار اب تک اس نتیجے پر نہیں پہنچے کہ مبینہ قاتل نے آتشیں اسلحہ کیسے حاصل کیا کیوں کہ اسکے پاس  اسلحے کا لائسنس نہیں تھا اور جاپان میں لائسینس  کے بغیر ایک کارتوس خریدنا بھی ممکن نہیں۔ ملزم کے گھر کی تلاشی کے دوران  جو شواہد حاصل ہوئے اسکے مطابق وہاں 'گھریلو ساخت' کا اسلحہ پایا گیا۔ چونکہ یاماگامی سابق فوجی ہے اسلئے غالباً اس نے پرزے جوڑکر 'جُگاڑ' کے ذریعے پستول تیار کرلی اور  سابق وزیراعظم کو اتنے  قریب سے نشانہ بنایا کہ یہ مہمل سی  پستول مہلک ثابت ہوئی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 15 جولائی 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 15 جولائی 2022

روزنامہ امت کراچی 15 جولائی 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 17 جولائی 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Monday, July 11, 2022

بوسنیا نسل کشی کی 27 ویں برسی

 

بوسنیا نسل کشی کی 27 ویں برسی

آج بلقانی ریاستوں اور ترکی میں بوسنیا کے مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کی 27 ویں برسی منائی جارہی ہے۔

سوویت یونین کے خاتمے پر روس نواز مشرقی یورپ کی شکست و ریخت کے ساتھ یوگوسلاویہ میں سربوں اور کروٹس (CROATS)کے درمیان خونریز تصادم شروع ہوا۔ ہنگری ، رومانیہ اور بلغاریہ سے متصل مشرقی حصے میں سربو ں کی اکثریت تھی جبکہ شمال اور Adriatic Seaکے مغربی کنارے یعنی مشرقی یوگوسلاویہ میں کروٹوں کا غلبہ تھا۔ درمیان کے علاقے میں بوسینائی و ترک نسل کے مسلم آباد تھے۔ سرب اور کروشیائی دونوں کی خواہش تھی کہ بوسنیا انکا حصہ بن جائے۔ سربوں کو بوسنیا سے اسلئے بھی زیادہ دلچسپی تھی کہ اس کے جنوبی حصے سے سمندر تک رسائی تھی۔

اہل بوسنیا سربوں اور کروشیائی نسل کی کشمکش میں غیر جانبدار رہے لیکن انتہا پسند سربوں نے اسے صلیبی جنگ بنادیا۔ عثمانی دور کے 'مظالم' کی کہانیاں گھڑی گئیں اور چھاپہ مار گروہوں نے مسلم آبادیوں پر حملے شروع کردئے۔

دلچسپ بات کہ 1992 سے پہلے تک بوسنیا میں اسلام چند ایک مساجد اور تجہیزو تکفین تک محدود تھا یاں یوں کہئے کہ مسلمانوں کی شناخت مسلم قبرستان تھا۔ پاکستان میں بوسنیا کی سابق سفیر ساجدہ سلاجک نے بتایا کہ اسلا م سے ان سے تعارف بس اتنا تھا کہ جب انکے دادا کا انتقال ہوا تو مرحوم کی تدفین مسلم قبرستان میں ہوئی ۔ لیکن نام کی حد تک وابستگی بھی قتل کیلئے معقول جواز قرار پایا۔سارے بوسنیا میں 1992 سے 1995 تک مسلم کش فسادات ہوئے لیکن سرائیوو (بوسنیا کا دارالحکومت) اور سیبرنیکا (Srebrenica) دہشت گردوں کے خاص ہدف تھے۔

