Thursday, December 15, 2022

چینی صدر کا دورہ سعودی عرب ۔۔فلسطین سے اظہارِ یکجہتی نئی عالمی صف بندی کی آہٹ

 

چینی صدر کا دورہ سعودی عرب ۔۔فلسطین سے اظہارِ یکجہتی

نئی عالمی صف بندی کی آہٹ

چینی صدر ژی جن پنگ کا حالیہ دورہ سعودی عرب اب تک ابلاغِ عامہ کی زینت بناہوا ہے۔ اس تین روزہ دورے میں تین اہم بیٹھکیں ہوئیں:

·       سعودی چین سربراہی اجلاس

·       چین خلیج چوٹی کانفرنس اور

·       عرب چین اعلیٰ سطحی گفتگو

ان اجلاسوں میں شرکت کیلئے فلسطین، قطر، کوئت، مصر، سوڈان، تیونس، جبوتی، صومالیہ اور موریطانیہ کے صدور تشریف لائے جبکہ عراق، مراکش، الجزائر اور لبنان کی نمائندگی ان ملکوں کے وزرائے اعظم نے کی۔

عرب چین چوٹی کانفرنس کیساتھ  علیحدہ سے چین خلیجی سربراہی اجلاس کا مقصد خلیج تعاون کونسل (GCC)کی اہمیت اجاگر کرناتھا۔ بحرین، قطر، عُمان، کوئت، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر مشتمل یہ اتحاد،  جون 2017 میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اورمصر کی جانب سے قطر کی ناکہ بندی کے بعد کمزور ہوگیا تھا۔ ان  ملکوں کو شکائت تھی کہ الجزیرہ ٹیلی ویژن خلیجی اور مصری حکمرانوں کے بارے میں معاندانہ رویّہ  رکھتا ہے۔ مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات،  قطر کی جانب سے اخوان المسلمون اور حماس کی مبینہ سرپرستی پر بھی برہم تھے۔ قطرکا موقف تھا کہ الجزیرہ ایک آزاد ادارہ ہے اور اسکی نشریات سے قطری حکومت کا کوئی تعلق نہیں۔ دوحہ سرکار نے اخوان اور حماس سے تعلقات کے  الزامات کو بھی مسترد کردیا۔

قطر کے خلاف اقدامات کو سابق امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کی حمائت حاصل تھی۔اس دوران سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، بحرین، مصر، مالدیپ، موریطانیہ، ماریشس، سوڈان، سینیگال، جبوتی، اردن اور یمن کی وفاقی حکومت نے قطر سے نہ صرف سفارتی تعلقات توڑ لئے بلکہ اپنی فضائی حدود بھی قطر کیلئے بند کردی۔ سعودی عرب نے قطر کا بری راستہ بھی مسدود کردیا جو بیرونی دنیا سے خشکی کے ذریعے رابطے کا واحد ذیعہ ہے۔ اس قدم سے قطر کو نقصان پہنچنے سے پہلے  خود GCCمیں دراڑ ظاہر ہوگئی جب عُمان اور کوئت نے بائیکاٹ میں حصہ لینے سے معذرت کرلی۔  اس کشیدگی کو علاقے  کے سیاسی تجزیہ نگاروں نے 'عرب سرد جنگ' کا نام دیا لیکن قطر کے وزیردفاع خالد محمد بن العطیہ کے خیال میں یہ قطر کے خلاف ایک 'پرامن  (bloodless) اعلان جنگ تھا۔

بائیکاٹ سے دو ماہ پہلے دوحہ نے خلیج  فارس میں گیس کی تلاش کے لئے ایران سے معاہدہ کیا تھا جو گزشتہ بارہ سال کی غیر اعلانیہ  سردمہری کے خاتمے اور مشترکہ قدرتی وسائل کی تلاش و ترقی میں باہمی تعاون کا نقطہ آغاز تھا۔ خلیج فارس میں ایران اور قطر کی آبی سرحد کے دونوں جانب9700 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے 65 میٹر گہرے پانی کے نیچے تین ہزار میٹر  گہرائی پر موجود گیس ذخائر کا تخمینہ 36کھرب  مکعب میٹر  (360 trillion)ہے۔ تقریباً 10 کھرب مکعب میٹر گیس ایرانی علاقے میں ہے جو جنوبی پارس گیس میدان کہلاتا ہے۔ قطری علاقے میں گیس سے لبالب نمکین چٹانوں (Anhydrites)نے گنبد کی شکل میں گیس کو ذخیرہ کررکھا ہے چنانچہ اسے North Domeگیس میدان کا نام دیا گیاہے۔ قطری پانی کے نیچے موجود قابل کشید گیس کا حجم 26 کھرب مکعب میٹر ہے۔

قدرتی وسائل کی ترقی میں باہمی تعاون سے قطر اور ایران کے تعلقات میں گرمجوشی پیدا ہوچکی تھی اور سعودی و اماراتی بائیکاٹ نے دوحہ کو تہران کے مزید قریب کردیا۔ آزمائش کی اس گھڑی میں ترکیہ بھی قطر کی پشتیبانی کو آگیا۔ صدرایردوان نے کہا کہ انھیں اپنے بھائیوں کے درمیان کشیدگی پر سخت افسوس ہے اور انقرہ اس تنازعے میں غیر جانبدار رہتے ہوئے اپنے قطری بھائیوں کو فاقہ کشی کا شکار نہیں ہونے دیگا۔قطر نے ترکی اور ایران کی مدد سے اس بائیکاٹ کو ناکام بنادیا۔

ساتھ ہی قطری قیادت نے  صدرٹرمپ کی تجارتی ذہنیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی اسلحے کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی اور دو دن پہلے قطر کو دہشت گردوں کی سہولت کار ریاست قرار دینے والے امریکی صدر نے قطر کو  جدید ترین F-15QA-1لڑاکا طیارے فروخت کرنے کی منظوری دیدی اور اگلے ہی روز واشنگٹن میں قطری سفیر مشال حماد الثانی نے امریکی وزیر دفاع جنرل (ر) جیمز میٹس کے ہمراہ 12 ارب ڈالر مالیت کے 36 طیارے کےسودے پر دستخط کردئے۔ صدر ٹرمپ نے اس سے چند دن پہلے سعودی ولی عہد شہزداہ محمد بن سلمان کو 110 ارب ڈالر کا اسلحہ بیچا تھا۔ شہزادہ صاحب امریکی حکومت کی اس ' تجارتی سیاست ' پر سخت مایوس  ہوئے۔ بائیکاٹ کرتے ہوئے انھیں امید تھی کہ امریکہ دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام لگاکر دوحہ پر تجارتی پابندیاں عائد کریگا تاکہ ایران اور ترکیہ کو مدد سے باز رکھاجاسکے لیکن صدر ٹرمپ نے جدید ترین اسلحہ فروخت کرکے قطر کو 'نیک چلنی'کی سند عطاکرتے ہوئے اسےوفادار اتحادی کا درجہ دیدیا۔سعودی ولی عہد  جان گئے کہ امریکی اسلحے کی فروخت ٹرمپ سفارت کاری کا بنیادی ستون ہے  اور وہ نئے سودے کیلئے پرانے وعدے بھلانے میں ذرادیر نہیں لگاتے۔

اس تنازعے میں امریکی حکومت کے غیر جانبدرا ہوجانے کے بعد قطر مزیدپر اعتماد ہوگیا اور روزمرہ غذائی ضرورت کا سامان اپنے پڑوسی سعودی عرب کے بجائے ترکی، ایران، یورپ اور ایشیا کے دوسرے ممالک سے منگوانا شروع کردیا۔ بار برداری کا خرچ بڑھنے کے ساتھ قطر کو ابتدا میں کچھ اشیا کی قلت کا سامنا ہوا لیکن چند ہی ہفتوں میں صورتحال معمول پر آگئی۔ قطری وزیرخزانہ علی شریف العمادی پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ انکے خوشحال اور صاحب ثروت ملکے کیلئے اس بائیکاٹ کا مقابلہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔

