Saturday, April 8, 2023

روئت ہلال شوال 1444

 

روئت ہلال  شوال  1444

انشااللہ 29 رمضان المبارک یعنی 20 اپریل کو اہل پاکستان کی نظریں آسمان پر ہلال تلاش کررہی ہونگی۔ یہ ملاوں پر موسمِ تبرہ کا آغاز بھی ہوگا کہ 'دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور ہم ہر مہینے زمین پر کھڑے چاند ڈھونڈھ رہے ہیں'۔

آج شوال کے چاند پر گفتگو، خالصتاً سائینسی بنیادوں پر۔ یہ گزارشات ہم پہلے بھی پیش کر چکے ہیں۔احباب کی دلچسپی کیلئے چند نکات دوبارہ پیش خدمت ہیں۔

سب سے پہلے Visible Lunar Crescent یا ہلال اور فلکیاتی نئے چاند یعنی Astronomical New Moonکے فرق کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔

فلکیاتی نیا چاندفلکیات کی ایک اصطلاح ہے اور یہ اس لمحے کو کہتے ہیں جس وقت ماہانہ گردش کے دوران چاند سورج اور زمین کے بیچ میں پہنچ جاتا ہے۔اگر اس وقت چاند سے سورج بالکل چھپ جائے تو سورج گرہن واقع ہو جاتا ہے۔فلکیانی نیا چانداوسطاًہر 29.530588دن کے بعد طلوع ہوتا ہے۔ اخباروں، کیلنڈروں، جنتریوں اور سب سے بڑھ کر Google میں جو "نیا چاند" درج ہوتا ہے وہ دراصل "فلکیاتی نیا چاند" ہے

تاہم قمری مہنیوں کا تعین زمین سے نظر آنے والے چاند سے ہوتا ہے جسے ہلال کہتے ہیں۔ ماہرین فلکیات کے تخمینے میں فلکیاتی نیاچاند واقع ہونے کے کم از کم 16 گھنٹے ، اور اکثر اس سے کہیں بڑی مدت، مثلا چوبیس گھنٹے، گزرنے کے بعد وہ ہلال بن کر نظر آنے کے لائق ہوتا ہے۔ ایک اور اہل پہلو چاند اور سورج کے غروب ہونے کے وقت کا فرق ہے۔عام طور سے غروب آفتاب کے پندرہ سےبیس منٹ بعد اتنا اندھیرا ہوتا کہ جس میں باریک سا ہلال نظر آسکے۔

"ہلال" کب نظر آئے گا یہ مسئلہ فلکیات داں ابھی تک پوری طرح حل نہیں کر سکے ہیں۔ تقریبی حل میں تو کافی ترقی ہوئی ہے جیسے یہ کہ کل رات زمین کے فلاں فلاں علاقوں میں ہلال کے نظر آنے کا امکان قوی ہے۔ مگر یہ ایسا ہی ہے جیسے موسم کی پیش گوئی ہو۔ ویسا وثوق ابھی میسر نہیں ہے جو دوسرے فلکیاتی مسائل میں ہے۔ مثلاً سورج ڈوبنے کا وقت کسی مقام اور تاریخ کے لیے سکنڈوں تک صحیح محسوب ہو سکتا ہے۔اسی لئے نماز سے پہلے ہمیں باہر نکل کر سورج کے مشاہدے کی ضرورت نہیں بلکہ کلائی پر بندھی گھڑی ہی کافی ہے

اس اصول پر اگر شوال کی روئت کا جائزہ لیا جائے تو معاملہ کچھ اسطرح ہے

شوال 1444 کے نئے چاند کی ولادت ہفتہ20 اپریل کو کراچی کے وقت کے مطابق صبح 9 بجکر12 منٹ پر متوقع ہے اورجب اس دن چھ بج کر 56 منٹ پر سورج غروب ہوگا اس وقت نئے نویلے چاند کی عمر 9گھنٹے اور 44 منٹ ہوچکی ہوگی جبکہ چندا ماما، سورج ڈوبنے کے 20 منٹ بعد تک کراچی کے مطلع پر اپنا جلوہ دکھاتے رہینگے۔گویا 20 اپریل کو چاند کی عمر اور اسکے سورج ڈوبنے کے بعدمطلع پر رہنے کا دورانیہ اتنا نہیں کہ یہ زمین سے نظر آسکے۔یہ ہمارا قیاس ہے۔ روئت ہلا ل کا تعین عینی شہادتوں کی بنیاد پر روئت ہلال کمیٹی کریگی۔

دوسرے دن یعنی 21 اپریل کو غروب آفتاب کے وقت چاند کی عمر 33 گھنٹے سے زیادہ ہوچکی ہوگی۔ اور ہلالِ عید سورج غروب ہونے کےبعد ایک گھنٹہ 21 منٹ تک مطلع پر جگمگاتا رہے گا۔ انشاللہ

چنانچہ 30 کا چاند خاصہ روشن اور موٹا ہوگا اور لوگ یہ کہنا شروع کردینگے کہ مولویوں نے عید خراب کردی۔ عید 29 ہی کی تھی، اتنا موٹا چاند یقیناً دوسری کا ہے۔ حالانکہ چاند کی موٹائی کی وجہ اسکی عمر ہوگی۔ چاند دیکھنے کیلئے آپ کو اپنا چہرہِ مبارک مغرب سے 15 درجہ دائیں جانب (285 deg) کرنا ہوگا۔ ہلال اتنا واضح اور روشن ہوگا کہ شائد چشمے کی ضرورت نہ ہو

اس پوری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ روئت ہلال میں اختلاف کی وجوہات ملائیت نہیں بلکہ سائنس ہے کہ چاند کی عمر اور اسکے زاوئے کی بنا پر دنیا کے مختلف مقامات پر اسکے نظر آنے یا اوجھل رہنے کے امکانات موجود ہوتے ہیں ۔یعنی ملا بیچارہ تو ٹہراجاہل، NASA کے ماہرین فلکیات بھی تیقن کے ساتھ چاند نظر آنے کی پیش گوئی  نہیں کرسکتے۔ یہ مولوی کی کم علمی نہیں بلکہ اجرام فلکی کی حرکت ہے۔ ہاں اگر فلکیاتی نئے چاند کو ہلال تسلیم کرنے پرامت کا اجماع ہوجائے تو نئے ماہ کے تعین کیلئے قمری کیلینڈر استعمال ہوسکتا ہے لیکن اس صورت میں ہرقمری مہینہ 29 دن کا ہوگا کہ چاند ماموں اپنا ماہانہ چکر ساڑھے انتیس دن میں مکمل کرلیتے ہیں۔

امریکہ میں 29 کا چاند ہوسکتا ہے، اسلئے کہ جب 20 اپریل کو ہیوسٹن میں سورج غروب ہوگا اسوقت نئے چاند کی عمر 20گھنٹہ 39 منٹ ہوگی اور ہلالِ عید سورج ڈوبنے کے بعد 49 منٹ تک مطلع پر رہیگا۔

نئے چاند کی ولادت اور سورج و چاند کے طلوع و غروب کی مکمل معلومات آپ www.timeanddate.com پر دیکھ سکتے ہیں


Thursday, April 6, 2023

اسرائیل کا اندرونی خلفشار نزلہ فلسطینیوں پر

 

اسرائیل کا اندرونی خلفشار

نزلہ فلسطینیوں پر

اسرائیل میں جاری بحران جلد ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔اگرچہ کہ  وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو المعروف بی بی نے متنازعہ 'عدلیہ  اصلاحات' یا Judicial Overhaulبل پر رائے شماری معطل کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن مجوزہ قانون کے حامیوں اور مخالفین کے پر تشدد مطاہرے جاری ہیں۔یکم اپریل کو تل ابیب میں ایک لاکھ افراد نے دھرنا دیا اور غم و غصے کے اظہار کیلئے مشعلیں لہرائی گئیں۔