جولائی 1995 کے آغاز پر جدید اسلحے سے لیس یوگوسلاویہ کے سرب فوجی سیبرنیکا میں داخل ہوئے اور سارے شہر کی مسلم آبادی کو گھروں سے نکال کر خواتین و بچیوں کو الگ کرکے 8000 مردوں کا ریوڑ شہر کی جانب ہنکادیا گیا۔ ہم نے جان کر ہنکایا کہا ہے کہ ہاتھ پشت پر بندھے ان لوگوں کو جانوروں کی طرح فروخت کیا گیا۔ خریدنے والے وہ ظالم تھے جنھوں نے بدترین تشدد کرکے ان معصوموں کو موت کے کھاٹ اتارا۔ کئی جگہ ان خریدے ہوئے 'جانوروں' کی قربانی ہوئی۔ جی ہاں چوکوں پر گائے بکرے کی طرح یہ لوگ ذبح کئے گئے۔ دس دنوں تک یہ ریوڑ مختلف محلوں میں گھمایا جاتا رہا۔ اس دوران سرکشی کے مرتکب گولیوں سے اڑائے گئے۔ سینکڑوں قصابوں کے ہاتھوں فروخت ہوئے اور 11 جولائی کو باقی رہ جانے والوں سے گڑھے کھدوائے گئے۔ اس مزدوری کے بعد ان سب کو گولیوں کا نشانہ بناکر تڑپتے جسم ان گڑھوں میں زندہ دفن کردئے گئے۔

الگ کی جانیوالی ہماری بیٹوں اور بہنوں کے ساتھ کیا ہوا اسکی تفصیل لکھنے کی ہمارے اندر ہمت نہپں۔

یہ تھا 27 سال پہلے رونما ہونے والا مسلم ہولوکاسٹ Holocaust


Thursday, July 7, 2022

دنیا کے سات بڑوں کا اجلاس ۔۔ صدر بائیڈن کو شرمندگی کا سامنا

 

دنیا کے سات بڑوں کا اجلاس ۔۔ صدر بائیڈن کو شرمندگی کا سامنا

دنیا کے سات بڑے ممالک یعنی گروپ سات یا G-7کا سربراہی اجلاس  جرمن شہر کُرن (Krun)کے تاریخی قلعے شلوس ایلاماو (Schloss Elmau) میں ختم ہوگیا۔ کوہِ ایلپس کے دامن میں یہ چار منزلہ عمارت اس اعتبار سے تاریخی اہمیت کی حامل ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کی شکست کے بعد یہاں ہٹلر کے ہاتھوں بے گھر کئے جانیوالے یہودیوں نے پناہ لی تھی۔ بلند مینار والا یہ قلعہ  1914 میں ایک فلسفی اور پروٹیسٹنٹ عالم جوہانس ملر  اور ماہرِ تعمیرات (Architect) پروفیسر کارل سیٹلر نے تعمیر کیا تھا۔ جون کی 26 سے 28 تاریخ تک جاری رہنے والی یہ بیٹھک گروپ سات کی 48 ویں سربراہ کانفرنس تھی ۔ گزشتہ چوٹی کانفرنس ایک سال پہلے لندن میں منعقد ہوئی تھی۔ سینتا لیسویں سربراہی اجلاس کا سب سے اہم فیصلہ رکن ممالک کی کارپوریشنوں پر  کم سے کم 15 فیصدانکم ٹیکس کا نفاذ تھا۔