جلد ہی سعودی اور اماراتی قائدین کو اندزہ ہوگیا کہ بائیکاٹ سے   قطر کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن خلیجی اتحاد عملاً غیر موثر ہوگیا۔کوئت کی کوششوں سے بات چیت کا آغاز ہوا اور گزشتہ برس کے آغاز میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے قطر سے سفارتی تعلقات دوبارہ بحال کرلئے۔ عالمی فٹبال کپ کے دوران 5 دسمبر کو امارتی صدر شیخ محمد بن زید النہیان بہ نفس نفیس دوحہ پہنچے اور پھر تو وہ کیفیت ہوئی کہ 'جب گلے سے لگ گئے سارا گِلہ جاتارہا'

قطر ایران گیس منصوبے اور بائیکاٹ کی تفصیل شائد قارئین کو غیر ضروری محسوس ہو لیکن یہ وہ پس منظر ہے جس میں سعودی عرب اور امریکی تعلقات میں درآئی غیر محسوس خلیج کےشانِ نزول کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یوکرین جنگ کے نتیجے میں یورپی یونین نے روسی تیل اور گیس کی درآمدات کم سے کم کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس سے خلیجی ممالک کے درمیان تعاون کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔چین، سعودی، اماراتی اور کوئتی تیل کا سب سے بڑا گاہک ہے جبکہ حال ہی میں قطر نے چین سے چالیس لاکھ ٹن LNGسالانہ فروخت کرنے کا 27 سالہ معاہدہ کیا ہے۔ اسی بناپر سعودی عرب، جی سی سی کو مزید مضبوط و مربوط بنانا چاہتا ہے۔ سعودی ولی عہد اس اتحاد کو دفاعی اعتبار سے نیٹو اور سیاسی و نظریاتی حوالے سے G-7 بنانے کے خواپشمند ہیں۔ شائد یہی وجہ تھی کہ چینی صدر کے دورے میں مکمل ایجنڈے کے ساتھ علیحدہ چوٹی مذاکرات کا اہتمام کیا گیا اور شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک ایک جسم کےاٹوٹ انگ ہیں جنھیں  ٹکڑیوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔

اپنے افتتاحی  خطاب میں چینی صدر نے کہا کہ عرب ممالک اور چین کے درمیان تعلقات کی جڑیں شاہراہِ ریشم سے جڑی ہوئی ہیں۔ عرب تہذیب قابل فخر تمدن کی علامت اور  تاریخِ عالم میں اسکا  کردار قابل ستائش ہے۔ہماری حالیہ ملاقاتیں ایک  روشن مستقبل کا پتہ دیتی ہیں۔ ہم اس حوالے سے ایسے جامع تعاون کا خواہاں ہیں جس میں مشترکہ مفادات کو تحفظ حاصل ہو۔ چینی صدر نے کہا کہ اسلامو فوبیا اور انتہا پسندی کے مقابلے کیلئے  چین اور عرب ممالک کے درمیان افہام و تفہیم اور باہمی اعتماد کو بڑھانا ضروری ہے۔ دہشت گردی کو کسی خاص مذہب یا نسل سے نہیں جوڑا جانا چاہیے۔ فلسطین کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے صدر ژی پنگ نے کہا کہ فلسطینی عوام کے ساتھ تاریخی ناانصافی جاری نہیں رہ سکتی اور نہ فلسطینی ریاست کی خواہش کو رد کیا جا سکتاہے۔ انھوں نے  تہذیبوں کے تصادم اور ان کی جدوجہد کے اصول کو مسترد کر دیا۔خلیجی ممالک سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے صدر ژی جن پنگ نے کہا کہ ہم خلیجی ممالک کی سلامتی کے خواہشمند ہیں۔  انھوں نے زور دیکر کہا کہ خلیجی ممالک سے تیل کی درآمد جاری رہیگی۔یہ دراصل اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ چین روس کو تیل کیلئے سعودی عرب کا مسابقت کار نہیں سمجھتا۔

صدر ژی جن پنگ آخری بار 2016 میں سعودی عرب آئے تھے۔ اِسوقت سعودی عرب اور چین کا تجارتی حجم 300 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ان اجلاسوں میں ہونے والے گفتگو کی تفصیل اور اسکا تجزیہ ایک کالم میں میں ممکن نہیں۔ دورے کے اختتام پر سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے چینی حکام کے ساتھ مشترکہ اخباری کانفرنس میں جو نکات پیش کئے اسے ہم یہاں درج کررہے ہیں جو دراصل مشترکہ اعلامیہ کا حصہ ہیں۔

دنیا کی دوسری بڑی معیشت (چین) کے ساتھ تعاون  ضروری ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دنیا کی پہلی اور سب سے بڑی معیشت (امریکہ) کے ساتھ تعاون ختم  یا کم کیا جارہاہے۔سعودی عرب کے چین اور امریکہ دونوں کے ساتھ مشترکہ مفادات ہیں۔

سعودی  عرب  سب کے لئے کھلا ہے اور ہم کثیر الجہت تعاون پر یقین رکھتے۔ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات ہتھیاروں کے مسئلے سے زیادہ گہرے ہیں۔

سعودی عرب کی امریکہ، بھارت، چین، جاپان اور جرمنی کے ساتھ تزویراتی شراکت داری ہے اور  ہم پالیسیاں اپنے مفادات کے مطابق وضع کرتے ہیں

چین اور جی سی سی ممالک کے درمیان ایک آزاد تجارتی معاہدے پر تبادلہ خیال ہواہے

چین خطے کی سلامتی اور استحکام کا خواہش مند ہے۔

چین-عرب تعاون  کوئی نئی چیز نہیں،  بلکہ یہ 2004 سے جاری ہے

عرب دنیا اور چین دوسرے ممالک کےاندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول پر متفق ہیں

اگلے پانچ برسوں کیلئے تزویراتی  شراکت کو آگے بڑھانے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل منظور کیاگیا۔فریقین کلیدی شراکت کے لئے مل کرکام کریں گے اور ہر سطح پر مکالمہ جاری رکھاجائیگا

موجودہ بین الاقوامی اقتصادی بحران سے نکلنے کیلئے مل کر  کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔انتہائی ضرورت مند ممالک کی مدد کرنے کے علاوہ انسانی ضروریات کی تکمیل میں تمام فریق اپنا حصہ ڈالیں گے

چین، خلیجی ممالک میں امن و استحکام کے تحفظ اور اتحاد و سالمیت کے لئے ان ممالک کا ساتھ دے گا۔

خلیجی ممالک متحدہ چین کے اصول کی پابندی کریں گے

تجارت، توانائی، سرمایہ کاری، صنعت، ٹیکنالوجی، خلا، صحت اورمالیاتی شعبوں میں باہمی تعاون کو فروغ دیا جائیگا

فٹبال ورلڈ کپ 2022 کی کامیاب میزبانی پر قطرکو خراج تحسین پیش کیاگیا

اگلے سال 5 سے 9 مارج کو قطر میں ہونے والی کم ترقی پذیر ممالک کی بین الاقوامی کانفرنس کا چین اور عرب قیادت ن خیر مقدم کیا

اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت وقت کی ضرورت ہے

مسئلہ فلسطین دو ریاستی حل کی بنیاد پر طے ہونا چاہیے اور  1967 کی سرحدوں کے مطابق  خود مختار ریاست کا قیام علاقے میں پائیدار امن کیلئے ضروری ہے۔ مشرقی بیت المقدس آزاد فلسطینی ریاست کا درالحکومت ہے

فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری بند ہونی چاہئے اور القدس سمیت تمام مقامات مقدسہ کی تاریخی حیثیت کے احترام ضروری ہے

ایران کی جانب سے عراق، لبنان اور یمن میں مسلح فرقہ وارانہ گروپوں کی امداد جاری رہنا قابل مذمت ہے۔ تمام تنازعات کو بامقصد مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے، تصادم اور تشدد کسی کے مفاد میں نہیں

خلیج میں جوہری ہتھیاروں سمیت بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کے پھیلاو پر قابو سے علاقائی و بین الاقوامی امن و استحکام کو تحفظ ملے گا

