دشمنی اور انسانیت ساتھ ساتھ
اسرائیل کی ایک 50 سالہ خاتون عیدت ہیرل سیگل نے اپنا ایک گردہ عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ حسب توقع اسکے والدین نے سخت مخالفت کی۔ انکا خیال تھا کہ اس سےانکی بیٹی کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔شوہرِ نامدار بھی مخالف تھے لیکن تینوں بچوں نے ماں کے جذبہِ قربانی کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی والدہ کی حوصلہ افزائی کی اور اپنے والد اور نانا، نانی کو بھی منالیا۔یہاں تک تو صرف عیدت سے ہمدردی کا معاملہ تھا۔ لیکن ضروری ٹیسٹ کے بعد یہ سوال اٹھا کہ عیدت کا عطیہ کردہ گردہ کس مریض کو لگایا جائیگا۔
اس قطار میں غزہ کا رہنےوالا ایک تین سالہ بچہ تھا۔ کچھ عرصہ پہلےغزہ کے ڈاکٹروں نے رائے دی تھی کہ اگر اس بچے پیوندکاری (transplant)نہ کی گئی تو اسکا زندہ رہنا محال ہے۔ گھر کے کسی فردکا گردہ اسے نہیں لگایا جاسکتا تھا لہٰذا بچے کے 29 سالہ باپ نے اپنا گردہ ایک یہودی خاتون کو اس امید پر عطیہ کردیا کہ شائد اسکے بچے کو مطلوبہ گردہ مل سکے۔
ضروری ٹیسٹ کے دوران یہ بات واضح ہوگئی کہ عیدت کا گردہ فلسطینی بچے کولگایاجاسکتا ہے۔ لیکن اب ایک نظریاتی و سیاسی مسئلہ درپیش تھا۔ عیدت کا سارا خاندان مذہبی و سیاسی اعتبار سے انتہائی قدامت پسندہے۔ ان کے گھر کے کچھ لوگ فلسطین اسرائیل جھڑپوں میں مارے جاچکے ہیں۔ عیدت کے شوہر کے دادا اور دادی 1948 کے تصادم میں فلسطینیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے تھے پھر 2002 کی جھڑپوں میں عیدت کے چچیرے سسرمارے گئے۔ عیدت کے خیال میں مسئلہ فلسطین کا سب سے اچھا حل یہ ہے اسرائیل میں آباد تمام عرب ، مصر،شام اور اردن بھیج دئے جائیں کہ اسرائیل کو اللہ نے بنی اسرائیل کیلئے مختص کردیا ہے۔ گھر میں زبردست بحث و مباحثہ ہوا، عیدت کے والد، شوہر اور سسرالیوں نے فلسطیی بچے بچے کو گردہ عطیہ کرنے کی سخت مخالفت کی۔ عیدت کی ایک دوست نے کہا 'اپنی جان خطرے میں ڈال کر دشمن کے بچے کا بچانے کا کیا فائدہ؟ اگر وہ بچ بھی گیا تو دہشت گرد بنے گا اورہمارے سپاہیوں کی گولی اسے چاٹ جائیگی یا اسرائیلی بمبار اسے ملبے میں دفن کردینگے'
تاہم سوچ بچار کے بعد عیدت اپناگردہ فلسطینی بچے کو عطیہ کرنے پر تیار ہوگئی۔ آپریشن کے دن جب دونوں خاندانوں کا آمناسامناہوا تو بچے کے والدنے عیدت کا پیشگی شکریہ اداکرتے ہوئے اسے بتایا کہ حالیہ بمباری میں اسکا گھر تباہ ہوگیا ہے اور وہ لوگ دوستوں کے گھر پر رہ رہے ہیں۔اس جوانسال ٹیکسی ڈرائیور نے کہا کہ اسے اپنے گھر کی تباہی کا زیادہ دکھ نہیں لیکن وہ کلینک بھی تباہ ہوگئی ہےجہاں اسکے بچے کا Dialysis ہوتا تھا۔ اس فلسطینی نوجوان کو گھر کی تباہی کا کچھ ملال نہ تھا اور اس نے صاف صاف کہا میرا بچہ زندہ رہے یا مرجائے فلسطینیوں کی تحریک آزادی سے اسکی وابستگی متاثر نہ ہوگی۔ بچے کی ماں نے کہا کہ جب اسے پتہ چلا کہ اسکے شوہر کا گردہ ایک یہودی خاتون کو لگے گا تو اسے ذرا برابر پریشانی نہ ہوئی کہ دورِ اسلاف میں ہمارے طبیب معرکوں کے دوران بھی اپنے دشمنوں کا علاج کرتے تھے۔
اس جذباتی گفتگو کے دوران جب عیدت نے اس فلسطینی بچے کو دیکھاجسکا چہرہ Dialysisمیں بے قاعدگی کی وجہ پیلا ہورہا تھا تو وہ بے اختیار روپڑی اوراسکا ننھا سا سر سہلاتے ہوئے عبرانی میں بولی 'اے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلانے والے رب میرے گردے کو اس بچے کیلئے زندگی کی علامت بنادے'۔یہ منظر دیکھ کر عیدت کے والد صاحب بھی آبدیدہ ہوگئے اور سارے خاندان نے وہیں دعائیہ تقریب منعقد کی جسکے بعد دونوں مریض آپریشن تھیٹر چلے گئے۔
آپریشن کامیاب رہا اور بچہ او عیدت دونوں رو بہ صحت ہیں۔ عیدت نے اپنے سیاسی عزم کی ایک بار پھر تجدید کرتے ہوئے کہا کہ اسے فلسطینی بچے کی زندگی بچانے پر خوشی ہے لیکن وہ اب بھی ایک قوم پرست قدامت پسند ہے۔ اسے یقینِ کامل ہے کہ اسرائیل صرف اسرائیلیوں کیلئےہے اور عربوں کو یہاں سے چلا جاناچاہئے۔
No comments:
Post a Comment