اس مسودہ قانون یا بل کے پس منظر پر چند سطور

گزشتہ برس 29 دسمبر کو  بی بی  کی قیادت میں حلف اٹھانے والی اسرائیلی حکومت کئی اعتبار سے  منفرد تھی۔ پہلی بات کہ یہ اسرائیلی تاریخ کی قدامت پسند بلکہ متعصب ترین حکومت ہے۔ویسےتو 1948 میں جبری قبضے کے بعد سے  برسراقتدار آنے والی کسی بھی  اسرائیلی حکومت نے فلسطینیوں کے بارے میں اپنے متعصبانہ جذبات پر پردہ ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کی لیکن موجودہ حکومت میں ربائی (مذہبی پیشوا) اور جنگجو رہنماوں کی  جتنی بڑی تعداد شامل ہے اسکی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں  ملتی۔ سب سے اہم بات کہ وزیراعظم سمیت کابینہ کے کئی ارکان زیر تفتیش ہیں اور بی بی پر مالی بے ضابطگیوں اور بددیانتی کا مقدمہ چل رہا ہے۔ وزیراندرونی سلامتی اتامر بن گوئر اور وزیرخزانہ بیزلل سموٹرچ کے خلاف نقص امن کے پرچے کٹ چکے ہیں۔

 معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ سابق نائب وزیراعظم اٰریہ مخلوف درعی کو بے ایمانی، رشوت ستانی، ٹیکس فراڈ اور منتخب نمائندے کی حیثیت سے عوام کا اعتماد پامال کرنے کے الزام میں تین سال قید کی سزا ہوچکی ہے۔ جرم 1999 میں ثابت ہوا لیکن پارلیمانی استثنیٰ کی بناپر یہ جیل سے باہر ہیں۔ اس بار بھی جب یہ سوال اٹھا کہ ایک 'مجرم' وزیر کیسے بن سکتا ہے تو اٹارنی جنرل صاحب نے فرمایا 'جب عوام نے منتخب کرلیا تو وزیربننے میں کیا قباحت ہے'؟ ۔تاہم عدالت عظمیٰ کے حکم  پر اس سال جنوری میں انھیں استعفیٰ دینا پڑا۔ مراکشی نژاد  مخلوف درعی پاسداران توریت پارٹی  (عبرانی مخفف شاس) کے سربراہ ہیں۔ موجودہ کنیسہ (پارلیمان) میں شاس کی 11 نشستیں ہیں اور اپنے پارلیمانی حجم کے اعتبار یہ حکمراں اتحاد کی تیسری بڑی جماعت ہے۔ عدالتی حکم پر مجبور ہوکر بی بی نے مخلوف صاحب کو برطرف تو کردیا لیکن انھیں کابینہ کے ہراجلاس میں 'خصوصی دعوت' پر بطور مبصر بلایا جاتا ہے۔ مجرم اور زیر تفتیش و مقدمہ افراد کی کابینہ میں موجودگی کی بنا پر حزب اختلاف کے ارکان کنیسہ کے اجلاسوس میں بی بی کو مسٹر کرائم منسٹر کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔

اپنے اور وزرا کیخلاف مقدمات اور شکائتی پرچوں سے تحفظ کیلئے عدالتی اصلاحات کو بل ترتیب دیا گیا۔ بی بی اور انکے قدامت پسند اتحادیوں کو شکائت تھی کہ لبرل جج نئی حکومت  کے قدامت پسند ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ معبدوں میں اختلاط مردوزن کا مکمل سدباب، سرکاری ضیافتوں میں غیر KOSHER(حلال) غذائی اجزا پر پابندی اس ایجنڈے کے دوسب سے اہم نکات ہیں۔ ماضی میں عدالتیں اس قسم کی پابندیوں کو غیر ضروری و ماورائے دستور قرار دے چکی ہیں۔ اسی کیساتھ شاس پارٹی، متحدہ توریت پارٹی، خوشنودیِ رب پارٹی، جماعتِ دینِ صیہون اور عظمتِ یہود جماعت  نے اسرائیلی معاشرے سے  ہم جنس پرستی (LGBT)کے مکمل استیصال کو انتخابی منشور بنایاتھا۔ لیکن عدالتی مداخلت سے قبل ہی بی بی نے اسپیکر کیلئے  عامر اوہانہ (Amir Ohana)کو امیدوارنامزد کرکے نفاذِ تلمود (یہود شریعت) کے غبارے کو سوئی چبھودی ۔عامر اعلانیہ ہم جنس پرست  ہیں جنھوں نے ایک مرد سے شادی کررکھی ہے۔ جب رائے شماری کا وقت آیا تو خوشنودیِ رب پارٹی کے سربراہ اوی معوذ صاحب نے بھی بے شرمی سے عامر کے حق میں ہاتھ اٹھادیا۔ جناب معوذ نے انتخابی مہم کے دوران حضرت لوطؑ کی قوم پر آنے والے عذاب سے اسرائیلیوں کو ڈراتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ تھا کہ 2023 کی LGBTپریڈ انکی لاش پر ہوگی۔خبر ہے کہ اسپیکر صاحب اس بار پریڈ کی قیادت کرینگے۔

کئی درجن صفحات پر مشتمل اس مسودہ قانون میں اور بہت سی باتوں کے علاوہ ایک شق یہ بھی ہے کہ کنیسہ واضح اکثریت یعنی 61 ووٹوں سے سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کو غیر موثر کرسکتی ہے۔ اسی طرح ججوں کی تقرری کیلئے جوڈیشل کونسل کا فیصلہ محض سفارش ہوگا جسکی  حتمی منظوری وزارت انصاف دیگی۔ چیف جسٹس کا تقرر سینیارٹی کے بجائے وزیراعظم کی صوابدید پر ہوگا جسکی کنیسہ سے توثیق لازمی ہے اور یہاں بھی واضح اکثریت کافی ہے۔

بل کے سامنے آتے ہی حزب اختلاف اور عام لوگوں میں  اشتعال پھیلا اور ملک کے طول و عرض میں ہنگامے  شروع ہوگئے، لاکھوں لوگوں نے چوراہوں اور سڑکوں پر دھرنا دیا اور جب  9 مارچ کو بی بی سرکاری دورے پر روم روانہ ہوئے تو انھیں تل ابیب کے بن گوریان ائرپورٹ پہنچنے کیلئے ہیلی کاپٹر استعمال کرنا پڑا۔

سیاسی کارکنوں، طلبہ اور مزدروں کیساتھ فوج بھی عدالتی اصلاحات کے خلاف کھل کر سامنے آئی۔ اسرائیلی فوج کی بڑی تعداد محفوظ یا Reserveدستوں پر مشتمل ہے جنھیں بوقت ضرورت طلب کرلیا جاتا ہے۔نصف سے زیادہ ریزرو سپاہیوں نے اپنے سپہ سالار کو تحریری طور پرمطلع کر دیا کہ وہ عدلیہ کے پر تراشنے کی حکومتی کوِششوں پر سخت پریشان ہیں۔ اسی دوران ایک فلسطینی کی مبینہ فائرنگ سے دو اسرائیلی ہلاک ہوگئے جس پر  وزیرخزانہ اسموٹرچ نے بیان دیا کہ فلسطینی آبادیوں کو  فوج کے ذریعے مٹادینے  کی ضرورت ہے۔ اسرائیل فوج 1948  سے یہی کررہی ہے لیکن وزیرباتدبیر کے اس کھلم کھلا اعلان سے فوجی افسران  میں تشویش پھیل گئی۔ فضائیہ میں زیادہ بیچینی تھی اور بہت سے پائلٹوں نے فوج چھوڑنے کا عندیہ دے دیا۔ موقر ٹیلی ویژن چینل 12کے مطابق کئی درجن پائلٹوں نے  فضائیہ کے سربراہ جنرل ثمر بار(Tomer Bar)سے ملاقات میں کہا کہ وزیرخزانہ کھلے عام فلسطینی شہروں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی بات کررہے ہیں اور یہ کام وہ سرکاری حکم کے تحت فوج سے کروانا چاہتے ہیں۔ان پائلٹوں کا کہنا تھا کہ ایسے احکامات پر عملدرآمد کی صورت میں اسرائیلی فوجی ذاتی حیثیت میں ذمہ دار ٹہرائے جاسکتے ہیں اور انکے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ خارج از امکان نہیں۔پائلٹوں نے فوج کے سربراہ کو بتایا کہ اس تناظر میں انکے لئے فوج سے علیحدگی ہی ایک بہتر فیصلہ ہوگا۔ روزنامہ الارض( Haaretz)کے مطابق بمبار طیارے کی مشہور تدبیراتی وحدت (اسکوڈرن) کے 40 میں سے 37 ریزرو Reserve پائلٹوں نے معمول کی تربیت پر آنے سے بطور احتجاج انکار کردیا۔ جدید ترینF151 بمباروں پر مشتمل یہ وحدت ہتھوڑے کے نام سے مشہور ہے۔

 اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل ارضی حلوی Herzi Halevi نے اس صورتحال سے وزیردفاع یووار گلانٹ(Yoav Gallant) کو مطلع کیا جنھوں نے وزیراعظم سے خصوصی ملاقات میں انھیں بتایا کہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور اگر ریزرو سپاہیوں کی ناراضگی دور نہ کی گئی تو ملک کا دفاع خطرے میں پڑ سکتا ہے۔وزیراعظم سے ملاقات کے بعد وزیردفاع نے اعلان کیا کہ کنیسہ میں رائے شماری کے دوران وہ بل کی مخالفت میں ووٹ دینگے۔وزیردفاع کے اس بیان پر بی بی کے قدامت پسند اتحادی آپے سے باہر ہوگئے جن کے خیال میں یہ کھلی بغاوت تھی چنانچہ بی بی نے جناب گلانٹ کو برطرف کردیا۔

فلسطینی اس تحریک میں غیر جانبدار ہیں۔ رام اللہ بار نے صاف صاف کہا کہ انھیں ریاست 1948 سے انصاف کی کوئی توقع ہے ہی نہیں لہذا عدالتی اصلاحات کا شوشہ ہمارے لئے ایک مہمل چیزہے۔ فلسطینی اپنے سرکاری بیانات میں نام لینے کے بجائے اسرائیل کو ریاست 1948 کہتے ہیں۔ بار نے ثبوت کے طور پر  اسرائیلی جریدے الارض (Haaretz)میں شایع ہونے والی وہ رپورٹ پیش کی جسکے مطابق اسرائیلی جیلوں میں971فلسطینی ایسے ہیں جنہیں مجسٹریٹ کے روبرو کبھی پیش ہی نہیں کیاگیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ دس پندرہ سال سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اخوانی فکر سے وابستہ رعم کے سربراہ منصور عباس نے کہا کہ انکی جماعت کنیسہ میں اس بل کے ِخلاف ووٹ تو دیگی لیکن  عرب باشندے سڑکوں پر نہیں آئینگے کہ کیا لبرل اور کیا قوم پرست و  قدامت پسند تمام اسرائیلی جماعتیں فلسطینیوں کے معاملے میں یکساں رویہ رکھتی ہیں۔ اسکے باوجود بل کے حامیوں نے مظاہرے کے دوران فلسطینیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ گزشتہ ہفتے یروشلم میں پیٹرول پمپ پر اپنی گاڑی میں پیٹرول بھرتے ایک فلسطینی ٹیکسی ڈرائیور کو پولیس کے سامنے بری طرح  پیٹا گیا  اوراسکی گاڑی کے شیشے چکنا چور کردیے گئے۔

رمضان کے دوسرے جمعہ کو پولیس نے مسجد اقصیٰ  کی طرف جانے والی ایک خاتون سے دست درازی کی کوشش کی جس پر   محمد خالد العصیبی  نے سپاییوں کو منع کیا،جواب میں پولیس نے العصیبی کو فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ حال ہی رومانیہ سے طب کی تعلیم  مکمل کرنے والے اس 26 سالہ ڈاکٹر کو کم از کم 10 گولیاں لگیں۔ دوسرے دن اسی علاقے میں 24 سالہ محمد  رئید برادیہ کو گولی ماردی گئی۔ فوجیوں نے ایمبیولینس کا راستہ روک لیا اور خون بہہ جانے کی بنا پر بردایہ نے وہیں سڑک پر دم توڑ دیا۔ رواں سال کی پہلی سہ ماہی یعنی 31مارچ تک  90 دنوں میں   92 فلسطینی فوج اور پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے۔

اسی دوران موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کنیسہ نے ایک مسودہ قانون منظور کرلیا جسکے تحت 2005 کا 'دستبرداریِ غزہ قانون ' (Gaza Disengagement Law) منسوخ کرکے غربِ اردن کے شمالی حصے سے خالی کی جانیوالی چار بستیوں میں اسرائیلیوں کو آزادانہ نقل و حرکت اور وہاں رہائش اختیار کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے ۔غزہ میں فلسطینیوں کے ہاتھوں بھاری نقصان کے بعد معاہدہ امن کی ایک شرط کے طور پر کنیسہ نے یہ قانون منظور کیا تھا جسکے تحت اسرائیل نے غزہ میں اپنی تعمیر کردہ 21 بستیوں کو مسمار کرکے وہاں سے تمام فوجی اور شہری واپس بلالئے تھے۔اسی کیساتھ مغربی کنارے کے شمالی حصے (جنین ) میں تعمیر کی گئی چار بستیاں صنور، خومش، غنیم اور قدیم بھی مسمار کردی گئیں اور ان بستیوں میں اسرائیلیوں کے جانے پر پابندی لگادی گئی تھی۔اب نئے بل کے ذریعے 2005 کا دستبرداری بل منسوخ کر کے مغربی کنارے کے شمالی حصے کی مسمار کی جانیوالی چاروں بستیوں کو اسرائیلیوں کیلئے کھول دیا گیا ہے۔ ۔ فلسطینی اس قدم پر سخت مشتعل ہیں، انکا خیال ہے کہ اسرائیل کا اگلا قدم غزہ پر قبضہ ہوگا۔ حسب توقع امریکہ کو اس پر 'شدید تشویش ہے۔ جب  واشنگٹن میں اسرائیلی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے سفارتی گوشمالی کی گئی تو وزیراعظم بن یامین نیتھن یاہو نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ دستبرداری معاہدے کی منسوخی کے باوجود دریائے اردن کے شمال مغربی کنارے پر نئی بستیاں نہیں تعمیر کی جائینگی۔بادی النظر میں یہ 'وعدہ' اطمینان بخش ہے لیکن جب ایک معاہدہ بغیر کوئی وجہ بتائے منسوخ ہوسکتا ہے تو زبانی یقین دہانی کی کیا حیثیت؟؟۔ عدالتی اصلاحات پر بی بی سے نالاں حزب اختلاف نے دستبراداریِ غزہ قانون کی منسوخی کیلئے حکومتی قراداد کی حمائت کی۔

پر تشدد کاروائیوں کا شکار صرف فلسطینی نہیں بلکہ یروشلم کے مسیحی بھی انتہا پسند اسرائیلیوں کے حملوں کا ہدف  ہیں۔ دو ہفتہ قبل یروشلم میں حضرت مریمؑ کے مبینہ مزار سے متصل گرجا میں اسقفِ اعظم (Archbishop) اعلیٰ حضرت جوشیم پر اسوقت حملے کی کوشش کی کئی جب وہ خطبہ دے ریے تھے۔ ان غنڈوں نے وہاں موجود پادریوں کو بھی دھمکایا۔ یونانی تقلید پسند (Greek Orthodox) گرجا نے ایام صوم (Lent)کے دوران گرجا پر حملے،  مقدس مقامات کی بیحرمتی اور پرامن عبادت گزاروں کو ہراساں کرنے کی شدید مذمت کی۔بیان میں کہا گیا ہے اسرائیلی انتہا ہسندوں کی جانب سے گرجاگھروں، مسیحی قبرستانوں اور مذہبی مقامات پر حملے روز کا معمول بنے ہوئے ہیں اور مقدس ایام و تہوار کے دوران ان میں شدت آجاتی ہے۔ مسیحیوں کے ایام سوم  کا اختتام 6 اپریل کو ہوا جسکے بعد اتوار کو عیدِایسٹر منائی جائیگی۔

مسلمان بھی اس دوران رمضان کے روزے رکھ رہے ہیں۔ گیارہ اپریل سے آخری عشرے کا آغاز ہوگا۔ فلسطینی اس دوران زیادہ وقت مسجد اقصیٰ میں گزارتے ہیں۔ بدقسمتی سے  رمضان کا آخری عشرہ فلسطینیوں بڑا بھاری گزرتا ہے اور اس بار  معاملہ کچھ زیادہ خراب لگ رہا ہے۔ عوامی  و عسکری دباو پر بی بی عدالتی اصلاحات کا بل منظور نہیں کراسکے اور کھسیانی بلی اب بے یار و مددگار فلسطینیوں کو نو چنے  اور کاٹنے کی کوشش میں ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل، کراچی  7 اپریل 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 7 اپریل 2023