ایران کا جوہری  پروگرام پرامن مقاصد  تک محدود ہوناچاہئے، جو علاقائی استحکام اور طاقت کے توازن کیلئے ضروری ہے۔ ایران پر زور دیا گیاکہ وہ ایٹمی پھیلاؤ کی عالمی ایجنسی کے ساتھ مکمل تعاون کرے۔ خلیجی ممالک باوقار ہمسائیگی اور اندورنی امور میں عدم مداخلت  کے اصول پر ایران سے گرمجوش تعلقات کے خواہشمند ہیں

ایران کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے جزائر کاتنازعہ پرامن انداز میں مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہئے

یمن کی یکجہتی کا احترام کرتے ہوئے بحران کا منصفانہ سیاسی حل وقت کی ضرورت ہے

شامی بحران کے سیاسی حل کے لیے مل کر کام کرنے کا عہد کیا گیا

افغانستان کا سیاسی امن واستحکام ساری دنیا کیلئے اہم ہے۔ انسانی بنیاد پر افغانوں کی مدد تیز ہونی چاہئے، توقع ہے کہ  افغان حکام عوام کے تمام طبقات کے لئے بنیادی آزادی اور حقوق کے تحفظ کے وعدے پورے کرینگے۔ افغان حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ اسکی سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہو

مشترکہ اعلامئے میں اسکا ذکر نہیں لیکن صحافتی ذرایع کا کہنا ہے کہ چینی صدر نے باہمی تجارت کی کچھ ادائیگی چینی سکے یوآن (Yuan)میں کرنے کی خواہش ظاہر کی جس پر خلیجی ممالک نے غور کرنے کا وعدہ کیا۔ مشترکہ اعلامیہ بہت جامع ہے جس میں  باہمی تعلقات، تجارت و معیشت سمیت علاقائی و نظریاتی تقریباً تمام امور کا احاطہ کیا گیا ہے۔

چینی صدر کے دورےکا سب سے اہم اور دلچسپ مرحلہ ہوواوی ٹیکنالوجیز(Huawei Technologies)  اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمت کی یادداشت پر اتفاق تھا۔ شاہی محل میں سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور چینی صدر نے اس دستاویز  پر دستخط کئے۔ ہوواوی cloud computing اور  5-Gنیٹ ورک کے شعبے میں سعودی عرب کیساتھ مل کر کام کریگا۔ ہوواوی واشنگٹن  کی ناپسندیدہ کمپنی ہے اور اسکی اعلیٰ افسر کیخلاف امریکہ  نے مجرمانہ مقدمہ بھی قائم کیا تھا۔

کیا چین سے سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور حالیہ دورے میں صدر ژی پنگ کی غیر معمولی آو بھگت سے امریکہ اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہوگیا ہے ؟  ایسا کچھ کہنا ابھی قبل ازوقت ہے لیکن سعوی امریکی تعلقات پر عدم اعتماد کی گرد ضرور موجود ہے۔ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں سعودی ولی عہد کے مبینہ کردار پر صدر بائیڈن نے  اپنی انتخابی مہم کے دوران بہت سخت رویہ اختیار کیا تھا۔ اگرچہ کہ اقتدار سنبھالتے ہی جناب بائیڈن نے اپنے ہونٹ سی لئے لیکن شہزادے کو یہ سب اب تک یاد ہے۔ تیل کی پیداوار کے معاملے پر جناب بائیڈن سعودی ولی عہد سے ناراض ہیں۔ جناب محمد بن سلمان کے رویۃ یا وژن 2030کے حصول کیلئے جوتیز رفتار صنعتی ترقی مطلوب ہے وہ چینی تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ اپنی گفتگو میں سعودی وزیرخارجہ نے کئی بار کہا کہ امریکہ اور چین دونوں سعودی عرب کے دوست ہیں۔ بقول شہزادہ محمد بن سلمان چین یا امریکہ نہیں بلکہ چین اور امریکہ

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 16 دسمبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی، 16 دسمبر 2022

روزنامہ امت کراچی 16 دسمبر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 18 دسمبر 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Thursday, December 8, 2022

اسلحے کی دوڑ جوہری ہتھیاروں کا انبار اور مہلک بمبار

 

اسلحے کی دوڑ

جوہری ہتھیاروں کا انبار اور  مہلک بمبار

امریکی وزارت دفاع نے انسانی تاریخ کے سب سے ہلاکت خیز بمبار طیارے بی 21 ریڈر (B-21 Raider)کی رونمائی کردی۔ یہ دراصل تباہ کن بموں سے آراستہ،  اڑتا ہوا غیر مرئی (stealth)کمپیوٹر ہے جو پائلٹ اور فضائی عملےکے بغیر بھی محوِ پرواز رہ سکتاہے۔

امریکی فضائیہ نے 2011 میں دورمار حملہ آور بمبار یا Long Range Strike Bomber (LRS-B)پروگرام شروع کیا , جسکا مقصد ایسے بمباروں کی تیاری تھا:

·       جو امریکہ سے اڑان بھر کر ایندھن کیلئے کہیں رکے بغیر دنیا کے کسی بھی حصے میں اپنے ہدف کو خاک کرسکیں

·       طیارے جدید ترین ریڈار سے اوجھل رہیں

·       ان بمباروں پر  ایسے حساس ریڈار  اور طاقتو کمپیوٹر نصب ہوں جو پرواز کے دوران فضا، سمندر اور زمین پر دشمن کی تنصیبات اور اثاثوں کی نوعیت اور مقام کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرکے ضروری کاروائی کیلئے  یہ معلومات بروقت اپنے قریب ترین اڈوں کو بھیجنے کی صلاحیت رکھتے ہوں

·       پرواز کے دوران اگر فضائی جنگ المعروف dog fightکا مرحلہ آجائے تو یہ بمبار اپنے یا دوست لڑاکا طیاروں کو دشمن کی چالوں سے باخبر رکھ سکیں

·       ان پر 20 ٹن وزن کا روایتی یا جوہری ہتھیار لاداجاسکتا ہو

·       پرواز کا نظام کچھ اسطرح ترتیب جائے کہ ڈرون کی طرح عملے کے بغیر بھی انھیں اڑایاجاسکے

چار سال تک جاری رہنے والی اس ریسرچ پر اربوں ڈالر خرچ کئے گئے اور جولائی 2015 میں بمبار کی تیاری کا ٹھیکہ امریکہ کے اسلحہ ساز ادارے نارتھ رُپ گرو مین  (Northrop Grumman)کو عطا ہوا۔ نیویارک کے بازارِ حصص میں NOCکے نشان یا ticker پر فروخت ہونے والی اس کمپنی کے تیار کر دہ بی 2 اسپرٹ (B-2 Spirit) بمبار طیارے امریکی فضائیہ گزشتہ 25 سال سے استعمال کررہی ہے۔ افغانستان اور عراق میں ا ن طیاروں کا بہیمانہ استعمال کیا گیا۔

سات سال کی جستجو کے بعد جمعہ 2 دسمبر کو  پام ڈیل Palmdaleشہر (ریاست کیلی فورنیا) میں واقع نارتھ رُپ گرومین فیکٹری پر اس طیارے کی تقریبِ رونمائی منعقد ہوئی۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع جنرل (ر) لائیڈ آسٹن نے کہاکہ بی 21 ریڈر  کی تیاری امریکہ کی ایک کلیدی و تزویراتی (اسٹریٹیجک) کامیابی اور یہ طیارہ امریکہ کے لئے دیرپا فوائد کا شاہکار ہے۔ تین دہائیوں کی محنت و جستجو نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ طیارہ خوب سے خوب تر کے مرحلے سے گزر رہا ہے اسلئے اسکی بہت سی خصوصیات کو اسوقت بیان کرنا قبل از وقت ہے تاہم یہ بات بہت اعتماد کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بی 21 ریڈر امریکہ کے موجودہ بمبار بیڑے میں انتہائی اہم اضافہ ہے۔ جنرل آسٹن نے فخریہ انداز میں کہا کہ  طویل فاصلے تک مار کرنے والا دنیا کا کوئی بمبار کارکردگی کے اعتبار سے فی زمانہ اسکا ہمسر نہیں۔انہوں نے طیارے کی پائیداری سے متعلق کہا کہ اسے اب تک کے سب سے زیادہ مین ٹین ایبل (maintainable)بمبار کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔

اسلحہ ساز ادارے لاک ہیڈ مارٹن (Lockheed Martin)کے بنائے ایف 22 ریپٹر  اور ایف 35 لڑاکا طیاروں کی طرح بی 21 میں بھی اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے، جو طیارے کے نشان کو اس کی شکل اور اس کے بنائے گئے مواد کے ذریعےنمایاں نہیں ہونے دیتی جسکی وجہ سے اس کا پتا لگانا بے حد مشکل ہے۔ طیارہ ساز کمپنی کے مطابق ریڈار سے بچنے کی ٹیکنالوجی کے پچاس برسوں کا نچوڑ اس طیارے کی تیاری میں شامل کیا گیا ہے اور  نظام میں مزید بہتری لاکر طیاروں کو پوشیدہ رکھنے کیلئے اضافی الیکٹرانک پردے تان دئے گئے ہیں۔ کمپنی پُراعتماد ہے کہ بہترین ریڈار اور حساس ترین دفاعی نظام کو بھی بی 21 بمبار طیارہ  تلاش کرنے یا اس کی نشاندہی کرنے میں بہت مشکل ہو گی۔

اس طیارے کے 'اوصاف حمیدہ' سامنے آتے ہی NOCکے حصص 15.27 ڈالر مہنگے ہوگئے اور خبر کے ساتھ ہی حصص یافتگان نے کروڑوں کمالئے۔

دوسری طرف چینیوں کا دعویٰ ہے کہ فضا میں منڈلاتے انکے ریڈار بردار طیاروں سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔ چینی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ انکے Liuریڈار سے خارج ہونےوالی طاقتور برق مقناطیسی (Electromagnetic)  شعاعیں کئی سو کلومیٹر دور موجود جہازوں کا سراغ لگالیتی ہیں۔ یہ ریڈار چینی ماہر ڈاکٹر  Liu Yongtanنے کئی سال پہلے غیر مرئی آبدوزوں کا پتہ چلانے کیلئے بنائے تھے جسے مزید ترقی دیکر اِسے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے مزین طیاوں کو'بےنقاب' کرنے کے قابل بنادیا گیا ہے۔ ڈاکٹر  لیو کا کہنا ہے کہ انکے ریڈار  کی شعاعوں کا تعاقب کرنا  دشمن کے ریڈار شکن نظام کے بس  کی بات نہیں،  گویا غیر مرئی نظام کی چلمن کو تار تار کرنے والا انکا دفاعی نظام  خود غیر مرئی اور ریڈار شکن حملوں سے محفوظ ہے۔امریکی ماہرین نے چین کے اس دعوے کو شیخی اور لن ترانی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انکے اسٹیلتھ نظام کو مزید موثر و بہتر کردیا گیا ہے  جبکہ چینی اب تک پرانی و متروک  ٹیکنالوجی کے توڑ میں سرگرداں ہیں۔

بی 21 کی ساخت میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ اِسوقت موجود ہتھیاروں کے ساتھ مستقبل میں ایجاد ہونے والے ہتھیار اُن پر لادے اور داغے جاسکیں۔ اس  منفرد اور امتیازی صلاحیت کیلئے ماہرین  'اوپن سسٹم آرکیٹیکچر'' کی اصطلاح استعمال کررہے ہیں۔اس طیارے پر 20 سے 25 ٹن وزنی اسلحہ لادا جاسکتا ہے اور روائتی کے ساتھ جوہری بم اور میزائیل برسانے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ طیارے کی ٹنکیوں میں ایندھن ذخیرہ کرنے کی گنجائش 8000 میل تک کے سفر کیلئے کافی ہے۔ امریکی وزیردفاع نے اپنی تقریر میں بغیر عملہ پرواز کی صلاحیتوں کا ذکر نہیں کیالیکن امریکی فضائیہ کی  ترجمان محترمہ این اسٹیفنیک نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ضرورت پڑنے پریہ طیارہ عملے کے بغیر بھی اڑایا جاسکے گا تاہم فی الحال اسکی اڑان عملے کے ساتھ ہوگی۔اسٹیفنک صاحبہ نے بی 21  بمباروں کو امریکی فضائیہ کیلئے ریڑھ کی ہڈی قرار دیا۔

اس وقت چھ طیارے تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں جسکے بعد آزمائشی پروازوں کا سلسلہ شروع ہوگا اور  پہلی حقیقی پرواز اگلے سال کے وسط تک متوقع ہے۔ قیمت کا تخمینہ تقریباً 75 کروڑ 30 لاکھ ڈالر فی طیارہ ہے۔ امریکہ فضائیہ 100 ایف21 خریدنے کی خواہشمند ہے۔  ابتدا میں خیال تھا کہ قیمت 55 کروڑ کے قریب ہوگی ۔

امریکہ جیسے امیر ملک کیلئے ایک طیارے پر 75 کروڑ ڈالر خرچ کردینا بہت مشکل نہیں  لیکن دولت کی ریل پیل کے باوجود  ساڑھے پانچ لاکھ بے گھر امریکی  سڑک کے کنارے اور پُلوں کےنیچے رات بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ امریکی کے شعبہ زراعت کے مطابق کرونا کی وبا سے پہلے ایک کروڑ 37 لاکھ خاندانوں کو غذا کے معاملے میں اطمینان نصیب نہیں تھا، یا یوں کہئے کہ  دس فیصد امریکی گھرانے Food insecurityکا شکار تھے۔وبا کے بعد نانِ شبینہ کے حوالے سے اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا امریکیوں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے۔ان گھروں میں رہنے والے معصوم بچوں کی تعداد ایک کروڑ 30 لاکھ ہے۔ (حوالہ NPR )

حال ہی میں صدر بائیڈن نے نوجوانو ں کے اُن قرضوں کا کچھ حصہ معاف کرنے کا اعلان کیا ہے جو انھوں نے اپنے تعلیمی اخراجات کیلئے لئے تھے۔امریکی صدر کے اس فیصلے کے خلاف ریپبلکن ارکانِ کانگریس نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کردی کہ اس 'فراخدلی' سے امریکی سرکار کے مالی خسارے میں اضافہ ہوگا۔عدالت نے فیصلہ ہونے تک قرض معافی کی کاروائی روک دی ہے۔

اشرفیاں لٹیں اور کوئلوں پر مہر ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے کہ ایک طرف معصوم بچوں سمیت کروڑوں افراد نانِ شبینہ سے محروم ، خون جمادینے والی سردی میں  پانچ لاکھ سے زیادہ افراد  اپنے شیرخوار بچوں کے ساتھ پلوں کے نیچے خیمہ زن ہیں اور 75 کروڑ ڈالر ایک طیارے پر خرچ کئے جارہے ہیں۔

اس جنون میں امریکہ اکیلا نہیں۔ ابھی چند دن پہلے خبر آئی تھی کہ 2035 تک چین کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد  1500 سے تجاوز کرجائیگی۔ اس دہائی کے آغاز پر چین کے پاس 200 جوہری ہتھیار تھے۔ گزشتہ برس یعنی 2021 میں چین نے بین البراعظمی سمیت مختلف فاصلوں تک مار کرنے والے 135منجنیقی (Ballistic)میزائیلوں کا تجربہ کیا ان میں سے کئی آواز سے تیز رفتار Hypersonic میزائیل بھی شامل ہیں۔

دوسرے جنگ عظیم کے دوران اگست 1945 میں امریکہ نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوہری بم پھینکے تھے۔ ان حملوں میں ڈھائی لاکھ معصوم نہتے شہری موقع پر ہی راکھ بن گئے۔ ہنستے بستے یہ دوشہر ان معنوں میں صفحہِ ہستی سے مٹ گئے کہ یہاں کی مٹی اور مائیں آج تک بانجھ ہیں۔ ان شہروں میں  گھاس اگتی ہے، نہ خواتین کی امید بندھتی ہے اور اگر کوئی بدنصیب کونپل پھوٹ بھی اٹھے تو وہ ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ہوتی ہے۔ ان دو بموں سے ہونے والی تباہی کو جاپانی قوم آج تک بھگت رہی۔ اگر ہزاروں بموں سے لیس قوتوں کے درمیان جنگ چھڑی تو دنیا کا کیا حشر ہوگا، اس تصور سے ہی دل کانپ اٹھتا ہے جبکہ ہلاکت خیزی کے اعتبار سے جاپان پر گرائے جانے والے بم دورِ جدید کے جوہری ہتھیاروں کے مقابلے میں پھلجڑی اور پٹاخوں سے زیادہ نہ تھے۔

