صدر بائیڈن کا پہلا غیر ملکی دورہ
صدر جو بائیڈن پہلے آٹھ روزہ غیر ملکی دورے سے واپس آگئے۔ ملکہ ایلزبیتھ سے انکے شوہر کے انتقال پر تعزیت اور ملکہ معظمہ کو سالگرہ پرمبارکباد دینے کے بعد امریکی صدر بحر اوقیانوس کے خوبصورت و صحت افزا مقام کاربس بے Carbis bayکی نیٹو سربراہ کانفرنس میں شریک ہوئے۔ برطانیہ سے جناب بائیڈن برسلز تشریف لائے جہاں نیٹو اتحادیوں کا چوٹی اجلاس منعقد ہوا۔ نیٹو اجلاس سے پہلے امریکی و ترک صدر کی ملاقات بھی بے حد اہم تھی۔ دورے کے اختتام پر امریکی صدر نے جنیوا میں اپنے روسی ہم منصب سے براہ راست ملاقات کی۔
یہ تمام تقریبات اس اعتبار سے تاریخی کہی جاسکتی ہیں کہ کروناکی عالمی وبا کے بعد یہ پہلی براہ رست بیٹھکیں تھیں۔ اس سے پہلے اس قسم کی نشستیں مجازی یا Virtual ہورہی تھیں۔
گروپ آف سیون یا G-7 نظریاتی طور پردنیا کے 7 ہم خیال، امیر و ترقی یافتہ صنعتی ملکوں، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ پر مشتمل ہے۔ گروپ کا آغاز 1973 میں اسوقت ہواجب عرب اسرائیل جنگ کے دوران سعودی فرمانروا شاہ فیصل مرحوم نے عربوں کے معاملے میں معقولیت پر مجبور کرنے کیلئے مغربی ممالک کو تیل کی فراہمی بند کردی تھی ۔ اسکے نتیجے میں یورپ اورامریکہ شدید بحران کا شکار ہوئے اور امریکی وزیرخزانہ نے اپنے جرمن (اسوقت مغربی جرمنی) ہم منصب ہیلمٹ شمٹ، فرانسیسی وزیرخزانہ گسکارڈدیستان اور برطانیہ کے انتھونی باربر کو مشورے کیلئے امریکہ آنے کی دعوت دی۔ اجلاس کے دوران معیشت کے چاروں ماہرین نے بحران سے نبٹنے کیلئے مشترکہ لائحہِ عمل پر غور کیا۔ گفتگو بے حد مفید رہی اور بات چیت کے اختتام پرجب یہ چاروں افراد رسمی ملاقات کیلئے امریکی صدر نکسن کے پاس پہنچے تو وہیں قصر مرمریں (وہائٹ ہاوس) کی لائبریری میں ایک اور اجلاس ہوا جس میں تیل بحران کیساتھ دوسرے معاشی مسائل، امکانات اور مواقع پر تفصیلی بات چیت کے بعد مل کر کام کرنے کا عہد کیا گیا۔اس غیر رسمی و غیر روائتی مجلس کا نام 'لائبریری گروپ' طئے پایا۔ کچھ دن بعد جاپان بھی اس گروپ میں شال ہوا اور لائبریری گروپ G-5بن گیا۔ دو سال بعد جب گسکارڈ دیستان فرانس کے صدر منتخب تو انھوں نے G-5کا سربراہی اجلاس طلب کیا۔ پیرس کے اس تین روزہ اجلاس میں اٹلی کو بھی دعوت دی گئی اور اب یہ G-6 محفل بن گئی۔ اسکے اگلے برس امریکی صدر فورڈ نے اپنی کالونی پورتوریکو میں سربراہی اجلاس کی میزبانی کی جہاں کینیڈا کے وزیراعظم آنجہانی پیرے ٹروڈو (موجودہ وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے والد) خصوصی دعوت پر شریک ہوئے جسکے بعد یہ ادارہ G-7 کہلانے لگا۔ صدر بل کلنٹن نے تاسیس کی یاد تازہ کرنے کیلئے 1997 کا سربراہی اجلاس ڈینور (Devers)شہر کی نوتعمیر شدہ سرکاری لائیبریری میں طلب کیا جس میں روسی صدر بورس یلسن بھی مدعو کئے گئے اور یہ فورم G-8بن گیا۔
کریمیا پر روسی قبضے کے بعد 2014 میں روسی شہر سوچی میں ہونے والی سربراہ کانفرنس منسوخ کردی گئی، جسکے بعد سے روسی کی رکنیت معطل ہے اور اب یہ دوبارہ G-7 ہے۔