روزنامہ امت کراچی 7 اپریل   2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 9اپریل 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو


Tuesday, April 4, 2023

یہودیوں کا تہوارِ نجات Passover

 

یہودیوں کا تہوارِ نجات Passover

 دنیا بھر کے یہودی 5    سے 13 اپریل  تک Passoverکا تہوار منارہے ہیں۔ مسلمانوں کی طرح یہودی  بھی قمری کیلینڈرستعمال کرتے ہیں۔ عبرانی کیلنڈر کے پہلے مہینے نشعان  کی 15 تاریخ کو غروب آفتاب سے شروع ہونے والی Passover تقریبات 7 دن جاری رہینگی، قدامت پسند (Orthodox)8 دن تک Passoverکا اہتمام کرتے ہیں۔

اس تہوار کے بارے میں دورائے پائی جاتی ہے۔

 عرب نژاد یہودیوں کے خیال میں یہ اس عظیم واقعے کی یادگار ہے جب   سمندر کو پھاڑ کر اللہ نے حضرت موسیٰ کی قیادت میں بنی اسرائیل  کو بحر قلزم سےبحفاظت گزارکر انکے  سامنے  فرعون اور اسکےپورے لشکر کو انتہائی ذلت کے ساتھ  غرق کردیا۔یہ عبورِعظیم Passoverکہلاتا ہے۔

 دوسری طرف یہودیوں کے سوادِ اعظم کے خیال میں قصہ کچھ اسطرح ہے کہ  اللہ نے  اہل مصر کو  10 آفتوں میں مبتلا کیا جو دراصل حضرت موسیٰ کیلئے اللہ کی نشانیاں تھیں۔ قرآن میں 9 نشانیوں کا ذکر ہے (سورہ بنی اسرائیل آئت  101)

آخری عذاب سے پہلے اللہ نے حضرت موسیٰ سے فرمایا کہ فلاں رات کو تمہارے دشمن یعنی ہر مصری کا سب سے بڑا بیٹا  مرجائیگا اور سزا صرف انسانوں تک ہی نہیں رہیگی بلکہ انکے جانوروں اور مویشیوں کاپہلا بچہ بھی  اس رات ہلاک ہوگا۔ اسرائیلوں کو ہدائت کی گئی کہ وہ شناخت کیلئے قربان کی گئی بھیڑ کا خون اپنے گھروں کے دروازوں اور دہلیز پر لتھیڑ دیں تاکہ موت کا فرشتہ انھیں چھوڑ کر  (Passover)آگے بڑھ جائے۔

اس روز کی سب سے اہم عبادت  ہر خاندان کی طرف سے ایک بھیڑ یا بکرے کی قربانی ہے۔قربانی کا سارا گوشت اسی  روز ختم کرنا ضروری ہے ۔ اگر خاندان کے افرادایک ہی نشست میں پورا بکرا چٹ نہ کرسکیں تو اسکا بقیہ حصہ پڑوسی یا نادار لوگوں کو دیا جاسکتا ہے لیکن اسے آئندہ کیلئے محفوظ رکھنے کی اجازت نہیں۔اسی کے ساتھ مٹھائی اور انگور کی شراب کے ساتھ مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے۔

حسن اتفاق کہ  حضرت ابراہیم سے  وابستہ تینوں آسمانی مذاہب  کے  مقدس ترین  ایام ایک ہی وقت میں آئے  ہیں  :

·        مسیحیوں کے ایام صوم یا Lentکا یہ آخری ہفتہ ہے ،  جمعہ 7 اپریل کو  مسیحی بھائی Good Fridayاوراتوارکو عیدِ ایسٹر منائینگے۔ Palm Sunday(2اپریل)  سے ایسٹر تک کا عرصہ مسیحیوں کے یہاں بہت مبارک و مقدس سمجھا جاتا ہے۔

·          فرعون سے نجات کی صورت میں اللہ نے بنی اسرائیل پر احسان عظیم فرمایا

·        اور مسلمانوں کیلئے یہ رمضان  المبارک کے ایام ہیں۔

مسیحی احباب  کو Lentکی برکات و عید ایسٹر اور یہودیوں کو Passoverکی  خوشیاں مبارک ہوں۔

دعا کے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خلیل  اور انکی نسل میں جنم لینے والے عظیم پیغمبروں   سے موسوم خوشی کے  ان لمحات میں  مظلوم   فلسطینیوں کو نسل پرستوں کے مظالم سے چھٹکارا  عطا کرےاورہماری انفرادی و اجتماعی کوتاہیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم پر پھر سے مہربان ہوجائے۔ بیشک ہم  نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہےاور ہم سب اس پر اپنے رب کے حضور شرمندہ ہیں۔

مسرت و تشکر کے اس  موقع  کو اسرائیل کی نسل پرست حکومت نفرت پھیلانے کیلئے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ وزیراندرونی سلامتی المعروف   وزیرِ پولیس   اتمار بن  گوئر نے یہودیوں کو   پاس اوور کے ایام میں زیارتِ   Temple Mountکی دعوت دی ہے۔ ٹیمپل ماونٹ جسے   عبرانی  میں  ہرہابیت  (محتر م گھر   والی پہاڑی) کہا جاتا ہے  مسجدِ اقصیٰ کادالان ہے، یہیں گنبدِ صخرا بھی ہے۔ مسلمان اس سارے  کمپاونڈ کو  الحرم الشریف کہتے  ہیں۔ اس پر قبضہ کرتے وقت  1967 میں اسرائیل نے    القدس شریف کی  حیثیت برقرار رکھنے کا وعدہ کیا تھا جو Status Quo معاہدے  کے نام سے   مشہورہے۔ معاہدے کے تحت  القدس شریف میں غیر مسلموں کا داخلہ اوقاف کی اجازت سے مشروط ہے اور زیارت کے لئے آنے والے غیر مسلم یہاں عبادت  نہیں کرسکتے۔

اب وزیرپولیس  فرمارہے ہیں کہ  Status Quo کا وعدہ  غلط تھا۔ مسلمانوں کیلئے مسجداقصیٰ  کا  درجہ مکہ اور مدینہ   کے بعد ہے جبکہ  ہرہابیت  یہودیوں کا مقدس ترین مقام ہے۔ شہہ پاکر  انتہاپسند عناصر وہاں قربانی کی بھیڑیں  ذبح کرنے کا منصوبہ بھی بنارہے  ہیں۔ دالان ِ مسجد کو مذبح  خانہ  بنادینا کہاں کی انسانیت ہے؟؟؟


Thursday, March 30, 2023

سعودی شام سفارتی تعلقات امریکہ بہادر پریشان، اسرائیل مشتعل

 

سعودی شام سفارتی تعلقات

امریکہ بہادر پریشان، اسرائیل مشتعل

ڈھائی ہفتہ قبل  چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی عرب نے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا۔ اسکے ساتھ ہی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایران کے صدر  ابراہیم رئیسی کو  مملکت کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ ایرانی صدر نے شاہی دعوت کو پوری ایرانی قوم کیلئے باعثِ شرف قراردیتے ہوئے کہا کہ  خاک طیبہ ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے، آپ کی دعوت سے ہم نہال ہیں لیکن سعودی عرب آنے کیلئے ہمیں رسمی دعوت کی ضرورت نہیں کہ بھائیوں میں کیا تکلف۔ سعودی وزارت خارجہ نے ایران کو سعودی عرب میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے اور دونوں  ملکوں کے وزرائے خارجہ کی ملاقات رمضان ہی میں متوقع ہے۔

امریکہ اور اسرائیل کے سوا ساری دنیا نے  اس شاندار پیش رفت کا خیر مقدم کیا ۔عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ اگر سعودی عرب اور ایران نے تمام تنازعات  بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی جرات کرلی تو اس سے جہاں ان دونوں ملکوں میں امن و سکون آئیگا وہیں  خانہ جنگی کے مارے شامیوں، اہل یمن و عراق اور ساکنانِ افغانستان کو بھی راحت نصیب ہوگی۔