گروپ سات،  نظریاتی طور پردنیا کے 7 ہم خیال، امیر و ترقی یافتہ صنعتی ملکوں، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ پر مشتمل ہے۔ گروپ کا آغاز 1973 میں اسوقت ہواجب عرب اسرائیل جنگ کے دوران سعودی فرمانروا شاہ فیصل مرحوم نے عربوں کے معاملے میں معقولیت پر مجبور کرنے کیلئے مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی بند کردی تھی ۔ اسکے نتیجے میں یورپ  اورامریکہ شدید بحران کا شکار ہوئے اور امریکی وزیرخزانہ نے اپنے جرمن (اسوقت مغربی جرمنی) ہم منصب  ہیلمٹ شمٹ، فرانسیسی وزیرخزانہ گسکارڈدیستان اور برطانیہ کے انتھونی باربرکو مشورے کیلئے امریکہ آنے کی دعوت دی۔ اجلاس کے دوران معیشت کے چاروں ماہرین نے بحران سے نبٹنے کیلئے مشترکہ لائحہِ عمل پر غور کیا۔ گفتگو بے حد مفید رہی اور بات چیت کے اختتام پرجب  یہ چاروں افراد رسمی ملاقات کیلئے  امریکی صدر نکسن کے پاس پہنچے تو وہیں قصر مرمریں (وہائٹ ہاوس) کی لائبریری میں ایک اور اجلاس ہوا جس میں تیل بحران کیساتھ دوسرے معاشی مسائل، امکانات اور مواقع پر تفصیلی بات چیت  کے بعد مل کر کام کرنے کا عہد کیا گیا۔اس غیر رسمی و غیر روائتی مجلس کا نام 'لائبریری گروپ' طئے پایا۔ کچھ دن بعد جاپان بھی اس گروپ میں شال ہوا اور لائبریری گروپ G-5بن گیا۔ دو سال بعد جب گسکارڈ دیستان فرانس کے صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے گروپ پانچ کا سربراہی اجلاس طلب کیا۔ پیرس میں 1975 کے اس تین روزہ اجلاس  کو اقتصادی چوٹی کانفرنس یا ورلڈ اکنامک سمٹ کا نام دیا گیا۔ اس اجلاس میں   اٹلی بھی شریک ہوا  چنانچہ اس محفل کو گروپ 6 کہا جانے لگا۔

اسکے اگلے برس امریکی صدر  جیرالڈ فورڈ نے اپنی کالونی پورتوریکو میں سربراہی اجلاس کی میزبانی کی جہاں کینیڈا کے وزیراعظم آنجہانی پیرے  ٹروڈو (موجودہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے والد) خصوصی دعوت پر شریک ہوئے جسکے بعد  یہ ادارہ گروپ سات  بن گیا۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے تاسیس کی یاد تازہ کرنے کیلئے 1997 کا سربراہی اجلاس ڈینور (Denver)شہر کی نوتعمیر شدہ سرکاری لائبریری میں طلب کیا جس میں روسی صدر بورس یلسن بھی مدعو کئے گئے اور یہ فورم گروپ آٹھ بن گیا۔2014کی سربراہ کانفرنس بحر اسود کے ساحلی شہر سوچی (روس) میں ہونی تھی لیکن کریمیا پر  قبضے کے بعد روس کو گروپ آٹھ سے نکال دیاگیا۔اُس سال سربراہ کانفرنس بیلجیم کے شہر برسلز میں ہوئی اور یہ تنظیم  اب  دوبارہ گروپ سات ہے۔

اپنی ولادت سے پہلے پانچ چھ سال تک گروپ سات  اقتصادی اتحاد کے طور پر کام کرتا رہا۔ کچھ علمائے سیاست ، گروپ سات کو  آزاد عالمی مرکز دانش یا Think tankقراردیتے ہیں۔لیکن تمام ممالک ایک خاص سیاسی نظریہ و عقیدہ رکھتے ہیں اور دنیا پر چودھراہٹ قائم رکھنے کیلئے یہ اپنے عزم کے اظہار میں کسی مداہنت سے بھی کام نہیں لیتے۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں امریکی صدر رونالڈ ریگن  اور برطانوی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کے زور اور اصرار پر  عالمی سیاست اور دفاعی امور پر بھی بحث مباحثہ شروع ہوا۔

گروپ سات  ممالک کی مجموعی آ بادی دنیا کے 10 فیصد کے برابر ہے لیکن  دنیا کی 31 فیصد دولت ان سات ممالک میں ہے۔ گروپ سات کے دولت و ثروت کا تخمینہ جی ڈی پی کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔ان  ممالک میں جہاں وسائل اور دولت کا انبار ہے وہیں  گروپ سات دنیا  میں  ماحولیاتی آلودگی کا بھی  ایک بڑا سبب  ہے کہ   21 فیصد کاربن کا اخراج ان ہی سات ملکوں سے  ہوتاہے۔