جوہری ہتھیار کے ساتھ ان بموں کو داغنے کیلئے میزائیلوں کی تیاری بھی عروج پر ہے۔چین آواز سے کئی گنا تیز اڑنے والے میزائیل بناچکاہے جسے Hypersonic کہتے ہیں۔ آواز کی رفتار 20 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں 1235کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔  چینی ماہرین کا خیال ہے کہ انکے Mach-5میزائیل آواز سے پانچ گنا تیز سفر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ امریکی وزارت دفاع کے مطابق چین Mach-5ٹیکنالوجی کو مزید ترقی دیکر Fractional Orbit Bombardment System (FOBS)پر کام کررہا ہے۔ زمین کے مدار کے گرد گھومتا یہ تیز رفتار ہائپر سانک میزائیل دنیا کے کسی بھی بھی حصے میں اپنے ہدف کو آن کی آن  میں بھسم کرسکے گا۔چین کی ان کوششوں سے چچا سام  پوری طرح آگاہ اور انکے  سائنسدان نہلے پر دہلہ جمانے کیلئے پرعزم  نظر آرہےہیں۔

یہ چشم کشا ایجادات بلاشبہ خالقِ کائنات کی عظمت کا شاہکار ہیں کہ جس نے اپنی حکمت اور کمالِ مہربانی سے خاک کے اس پُتلے کو  شوکت و حشمت عطاکی۔ لیکن حضرتِ انسان،  خداداد صلاحیتوں اور فیاضیِ رب سے عطاکردہ قیمتی و نادر وسائل کو اپنی ہی تباہی کا سامان بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ واقعی انسان اپنے رب کا ناشکرا، جلد باز اور انجام کے بارے میں تجاہلِ عارفانہ کا شکار ہے ۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل 9 دسمبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 9  دسمبر 2022

روزنامہ امت کراچی 9 نومبر 2022

ہفت  روزہ رہبر سرینگر 11 نومبر 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


تازہ ترین: روس اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ

 

تازہ ترین: روس اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ

امریکہ اور روس کے درمیان کشیدگی نے چند منٹ پہلے ایک نیاموڑ لیا جب روس میں قید باسکٹ بال چمپیئن محترمہ برٹنی گرائینر (Britney Griner)رہا کردی گئیں۔ سیاہ فام 32 سالہ برٹنی کو اس سال فروری میں ماسکو ائرپورٹ پر اسوقت گرفتار کیا گیا جب انکے پرس سے مبینہ طور پر حشیش برآمد ہوئی۔ مقدمے کی سماعت کے دوران اگست میں انھوں نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا اور انھیں 9 سال قید کی سزا سنادی گئی۔ ایک دلچسپ بات کی ہیوسٹن میں جنم لینے والی ، برٹنی 6 فٹ 9 انچ لمبی ہیں اور جب یہ اپنی بانہیں پھیلاتی ہیں تو انکی دائیں ہتھیلی سے بائیں ہتھیلی کا فاصلہ (arm span) سات فٹ 3 انچ سے زیادہ ہے۔ اس قدوقامت کی وجہ سے وہ اسکول میں لڑکوں کے ساتھ باسکٹ بال کھیلتی تھیں۔برٹنی ہم جنس پرست ہیں اور انھوں نے ایک خاتون سے طلاق کے بعد ایک اور لڑکی سے شادی کررکھی ہے۔

یوکرین تنازعے کے تناظر میں برٹنی کی گرفتاری نے امریکہ اور روس کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ کردیا۔ تاہم ترک صدر ایردوان واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان غیراعلانیہ ثالث کا کردار ادا کرتے رہے

دوسری طرف روسی فوج کےایک سابق افسر اور مترجم وکٹر بوٹ (Victor Bout)امریکہ کی تحویل میں تھے۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ 'موت کے سوداگر' کی حیثیت سے مشہور 55 سالہ وکٹر غیر قانونی اسلحے کے تاجر ہیں۔ وکٹر بوٹ امریکی سی آئی اے کی مدد سے مارچ 2008 میں تھائی لینڈ میں گرفتار ہوئےاور 2010 میں انھیں امریکہ منتقل کردیا گیا۔نومبر 2011 میں امریکہ کی ایک وفاقی عدالت نے وکٹر کو 25 سال کی سزا سنادی۔معاہدے کے تحت وکٹر بوٹ بھی اب سے تھوڑی دیر پہلے رہاکردئے گئے

کیا قیدیوں کا یہ معاہدہ امریکہ اور روس کے درمیان کشیدگی میں کمی کا عندیہ ہے؟ اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے  تاہم  چند دنوں  سے یوکرین جنگ کا ماحول کچھ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے۔ اب تک یوکرینی فضائیہ کی کاروائی اپنی زمینی فوج کی مدد اور روسی فضائی حملوں کے دفاع تک محدود تھی لیکن  گزشتہ چند روز سے  یوکرین کے ترک ساختہ میزائیل بردار ڈرونوں نے روس کے اندر  گھُس کر  عسکری اثاثوں کو نشانہ بنایا شروع کردیا ہے اور جائزوں کے مطابق یوکرینی فضائیہ کی اس حارحانہ مہم سے روس کو خاصہ نقصان پہنچا ہے۔ اسی بناپر کل صدر پیوٹن نے ایک بار پھر مبہم انداز میں کہدیا کہ اگر جنگ کا دائرہ مزید بڑھایا گیا تو جوہری جنگ خارج ازامکان نہیں۔ عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ جوہری ہتھیار کا شوشہ باعزت امن معاہدے کیلئے میدان ہموار کرنے کیلئے چھوڑا گیا ہے۔ قیدیوں کے تبادلے پر صدر پیوٹن کی آمادگی سےاس مفروضے کو تقویت مل رہی ہے


Thursday, December 1, 2022

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

 

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

مسلم لیگ ق کے رہنما اور عمران خان کے پرجوش اتحادی جناب مونس الٰہی نے 'ہم ٹی وی' کی محترمہ  مہر بخاری سے جمعرات کو تفصیلی گفتگو فرمائی جسکا مرکزی موضوع  جنرل جنرل قمر جاوید باجوہ  تھے۔

انٹرویو کے اقتباسات بلا تبصرہ

·       جنرل باجوہ نے  نہ صرف پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا بلکہ انہوں نے تو تحریک عدم اعتماد کے وقت بھی مجھ سے کہا کہ عمران خان کے ساتھ جائیں ۔ان کے کہنے پر ہم نے تحریک انصاف کی حمایت کی ۔ اگر جنرل باجوہ عدم اعتماد کا حصہ ہوتے تو ہمیں کیوں اس طرف جانے کا کہتے

·       جنرل باجوہ نے پی ٹی آئی کے لیے سب کچھ کیا اور اب جب وہ چلے گئے ہیں تویہ ان کے خلاف باتیں کر رہے ہیں۔جب تک وہ ان کو سپورٹ کرتاتھا ٹھیک تھا اب غداربن گیا۔یہ بڑی زیادتی ہے

·       جنرل باجوہ نے توان کیلئے دریاؤں کا رُخ موڑ دیا تھا۔ اب جنرل باجوہ کے خلاف مہم بلاجواز ہے

·       عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر سے متعلق کوئی دباؤ نہیں تھا۔ہم نے پی ٹی آئی سے یہ تک کہا کہ ایف آئی آر کاٹنے کے لیے کوئی بھی اپنا پولیس والا دے دیں جو ایف آئی آر کاٹ لے تو انہوں نے ایسا پولیس والا دیا ہی نہیں ۔

·       جب ہماری پنجاب  حکومت بنی تو عمران خان نے کہا کہ حکومت 10 دن چلنی ہے

·       رجیم چینج سے متعلق جو باتیں سنیں ان میں کچھ نا کچھ تو تھا‘سازش بیانیے کے معاملے پر کچھ گڑ بڑ تھی