اور واقعی ایسا ہی ہوتا نظر آرہا ہے۔ ایران نواز حوثیوں اور سعودی حمائت یافتہ وفاقی حکومت کے درمیان  غیر اعلانیہ فائر بندی کی وجہ سے دس سال بعد  یمن میں رمضان  کی رونقیں لوٹ آئی ہیں۔قحط، بیماری اور مہنگائی کے مارے یمنی عملاً صائم الدھر ہیں لیکن اس بار پانی سے سحروافطار کرنے والے ان فاقہ کشوں کو  عسکری سائرن کی اذیت سے وقتی طور پرنجات مل چکی ہے۔

ایران سعودی مفاہمت کی پشت پر چین کی کامیاب سفارتکاری جبکہ شام کے معاملے میں   سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی معاملہ فہمی و بردباری  برگ و بار لائی ہے۔ موصوف  تصادم کے بجائے  مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ دس برس قبل جرمن وزیرخارجہ سگمر جبرائیل  (Sigmar Gabriel)کے توہین آمیز بیان پر سعودی عرب نے جرمنی نے اپنے سفیر کو واپس بلالیا اور سفارتی تعطل ایک سال جاری رہا۔ سفیروں کے تبادلے کے بعد بھی جرمن سعودی تعلقات میں ناخوشگوار کشیدگی برقرار رہی اورر مارچ 2019 میں شہزادہ فرحان سفیر بناکر جرمنی بھیجے گئے جنکی ولادت جرمن شہر فرینکفرٹ میں ہوئی تھی اور موصوف جرمنی بہت روانی سے بولتے ہیں۔ شہزادہ صاحب نے اپنے شیریں اندازِ گفتگو اور حکمت سے جرمنی اور سعودی عرب کے تعلقات میں آئی سلوٹ کو ہموار کردیا۔ چند ہی ماہ بعد شہزادہ فرحان کو سعودی وزارت خارجہ کا قلمدان سونپ دیا کیا۔

اطلاعات کے مطابق سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود سعودی وزیرخارجہ اپنے شامی ہم منصب فیصل مقداد سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ فٰیصل بن فرحان کو انگریزی ادب سے دلچسپی ہے جبکہ انسٹھ سالہ فیصل مقداد انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی ہیں۔ چنانچہ سیاست و سفارت کے علاوہ ان دونوں کے درمیان گفتگو کیلئے باہمی دلچسپی کے کئی دوسرے موضوعات بھی ہیں۔ سعودی وزیرخارجہ کا خیال ہے کہ بات چیت کبھی بے سود نہیں ہوتی اور  گفتگو کا ہر دور  تعاون کا نیا راستہ ہموار کردیتا ہے۔ ایران سے صبر آزما بلکہ اعصاب شکن سالوں طویل مذاکرات سعودی شہزادے کی اسی مسقل مزاجی اور پُرامید طرز فکر کا ثمر ہے۔ انھوں نے مفاہمت کے اعلان سے ایک ماہ قبل کہا تھا کہ ایران سے  مذاکرات کے چار دور میں قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوئی لیکن دونوں فریق کی جانب سے بات چیت جاری رکھنے کا عزم بے حد خوش آئند ہیں اور ہم ملاقات کا کوئی بھی ضایع نہیں کرینگے۔

شام کے معاملے میں بظاہر کسی ثالثی کے بغیر دونوں وزارئے خارجہ براہ راست گفتگو کرتے رہے اور  خیال ہے کہ جناب مقداد نے اپنے ایرانی دوستوں کو بھی اس بات چیت سے باخبر رکھا۔ شام سے تعلقات بہتر کرنے کی سعودی خواہش نے ایرانیوں پر مثبت اثرات مرتب کئے اور 10مارچ کو تہران و ریاض کے درمیان ہونے والے معاہدے میں شام سعودی مفاہمتی گفتگو نے اہم کردار ادا کیا ہے۔

ریاض دمشق  ناچاقی کی بنیادی وجہ شام کی خانہ جنگی اور اس میں ایران کی  مبینہ مداخلت ہے ۔ خانہ جنگی کے اسباب و عوامل پر چند سطور سے قارئین کو پسِ منظر سمجھنے میں آسانی ہوگی

 دسمبر 2010 میں  تیونس سے پھوٹنے والی آزادی کی لہرنے  مصر، کوئت، بحرین اور یمن کی طرح  شامیوں کو بھی حوصلہ دیا  لیکن خفیہ پولیس کی موثر پیش بندیوں کی بناپر کوئی عوامی سرگرمی سامنے نہ آئی۔ پندرہ مارچ 2011کو اردن سے ملحقہ شہر درعا کے ایک ہائی اسکول کی دیوار پر اللہ، السوریہ(شام) اور آزادی کا نعرہ لکھا پایا گیا۔ اور اسکے بعد شہر کے سارے اسکولوں میں یہ نعرہ نوشتہ دیوار بن گیا۔ یہ ایک ناقابل معافی جسارت تھی چنانچہ خفیہ پولیس حرکت میں آئی اور دو سو بچیوں سمیت پانچ سو طلبہ گرفتار کر لیا گیا۔ ان طلبہ کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ معصوم بچیوں کی بے حرمتی کی گئی اور  پچاس بچوں کی ان انگلیوں کو کاٹ دیا گیا جن سے انھوں نے نعرے لکھے تھے۔ اٹھارہ مارچ کو بعد نمازِ جمعہ ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کیا۔ پولیس کی فاٰئرنگ سے درجنوں افراد جابحق ہوئے۔

تشدد سے ہنگامے تو کیا رکتے، یہ درعا سے نکل کر سارے ملک میں پھیل گئے اور  شام کے پرچم ہاتھوں میں لئے نوجوانوں  نے مختلف شہروں کے  میدانوں اور چوراہوں پر ڈیرے ڈالدئے۔آزادی کی یہ قومی تحریک جماعتی و نظریاتی سیاست سے بالا تر تھی۔ کسی شخصیت کیلئے زندہ باد و مردہ باد کی کوئی صدائیں نہ تھی اورنعروں سے صرف اللہ پر ایمان اور مملکت کی سرفرازی و کامرانی کا عزم جھلکتاتھا۔شام کے آمر بشارالاسد  کو کتا اور لوٹا کہنے کے بجائے ان سے عزت کے ساتھ ارحل (یعنی تشریف لے جایئے)کی درخواست کی گئی۔

شام کے  رائج الوقت نظام  میں اختلاف کی سزا موت ہے۔ سوا دوکروڑ نفوس پر مشتمل اِس ملک کو عرب دنیا کا سیاسی قبرستان کہا جاتا ہے۔ جاسوسی کا نظام اسقدر مضبوط و مربوط کہ  شائد"دیواروں کے کان" کا محاورہ شام میں تخلیق کیا گیا ہے اور ہمارے فیض صاحب کو "اپنے ہی سائے سے گریزاں" ہونے کا عملی مشاہدہ  بھی یقیناً  شام ہی میں ہوا ہوگا۔ تاریخی اہمیت کے حامل اس ملک میں نصف صدی سے "فوجی بادشاہت" قائم ہے جسکے بانی صدر بشار الاسد کے والد حافظ الاسد تھے۔

حافظ الاسد نے اپنے بھائی اور خفیہ پولیس کے سربراہ رفعت الاسد سے مل کر 1980 میں جس بیدردی سے اخوان المسلمون کا قتل عام کیا اسکی تفصیل تو کیا چند ایک واقعات لکھنے کی بھی ہم میں ہمت نہیں۔ بس یوں سمجھئے کہ حماہ، حلب اورحمص کے شہر وں کی جو اخوان کےگڑھ سمجھے جاتے تھے، اینٹ سے بجادی گئی۔ یہاں  آباد اخوان کا ایک ایک کارکن اپنے بیوی بچوں سمیت قتل کردیاگیا۔ ماری جانیوالی خاتون کارکنوں کی اکثریت لیڈی ڈاکٹروں کی تھی۔انکے مکتبے، کتب خانے، خیراتی شفاخانے، رعائتی ریستوران مسمار کردئے گئے  رفعت الاسد نے ایک امریکی صحافی سے بات کرتے ہوئے فخریہ کہا کہ وہ تدمر  جیل کے قصاب ہیں اور انھوں نے اپنے ہاتھوں سے ایک ہزار اخوانیوں کے گلے میں پھانسی کے پھندے ڈالے ہیں۔