اس بار  گروپ سات  چوٹی کانفرنس کا  خیالیہ یا theme  'عادل دنیا کی طرف پیشقدمی' تھا۔اور جن موضوعات پر بحث کی گئی وہ کچھ اسطرح ترتیب دئے گئے :

  • سیاسی، عسکری اور ماحولیاتی اعتبار سے پائیدار عالمی نظام
  • اقتصادی استحکام
  • صحت مند  زندگی
  • بہتر مستقبل کیلئے سرمایہ کاری
  • اتحاد میں برکت  UNITED TOGETHER

یہ گروپ  چونکہ بنیادی طور پر اقتصادیات کا فورم ہے اسلئے اس میں آئی ایم ایف،  ورلڈ بینک ، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن  اور اس نوعیت کے دوسرے ادارے بھی شریک ہوتے ہیں۔ اس بار ہندوستان، ارجنٹینا، انڈونیشیا، سینکال اور جنوبی افریقہ کے سربراہان  بھی خصوصی دعوت پر بطور مبصر شرکت ہوئے۔ یوکرین روس تنازعے میں  کریملن کے خلاف سخت موقف اختیار نہ کرنے پر تین ماہ پہلے جرمنی کے چانسلر اولاف شلز نے ہندوستان کا دعوت نامہ منسوخ کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن صدر بائیڈن کے اصرار پر جرمنی نے یہ اعتراض واپس لے لیا۔

ایجنڈا اپنی جگہ لیکن یوکرین بات چیت پر چھایا رہا تاہم مشترکہ اعلامئے میں اسکا براہ راست کوئی ذکر نہ تھا۔اختتام پر مندرجہ ذیل چار نکاتی 'عہدنامہ' جاری ہو

  • گروپ سات رہنماوں نےانسانی حقوق کے تحفظ کا عزم  کرتے ہوئے چین میں ویغور مسلمانوں کیساتھ مبینہ بدسلوکی کی  شدید مذمت کی۔
  • کاربن سے پاک ماحول کے حصول کیلئے 2030 تک Decarbonized Road کے ہدف کا اعادہ کیا گیا۔
  • اسی کیساتھ 2035 تک  توانائی کے باقی  شعبوں کو کاربن سے پاک یا ڈی کاربونائزڈ کرنے کا ہدف طئے ہوا
  • گروپ نے  شاہراہیں،  مواصلاتی ڈھانچے  اور ماحولیاتی کثافت کے خاتمے کیلئے اگلے پانچ  سال کے دوران دنیا بھر میں 600 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا وعدہ کیا جس میں سے نصف یورپی  ممالک فراہم کرینگے۔

قارئین کی دلچسپی کیلئے 'کاربن سے پاک ماحول' کی مختصر سے تشریح پر چند سطور

پیٹرولیم مصنوعات اور کوئلہ دورِ حاضر کا روائتی ایندھن ہے ۔ خام تیل اور گیس کا کیماوی نام ہائیڈروکاربن ہے۔ کوئلہ سے حاصل ہونے والی گیس میتھین methane  بھی ہائیڈروکاربن ہے جس کے جلنے سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونوآکسائیڈ اور دوسرے مرکبات خارج ہوتے ہیں جو نہ صرف انسانی صحت کیلئے مضر ہیں بلکہ یہ  کرہ ارض کی طرف آنے والی  اوزون سے بچاو کیلئے  قدرت کی تعمیر کردہ مدافعتی تہہ یا Ozone Layerمیں شگاف کا سبب بھی بن  رہی  ہے۔ کاربن سے پاک سڑک و شاہراہ کا مطلب ہے کہ 2030 کے بعد  پٰیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں ترک کردی جائینگی جبکہ 2035  کے بعد بجلی گھروں کیلئے بھی تیل کے استعمال پر پابندی ہوگی۔