گروپ 7 بنیادی طور پر ایک اقتصادی اتحاد ہے جسے سابق امریکی صدر بارک اوباماایک عالمی مرکز دانش یا Think tankکہتے تھے۔ لیکن تمام ممالک ایک خاص سیاسی نظریہ و عقیدہ رکھتے ہیں اور دنیا پر چودھراہٹ قائم رکھنے کیلئے یہ اپنے عزم کے اظہار میں کسی مداہنت سے بھی کام نہیں لیتے۔ گزشتہ کئی سالوں سے ادارے میں توسیع کی تجاویز سامنے آرہی ہیں۔ خیال ہے کہ آسٹریلیا، اسپین، ہندوستان، برازیل اور جنوبی کوریا کو جلد ہی اس گروپ میں شامل کرلیا جائیگا۔
حالیہ اجلاس کا بنیادی نعرہ یا mottoبعد از کرونابحالی کے حوالے سے تعمیرِ نو بہتر انداز میں یا Build Back Betterتھا۔ اس نعرے کے موجد صدر جو بائیڈن ہیں جنھوں نے اسی عنوان سے اپنے ملک میں بحالیِ معیشت کا آغاز کیا ہے۔ اہم امور پر امریکی خواتینِ اول اپنے کپڑوں پر معنی خیز تحریر رقم کرکے ملک کی نظریاتی سمت کا اعلان کرتی ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ 'سب سے پہلے امریکہ' کے قائل تھے۔وہ کھل کر کہتے تھے کہ امریکیوں نے انھیں امریکہ کی خدمت کیلئے منتخب کیا ہے اور بین الاقوامی قیادت کا مجھےکوئی شوق نہیں۔ اسی لئے وہ نیٹو ارکان کو بار بار یاد دہانی کرواتے رہتے تھے کہ امریکہ اتحادکا رکن ہے سرپرست نہیں کہ اسکے اخراجات برداشت کرے۔ اس ضمن میں تمام ملکوں کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہئے۔ پہلے غیر ملکی دورے پر انکی اہلیہ نے جو جیکٹ زیب تن کررکھی تھی اس پر لکھا تھا I don’t care, do you? اسے بامحاورہ اردو میں ' میری بلا سے ' کہا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف صدر بائیڈن نے حکومت سنبھالتے ہیں اپنے اتحادیوں کو پیغام دیا کہ America is backیعنی امریکہ قیادت و سیادت کیلئے عالمی اسٹیج پر واپس آچکا ہے۔ اس مناسبت سے خاتون اول ڈاکٹر جل بائیڈن کی جیکٹ پر جلی حرفوں میں LOVEلکھا ہوا تھا۔ اس تبدیلی کا انکے یورپی حلیفوں نے پرجوش خیر مقدم کیا۔
گروپ 7 کی نشستوں میں کرونا کے بعد تعمیرِ نو پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ وباپر قابو کے حوالے اچھی خبریں آرہی ہیں لیکن تیسری دنیا میں جدرین کاری (vaccination)کی رفتار بے حد سست ہے۔ انکا کہناتھا کہ ساری دنیا صرف اسی صورت میں محفوظ ہوسکتی ہے جب دنیا کے کونے کونے سے اس نامراد وبا کا قلع قمع کردیا جائے۔زمین کے کسی ایک گوشے میں بھی اگر یہ مرض باقی رہ گیا تو اس سے مشرق و مغرب سب متاثر ہونگے۔ اجلاس سے پہلے انھوں نے کرونا کے 50کروڑ حفاظتی ٹیکے غریب ممالک میں مفت تقسیم کرنے کا اعلان کیا جبکہ گروپ 7 کے ممالک اضافی 50 کروڑ ٹیکے تقسیم کرینگے۔اجلاس میں ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ ترقی پذیر ممالک کی مالی امداد کرنے اور س ضمن میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مدد کا وعدہ کیا گیا۔