اپنے والد کی طرح بشارالاسد نے وہی ہتھکنڈے مظاہرین کیخلاف استعمال کئے۔ والد کے دست و بازو انکے چچا تھے تو بشارالاسد کی نصرت کو انکے بھائی اور ریپبلکن گارڈ کے سربراہ جنرل ماہر الاسد سامنے آئے۔سماجی ذرایع ابلاغ  کو انکی ہمشیرہ بشریٰ الاسد  نے سنبھالا۔ دارالحکومت دمشق کے علاوہ حمص، حماہ، الاذقیہ، طرطوس، اور دیرالزور میں بربریت کی انتہا کردی گئی۔ لیکن اسکے بعد بھی حالات قابو میں نہ آئے تو  بشارا لاسد نے فرقہ واریت کا پتہ پھینک دیا۔ قوم سے اپنے خطاب میں انھوں نے کہا سارا فساد اخوانیوں کا پھیلایا ہوا ہے، جو کرد  انتہا پسندوں سے مل شام کو حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ اخوان کو  صیہونی سامراج  اور ترکی کے اسلام پسندوں کی حمائت حاصل ہے۔ کچھ دن بعد شامی خفیہ پولیس نے انکشاف کہ ترک سرحد پر واقع  شہر القامشلی سے کرد بنیادپسند اور الحسکہ کے راستے عراق کے 'سُنّی دہشت گرد' شام میں داخل ہورہے ہیں۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ نے مشرقی شام میں عراقی سرحد پر تیل کے میدانوں کے قریب مورچہ لگالیا۔ایک اندازے کے مطابق اسوقت یہاں 900 امریکی فوجی تعینات ہیں۔

اسی دوران روس نے اپنے اتحادی کی 'حفاظت' کیلئے  نجی ملیشیا ویگنر (Wagner)کے پیشہ ور قاتل بھیج دئے۔ کچھ دن بعد داعش کا شگوفہ پھوٹا اور ایران نے داعش کی سرکوبی کے نام پر پاسداران انقلاب کے دستے میدان میں اتاردئے،لبنان کی حزب اللہ بھی بشارالاسد کی پشت پر آکھڑی ہوئی۔ گویا صدر ابشارلاسد عوامی  جمہوری جدوجہد کو  علویوں اور شیعوں کے خلاف سنیوں کا غدر قرار دینے میں کامیاب ہوگئے۔ بدقسمتی سے ایران اور حزب اللہ دونوں اس معاملے پر صدر اسد کے ہمنوا  تھے۔ سعودی عرب اور خلیجی ممالک ایران کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں، چنانچہ 2012 میں ریاض نے شام سے سفیر واپس بلاکر تعلقات توڑلئے۔

جب سعودی عرب اور ایران کے درمیان مفاہمت کے آثار پیدا ہوئے تو سعودی و شامی رابطے بھی مثبت اشارے دینے لگے۔ 23 مارچ کو امریکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے انکشاف کیا کہ سعودی عرب اور شام سفارتی تعلقات بحال کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ رائٹرز کے مطابق تین اہم شخصیات نے نام شایع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان عیدالفطر کے فوراً بعد  قونصلر کی سطح پر تعلقات بحال ہوجائینگے۔ اسکے دوسرے دن سعودی عرب کے سرکاری سیٹیلائٹ چینل الاخباریہ نے بتایا کہ سعودی عرب اور شام سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند ہوتے نظر آرہے ہیں۔اب تک ان خبروں کی دمشق اور ریاض نے تصدیق یا تردید نہیں کی لیکن سرکاری ٹیلی ویژن پر خبر کا اجرا سعودیوں کی جانب سے تصدیق بلکہ توثیق کی ایک شکل  ہے

حسب توقع امریکہ  اور اسرائیل  ایران سعودی تعلقات پر کچھ متفکر ہیں۔ گزشتہ کئی روز سے شام میں  ایران اور امریکہ کے درمیان مسلح تصادم کی خبریں آرہی ہیں۔ امریکی وزارت دفاع کے مطابق 23 مارچ کو  شمالی شام میں الحسکہ کے قریب امریکی اڈے پر ایرانی ڈرون حملے میں ایک کرائے کا فوجی (Contractor) ہلاک اور 5 امریکی سپاہی زخمی ہوگئے۔  کچھ دیر بعد اپنے ایک بیان میں امریکی وزیردفاع جنرل لائڈ آسٹن نے کہا کہ حملے کا مناسب جواب دیدیا گیا ہے۔امریکی وزارت دفاع نے یہ نہیں بتایا کہ شام میں کس جگہ ایرانی ٹھکانوں پر جوابی حملے کئے گئے لیکن ٹویٹر پر نصب کئے جانیوالے بصری تراشوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکیوں کا ہدف مشرقی شام کا شہر دیرالزور تھا۔ عراق کی سرحد کے قریب دریائے فرات کے کنارے واقع دیرالزور، تیل اور گیس کا مرکز ہے۔

دوسرے دن جوابِ الجواب کے طور پر ایرانی ڈرونوں نے دیرہ الزور میں دو امریکی اڈوں پر حملہ کیا جس میں ایک امریکی اہلکار زخمی ہوگیا۔صدر بائیڈن نے شام کی صورتحال پر اپنے پالیسی بیان میں کہا کہ امریکہ ایران سے براہ راست تصادم نہیں چاہتا لیکن ہر جارحانہ  کاروائی کا منہہ توڑ جواب دیا جائیگا۔

 ہم نے اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کیا تھا کہ عرب و عجم دوستی کی شاہراہ بارودی سرنگوں سے پٹی پڑی ہے۔ شام میں امریکہ کی حالیہ کاروئیاں اِن بارودی سرنگوں کو آگ دکھانے کی ایک کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ خدشات اور اندیشے اپنی جگہ لیکن شام  سعودی تعلقات کی  بحالی  سے  سعودی  ایران مفاہمت کی پائیداری اور تہران و ریاض کی سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 3ٍ1 مارچ 2023

ہفت روزہ دعوت دہلی 31 مارچ 2023

روزنامہ امت 31 مارچ 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 2 اپریل 2023


 

Wednesday, March 29, 2023

یورپ کے کسی غیر مسلم اکثریتی ملک کے پہلے پاکستان نژاد مسلمان سربراہ

 

یورپ  کے کسی غیر مسلم اکثریتی ملک کے پہلے پاکستان نژاد مسلمان سربراہ

میاں چنوں سے تعلق رکھنے والے میاں مظفر یوسف کے فرزند ارجمند حمزہ یوسف اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر (وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کی درمیانی شکل) منتخب ہوگئے۔ سلطنت برطانیہ (UK)چار خودمختار ممالک ا نگلستان، اسکاٹ لینڈ ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ پر مشتمل ہے۔ سرکاری طور پر یہ چاروں ملک برطانیہ کے Countries within a Country کہلاتے ہیں۔

دلچسپ بات کہ برطانیہ یعنی وفاق کے وزیراعظم کا ددھیال گجرانوالہ تھا جبکہ حمزہ کا ددھیال میاں چنوں۔ انکی والدہ شائستہ بھٹہ کی ولادت نیروبی (کینیا) کے ایک پنجابی خاندان میں ہوئی تھی۔

حمزہ کم عمری سے اجتماعی خیر کے کاموں میں سرگرم ہیں۔ دوران تعلیم وہ Islamic Reliefکے ترجمان مقرر ہوئے۔ بیس برس کی عمر میں حمزہ اسکاٹ لینڈ نیشنل پارٹی (SNP)کے رکن بن گئے، اسوقت موصوف جامعہ گلاسکو میں طالب علم تھے۔ انھوں عراق پر برطانیہ کی مددسے امریکی حملے کے خلاف زبردست مہم چلائی۔

حمزہ یوسف 2011 میں گلاسکو سے اسکاٹ لینڈ پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے جب انکی عمر 26 برس تھی۔ اس اعتبار سے انھیں اسکاٹ لینڈ پارلیمان کے کم سن ترین رکن بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔حمزہ یوسف جب حلف لینے پہنچے تو انھوں نے شیروانی زیب تن کررکھی تھی اور پاکستان سے وابستگی کے فخریہ اظہار کیلئے انھوں نے انگریزی کیساتھ اردو میں بھی حلف اٹھایا۔ ایک سال بعد انھیں وزیر بیرونی امور مقرر کردیا گیا۔

