افغانستان! امریکی مداخلت کا تسلسل
افغانستان سے نیٹو افواج کی واپسی جاری ہیں۔گزشتہ ہفتے کابل ائرپورٹ کا انتظام اشرف انتظامیہ کے حوالے کرکے امریکی پرچم لپیٹ دیا گیا۔عسکری ذرایع کے مطابق افغانستان میں تمام فوجی اڈے بندکرکے ساری کی ساری نفری واپسی کیلئے بگرام بلا لی گئی ہے۔کابل سے 45 کلومیٹر شمال میں بگرام (صوبہ پروان) کے قریب واقع یہ ہوائی مستقر امریکہ کی مدد سے 1950 میں تعمیر ہوا۔ سرد جنگ کے اُس دور میں افغانستان امریکہ کا اتحادی تھا۔تعمیر کے بعد یہاں پہلی پرواز امریکہ سے آئی جس پر صد آئزن ہاور سوارتھے۔ نائن الیون کے بعد اسکا انتظام امریکی فضائیہ نے سبنھال لیا اور اسکی حفاظت کیلئے زمین سے فضا میں مارکرنے والے میزائل نصب کئے گئے۔ بگرام میں جنگی قیدیوں کیلئے ایک جیل بھی بنائی گئی تھی جسے عقوبت کدہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اسی جیل میں پاکستان سے اغوا کی جانیوالی ڈاکٹر عافیہ صدیقی بھی رکھی گئی تھیں۔ڈاکٹر صاحبہ کو تفتیش کے دوران اس بہیمانہ انداز میں تشدد کا نشانہ بنایاگیا کہ انکی چیخوں سے سارا جیل خانہ گونجتا تھا۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق دیوپیکر مال بردار طیاروں میں حساس عسکری سامان کی واپسی یکم مئی سے جاری ہے اور روزانہ تین سے پانچ طیارے سامان ڈھو رہے ہیں۔ اس ہوائی اڈےکی قباحت یہ ہے کہ یہاں ایک ہی رن وے ایسا ہے جس پر سے بڑے طیارے اڑان بھر سکتے ہیں۔سپاہیوں کے انخلا کیلئے مشہور زمانہ عقابِ اسود (Black Hawk)ہیلی کاپٹر استعمال ہورہے ہیں۔ امریکہ میں غیر ملکی فوج کی کل نفری کتنی ہے اسکے بارے میں حقیقی اعدادوشمار تک رسائی ممکن نہیں لیکن کہا جارہا ہے کہ صدر جوبائیڈن کی جانب سے انخلا کے حتمی اعلان سے پہلے 2500 امریکی اور نیٹو کے 7000 سپاہی سارے افغانستان میں مختلف فوجی اڈوں پر تعینات تھے۔ باوردی اہلکاروں کے ساتھ 17000 سویلین بھی امریکی فوجی کمان کی زیرنگرانی مخلتف اداروں میں کام کررہے تھے۔ سویلین ٹھیکیداروں میں 6000 تو امریکی شہری ہیں جو فوج کیساتھ واپس جارہے ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ امریکی فوج کیساتھ کام کرنے والے 10000افغان شہریوں کا ہے۔ ان افراد کو ڈر ہے کہ انھیں غدار قراردیکرانتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جائیگا چنانچہ یہ لوگ اہلِ خانہ سمیت امریکہ جانے پر اصرار کررہے ہیں۔ امریکی حکومت کیلئے تیس چالیس ہزار افراد کو امریکی شہریت دینااتنا آسان نہیں۔ دوسرے غیر ملکیوں میں زیادہ تر مصری فوج کے جلاد ہیں جنھیں القاعدہ اور دوسرے عرب چھاپہ ماروں سے تفتیش اور لب کشائی کیلئے یہاں لایا گیا تھا۔
آسٹریلیا کے 80 سپاہیوں کا انخلا 28مئی کو مکمل ہوگیا جسکے بعد کابل میں آسٹریلیا کا سفارتخانہ بند کردیاگیاہے۔ آسٹریلوی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ سفارتخانے کی بندش عارضی ہے اور صورتحال واضح ہوتے ہی معمول کی سفارتی سرگرمیاں بحال کردی جاینگی۔
برطانیہ کے فوجیوں کی واپسی بھی تقریباً مکمل ہوچکی ہے۔ اسکے 750 عسکری ماہرین کابل اکیڈمی میں سرکاری فوجوں کو تربیت دے رہے تھے۔خیال ہے کہ جون کے پہلے ہفتے تک برطانیہ کے تمام سپاہی وطن واپس چلے جائینگے۔
