'متوقع' نئی اسرائیلی حکومت ۔۔۔ بھان متی کا کنبہ؟؟؟؟
اسرائیل کے متحارب سیاسی گروہ مخلوط حکومت کے ایک فارمولے پر رضامند ہوگئے جسے تبدیلی سرکار یا Change Governmentکہا جارہا۔ تبدیلی ان معنوں میں کہ بارہ سال بعد بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی سابق وزیراعظم ہوجائیں گے۔ فروری 2009 کے انتخابات میں انتہا پسند لیکڈ اتحاد اپنے پارلیمانی حجم کے اعتبار سے دوسرے نمر پر تھا لیکن بی بی نے مذہبی اور قوم پرست جماعتوں سے اتحاد کرکے حکومت بنالی۔ جوڑ توڑ کے ماہر نیتن یاہو سودے بازی اور مول تول کے ذریعے گزشتہ بارہ سال سے وزیراعظم کے عہدے پر فائز بلکہ کرسی سے چمٹے ہوئے ہیں۔ سیاس، لسانی اور مذہبی تقسیم بلکہ منافرت کی بناپر اسرائیل میں گزشتہ تیس سال سے مستحکم حکومت نہ بن سکی اور کئی قبل از وقت انتخابات کے باوجود کئی دہائیوں سے کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے سے محروم ہے۔باربار انتخابات کے موجودہ سلسلے کا آغاز جنوری 2019 میں ہوا جب لازمی فوجی بھرتی کے قانون میں ترمیم کے مسئلے پر شریکِ اقتدار اسرائیلی ربائیوں (علما) اور قدامت پسند قوم پرستوں میں جھگڑا شروع ہوا۔جلد ہی کشیدگی اتنی بڑھی کہ حکومت تحلیل ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔
وزیراعظم کی اتحادی اسرائیل مادرِوطن وطن پارٹی (Yisrael Beitinu)کے سربراہ لائیبرمین کو مدارس کے طلبہ کیلئے فوجی خدمت سے استثنےٰ پر شدید اعتراض ہے انکا خیال ہے کہ ایک طبقے سے خصوصی برتاو، دوسروں سے ناانصافی ہے۔ چنانچہ انھوں نے 2019 کے آغاز پر فوجی خدمت سے مدارس کے طلبہ کا استثنیٰ ختم کرنے کیلئےایک قانون متعارف کروادیا۔ اس 'جسارت' پر ربائی سخت مشتعل ہوگئے اور انکی دونوں جماعتوں یعنی شاس اور توریت پارٹی نے دھمکی دی کہ اگر بی بی نے بل کی حمائت کی تو وہ حکومت سے علیحدہ ہوجائینگے۔ اسوقت وزیراعظم نیتن یاہو کو پارلیمان کے 73 ارکان کی حمائت حاصل تھی جن میں ان دونوں جماعتوں کے 13 ارکان بھی شامل تھے۔شاس و توریت پارٹی کی حمائت کے بغیر 120 رکنی کنیسہ میں واضح اکثریت برقرار رکھنا ممکن نہ تھا۔ بی بی نے اپنے حلیفوں کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن دونوں ہی اپنی بات پر اڑے رہے چنانچہ وزیراعظم نے صدر سے کنیسہ تحلیل کرنے کی درخواست کردی اور 9 اپریل 2019کو نئے انتخابات ہوئے ۔
انتخابات کااعلان ہوتے ہی جناب لائیبر مین نے صاف صاف کہا کہ حکومت سازی کیلئے وہ صرف اسی جماعت کی حمائت کرینگے جو انکے بل کی حمائت کا پیشگی وعدہ کرے۔اس ضمن میں ربائیوں کا موقف بھی بالکل بے لچک تھا اور توریت پارٹی کے سربراہ موشے گیفنی نے اپنا یہ عزم دہرایا کہ بل کس قیمت پرمنظور نہیں ہونے دیا جائیگا۔ دوسری طرف وزیراعظم کو بدعنوانی کے الزامات کا سامنا تھا اور استغاثہ نے کچھ ایسے ٹھوس ثبوت پیش کردئے جسکی روشنی میں بی بی کی گرفتاری کا مطالبہ ہوالیکن وزارت عظمیٰ کے اسثنٰی کی بناپر وہ گرفتاری سے اب تک بچے ہوئے ہیں۔