جب اس سال فروری میں وزیراول محترمہ نکولااسٹرجن Nicola Sturgeon نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تو حمزہ نے پارٹی قیادت کیلئے خود کو بطور امیدوار پیش کردیا اور 27 مارچ کو وہ اسکاٹ لینڈ نیشنل پارٹی کے پارلیمانی قائد منتخب ہوگئے۔ اس سے پہلے 2010 میں محترمہ سعیدہ حسین وارثی قدامت پسند ٹوری پارٹی کی سربراہ رہ چکی ہیں جنکے والدین کا تعلق گوجر خان سے تھا۔

آج ( 29 مارچ) اسکاٹ لینڈ پارلیمان نے حمزہ یوسف کو فرسٹ منسٹر منتخب کرلیا۔ 37 سالہ حمزہ اسکاٹ لینڈ کی تاریخ کے کمسن ترین، پہلے مسلمان اور پاکستانی وزیرِاول ہیں۔روایت برقرار رکھتے انھوں نے  حلف کے الفاظ اردو میں  بھی اداکئے

حمزہ یوسف برطانیہ سے آزادی چاہتے ہیں اور ایک آزادو خودمختار اسکاٹ لینڈ انکا نصب العین ہے۔حمزہ راسخ العقیدہ مسلمان، لیکن LGBT اور ہم جنس شادی کو مکمل ائینی تحفظ دینے کے پرجوش حامی ہیں۔


Thursday, March 23, 2023

چین پر قابو کیلئےامریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کا' آنکُس' بحرالکاہل پر کسی کی بالادستی قابل قبول نہیں۔ بیجنگ سخت ناراض

 

چین پر قابو  کیلئےامریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کا' آنکُس'  

بحرالکاہل پر کسی کی بالادستی قابل قبول نہیں۔ بیجنگ سخت ناراض

کمیونسٹ اور سرمایہ دار دنیا کی کشیدگی کو ایک صدی بیت گئی۔ افغانستان میں شرمناک شکست اور دسمبر 1991 میں سوویت یونین (USSR)کی تحلیل کے بعد چچا سام دنیا کی واحد بڑی طاقت رہ گئے کہ اس دو ران چین کی ساری توجہ  معیشت کی تعمیرنو کی طرف تھی، چینی سیانوں کا خیال ہے کہ  بارودی  گولوں کا زمانہ گیا اب طلائی گولیوں کا دور ہے۔ بیجنگ کا تجزیہ کچھ غلط بھی نہیں کہ طنزو تحقیر کے باوجود امریکہ کے بازاروں میں سوئی سے سلائی مشین تک ہر چیز ساختہ چین ہے۔ ٹیلی ویژن، فرنیچر، تعمیراتی سامان، ملبوسات حتیٰ کہ مُردوں کی تدفین کیلئے تابوت بھی چین سے آرہے ہیں۔ آئیں گے غسّال لندن سے کفن جاپان سے۔

اپنی یک قطبی (Uni Polar) حیثیت کا امریکہ نے خوب فائدہ اٹھایا اور چاردانگ عالم پر پنجے گاڑ دئے۔ ستمبر 2001 میں نیویارک پر ہونے والے حملے المعروف نائن الیون کیخلاف امریکہ کی قیادت میں  بیرحم و سفاکانہ ردعمل نے امریکہ کی حیثیت کو مزید مستحکم کردیا، دوسال بعد عراق پر حملے اور ہنستے بستے ملک کو اجاڑ کر چچاسام عالمی  سیاست کے ٖ ڈان بن گئے۔

امریکہ کو بالادستی حاصل کرنے کی جدوجہد میں کسی منظم  و مضبوط مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا اور چین  بھی اس  سکھا شاہی  کی زبانی و سفارتی مخالفت سے آگے نہ بڑھا لیکن امریکی قیادت اور انکے مراکزِ دانش نے  چین، شمالی کوریا اور ایران کا نام اپنے تین بڑے دشمنوں کی سرکاری فہرست میں شامل کررکھا ہے،  جس میں  سے بیجنگ انکی  ٹکر کا دشمن  ہے۔

بحراوقیانوس اور اس سے متصل سمندروں پر امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو برتری حاصل ہے جبکہ بحر الکاہل کا مشرقی ساحل چین سے لگتا ہے اور دنیا کے اس سب سے بڑے سمندر میں امریکہ چین کا ناطقہ بند کرکے اسے محدود کردینا چاہتا ہے۔ بحر الکاہل کے شمال کی جانب  چین کو کوئی پریشانی نہیں کہ روس سے  بیجنگ کے دوستانہ تعلقات ہیں اور ماسکو بھی قتیلِ واشنگٹن ہے۔ تاہم جنوب کی جانب بحرالکاہل کا ذیلی یا Marginal سمند بحیرہ جنوبی چین  کا ساحل ویتنام، تھائی لینڈ، ملائیشیا، انڈونیشیا اور فلپاین سے ملتا ہے اور یہاں جزائر کی ملکیت پر چھوٹے موٹے تنازعات بھی ہیں جنھیں ہوا دیکر واشنگٹن، چین کو الجھائے ہوئےہے۔

گزشتہ دس بارہ سالوں میں چین نے بحیرہ جنوبی  اور بحیرہ مشرقی چین میں مصنوعی جزیرے تعمیر کرکے وہاں فوجی اڈے قائم کردئے ہیں۔ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا خیال ہے کہ ان دونوں سمندروں میں چین سے ٹکر لیناآسان نہیں  کہ کچھ اڈوں پر جوہری ہتھیار نصب ہیں۔ چنانچہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی توجہ بحرالکاہل سے باہر نکلنے کے راستوں پر ہے جن میں سب  سے اہم آبنائے ملاکا ہے۔

ملائیشیا اور انڈونیشی جزیرے سماٹرا کے درمیان سے گزرنے والی اس 580 میل لمبی  آبی شاہراہ کی کم سے کم چوڑائی 2 میل سے بھی کم ہے۔ آبنائے ملاکا بحرالکاہل کو بحر ہند سے ملاتی ہے۔

اس راستے کی نگرانی اور جنوبی سمت سے چین کے گھیراو  کیلئے   2007 میں جاپانی وزیراعظم شنزو ایبے، انکے ہندوستانی ہم منصب من موہن سنگھ، آسٹریلیا کے وزیراعظم جان ہاورڈ اور امریکی نائب صدر ڈک چینی نے گفتگو کا آغاز کیا جسے چار طرفہ دفاعی مکالمے یا Quadrilateral Security Dialogue المعروف QUAD  کا نام دیا گیا۔ یہ چاروں ممالک اپنی عسکری صلاحیتوں کی جانچ پڑتال  کیلئے وقتاً فوقتاً بحری مشقیں  کرتے رہے ہیں۔ اس نوعیت   کی  پہلی مشق 1992میں ہندوستان کے جنوب مشرقی ساحل پر کی گئی جس میں بھارت اور امریکہ کی بحریہ نے حصہ لیا۔ اس مناسبت  سے اسے  مالابار بحری مشق  پکارا گیا۔ کواڈ بننے کے بعد ان مشقوں میں باقاعدگی آگئی ۔اب تک اس نوعیت کی 24 مشقیں ہوچکی ہیں۔ کواڈ  کا  تزویراتی  ہدف  بحرالکاہل خاص طور سے بحیرہ جنوبی چین میں چینی بحریہ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو غیر موثر کرنا ہے۔ اسی  بناپر سیاسیات کے علما کواڈ کو ایشیائی نیٹو (Asian NATO)کہتے ہیں۔

کواڈ کو تقویت دینے اور چین کے گھیراو کو موثرو مستحکم  بنانے کیلئے آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے مابین ستمبر 2021 کو فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جسے  ان ممالک کے نام کی مناسبت سے  آکس (AUKUS)کہا جاتا ہے۔ ہم نے ازراہ تفنن سرنامہ کلام میں اسے آنکُس لکھا ہے۔  