گزشتہ کچھ ہفتوں سے امریکی فوج کی واپسی میں تیزی آگئی ہے اور فوجی حکام کا کہنا ہے کہ جولائی کے آغاز تک انخلا مکمل ہونے کا امکان ہے۔ نیٹو فوجیوں کی واپسی بھی خاصی تیز ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وسط جولائی تک تمام کی تمام غیر ملکی سپاہ افغانستان سےچلی جائینگی۔
افغان مُلّا انخلا میں تاخیر سے خوش تو نہیں لیکن اب تک انکی جانب سے واپس ہوتی نیٹو افواج کے خلاف پُرتشدد پیشقدی کی کوئی اطلاع نہیں ملی بلکہ واپسی کیلئے فوجی اثاثوں کی دوسرے اڈوں سے بگرام منتقلی کے دوران تحفظ فراہم کیا گیا۔ قطر معاہدے کے تحت یکم مئی تک تمام غیر ملکی افواج کو نکلنا تھااور صدر بائیڈن کی جانب سے انخلا 11 ستمبر تک مکمل کرنے کے اعلان پراپنے ردعمل میں طالبان نے کہا تھا کہ 'ہم پورے اخلاص کیساتھ قطر معاہدے پر عمل کررہے ہیں اور اگر امریکہ نے وعدے کی پاسداری نہ کی تو تمام نقصانات کا ذمہ دار وہ خود ہوگا'۔ تاہم ملاوں کی جانب سے برداشت و متانت کا اظہار کیا جارہا ہے جو افغان امن کیلئے خوش آئند ہے۔
تاخیر کے باوجود انخلا کی رفتار اطمینان بخش ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ طالبان نے افغان ملت کے وسیع تر مفاد میں امریکہ کی وعدہ خلافی کو'بکراہت' قبول کرلیا ہے لیکن چچا سام، فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان پر نظر رکھنے کے جو جتن کررہے ہیں اس پر ملاوں نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
طالبان کے اضطراب کا سبب وہ خبر ہے جسکے مطابق افغانستان پر نظر رکھنے کیلئے پاکستان اپنے چند یا کم از کم ایک فضائی اڈہ امریکہ کو دینے پر تیار ہوگیا ہے۔ اس سلسے میں اسلام آباد اور واشنگٹن سے متضاد اشارے مل رہے ہیں۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے 11 مئی کو اسلام آباد میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوےبہت ہی غیر مبہم انداز میں کہا تھا کہ 'ہم امن کی کوششوں میں امریکہ کے ساتھ ہیں لیکن اپنی سرزمین پر غیر ملکی بوٹ لانے کا سوال نہیں پیدا ہوتا'
تاہم گزشتہ ہفتے امریکی سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے عسکری خدمات کے سامنے سماعت کے دوران جب سینیٹر جو منشن نےسوال کیا کہ پاکستانی فوج اور خاص طور سے پاکستانی خفیہ ایجنسی افغان امن میں کیا تعاون کررہی ہے تو امریکہ کے نائب وزیردفاع برائے ہندوبحرالکاہل ڈیوڈ ہیلوی (David Helvey)نے کہا کہ 'افغان امن کیلئے پاکستان کا کردار بہت کلیدی نوعیت کا ہے۔ وہ امن کوششوں میں ہم سے تعاون کررہا ہے اور پاکستان نے افغانستان میں ہماری فوج کی مدد کیلئے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دیدی ہے'۔ہفتہ 22 مئی کو نیویارک میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'پاکستان، افغانستان کے معاملے پر امریکہ سے وسیع البنیادتزویراتی (strategic)تعاون کا خواہشمند ہے'۔