اجلاس میں حسب توقع چینی معیشت کی غیر معمولی توسیع پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔صدر بائیڈن چین کے خلاف ایک مضبوط اتحاد قائم کرناچاہتے ہیں۔ مغربی ممالک چین کی جانب سے سڑکوں ، ریلوے اور آبی شاہراہوں کی تعمیر کے پروگرام بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے خائف ہیں اور تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کاworld Build back betterیاتھری بی ڈبلیو (BBB&W)منصوبہ چینی بیلٹ اینڈ روڈ کے مقابلے کیلئے ترتیب دیا گیا ہے۔مغرب کا کہنا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت تعمیر ہونے والی ریل پٹریوں،سڑکوں اور بندرگاہوں پر اٹھنے والے بھاری اخراجات سے کئی ملک چین کے مقروض ہوگئے ہیں اور قرضہ واپس نہ کرنے کی وجہ سے انکی آزادی خطرے میں ہے۔امریکہ تھری بی ڈبلیو کے ذریعے ان ممالک کو ترقی کے متوازی مواقع پیش کرنا چاہتا ہے۔ پروگرام کے تحت شفاف شراکت داری کی بنیاد پر G-7ارکان کرونا سےمتاثر ترقی پذیر ممالک میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر کھربوں ڈالر خرچ کرینگے۔اجلاس میں ویغور مسلمانوں کی نسل کشی اور ان سے جبری مشقت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس ظلمِ عظیم کے خلاف مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔ امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ اور کینیڈا نے ویغور مسلمانوں پر مظالم کے جواب میں چین کے ذمہ دران افسران کے خلاف سفری پابندیں عائد کرنے کے ساتھ انکے بینک اکاؤنٹ منجمد کردئے ہیں۔صدر بائیڈن نے پابندیوں کو موثر بنانے کیلئے مزید کاروائیوں کی ضرورت پر زور دیا۔
لندن میں چینی سفارتخانے نے گروپ 7 کے اعلامئے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ دن لد گئے جب چند ممالک دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے تھے۔اب چھوٹے، بڑے، مضبوط، کمزور، امیر اور غریب ہر طرح کے ملک برابر ہیں'
پیر کو ہونے والے نیٹو سربراہی اجلاس سے پہلے صدر بائیڈن اور ترک صدر کی ملاقات بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ادھر کچھ عرصے سے ترکی کے نیٹو اور امریکہ سے تعلقات میں خاصی کشیدگی ہے۔ بحرروم کا سب سے بڑا ساحل ترکی سے لگتا ہے لیکن یونان مشرقی بحرروم میں ترکی کے معدنی حقوق تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اسرائیل اور مصر بھی اس معاملے میں یونان کے ساتھ ہیں۔ یورپ خاص طور سے فرانس، یونان کی پشت پناہی کررہاہے اور اس نے یونان کی حمائت میں کئی جنگی جہاز مشرقی بحر روم بھیجے ہیں۔ اب تک ترک و فرانسیسی بحریہ کا براہ راست تصادم نہیں ہوا لیکن دونوں ملکوں کے جنگی جہازکئی بار ایک دوسرے کے بہت قریب آچکے ہیں۔ فرانس میں توہین آمیز خاکوں اور حال ہی میں منظور کئے جانیوالے مسلم دشمن قانون پر ترکی کا دوٹوک موقف بھی فرانس کی ناراضگی کا باعث ہے۔ لیبیا میں فرانس اور کئی یورپی ممالک حفتر دہشت گردوں کی کھل کر پشت پناہی کررہے ہیں جبکہ انقرہ وہاں اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کا اتحادی ہے۔ لبییا کے معاملے میں امریکہ کا نقطہ نظر بھی مبہم اور ترکوں کیلئے بےچینی کا باعث ہے۔