·       میں نے پی ٹی آئی والوں سے کہا کہ اگر ٹی وی پر آنا ہے ٹی وی پر آجاؤ تم ثابت کرو   وہ (باجوہ)  غدار تھے میں تو بتاتاہوں اس بندے نے تمہارے لئے کیاکچھ نہیں کیا۔

·       میرے خیال میں زیادتی ہو رہی ہے۔ ایک شخص ہے جو آل آؤٹ گیا آپ کے لیے ، جب وہ ہٹ گیا تو وہ برا ہوگیا میں اس نقطہ کے خلاف ہوں یہ بڑی زیادتی ہے ۔

·       میری نظر میں جنرل باجوہ بالکل برا نہیں تھا، اگر وہ بندہ برا ہوتاتو مجھے یہ نہ کہتا کہ آپ عمران خان کے ساتھ جائیں ۔

·       جس وقت فیصلہ ہو رہا تھا کہ ہم نے ادھر جانا ہے یا ادھر جانا ہے دونوں پارٹیاں تیار تھیں۔‘ حریک انصاف سے بھی آفر تھی نوازشریف پی ڈی ایم کی طرف سے بھی ، سب کو پتہ ہے پی ٹی آئی کی طرف زیادہ تھا معاملہ سب کو پتہ ہے والد صاحب سے بات ہوئی ان کی بھی بات ہوئی ادھر تب یہی انہوں نے کہا ہے کہ میری خواہش یہ ہے کہ آپ ادھر جائیں اگر وہ بندہ اتنا برا ہوتا اس اہم موقع پر وہ کیوں کہتا ہے آپ ادھر جاؤ

·       تحریک انصاف کواگر لگتا ہے کہ باجوہ صاحب کا آدھا فیصد بھی قصور ہے تو وہ میرے ساتھ بیٹھے میں بتاتا ہوں ان کا قصور کہاں نہیں ہے۔

·       غیر سیاسی ہونا ایک الگ چیز ہے مگر جنرل باجوہ نے پی ٹی آئی حکومت کا بہت ساتھ دیااورملکی مفاد کے ساتھ بھی کھڑے ہوئے

·       بے تحاشہ ایسے مواقع تھے جہاں پاکستان کے اندراورباہر بھی مسئلہ خراب ہوگیا تھامگر انہوں نے خودذاتی طورپر جاکر معاملات حل کئے ۔

·       عدم اعتماد اور امریکی سازش میں اگر جنرل باجوہ کا کسی بھی قسم کا رول ہوتا تو ہمیں کیوں کہتے کہ ادھر جاؤ اگر ان کا مقصد انہیں فارغ کرانا ہوتا اور انہیں پتہ ہے یہ دس ووٹ اہم ووٹ ہیں تو وہ کیوں کرتے اس طرح ۔

·       زرداری نے ہم سے کوئی رابطہ نہیں اور نہ ہی ہم رابطہ کریں گے



عبدالصمد اچکزئی ۔ فروغِ اردو کا سپاہی

 

عبدالصمد اچکزئی  ۔ فروغِ اردو کا سپاہی

آج مشہور پشتون رہنما جناب عبدالصمد اچکزئی کا پچاسواں یوم وفات ہے۔

جناب محمود  خان اچکزئی کے والدِ بزرگوار جناب عبدالصمد اچکزئی ایک سیاست دان سے زیادہ دانشورو ادیب تھے۔ پختون میپ کو سیکیولر اور دہریہ کہنے والوں کی خدمت میں عرض ہے کہ مولانامودی مرحوم کی طرح اچکزئی صاحب نے بھی جیل یاترا کو تصنیف و تالیف کیلئے استعمال کیا اور اس دوران مولانا ابوالکلام آزاد کی تفسیر کے بڑے حصے کا پشتو میں ترجمہ کیا۔ عبدالصمد اچکزئی کا عظیم کارنامہ مولانا شبلی نعمانی کی شہرہ آفاق تصنیف سیرت النبی کا پشتو ترجمہ ہے۔

جب 1972 میں پیپلز پارٹی کی  وفاق اور بلوچستان و سرحد (اب خیبر پختونخواہ)  میں جمیعت علمائے اسلام و نیپ کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تو بلوچستان کے وزیراعلی عطاللہ مینگل کے مشورے پر گورنر غوث بخش بزنجو نے ایک خصوصی فرمان کے تحت اردو کو صوبے کی سرکاری و دفتری زبان  کا  درجہ دے دیا اور انکے دور حکومت میں بلوچستان حکومت کی تمام کاروائی اور سرکاری خط و کتابت اردو ميں ہوتی تھی۔ اس صوبائی ارڈیننس کو قانون کی شکل دینے کیلئے بل کے مجوز رکن بلوچستان اسمبلی عبدالصمد اچکزئی تھے۔حالانکہ اسوقت تک اچکزئی صاحب  اپنے راستے ولی خان اور نیپ سے الگ  کرچکے تھے۔

اسی کے ساتھ سرحد کے وزیراعلی مولانا مفتی محمود نے اپنے صوبے میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا اور نیپ کے گورنر ارباب سکندرخان خلیل نے اس ضمن میں حکمنامہ جاری کیا۔

بدقسمتی سے ذوالفقار علی بھٹو کی آمرانہ طبیعت   حزب اختلاف کی صوبائی حکومت برداشت نہ  کرسکی اورایک سال کے اندر ہی سرحد و بلوچستان کی حکومتیں تحلیل کردی گئیں

صاحبو! اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کی پوری تاریخ میں صرف ایک سال اردو کو دوصوبوں میں سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہوئی ہےاور یہ سعادت 'غداروں'اور'قیام پاکستان کے مخالفین ' یعنی نیپ، جمیعت علمائے اسلام اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے حصے میں آئی

 ہمیں حیرت تو عشقِ عمران میں مبتلا ان  تحریکیوں پر ہوتی جو  عبدالصمد اچکزئی،  ولی خان اور  مولانا فضل الرحمان کے خلاف وہی غلیظ نعرے استعمال کررہے ہیں جو کنونشن مسلم لیگ کے ٹکسال بلکہ سنڈاس  میں ڈھالے گے تھے۔ 'نو ستارے چاندی کے، سارے بیٹے گاندھی کے' پکارنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ  فواد چودھری اور دوسرے سیاسی اوباش یہی باتیں مولانامودودی مرحوم کے بارے میں  بھی کہتے ہیں۔


حلقہ اسلامی شمالی امریکہ (اکنا) کا ہیوسٹن میں علاقائی کنونشن

 

حلقہ اسلامی شمالی امریکہ (اکنا) کا ہیوسٹن میں علاقائی کنونشن

قارئینِ گرامی جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہورہا ہے،ہمارا آج کا کالم ذرا غیر روائتی و غیر سیاسی نوعیت کا ہے۔ یہ شمالی امریکہ کے ان سخت جانوں کے بارے میں  ہے جنھوں نے اقامتِ  دین کی جدوجہد کے ذریعے حصولِ خوشنودیِ رب کو اپنا نصب العین بنایاہے۔ اپنی کاوشوں کو صحیح سمت میں رکھنے کیلئے، دستور میں یہ بات بھی صراحت سے درج کردی گئی کہ سارا کام قرآن و سنت کے  مطابق ہوگا۔ یعنی:

  • تمام سرگرمیاں کھلے عام ،شفاف اور قانون کے مطابق ہونگی
  • نصب العین کے حصول کیلئے طاقت کے استعمال، دھوکہ دہی، جھوٹ، جبر اور  خفیہ و غیر قانونی سرگرمیوں کی کوئی گنجائش نہیں۔
  • جماعت کا نظام  مشاورت سے چلے گا اور ہر سطح کی قیادت کو شفاف طریقے پر منتخب کیا جائیگا۔
  • ناگزیری کی قباحتوں سے بچنے کیلئے کسی فرد کے ایک منصب پر لگاتار دو مدت سے زیادہ رہنا ممکن نہیں۔
  • مالی معاملات کو شفاف رکھنے کیلئے آزاد و غیر جانبدار آڈیٹر کی رپورٹ ایک لفظ، حرف اور ہندسے کی تبدیلی کے بغیر ارکانِ جماعت کو پیش کی جاتی ہے۔
  • مالیات کا ایسا ہی نظام ذیلی اداروں کیلئے بھی ہے۔