واشنگٹن کے صحافتی ذرائع بہت وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ فوجی انخلا کے دوران پسپا ہوتی نیٹوفوج کے تحفظ اورا سکے بعد'دہشت گرد' سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے شمسی فضائی مستقر ایک بار پھر امریکہ کو دیا جارہاہے۔نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملے میں تعاون کیلئے مکران کے ضلع واشوک کے قریب شمسی ہوائی اڈہ امریکہ کے حوالے کیاگیاتھا۔ یہ اڈہ ہلمند، قندھار اور شمالی وزیرستاں پر ڈرون حملوں کیلئے استعمال ہوتارہا۔شمسی کے علاوہ جیکب آباد کے قریب شہباز کا فضائی اڈا بھی امریکیوں کے استعمال میں تھا جسے 2009 میں بند کر دیا گیا تھا۔ مہمند ایجنسی میں سلالہ چوکی پر امریکی حملے کے بعد نومبر 2011 میں شمسی ہوائی اڈہ بند کردینے کے علاوہ پاکستان کے فضائی اور زمینی راستوں تک امریکیوں کی رسائی بھی مسدود کردی گئی تھی۔
پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) میں فلسطین اسرائیل تنازع پر بحث کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک بار پھر اعلان کیا کہ 'امریکہ کو افغانستان کی سرزمین پر ڈرون آپریشنز کے لیے نہ تو پاکستان کی جانب سے کوئی فوجی اڈہ دیا جا رہا ہے اور نہ کوئی ایئر بیس'۔ شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ یہ ماضی کی بات تھی، اب ’ماضی کو بھول جائیں۔‘پاکستانی وزیرخارجہ نے جذباتی انداز میں کہا ’یہ ایوان اور پاکستانی قوم میری گواہی یاد رکھے کہ عمران خان کی قیادت میں اس ملک میں امریکہ کے لیے کوئی فوجی اڈہ مختص نہیں ہو گا‘۔
پیر، 23 مئی کو پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے امریکہ کو کوئی اڈا دینے سے متعلق خبروں کی ایک بار پھر سختی سے تردید کی لیکن یہ بات کہہ کرمعاملے کو مشکوک بنادیا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان 2001 میں ہونے والے معاہدے ’ایر لائنز آف کمیونیکشن (اے ایل او سی) اور گراؤنڈ لائن آف کمیونیکشن (جی ایل او سی) کے معاہدے موجود ہیں اور دونوں ممالک ان کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ جب چودھری صاحب سے پوچھا گیا کہ اے ایل او سی اور جی ایل او سی کے تحت کس نوعیت کا تعاون کیا جاتا ہے تو انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وہ مزید کچھ نہیں کہہ سکتے۔
بلوچستان کے ضلع نصیر آباد میں پاک فضائیہ ایک ہوائی اڈہ تعمیر کررہی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اڈہ امریکہ کیلئے بنایاجارہا ہے۔ فضائیہ کے ترجمان نے بی بی سی سے باتیں کرتے ہوئے اس بات کی تو تصدیق کی کہ بلوچستان میں نئے فضائی اڈے کی تجویز زیرغور ہے لیکن کہا کہ اس حوالے سے اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔نصیر آبادمشرقی بلوچستان میں سندھ کی سرحد پر ہے لہٰذا اسکا افغانستان کیلئے استعمال مناسب نظر نہیں آتا۔تیسری دنیا میں حساس معاہدوں کی تفصیلات کمی کمین عوام سے خفیہ رکھی جاتی ہیں چنانچہ انکی تفصیلات جاننے کیلئے عرق ریزی وقت کا زیاں ہوگا۔
ممتاز دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر)امجد شعیب کا خیال ہے کہ اے ایل او سی اور جی ایل او سی معاہدوں کے تحت امریکی، پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود استعمال کرسکیں گے مگر اڈے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔اس ضمن میں تازہ ترین خبر یہ ہےکہ واشنگٹن، افغانستان کے شمالی پڑوسیوں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان سے بھی رابطے میں ہے۔