بادی النطر میں مشتر اعلامئے سے انصاف پر مبنی مستحکم و پائیدار دنیا کی تعمیر کا عزم ظاہر ہوتا ہے لیکن بات چیت کی جو تفصیل امریکی ذرایع ابلاغ پر تفصیلات شایع ہوئی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ممالک دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔

ترقی و خوشحالی کیلئے  جس  خطیر سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ دراصل چین کے  Belt and Road  Initiativesیا BRIکے توڑ کیلئے ہے۔ چین نے One Belt one Roadکے نام سے برّی اور آبی شاہرایوں کا یہ عالمی منصوبہ 2013 میں شروع کیا تھا جسے اب BRIکہا جاتا ہے۔امریکہ نے اس مقصد کیلئے 200 اور یورپی یونین نے 300 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے جبکہ جاپان اور کینیڈا 100 ارب ڈالر فراہم کرینگے۔ ان منصوبوں کیلئے امریکہ کی ترجیحات صحت عامہ، صنفی مساوات اور Digital Infrastructure ہیں۔کانفرنس میں بحث و مباحثے کے دوران یورپی رہنماوں نے دنیا میں چین کے بڑھتے ہوے اثر و رسوخ کو عالمی جمہوریت، عقیدے کی آزادی اورآزاد پریس کیلئے خطرہ  قراردیا۔ چینی وزارت خارجہ نے بعض رہنماوں کی تقریروں پر سامراجی تکبر  کی پھبتی کستے  ہوئے یورپی رہبنماوں کو سردجنگ کی گھسی پٹی حکمت عملی ترک کرنے کا مشورہ دیاہے۔

اسی تناظر میں شمالی کوریا  نے  ایشیائی نیٹو کے قیام کا خطرہ ظاہر کیا ہے۔گروپ سات اور اسکے فوراً بعد نیٹو سربراہ کانفرنس  کا ذکر کرتے ہوئے سرکاری خبر رساں ایجنسی KCNA کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان ایشیائی نیٹو بنانے کی کوشش کررہے ہیں جس کا ہدف شمالی کوریا ہوگا۔  بیان میں شمالی کوریا نے نیٹو کی میڈرڈ(ہسپانیہ) چوٹی کانفرنس میں جاپان اور جنوبی کوریا کے سربراہان کی  بطور مبصر شرکت اور اس دوران  امریکہ ، جاپان اور جنوبی کوریا کے خصوصی سربراہی اجلاس  پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ تین کا یہ ٹولہ “ شمالی کوریا کے خلاف معامداانہ عزائم رکھتا ہے۔

چینی وزارت خارجہ  نے کچھ ایسے ہی تحفظات کا اظہار معاہدہ اربع یا QUADکے خلاف کیا ہے۔ کواٖڈ،  ہندوستان، جاپان، آسٹریلیا اور امریکی بحریہ کے درمیان ایک غیر تحریری فوجی معاہدہ ہے جسکا مقصد بحرالکاہل میں آزادانہ جہاززانی کو یقینی بناناہے۔بیجنگ کا خیال ہے کہ کواڈ اب جنوب ایشیائی نیٹو کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔

اسی کیساتھ امریکی سپریم کورٹ نے حال ہی میں جو دوفیصلے جاری کئے ہیں، گروپ سات کے قائدین، اسے سربراہ کانفرنس میں کئے جانیوالے فیصلوں کے منافی قراردے رہے۔