اسلامی تحریک یہاں ارتقائی مراحل سے گزر کر اس مقام تک پہنچی ہے۔ امریکی جامعات میں  مسلم اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (MSA)بہت عرصے سے سرگرم تھی۔ پاکستان کی اسلامی جمیعت طلبہ سے وابستہ افراد جب اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکہ اور کنیڈا آئے تو وہ ایم ایس اے کا دست و بازو بن گئے ساتھ ہی جمیعت کا حلقہ احباب قائم ہوگیا۔ ڈاکٹر انیس احمد اور ڈاکتر طلعت سلطان اس حلقے کے باری باری سربراہی فرماتے رہے۔ اس دوران مانٹریال (کینیڈا) میں  سابقینِ جمیعت نے اپنی اصلاح کیلئے مطالعے کا نظام قائم کیا جسے اسلامی اسٹڈی سرکل کا نام دیا گیا جو 'حلقے' کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ سلسلہ 1868سے 1977 تک اسی طرح چلتا رہا۔ امریکہ کا حلقہ احباب اور کینیڈا کا حلقہ زیرتعلیم سابقین جمیعت پر مشتمل تھا۔ ان طلبہ کی اکثریت نے تعلیم کے اختتام پر وطن واپس جانے کے بجائے امریکہ میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔نوجوان تارکینِ وطن کی تعداد میں 1971 کے بعد تیزی سے اضافہ ہوا اور 1977 میں حلقہ اسلامی شمالی امریکہ (ICNA)کا قیام عمل میں آیا۔ شمالی امریکہ سے مراد ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا ہے۔

تنظیم کے قیام کے بعد بھی کچھ عرصے تک اسکا انداز حلقے والا رہا یعنی تمام سرگرمیاں اردو میں۔ چار پانچ سال بعد جناب ظہیر الدین کے دورِ امارت میں تمام مرکزی پروگرامات انگریزی میں شروع ہوئے لیکن خواتین کے اکثر پروگرامات اب بھی اردو میں ہوتے ہیں۔

اکنا امریکہ کی مرکزی تحریک ہے لیکن  عرب، افریقی، بنگلہ دیشی، ترک، ہند چینی (ملائیشیا انڈونیشیا اور برونائی) اور چینی مسلمانوں نے علیحدہ تنظیمیں بھی قائم کی ہوئی ہیں۔ یہ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد نہیں بلکہ  ثقافتی تنوع کی بناپر علیحدہ سرگرمیاں ضروری ہیں۔مُختلف مسلم ممالک اور بڑے مسلم آ بادی والے  ممالک، جیسے ہندوستان سے اب پورے کے پورے خاندان امریکہ منتقل ہورہے اور معمر لوگوں اور گھریلو خواتین کیلئے انگریزی سیکھناممکں نہیں چنانچہ مقامی زبانوں میں سرگرمیاں ضروری ہیں۔بنگلہ دیش، مصر، شام، چین اور کئی دوسرے ممالک کی حکومتیں اسلامی تحریکوں کے بارے معاندانہ رویّہ رکھتی ہیں اور موذیوں کے شر سے محفوظ رہنے کیلئے بھی یہ ضروری ہے۔

نائن الیون سانحے کے بعد دوسری اسلامی تنظیموں کی طرح اکنا بھی نظرِ کرم کا شکار ہوئی لیکن شفاف مالیاتی نظام، تحریری دستور اور اجتماعات کی دستاویزی روداد کی بناپر حاسدوں کی چالیں ناکام رہیں۔ یہاں یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ یہ تمام اقدامات کو محض اسباب تھے۔ اکنا کے  خلاف چالیں اس نے ناکام بنائی ہیں کہ جسکی چالوں کا توڑ کسی کے پاس نہیں۔ شفافیت کو مزید موثر بنانے کیلئے 2005 میں کینیڈا کی شاخ کو اکنا سے علیحدہ کردیا گیا۔ امریکہ اور کنیڈا کے قوانین کے فرق اور انکی تشریح میں ممکنہ ابہام سے بچنے کیلئے یہ قدم اٹھایا گیا۔اب اکنا کینیڈا ا ایک علیحدہ تنظیم کے طورپر کام کررہی ہے جسکا اکنا امریکہ سے کوئی تعلق نہیں لیکن نظریاتی ہم آہنگی اور اخلاص پر مبنی تعلقات کی گرمجوشی برقرار ہے۔

اکنا نے اپنی سرگرمیوں کو متنوع، مربوط اور موثر بنانے کیلئے کئی ذیلی ادارے قائم کئے ہیں۔ یہ ادارے مرکزی مجلس شورٰی کی جانب سے طئے کردہ اہداف اور طریقہ کار کے مطابق کام کرتے ہیں تاہم اکثر اداروں کے آزاد ایکزیکیٹیو بورڈ ہیں۔  

خدمتِ خلق کیلئے  ہیلپنگ ہینڈ (Helping Hand) امریکہ سے باہر سرگرم ہے، دنیا کے 85 ممالک میں ہیلپنگ ہینڈ کا نظم قائم ہے۔ شامی مہاجرین کی دیکھ بھال لبنان، اردن اور ترکیہ میں قائم کیمپوں سے ہوتی ہے۔ فلسطینیوں کے لئے اقوام متحدہ سے منظور شدہ تنظیموں کے تعاون سے خدمت خلق کاکام جاری ہے۔ پاکستان کے سیلاب زدگا ن کو ہیلپنگ ہینڈ نے ابتدا میں ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی مدد فراہم کی۔اب بے گھر افراد کی آبادکاری کیلئے مکانات تعمیر کئے جارہے ہیں۔

اکنا ریلیف امریکہ میں خدمت خلق کے علاوہ قدرتی آفات کے دوران مدد فراہم کرتی ہے۔ ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے امریکی حکومت نے  فیڈرل ایمرجینسی منینجمنٹ ایجنسی (FEMA)کے نام سے ایک ادارہ قیام کیا ہے۔ اکنا ریلیف فیما کی فہرست کا حصہ ہے اور کئی مواقع پر اکنا ریلیف کی خدمات کو وفاقی سطح پر خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔اکنا ریلیف کا بڑا کارنامہ گھریلو تشدد کا شکار خواتین کیلئے مختلف شہروں میں شیلٹر ہوم کی تعمیرہے۔ اِن گھروں میں اُن بے سہارا خواتین کو طعام و قیام کے علاوہ اپنے پیروں پر کھڑی ہونے کیلئے ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ جیل سے رہا ہونے والی بھی خواتین بھی مستقل انتظام سے قبل شیلٹر ہوم میں قیام کرتی ہیں۔شیلٹر ہوم میں رہائش کیلئے مسلم و غیر مسلم سب کے حقوق یکساں ہیں۔

غیر مسلموں کو اسلام کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کا کام WhyIslam کے ذمہ ہے جو فون کے ذریعے اسلام کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ ان لائنوں پر انگریزی کے علاوہ ہسپانوی زبان میں بھی گفتگو ہوسکتی ہے۔ وائی اسلام نے امریکہ کی بڑی بڑی شاہراہوں پر اسلام کے پیغام پر مشتمل بل بورڈ بھی نصب کئے ہیں۔

مختلف مساجد٬ پارکوں، لائیبریریوں اور دوسرے عوامی مقامات پر دعوت کیلئے open houseکا اہتمام کیا جاتا ہے،یہ سرگرمیاں gain peaceکے بینر تلے ہوتی ہیں جو  ایک کُل وقتی ادارہ  ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے نومسلموں کو ملی دھارے میں لانے کیلئے Embraceکے نام سے ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ اسلام قبول کرنے والے افراد خود کو نو مسلم کے بجائے revertsیا واپس آنے والے کہتے ہیں۔ انکا موقف ہے کہ اللہ نے انھیں  مسلمان پیدا کیا تھا لیکن وہ راستہ بھول گئے اور اب انکے رب نے انھیں فطری عقیدے کی طرف لوٹا دیا ہے۔کل اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک صاحب نے بڑا دلچسپ واقعہ بیان کیا۔ کہتے ہیں کہ جب اسلام قبول کیا تو بلانوش ہونے کی بنا پرمیری سب سے بڑی آزمائش ترکِ شراب تھی۔ میں نے شراب ایک دم چھوڑنے کے بجائے  اس سے بتدریج نجات حاصل کی۔ پہلے مرحلے پر میں نے گیہوں کی شراب (Beer)کے بجائے شیمپین پینی شروع کردی۔ شیمپین مہنگی ہے اسلئے مقدار کم ہوگئی۔ مزید کمی نماز کے اوقات سے آگئی کہ میں نشے کی حالت میں نماز کیسے پڑھتا۔ بعد عشا ہی  یہ شوق پورا ہوسکتا تھا۔ کچھ دن بعد شروع ہونے والے رمضان نے رات کو بھی شراب نوشی ناممکن کردی۔ الحمداللہ  