گزشتہ دنوں ایسوسی ایٹیڈ پریس نے امریکہ کی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی کی یہ گفتگو شایع کی، جس میں جنرل صاحب نے کہا کہ 'ہم افغانستان کے پڑوسی ملکوں سے فضائی حدود کے استعمال اور فوجیوں کی تعیناتی کیلئے مذاکرات کررہے ہیں مگر اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا'۔ جنرل صاحب کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے 24 مئی کو امریکی وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں فوجی مشن مکمل ہوجانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم علاقہ چھوڑ رہے ہیں۔
اکتوبر سے شروع ہونے والے نئے مالی سال کیلئے بائیڈن انتظامیہ نے جو میزانیہ کانگریس کو بھجوایا ہےاس میں افغانستان کے جنگی اخراجات (war cost)کیلئے 13 ارب ڈالر مختص کئے گئے ہیں، گزشتہ برس اس مد میں 8ارب 90 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے تھے۔ عسکری تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ 2021 کے مقابلے میں اٖضافی چار ارب ڈالرانخلا کے اخراجات کیلئے رکھے گئے ہیں۔بجٹ میں افغان فوج کو 3 ارب تیس کروڑ ڈالر دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ نے افغانستان میں انسداد دہشت کے خلاف مہم کیلئے 36 کروڑ ڈالر کا مطالبہ کیاہے۔
روزنامہ جنگ کے مطابق امریکی حکومت نے پاکستانی فوج کی تربیت کا پروگرام دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان کیلئے ملٹری ایجوکیشن اور ٹریننگ پروگرام منسوخ کردیا تھا، لیکن نئے سال کیلئے اس مد میں 35 لاکھ ڈالر مختص کیے جارہے ہیں۔ پاکستان کی اقتصادی مدد یعنی اکنامک سپورٹ فنڈ کیلئے 4 کروڑ 75 لاکھ ڈالر کی سفارش کی گئی ہے۔خطے میں منشیات کی روک تھام کے لیے 10 کروڑ 78 لاکھ ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔اس رقم کا بڑا حصہ پاک افغان سرحد کے حفاظتی انتطامات پر خرچ ہونگے۔انسداد منشیات کیلئے مختص رقم سے ساحلِ مکران کے حفاظتی اقدامات کو بہتر بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ کے حوالے سے مکران میں کبھی کوئی بڑی سرگرمی نہیں دیکھی گئی، چنانچہ بجٹ میں اسکا ذکر شکوک و شبہات پیدا کررہا ہے اور نظریہ سازش پر یقین کرنے والوں کا خیال ہے کہ یہ رقم شمسی ہوائی اڈے کو چالو کرنے کے لئے ضروری مرمت، ریڈار کی تنصیب اور تزئین و آرائش پر خرچ ہوگی۔
ان خبروں پر طالبان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اپنے ابتدائی بیان میں انکے ترجمان نے کسی ملک کا نام لئے بغیر کہا تھاکہ علاقے میں امریکی اڈوں کا قیام تاریخی غلطی ہوگی۔خطے میں اجنبی فوجیں بے امنی اور جنگ کا اصل سبب ہیں اور ہمیں امید ہے ہمسائیہ ممالک ہم پر حملے کے لیے اپنی زمین اور فضائی حدود استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ملاوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہدیا کہ اگر ایسا ہوا تو افغان قوم اس طرح کے گھناؤنے اقدام کے خلاف خاموش نہیں رہے گی اور ذمہ داروں کو نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ غیر ملکی انخلا کے بعد وہ افغان سرزمین دوسروں کی سلامتی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دینگے اوروہ چاہتے ہیں کہ کوئی دوسری سرزمین بھی افغانیوں کے خلاف استعمال نہ ہو۔