افتتاحی اجلاس سے دودن پہلے امریکی عدالت عظمی نے اسقاطِ حمل کے معاملے کو ریاستوں کے حوالے کردیا۔ 1973میں سپریم کورٹ نے میرا جسم میری مرضی کا اصول تسلیم کرتے ہوئے اسقاط کو پُر امید ماووں کا حق قرار دیا تھا۔ لیکن اب تین کے مقابلے میں  6 ججوں نے فیصلہ دیا کہ اسقاط کے جائز یا ناجائز ہونے کا فیصلہ ریاستوں کو کرنا چاہے۔ تیرہ سے زیادہ ریاستوں کی مقننہ اسقاط کو غیر قانونی قرار دے چکی ہیں ۔ گروپ سات کا کہنا ہے کہ صنفی مسساوات اور خواتین کا اقتصادی استقلال اس سال کے فیصلوں کی روح ہے اور امریکی سپریم کورٹ  نے اسقاط حمل کا حق خواتین سے چھین کر حوا کی بیٹی کو دوسرے درجے کی مخلوق بنادیا ہے جسے اپنے جسم پر بھی اختیار حاصل نہیں۔فیصلے سے امریکی سپریم کورٹ کی نظریاتی تقسیم ایک بار پھر سامنے آگئی۔ تینوں لبرل ججوں نے فیصلے کی مخالفت کی۔دلچسپ بات کہ اس فیصلے کا مسودہ کچھ عرصہ پہلے Leakہو چکا تھا۔

امریکی عدلیہ میں قدامت پسندوں نے پیشقدمی جاری رکھتے ہوئے ایک اور فیصلہ یہ سنایا کہ مقتدرہ برائے تحفظِ ماحول (EPA)کو کلیدی ضابطے بنانے کا اختیار نہیں ۔اس سلسلے میں قانون سازی وفاقی اور ریاستی مقننہ کو کرنا چاہئے۔ یہ فیصلہ بھی نظریاتی بنیادوں پر ہوا اور تینوں لبرل ججوں نے اکثریتی فیصلے کی خلاف نوٹ لکھے۔ اس فیصلے سے جہاں EPAکی قدغنوں سے پریشان امریکی سرمایہ کارو صنعتکار, خاص طور تیل اور تعمیرات کی صنعت سے وابستہ طبقے نے اطمینان کا سانس لیا ہے وہیں گروپ سات کی قیادت کو ڈر ہے کہ EPAمفلوج ہوجانے کی صورت میں 2030 تک کاربن سے پاک شاہراہوں کا ہدف حاصل کرنا  مشکل ہوجائیگا۔  

صدر بائیڈن نے اپنے حلیفو ں کو یقین دلایا ہے کہ ان دونوں معاملات پر قانون سازی کے ذریعے  وہ عدالتی فیصلوں کے منفی اثرات کے سد باب میں کامیاب ہوجائینگے لیکن زمینی حقائق اور نومبر کے انتخابات کیلئے کے عوامی جائزے برسراقتدار ڈیمو کریٹک پارٹی کیلئے انتہائی مایوس کن ہیں۔ سیاسیات کے پنڈتوں کا خیال ہے کہ  آئندہ انتخابات میں  ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ دونوں  حکمراں جماعت کے ہاتھ سے نکلتے نظر آرہے ہیں ۔گروپ سات کا بھی یہی خیال ہے کہ دعوے اور وعدے اپنی جگہ لیکن نومبر کے انتخابات کے بعد قانون سازی کے اختیار سے محروم بائیڈن انتظامیہ عملاً  اپاہج بطخ یا Lame duckبن کر رہ جائیگی۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 8 جولائی 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 8 جولائی 2022

روزنامہ امت کراچی 8 جولائی 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 10 جولائی 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Sunday, July 3, 2022

پاکستان میں سیاسی تحویلِ قبلہ کی بازگشت

 