اسی دوران صدر ٹرمپ نے امریکی سفارتخانے کو بیت المقدس منتقل کرنے اور مقبوضہ گولان کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنے کا اعلان کردیا جسکی وجہ سے بی بی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔مقبولیت کے باوجود انتخابات میں بی بی کی کارکردگی واجبی سی رہی اور نتائج نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئے۔ مقررہ آئینی مدت میں کوئی بھی جماعت حکومت نہ بنا سکی، چانچہ صدر نے نوزائیدہ اسمبلی تحلیل کردی اور گزشتہ سال 17 ستمبر کو نئے انتخابات ہوئے۔ اس عرصے میں استثنیٰ کی چھتری کیساتھ بی بی عبوری وزیراعظم کے طورپر برقرار رہے۔
نئے انتخابات کے نتائج بھی ویسے کے ویسے ہی تھے۔ وہ ایوان بھی کھِلنے سے پہلے مرجھا گیا اور 2 مارچ 2020 کو تیسرے انتخابات منعقد ہوئے۔ اس بار بھی معلق کنیسہ وجود میں آیا لیکن بی بی نے اپنے مخالف نیلے اور سفید یا B&Wاتحاد کو شرکتِ اقتدار کا جھانسہ دیکر مخلوط حکومت بنالی۔معاہدے کےتحت نومبر میں B&Wکے سربراہ کو وزیراعظم بننا تھا۔ بی بی کے سیکیولر و قوم پرست اتحادیوں نے فوجی تربیت سے مدارس کا استثنیٰ ختم کرنے میں دلچسپی نہیں لی لیکن وزیراعظم کا استثنی مزید موثر بنانے کیلئے قانون سازی سے بھی انکار کردیا۔ ساتھ ہی استغاثہ نے سپریم کورٹ کے روبرو موقف اختیار کیا کہ موجودہ قانون کے تحت وزیراعظم کو اصالتاً(in person) حاضری سے استثنیٰ تو حاصل ہے لیکن سنگین الزامات پر مقدمہ چل سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے قانونی سقم کے حوالے سے وکلائے صفائی کے جواب کو غیر تسلی بخش قراردیتے ہوئے وزیراعظم کے خلاف مقدمے کی کاروائی شروع کردی۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ اصالتاًحاضری سے استثنیٰ وزیراعظم کا حق نہیں بلکہ رخصت، عدالت کی توثیق سے مشروط ہے۔ پہلی حاضری کے بعد سے کرونا کا بہانہ بناکر نیتن یاہو ایک بار بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
وزیراعظم کے وکلا نے بی بی کو متنبہ کیا کہ اگر B&Wسے شرکت اقتدار کے معاہدے کے تحت نومبر میں انھوں نے وزرات عظمیٰ چھوڑی تو عدالت سے انکی گرفتاری کا حکم جاری ہوسکتا ہے۔ چنانچہ انھوں نے B&W کو دھمکی دی کہ اگراستثنٰی کے قانون میں ترمیم کرکےوزیراعظم کے ساتھ سابق وزیراعظم کو بھی تحفظ دیکر اسے ناقابل دست اندازیِ عدالت نہ بنایا گیا تو وہ حکومت تحلیل کردینگے۔ آخرِ کار سانجھے کی یہ ہنڈیا پھوٹ گئی اور 23 مارچ کو نئے انتخابات منعقد ہوئے۔
