Wednesday, June 23, 2021

مصر!!! لہو لہو

مصر!!!  لہو لہو

پیر 28 جون  کو مصر کے درجنوں سیاسی رہنماوں اور کارکنوں کو پھانسی دیجایگی۔ ان لوگوں کو 12 جون کو سزائے موت سنائی  گئی تھی۔ فیصلے کا 'اسلامی  پہلو' سے جائزہ لینے کیلئے اسے جامعہ ازہر بھیجا گیا ہے۔یہ سرکاری مُلّا  نہ تو فیصلے کومسترد کرتے ہیں اور نہ توثیق،  بس وقت گزاردیتے۔ 'ضابطے' کے تحت اگر 'مفتی اعظم' کی جانب سے کوئی اعتراض نہ آئے تو فیصلے پر عملدرآمد کرادیا جاتا ہے۔

ان سب لوگوں پر الزام ہے کہ جب اگست 2013 میں مصر تاریخ کے کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مورسی کی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو قاہرہ کے مشہور رابعۃ العدویۃ چوک پر ان لوگوں نے غیر قانونی دھرنا دیا، منتشر ہونے کیلئے فوج کے احکامات ماننے سے انکار کردیا اور کارِ سرکار میں مداخلت کی۔ دھرنامنتشر کرنے کیلے 14 اگست  کو فوج نے مظاہرین پر ٹینک چڑھادئے۔اس قتل عام میں شیرخوار بچوں سمیت  گیارہ سو سے زیادہ افراد مارے گئے۔ آزاد ذرایع کا کہنا ہے کہ یہ وہ بدنصیب ہیں جنکی لاشیں مل گئیں جبکہ   تین ہزار سے زیادہ لوگ لاپتہ ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رایٹس واچ (HRW)نے ان مقدمات کو یکطرفہ، جھوٹ اور قانون و انصاف سے مذاق قراردیا ہے۔ ایچ آر ڈبلیو کا کہنا کہ مظاہرہ خواہ بلااجازت ہی کیوں نہ کیا ایسا جرم نہیں کہ جس پر سزائے موت دی جاسکتی ہو۔ ایمنسٹی انٹرنیشل کا کہنا ہے کہ یہ مقدمات انصاف  کے کم ازکم تقاضے بھی پورے نہیں کرتے ۔ ایچ آر ڈبلیوکی ڈائریکٹر محترمہ سارا لی وھٹسن Sarah Leah Whitsonنے امریکہ کے ارکانِ کانگریس، وزیرخارجہ، صدر بائیڈن، یورپی یونین کے نائب صدر Josep Borrell،اقوام متحدہ کے  سکریٹری جنرل  اورمختلف ممالک کے سربراہوں کو خطوط لکھے ہیں کہ  صدر السیسی پر دباو ڈال کر سزائے موت معطل کروائی جائے

امریکہ کے مسلمان رکن کانگریس آندرے کارسن کے علاوہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ڈان بییر Don Beyer، ٹام مالینوسکی Tom Malinowskiاور کئی رہنماوں نے آج صدر السیسی کو خطوط لکھے ہیں جس میں سزائے موت کی منسوخی اور تمام سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

سول سوسائیٹی، مصری مجلس عمل (ENAG)اور ملک سے باہر رہنے والے مصری دانشوروں نے بھی  سیاسی کارکنوں کی سزائے موت پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے  پھانسی   منسوخ کرنےکا مطالبہ کیا ہے۔

اسی ہفتے  مصر کے خفیہ ادارے  EGIDکے  سربراہ عباس کامل اپنے امریکی ہم منصبوں سے ملاقات کرنے واشنگٹن آرہے ہیں۔ امریکی کانگریس نے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر مصر کو دی جانیوالی 1.8ارب ڈالر امداد میں سے 30 کروڑ ڈالر کی قسط روک لی تھی۔ جناب کامل،  کانگریس کی مجلس قائمہ برائے انسانی حقوق کو مطمئن کرنے کیلئے طلب کئے گئے۔ آج مصر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر نظر رکھنے والے  Egypt Human Right Caucusکے سربراہ ڈان  بییر نے  اپنے ایک  بیان میں کہا کہ  مصر سے آنے والی خبریں تشویشناک ہیں اور امریکی قوم ایک شفاف وضاحت کی امید رکھتی ہے۔

 کل امریکی میڈیا پر یہ خبر بھی شایع ہوئی کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کوٹھکانے لگانے کیلئے سعودی جلادوں کی ٹیم  استنبول جاتے ہوئے  زہر کے ایجیکشن لینے  قاہرہ رکی تھی۔ یہ خاص قسم کا زہر مصر کی خفیہ سروس تیار کرتی ہے۔ مبینہ طور پر  یہی انجیکشن لگاکر خاشقجی کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ڈان بییر کا کہنا ہے کہ امریکی قانون ساز اس خبر سے لرز کر رہ گئے ہیں اور وہ مکمل وضاحت تک مصری امداد منجمد کرنے کی سفارش کرینگے۔

انسانی حقوق کے مصری کارکنوں کو امریکیوں کی تشویش  بہت سطحی سی لگتی ہے کہ صدر مورسی کا تختہ الٹتے وقت جو بائیڈن امریکہ کے نائب  صدر اور وزارت خارجہ، سی آئی اے اور قومی سلامتی کے موجودہ  سینیر اہلکار اوبامہ انتظامیہ کی بی ٹیم  کا حصہ تھے جسکی مرضی و مدد سے مصر میں جمہوریت کا گلا گھونٹا گیاتھا۔


 

No comments:

Post a Comment