پاکستان میں سیاسی تحویلِ قبلہ  کی  بازگشت

دودن پہلے ہم نے خبر دی تھی کہ امریکہ کیخلاف تندوتیز بیانات کے پسِ پردہ عمران خان نے واشنگٹن سے اپنے تعلقات میں آپڑنے والی سِلوٹوں کو ہموار کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔امریکہ میں انکے قریبی رشتے دار اور پارٹی عمائدین جناب ڈانلڈ لو Donald Luسے رابطہ بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ٹیکسس کے گورنر کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس حوالے سے تازہ ترین خبر یہ ہے کہ پاکستان کی وزارتِ پیٹرولیم نے ملک کی ریفائنریوں کو ہدائت کی ہے کہ روسی تیل کی ' تکنیکی موزونیت'اور کاروباری اعتبار سےمتوقع سودے کی افادیت اور مضمرات کا جائزہ لیا جائے۔ وزارت توانائی کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف آئل کے ایک مراسلے میں تیل کے چار کارخانوں یعنی پارکو، پاکستان ریفائنری ، نیشنل ریفائنری اور بائیکو Bycoکو ہدائت کی گئی تھی کہ وہ 28 جون تک اس سلسلے میں اپنی رپورٹ جمع کرادیں۔اٹک ریفائنری کو یہ مراسلہ نہیں بھیجا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ ان کارخانوں نے   خیال ظاہر کیا ہے کہ روسی تیل کے تین گریڈ :

·      ایسٹرں سائیبیرین پیسیفک اوشین (ESPO)

·      سخالن کے SOKOL

·      سخالن لائٹ

پاکستان کیلئے مناسب ہیں ۔ بائیکو سب سے زیادہ پرامید اور بااعتماد نظر آرہی ہے۔تاہم ان تمام اداروں کا خیال ہے کہ فاصلے کی بناپر خلیجی تیل کے مقابلے میں روسی مال کی باربرداری کا خرچ زیادہ ہوگا۔ روسی تیل کے حوالے سے ملاحظہ ہو جسارت نیوز یوٹیوب پر ہماری گزراشات

یہ تو تھا اس معاملے کا تیکنیکی پہلو، جو ہمارے خیال میں مثبت اور خوش آئند ہے۔ پی ٹی آئی نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مراسلے کی کاپی امریکی حکام کو ارسال کرتے ہوئے عمران خان کے امریکی رفقا نے جو موقف اختیار کیا ہے اسے ایک مصرعے میں کچھ اسطرح سمویا جاسکتا ہے:

ہم مریں آپ پہ اور آپ مریں غیروں پر

پی ٹی آئی بائیڈن انتظامیہ کو سمجھانے کی کوشش کررہی ہے کہ عوام میں غیر مقبول پی ڈی ایم پاکستانیوں کے امریکہ مخالف جذبات سے فائدہ اٹھانے کیلئے روس تیل خریدنا چاہتی ہے تاکہ آنے والے ضمنی انتخابات میں وہ ایک 'دبنگ قیادت' کی حیثیت سے سامنے آئے۔ اپنے Let’s move on نعرے کو آگے بڑھاتے ہوئے پی ٹی ائی امریکہ کے رہنما واشنگٹن کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ امریکہ مخالف بیانئے کی مقبولیت عمران خان کی سحر انگیر شخصیت کی مرہونِ منت ہے اور ہم سے دوستی دونوں کیلئے نفع بخش ہوگی ۔

شنید ہے کہ امریکہ پنجاب کے ضمنی انتخابات تک 'انتظار کرو اور دیکھو' کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اگر ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف اپنی تمام نشستیں برقرار رکھنے اور 22 جولائی کو حمزہ شریف کا دھڑن تختہ کرنے میں کامیاب ہوگئی تو روس سے راہ و رسم بڑھانے پر پی ڈی ایم سے خفا چچا سام پی ٹی آئی پر مہربان ہوسکتے ہیں۔

گویا آنے والے دنوں میں بلاول بھٹو اپنے نانا کی طرح 'کینہ پرور' ہاتھی کا ذکر کرتے نظر آئینگے اور عمران خان ساری دنیا سے اچھے تعلقات کا کورس گنگناتے

معجزہ کیا خوب ساقی تیرے پیمانے میں ہے

بادہ کش مسجد میں بیٹھا شیخ میخانے میں ہے