ان انتخابات کے نتائج بھی ملے جلے رہے۔ کنیسہ کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے بی بی کوحکومت سازی کی دعوت دی گئی۔نیتن یاہو گزشتہ بارہ سال سے دائیں بازو، قوم پرست اور مذہبی جماعتوں سے اتحاد کرکے حکومت بنانے میں کامیاب ہوتے آرہے ہیں۔ لیکن اس بار دائیں بازو کی یمینہ کے سربراہ نیفتالی بینیٹ نے اتحاد کیلئے وزارت عظمیٰ کی شرط رکھدی۔ بی بی اسکے لئے تیار ہوگئے اور طئے پایا کہ پہلے ڈھائی سال نیتن یاہو وزیر اعظم رہینگے اور اسکے بعد شمعِ اقتدار نیفتالی کے آگے رکھ دی جائیگی۔ اسی دوران قوم پرست جماعت کے لائیبرمین نے فوجی تربیت سے مدارس کا استثنیٰ ختم کرنے کی بحث دوبارہ شروع کردی اور معاملہ یہاں تک بڑھا کہ بی بی، لائیبر مین یا مذہبی جماعتوں میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہوگئے۔ لائیبرمین کی اسرائیل مادرِوطن پارٹ کی 7 کے مقابلے میں ربائیوں کے پاس 16 نشستیں ہیں چنانچہ بی بی نے لائیبرمیں سے جان چھڑاکر اسلامی خیالات کی حامل رعم اور عرب اتحاد کو مہرومحبت کےاشارے شروع کردئے۔اس سے پہلے کہ مسلم عناصر کی جانب سے کوئی جواب آتا لیکڈکے مذہبی اتحادیوں نے صاف صاف کہدیا کہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں اگر وزیراعظم عربوں اور اخوانیوں سے ہاتھ ملائینگے تو ہماری طرف سے پیشگی شلوم (سلام)۔ بی بی نے حکومت سازی کیلئے 21 روز کی آئینی مہلت ختم ہونے پر صدر سے معذرت کرلی۔
اسکے بعد اسرائیلی صدر نے دوسری بڑی جماعت مستقبل پارٹی کے یار لیپڈ کو حکومت سازی کی دعوت دی۔ لیپڈ صاحب نظریاتی طور پر لبرل و سیکیولر ہیں چنانچہ لیبر پارٹی اور میرٹس پارٹی انکے پرچم تلے آگئی۔ 'یہودی مولویوں' سے الرجک لائیبرمین نے بھی یار کی حمائت کا عندیہ دیا۔ لیکڈ سے الگ ہونے والے گیدون سعر اور وزارت عظمیٰ کی لالچ دیکر یار نے نیفتالی کو بھی اپنا ہمنوا بنالیا۔ دوسری طرف رعم نے اعلان کیا کہ انھیں وزارت کا کوئی شوق نہیں لیکن وہ ایک مستحکم حکومت کیلئے لیپڈ کو اعتماد کا ووٹ دینے کو تیار ہیں۔
اسی دوران شیخ الجراح سے فلسطینیوں کی بےدخلی کے معاملے پر کشیدگی بڑھی۔ بی بی نے اسے طولِ اقتدار کا سنہری موقع جانا اور پوری قوتِ قاہرہ کے ساتھ غزہ پر چڑھ دوڑے۔ فوجی مہم کی قیادت وزیردفاع بینی گینٹز کررہے تھے جو یار لیپڈ کے نائب ہیں۔قوم پرستی اور جنگی جنون کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت سازی کو بالائے طاق رکھدیا۔ کیا انتہا پسند ربائی اور کیا لبرل و سیکولرِ 'غزہ کو فنا کردو' سب ہی کا وظیفہ زبان ہوگیا۔ نیفتالی بینیٹ نے یہ کہہ کر لیپڈ کا ساتھ چھوڑدیا کہ اسوقت دہشت گردوں کے مقابلے کیلئے بی بی کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ لیبر اور امیریٹس کے روشن خیالوں نے غزہ کے نہتوں پر بمباری کے بصری مشمولات (ویڈیو کلپس) کو اپنے ٹویٹس کی زینت بناکر اسرائیلی فضائیہ کی 'جرات و شجاعت' کو زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ یار لیپڈ خود بھی دباو میں آکر گھر بیٹھ رہے۔