آکس معاہدے کی ولادت کا قصہ بھی  بہت دلچسپ ہے۔ چار سال پہلے آسٹڑیلیا نے فرانس سے53 ارب پچاس کروڑ کے حساب سے 12جوہری آبدوزیں خریدنے کا معاہدہ کیا۔ شپ یارڈ پر کام زیادہ ہونے کی وجہ سے ان آبدوزوں کی تکمیل میں تاخیر کیساتھ لاگت میں بھی اضافہ ہوگیا اور قیمت 96 ارب 30 کروڑ تک جاپہنچی۔ تاخیر اور قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہوکر آسٹریلیا نے متبادل کی تلاش شروع کردی اور گزشتہ برس برطانیہ اور امریکہ نے مشترکہ طور پر ان آبدوزں کی فراہمی پر رضامندی ظاہر کردی۔ معاہدے کے تحت 2050 تک آسٹریلیا کو 8 جدید ترین SSN-AUKUS جوہری آبدوزیں فراہم کی جانینگی جسکی کل قیمت 286 ارب ڈالر ہوگی۔ آبدوزوں کیساتھ تربیت اور سمندری سراغرسانی کا پورا نظام معاہدے کا حصہ ہے۔ سوداہوتے ہی آسٹریلیا نے فرانس سےخریداری منسوخ کردی جس پر پیرس سخت بد مزہ ہوا۔ فرانسیسی وزیرخارجہ نے اسے اپنے اتحادی کی جانب سے پشت میں خنجر قرار دیتے ہوئے آسٹریلیا اور امریکہ سے اپنے سفیر واپس بلالئے۔ اس سال کے آغاز پر جب آسٹریلیا میں وزیراعظم انتھونی البانیز نے اقتدار سنبھالا تو ناراض فرانسیسیوں کاغصہ کم ہوا اور آسٹریلیا نے معاہدہ منسوخی کے عوض 58 کروڑ چالیس لاکھ ڈالر  تاوان ادا کرکے پیرس کو راضی کرلیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ  جوہری آبدوز ایٹمی اسلحے سے لیس نہیں بلکہ یہ جوہری ایندھن استعمال کرتی ہیں جسکی بنا پر یہ روائتی آبدوزوں کے مقابلے میں زیادہ گہرائی اور زیادہ عرصے تک زیرآب رہ سکتی ہیں۔ اسوقت دنیا کے صرف چھ ملکوں یعنی امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ اور ہندوستان کے پاس جوہری آبدوزیں ہیں۔

بادی النظر میں آکُس جوہری آبدوزوں کی خریداری کا معاہدہ ہے لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ پیر کو معاہدے پر دستخط کی سرکاری تقریب امریکی  ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان ڈیاگو میں ہوئی۔ جس میں برطانیہ کے وزیراعظم رشی سوناک، آسٹریلیا کے انتھونی البانیز اور میزبان صدر بائیڈن شریک ہوئے۔ ان رہنماوں کی تقریرو ں سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ یہ محض  ایک سودا  نہیں بلکہ ایک مربوط دفاعی بلکہ ممکنہ جارحیت کا معاہدہ ہے۔برطانوی   وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں ایک خطرناک دہائی کا سامنا ہے اورسلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے بھرپور تیاری ضروری ہے۔ آکس معاہدے کی جو  تفصیلات سامنے آئیں ہیں انکے  مطابق  یہ بحر ہند اور بحر الکاہل کے علاقے میں چینی بحریہ کے خلاف  سہ رکنی  دفاعی اور سلامتی اتحاد ہے۔ آکُس کا بنیادی ہدف  بحیرہ جنوبی چین اور اس سے نکلنے کے راستوں کی نگرانی کیلئے ہند ناو سینا کو مدد فراہم کرنا ہے۔

بیجنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان ژاو لیجیان (Zhao Lijian) نے کہا کہ اس اتحاد سے علاقے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ شروع ہونے اور جوہری ہتھیاروں کے پھیلاو کا سنگین خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ چینی ترجمان کا کہنا تھا کہ ان  اقدامات سے علاقے کا امن و استحکام متاثر ہوسکتا ہے۔ عسکری تجزیہ نگاروں کے مطابق چین کواڈ اور آکُس معاہدوں کو امریکی توسیع پسندی کا آلہ کار اور اپنے گھیراو کی کوشش سمجھتا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ  امریکہ سرد جنگ کے راستے پر گامزن ہے جسکا اقوام متحدہ اور علاقے کے ممالک کو نوٹس لینا چاہئے۔  اسی خطرے کے پیشِ نظر صدر شی جن پنگ نے دفاعی اخراجات میں اضافے کا عندیہ دیا ہے۔

امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ کے خیال میں  آکس اور کواڈ پر چین کے تحفظات غیر ضروری ہیں۔ صدر بائیڈن کہتے ہیں کہ آکس کا مقصد آسٹریلیا کے دفاع کو مضبوط و مستحکم کرنا ہے ۔ آٹھ ہزار دو سو سے زیادہ جزائر پر مشتمل اس ملک کے ساحلوں کی لمبائی 47000 کلومیٹر ہے جسکی نگرانی کیلئے بحری دفاع کا موثر نظام ضروری ہے۔آسٹریلوی وزیر آعظم نے بھی کہا کہ انکا ملک کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اور جوہری آبدوزوں کا حصول دفاعی مقاصد کیلئے ہے۔

امن و استحکام کے بھاشن  اپنی جگہ لیکن امریکہ  بہادر تسلسل سے  چین کو اشتعال دلانے کی کوشش کررہے ہیں۔  اس حوالے سے  گزشتہ اگست میں اسپیکر نینسی پلوسی کی زیرِ قیادت امریکی  پارلیمانی وفد  کے دورے پر چین نے شدید احتجاج کیاتھا۔ بیجنگ کیلئے تائیوان اسکا اٹوٹ انگ ہے اور امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ممالک اس حقیقت کو عملاً تسلیم کرتے ہیں۔ لاطینی امریکہ کے چھوٹے ملکوں اور ویٹیکن کو ملاکر  صرف  14ممالک کیلئے تائیوان ایک  آزادو خودمختار ملک ہے۔

چین نے ایران اور سعودی کے مابین کامیاب ثالثی کا جو کردار ادا کیا ہے وہ بھی امریکہ کو پسند نہیں۔ چچا سام  برابر اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ چین  یوکرین جنگ کیلئےروس کواسلحہ فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ چین اور روس دونوں ان الزامات کو مسترد کرچکے ہیں۔ صدر ژی جن پنگ نے امریکہ پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ روس اور یوکرین دونوں ہمارے دوست ہیں اور ان میں سے کسی کو اسلحے کی ضرورت نہیں۔ اپنا مال فروخت کرنے کیلیے مغرب نے جنگ کی بھٹی دہکائی ہے۔

امریکی بار بار اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ چین کسی بھی وقت تائیوان پر قبضہ کرلیگا جبکہ چین کا موقف ہے کہ تائیوان اسکا حصہ ہے لہذا قبضے کی کیا ضرورت؟ بحیرہ جنوبی چین میں چینی جہازوں سے امریکی بحریہ کی چھیڑ چھاڑ وقتاً فوقتاً جاری ہے۔ مغرب چین پر دانشورانہ املاک کی چوری کا الزام بھی لگارہا ہے۔  اسکے علاوہ امریکہ کا خیال ہے کہ مختصر دورانئے کے بصری تراشوں کا پلیٹ فام  Tic Tockچین کا ایک جاسوسی ہتھیار ہے اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ امریکہ نے گزشتہ ہفتے دھمکی دی کہ اگر ٹک ٹاک کی ملکیت کسی امریکی ادارے کو فروخت نہ کی گئی تو اس پر  پابندی لگادی جائیگی۔

کشدیدگی اور اشتعال کے اس تناظر میں آنکس کی  چبھن نے چین کو  بیچین کردیا ہے۔ تاہم  چینی وزارت خارجہ کے  تندو تیز بیانات کے باوجود امریکہ چین  عسکری کشیدگی بڑھنے کا امکان بہت زیادہ نہیں کہ بیجنگ کی ترجیحِ اول معیشت و تجارت ہے جسکے لئے  تصادم کے بجائے تعاون کی حکمت عملی چینی سفارتکاری کی بنیاد ہے۔ دوسری طرف بیجنگ دشمنی  امریکہ کے مفاد میں بھی نہیں کہ چین اقتصادی دیو ، عالمی زنجیر فراہمی (سپلائی چین) کا کلیدی حلقہ اور ساری دنیا کا اہم  تجارتی شراکت دار ہے۔

ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 24 مارچ 2022

ہفت روزہ دعوت دہلی 24 مارچ 2023

روزنامہ امت کراچی 24 مارچ 2023

ہفت روزہ رہبر سرینگر 26 مارچ 2023

روزنامہ قومی صحافت لکھنو