نوجوانوں میں کام کیلئے Young Muslim Brothersاور Youg Muslim Sisters سرگرم ہیں۔ کونسل برائے سماجی انصاف  خصوصی (CSJ)عدل و مساوات، شہری حقوق کے تحفظ کا کام کرتی ہے۔ حقوق کی آگاہی کیلئے سیمنار اور ورکشاپ کے ساتھ انصاف کی فراہمی اور مظلومو ں کی عدالتوں کے ذریعے دادرسی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

اکنا نے کام میں آسانی کیلئے امریکہ کو چار زون میں تقسیم کیاہے۔ حالیہ کنونشن کا اہتمام جنوب وسطی (South Central)زون کی طرف سے کیا گیا تھا۔ یہ زون ٹیکسس (Texas)، لوزیانہ(Louisiana) ، اوکلاہوما(Oklahoma) اور آرکنسا(Arkansas)ریاستوں پرمشتمل ہے۔ یہ چارو ں ریاستیں ریپبلکن پارٹی کے مضبوط گڑھ ہیں اور یہاں قدامت پسندوں کی اکثریت ہے۔ ان چار ریاستوں سے منتخب ہونے والے تمام کے تمام آٹھوں سینیٹروں کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے ہے جبکہ ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) کے مجموعی 13 ڈیموکریٹس کے مقابلے میں ریپبلکن کی تعداد 38ہے۔

گزشتہ صدی کی نوویں دہائی تک  ہم جنس پرستی المعروف LGBT، اسقاط (میرا جسم میری مرضی)، اسکولوں میں عبادت کی اجازت، سرکاری نصاب کی تطہیر وغیرہ کے معاملے پر قدامت پسند اور مسلمان ہمخیال تھے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے 1984 میں رونالڈ ریگن، 1988 میں جارج بش اور 2000 میں جارج بش جونیر کی حمائت کی، لیکن  نائن الیون کے بعد صورتحال بالکل بدل گئی اور ریپبلکن پارٹی کے قدامت کھل کر مسلمانوں کے خلاف کھڑے ہوگئے حتیٰ کہ 2016 کی انتخابی مہم کے دوران ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈانلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو مسلمانوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگادینگے۔

دلچسپ بات کہ جب صدر ٹرمپ نے انتخابی وعدہ وفا کرتے ہوئے 2017 میں مسلمانوں پر پابندی کا صدارتی حکم جاری کیا، اسوقت مسلمانوں کی حمائت میں سب سے پرجوش آواز LGBTافراد کی تھی۔ اسقاط کی حامی خواتین بھی اس مہم میں پیش پیش تھیں۔اِسوقت بھی فرانس میں حجاب پر پابندی کیخلاف LGBTافراد سرگرم ہیں۔

اس علاقے میں خواتین سمیت اکنا کے ارکان کی تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے۔ جو زیادہ تر ہیوسٹن اور ٹیکسس کے دوسرے بڑے شہر ڈیلس (Dallas) کے رہائشی ہیں۔ ٹیکسس انتہائی پھلتا پھولتا علاقہ ہے۔یہ امریکہ کی واحد ریاست ہے جہاں تنخواہوں سے ریاستی ٹیکس نہیں کاٹاجاتا۔ اسی بنا پر امریکہ کے دوسرے علاقوں سے کئی کارپوریشنیں اپنے صدر دفاتر اور کارخانے ٹیکسس منتقل لارہے ہیں۔حال ہی میں ٹویٹر فیم ایلون مسک نے برقی کار بنانے والے ادارے ٹیسلا کا صدر دفتر یہاں لایا ہے۔ کاروبار کیساتھ دوسری ریاستوں سے افراد بھی یہاں کی رہائش اختیار کررہے ہیں۔ گزشتہ دس سال کے دوران ٹیکسس کی آبادی  ڈھائی کروڑ سے بڑھ پر دو کروڑ 91 لاکھ ہوگئی جسکی وجہ سے کانگریس کیلئے ٹیکسس کی نشستوں میں دو کا اضافہ ہوگیا۔

نومبر کی آخری جمعرات کو شکر گزاری (Thanksgiving)کا تہوار منایا جاتاہے اور جمعرات سے اتوار تک تعطیل رہتی ہے چنانچہ تین روزہ کنونشن کا آغاز 25 نومبر کو نماز جمعہ کیساتھ ہوا۔ ہفتے اور اتوار کو فجر کی نماز کے بعد تذکیر کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ بیٹھک ہیوسٹن کے میریٹ ہوٹل میں جمی جہاں خواتین سمیت 4ہزار کے قریب افراد نے شرکت کی۔کنونشن کا مرکزی خیال یا theme'عادلانہ معاشرے کی تشکیل' تھا۔ سارے امریکہ سے آئے مقررین نے دنیا بھر میں مسلم اُمّہ اور انسانیت کو درپیش مصائب ، امریکہ کی مسلم امت کے مسائل ، مسلم معاشرے کے قیام اور اقامت دین کی اہمیت اور اسکے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ۔

طوالت کے خوف سے تمام مقررین کی تقاریر کا خلاصہ پیش کرنا یہاں ممکن نہیں۔ تاہم امریکہ کے مشہور عالم دین اور شعلہ بیان مقرر امام سراج وہاج کی تقریر نے دلوں کو خوب گرمایا۔ انھوں نے حاضرین سے پوچھا کہ یہاں پیدائشی مسلمان کتنے ہیں۔ حسبِ توقع وہاں موجود تقریباً ہر شخص نے ہاتھ اٹھادیا۔ اسکے  بعد انھوں نے دریافت کیا کہ یہاں revertsکتنے ہیں تو مقرر سمیت چار پانچ ہاتھ بلند ہوئے۔سراج وہاج نے دلگیر لہجے میں کہا دوستو جب ہزاروں پیدائشی مسلمانوں کے مجمعے میں گنتی کے reverts بیٹھے ہوں تو ایک عادلانہ معاشرہ کیسے قائم ہوگا۔ دعوت، اقامت دین کا پہلا مرحلہ ہے اور اس کام میں ہم کتنے سنجیدہ ہیں اسکا اندازہ اس برادری میں واپس آنے والوں کی تعداد دیکھ کر کیا جاسکتاہے۔ ہر مسلمان کم ازکم ایک شخص تک تو دعوت پہنچائے۔

امام صاحب نے کہا کہ نبی مہربان (ص) نے تین بار قسم کھاکر کہا تھا کہ وہ شخص مومن نہیں جسکے شر سے اسکے پڑوسی محفوظ نہ ہوں۔ ذرا دیکھئے آپ کے گھر میں چھوٹے بچے بھی پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں۔ قرآن کی تلاوت اور ذکر رسول سےآپکا گھر جگمگا رہا ہے لیکن چار انچ کی دیوار کی دوسری جانب آپکا پڑوسی ہدائت سے محروم ہے۔ حق تلفی بھی شر کی ہی ایک شکل ہے۔دعوت سے پہلو تہی کرکے ہم اپنے پڑوسیوں کو انکے حق سے محروم کررہے ہیں۔دوستو! ہمسائیگی کا حق اداکرو کہ یہ اللہ کے آخری نبی کا حکم  ہے ۔          

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 2 دسمبر 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 2 دسمبر 2022

روزنامہ امت کراچی 2 دسمبر 2022

ہفت روزہ رہبر سرینگر 4 دسمبر 2022

روزنامہ قومی صحافت لکھنو