تاہم جنگ بندی کے بعد صورتحال ایک دم تبدیل ہوگئی۔ قوم پرستوں نے اسے اعتراف شکست گردانا اور ہرطرف جنگ بندی نامنظور کے نعرے سنائی دینے لگے۔ صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یار لیپیڈ نے حکومت سازی کی مہم دوبارہ شروع کردی اور نیفتالی بینیٹ کو وزارت عظمی کی پیشکش کرکے ساتھ ملالیا۔ جلد ہی بی بی مخالف قوم پرست، لبرل و سیکیولر بھی ساتھ آگئے اور سات جماعتوں کے مشترکہ محاذ کا مجموعی حجم 58 ہوگیا جو حکومت سازی کے نشان نے 3 کم تھا۔ یار لیپڈ نے رعم پارٹی کے منصور عباس سے غیر رسمی بات چیت شروع کی۔منصورعباس نے اعتماد کے ووٹ کو عرب اکثریتی علاقوں کی میونسپل کمیٹیوں کو دوسرے علاقوں کی طرح بااختیار بنانے، کمیٹیوں کو وزارت داخلہ کی نگرانی سے آزاد کرنے اور عرب علاقوں میں اسرائیلی فوج کے داخلہ کیلئے مئیر کی اجازت سے مشروط کردیا۔ قوم پرستوں نے ان شرائط پر شدید رد عمل کااظہار کیا۔ نئی کابینہ کی مجوزہ وزیرداخلہ اور نیفتالی بینیٹ کی نائب محترمہ ایکٹ شیکڈ نے کہا کہ 'شرط مان لینے سے فلسطینی اکثریتی علاقوں پر وزارت داخلہ کا عمل دخل ہی ختم ہوجائیگا'۔وزارت عظمیٰ کی لالچ میں نیفتالی نے منت سماجت کرکے اپنی نائب کو منالیا۔ وزارت اور پارلیمان کی مجالس قائمہ کی تقسیم پر اتحادیوں کے درمیان اختلافات ابھرے لیکن نیفتالی اور یار نے بہلا پھسلا کر معاملے کو ٹھنڈا کرلیا۔
دوجون کو یار لیپڈ نے مستقبل پارٹی، امیدِ نو پارٹی، مادرِ وطن پارٹی، ایمرٹس، لیبر، نیلے اور سفیداتحاد، یمینہ اور رعم کے دستخطوں سے حکومت سازی کیلئے آمادگی کا خط اسرائیلی صدر کو بھیجدیا۔ان آٹھ جماعتوں کا مجموعی پارلیمانی حجم 62 ہے۔ صدر نے یہ خط کنیسہ کے اسپیکر کی طرف اس ہدایت کیساتھ آگے بڑھادیا کہ نامزد وزیراعظم نیفتالی بینیٹ کو جلد ازجلد اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدائت کی جائے۔
بی بی کیلئے یہ تبدیلی ناقابل قبول ہے۔ انکا کہنا ہے کہ اخوان اور حماس نے کمیونسٹوں سے مل کر اسرائیل کو تباہ کرنے کی سازش تیار کی ہے۔ یہ کمزور حکومت رعم کے چار ووٹوں کی مرہونِ منت رہیگی اور دہشت گرد حکومت گرانے کی دھمکی دیکر نئی اسرائیلی آبادیوں کی تعمیر رکوادینگے، دوریاست کے نام پر بیت المقدس کی حیثیت تبدیل ہوجائیگی اور کمیونسٹ ایجنڈے کو آگے بڑھاکر ملکی معیشت کو برباد کردیا جائیگا۔
معاملہ صرف بیانات تک محدود نہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے یمینہ کے ارکانِ کنیسہ کے گھروں پر مظاہرے ہورہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اللہ کے غضب سے دھمکانے کے ساتھ خواتین ارکان کا پیچھا کرنے اور انکے اہل خانہ کو دھمکی آمیز برقی خطوط بھیجنے کا سلسلہ جاری ہے۔یمینہ کی جوانسال رکنِ کنیسہ ایدت سلمان کا اسوقت پیچھا کیا گیا جب وہ اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے جارہی تھیں۔ گاڑیوں پر نصب لاوڈاسپیکر سے 'عیدت غدار'، 'فلسطینیوں کی بے دام کنیز' 'عرب ناگن' اور دوسرے فحش و شرمناک نعرے لگائے گئے۔ عیدت صاحبہ اتنی خوفزدہ ہیں کہ بچوں کو اسکول سے چھٹی دلاکر وہ نامعلوم مقام منتقل ہوگئی ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال یمینہ کی نائب سربراہ محترمہ ایکٹ شیکڈ کا ہوا۔ ایکٹ صاحبہ کے گھر پر حفاظتی دستہ تعینات ہے اور موصوفہ نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا ہے حتٰی کہ اتوار کی شب انھوں نے پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی شرکت نہیں کی۔معاملہ صرف دائیں بازو کے ارکان تک محدود نہیں۔ لبرل و سیکیولر خواتین کو بھی ہراساں کیا جارہاہے۔ ایمرٹس پارٹی کی محترمہ ثمیر زینڈبرگ کو 'مشورہ' دیا گیا کہ وہ کنیسہ کے اجلاس میں شرکت کے بجائے اپنی نوزائیدہ بچی کا خیال کریں، شرپسند اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں۔حال ہی میں فیس بک نے فرزندِ اول یار نیتن یاہو کا اکاونٹ ایک دن کیلئے معطل کردیا کہ موصوف نے یمینہ کے ارکان کے گھیراو کیلئے اشتعال انگیز پوسٹ اور انسٹاگرام پر تصاویر جاری کی تھیں۔
نیتن یاہو نے شاس پارٹی کےسربراہ ارے دیری کے گھر عشائیے میں تقریر کرتے ہوئے مذہبی قدامت پسندوں کو یقین دلایا ہےکہ اللہ انکے مخالفین کا وہی حشر کریگا جو اس نے موسیٰ کے دشمنوں کا کیا تھا۔ معروف اسرائیلی اخبار ہاریٹز کے مطابق انھوں نے کہاکہ 'کیا آپ لوگوں کو یاد نہیں اللہ نے موسیٰ کے دور میں آستین کے سانپوں سے کیسے نمٹا تھا؟ زمین پھٹی اور وہ دولتمند دشمنِ خدا اسبابِ دولت و زینت سمیت زندہ دفن ہوگیا'۔
دھمکی ا ور کشیدگی سے حکومتی اہلکار بھی پریشان ہیں۔اتوار کو اندرونی سلامتی کے ادارے شین بیت المعروف شاباک کے سربراہ نے وزارت داخلہ و دفاع کے نام اپنے خط میں کہا کہ آسمان سے باتیں کرتی گرو ہی و سیاسی نفرت کی بناپر ملک کسی بھی وقت بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے۔
جلتی پر تیل ڈالنے کیلئے انتہاپسندوں نے مشرقی بیت المقدس میں یروشلم مارچ کا اعلان کردیاہے۔ یہ دن 1967 کی جنگ میں یروشلم پر قبضے کی یاد میں عبرانی سال کے دوسرے مہینے ایار Iyarکی 28تاریخ کو منایا جاتا ہے، اس سال 10 مئی کو ایار کی 28تاریخ تھی جب القدس شریف میں فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان شدید تصادم ہوا۔مسجد اقصی کی بیحرمتی پر مشتعل ہوکر اہل غزہ نے تل ابیب پر راکٹ حملے کئےجسکے نتیجے میں گیارہ روزہ جنگ کا آغاز ہوا۔لڑائی کی بنا پر یروشلم مارچ معطل کردیا گیا۔ Haaretzاور چینل 12کا کہنا ہے کہ وزیردفاع بینی گینٹز کی مخالفت کے باوجود وزیراعظم نے دباو ڈال کر منتظمیں کو مظاہرے کی اجازت دلوادی ہے اور اب یہ مارچ پیر 14 جون کو ہوگا۔ سیاسی مبصرین اس روز ایک اور خونریز تصادم کا خوف ظاہر کررہے ہیں۔وزیراعظم نیتن یاہو المعروف بی بی کیلیے یہ طول اقتدار کا سنہرا موقع ثابت ہوسکتا ہے۔