افغانستان کے طلوع نیوز نے 22 مئی کو طالبان کا جو دوسرا بیان شائع کیا ہے اس میں ملاوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ جاسوسی کیلئے امریکہ ڈیورند لائن (پاک افغان سرحد) کے قریب پاکستان کی فضائی حدود اور زمین کو استعمال کرنے کا ارارہ رکھتا ہے۔ طلوع کے مطابق طالبان نے کہا کہ 'یہ تو ایسے ہی ہےجیسے بگرام اور شین ڈنڈ پر امریکہ بیٹھا رہے اور ایسا ہوا تو افغان ملت مقدس جہاد جاری رکھے گی'
علاقے میں امریکی اڈوں کے ممکنہ قیام سے طالبان کے علاوہ چین اور ایران کو بھی تشویش ہے۔ صدر بائیڈن نے حلف اٹھاتے ہی ہندوستان، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان کے مابین 'اتحادِ اربعہ' یا Quad کا چوٹی اجلاس طب کیا تھا جس میں آبنائے ملاکا کی کڑی نگرانی پر غور کیا گیا۔ یہ تنگ سی آبی پٹی، بحرِ جنوبی چین کو بحر ہند تک رسائی دیتی ہے۔ کرونا کی وجہ سے گزشتہ اجلاس مجازی یا Virtual ہواتھا اور خبرگرم ہے کہ اس سال کے آخر تک حقیقی سربراہی اجلاس آسٹریلیا میں ہوگا۔ چین کا خیال ہے کہ کواڈ کا بنیادی ہدف اسکی ناکہ بندی ہے۔
اسی طرح ایران کو بھی علاقے میں چچا سام کی عسکری موجودگی پر اعتراض ہے۔ اسکے جوہری پروگرام پر اسرائیل کا رویہ بے حد جارحانہ ہے۔گزشتہ دنوں وزیراعظم نیتن یاہو نے صاف صاف کہا کہ انکے لئے آئت اللہ (ایران) کا جوہری پروگرام ناقابل قبول ہے اور امریکہ ساتھ دے یا نہ دے ایران کو ہتھیار بنانے سے روکنے کیلئے اسرائیل آخری حد تک جانے کو تیار ہے۔ اس تناظر میں ایرانی سرحدوں کے قریب اسرائیل کے سرپرست و اتحادیوں کے اڈے پرتہران کی تشویش بے وجہ نہیں۔
انخلا کے دوران امریکہ اور نیٹو کیلئے زمینی و فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت تو ٹھیک ہے کہ قطر امن معاہدےکے تحت طالبان بھی پسپا ہوتے غنیم کو محفوظ راستہ دے رہے ہیں لیکن واپسی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد پڑوس میں امریکی فوج کی تعیناتی یاافغانستان پر حملے کیلئے سرزمین کے ممکنہ استعمال کو طالبان اپنی پشت میں خنجر زنی سمجھیں گے۔ اس حوالے سے ملاوں کے تحفظات کا ازالہ ضروری ہے۔دوہفتہ پہلے پاکستان کی وزارت خارجہ نے یہ بیان داغا تھاکہ 'اسلام آباد کابل پر طالبان کے دوبارہ قبضے کا حامی نہیں'۔ تختِ کابل پر کون بیٹھے گا اس فیصلے کا اختیار صرف اور صرف افغان عوام کو ہے اور ساری دنیا کو یہ فیصلہ کشادہ دلی سے قبول کرنا چاہئے۔ اسلام آباد، واشنگٹن، دلی و برسلز کو اس فکر میں دبلا ہونے کی ضرورت نہیں۔ اس قسم کی سفارتی بقراطی طالبان کو مشتعل کرنے کا سبب بنے گی۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 4 جون 2021
ہفت روزہ دعوت دہلی 4 جون 2021
روزنامہ امت کراچی 4 جون 2021
ہفت روزہ رہبر سرینگر 6 جون
2021
زبردست استاد 👍
ReplyDelete