دھمکی اور ہراساں کرنے کی مہم بی بی کے حق میں 'مثبت' ثابت ہورہی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق یمینہ پارٹی کے موشے شکیل نے نفتالی بینیٹ کو اعتماد کا ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اپنے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے موصوف اتوار کی شب نفتالی کی رہائش گاہ پر بلائے پارلیمانی اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ اگر یہ بات درست ہے تو اب ایوان میں تبدیلی سرکار کے حامی صرف 61 رہ گئے ہیں جو اعتماد کیلئے کم سے کم تعداد ہے اور اگر نیتن یاہو مزید ایک رکن کی وفاداری تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پانسہ پلٹ جائیگا۔یہی وجہ ہے کہ وہ کنیسہ کے اسپیکر یاریو لیون پرزور دے رہے ہیں اعتماد کا ووٹ ہفتے دس دن کیلئے ملتوی کردیا جائے جبکہ نیفتالی اور یار لیپیڈ کا مطالبہ ہے کہ اسپیکر صاحب جلد ازجلد اعتماد کے ووٹ کا اہتمام کریں۔ یہ افواہ بھی گرم ہے کہ تبدیلی سرکار نے 'معقولیت' اختیار کرنے کی صورت میں نئی مدت کیلئے اسپیکر کو اپنے ووٹوں سے منتخب کرانے کی پیشکش کی ہے۔شائد اسی پیشکش کا اثر ہے کہ اعتماد کے ووٹ کیلئے کنیسہ کاخصوصی اجلاس 13 جون کو طلب کرلیا گیا ہے۔
کشیدگی کے اس سنسنی خیز ماحول میں یہ کہنا مشکل ہے کہ تبدیلی سرکار اعتماد کا ووٹ حاصل کرسکے گی یا نہیں کہ معاملہ بس ایک ووٹ تک آچکا ہے یعنی ایک رکن نے آنکھ پھیری اور نفتالی صاحب کا وزیراعظم بننے کا خواب چکنا چور۔ جب ہمارے موقر قار ئین ان گزارشات کو شرفِ مطالعہ عطافرمارہے ہونگے اسوقت تک غالباً اونٹ کسی کروٹ بیٹھ چکا ہوگا۔ انشااللہ اگلی نشست میں ہم تبدیلی سرکار (اگر قائم ہوگئی) کے عزائم اور نئی قیادت سے وابستہ توقعات اور اندیشوں پر بات کرینگے۔ اللہ کرے ہمارا تجزیہ غلط ثابت ہو لیکن اس بات کی کوئی توقع نہیں کہ نفتالی اور یار کا اقتدار مظلوم و مقہور فلسطینیوں کیلئے راحت یا علاقائی امن کیلئے کسی مثبت امکان کا نقطہ آغاز بن سکے۔ نفتالی صاحب نے کل ہی فرمایا ہے کہ بی بی کے مقابلے میں تبدیلی سرکار کا جھکاو 10 درجہ مزیددائیں طرف ہوگا۔ فلسطینیوں کے معاملے میں یار لیپڈ کے خیالات بھی کچھ مختلف incest نہیں۔موصوف بزعم خود لبرل اور مذہبی انتہاپسندی کے سخت خلاف ہیں لیکن فلسطین مخالف جذبات کے اظہار میں کسی تکلف و مداہنت سے کام نہیں لیتے۔ انکا خیال ہے کہ 'فلسطینی ماضی میں جی رہے ہیں اور انھیں امن سے کوئی دلچسپی نہیں'۔ موصوف فلسطینیوں کی اراضی پر اسرائیلی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنےکے حامی ہیں۔
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 11 جون 2021
ہفت روزہ دعوت دہلی 11 جون 2021
روزنامہ امت کراچی 11 جون 2021
ہفت روزہ رہبر سرینگر 13 جون
2021
No comments:
Post a Comment