شام کے معاملہ پر ترکوں کو سخت تشویش ہے۔ داعش کی سرکوبی کے نام پر امریکہ کُرد دہشت گرد تنظیم YPGکو عسکری مدد فراہم کررہا ہے۔ترکوں کا کہنا ہے کہ YPGیہ اسلحہ اور وسائل شام ترک سرحد پر ترکی کے خلاف استعمال کررہی ہے۔ مزے کی بات کہ YPGکو امریکہ نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے لیکن خود اپنے قانون کی صریح خلاف وزری کرتے ہوئے ان دہشت گردوں کی پیٹھ ٹھونکی جارہی ہے۔
امریکہ اور ترکی کے درمیان سب سے بڑا تنازعہ روسی دفاعی نظام S-400کی خریداری ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ نیٹو اتحادیوں کو دشمن سے عسکری تعاون نہیں کرنا چاہئے اور S-400چونکہ فضائی حملوں سے تحفظ کیلئے تیار کیا گیا ہے اسلئے امریکی طیاروں کے خلاف اسے موثر بنانے کیلئے روس F-16اور F-35کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریگا۔ترکی کا کہنا ہے کہ اسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہے اور اس حوالے سے امریکہ کے خدشات بے بنیاد ہیں۔ امریکہ نے ترکی کو F-35دینے سے انکار کردیا ہے حالانکہ اس طیارے کی تیاری و ترقی کے پروگرام میں نیٹو کے دوسرے اتحادیوں کی طرح ترکی نے بھی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے امریکی ادارے ترکی کے بارے میں منفی خبروں سے بھرے رہتے ہیں۔سی این این، سی این بی سی، اے بی سی اور سی بی ایس پر صدر ایردوان کو ڈکٹیٹر کہا جاتا ہے جسکا جواب دیتے ہوئے برسراقتدار ترک AKپارٹی کے ترجمان نے کہا کہ 'گزشتہ انتخابات میں 82.24فیصد ترکوں نے حق رائے دہی کا استعمال کیا اور ایردوان 52.59فیصد ووٹ لے کر صدر منتخب ہوئے جبکہ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب 64.2فیصد تھا جس میں سے 51.3فیصد امریکیوں نے صدر بائیڈن پر اعتماد کیا۔ صدر ایردوان کی کامیابی کو انکے تمام مخالفین نے خوش دلی سے قبول کیا۔ اسکے مقابلے میں صدر بائیڈن کے حریف 2020 کے انتخابات کو آج تک دھاندلی زدہ کہہ رہے ہیں۔
منفی تبصروں کے باوجود نیٹو سربراہی اجلاس میں صدر ایر دوان مرکزِ نگاہ بنے رہے۔ اجلاس سے پہلے صدر بائیڈن اور انکے ترک ہم منصب کے درمیان براہ راست (one on one)تفصیلی ملاقات ہوئی جسکے بعد دونوں رہنما اجلاس کیلئے ایک ساتھ ہال میں داخل ہوئے اور ایک کنارے پر کھڑے ہوکر کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اس دوران تمام سربراہان اپنی نشستوں پر بیٹھے تھے۔فرانس کے صدر میخواں نے بھی ترک صدر سے بات کی۔خبر ایجنسیوں کے مطابق صدر ایردوان نے حال ہی میں منظور کئے جانیوالے مسلم دشمن فرانسیسی قانون اور توہین آمیز خاکوں کی سرکاری سرپرستی پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ نیٹو کے سکریٹری جنرل جینس سولٹنبرگ نے بھی صدر ایردوان سے علیحدہ ملاقات کی۔ سکریٹری جنرل نے نیٹو ترک کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا جس پر صدر ایردوان نے کہا کہ ترکی نیٹو کا ایک مخلص اتحادی ہے لیکن انقرہ، مشرقی بحرروم میں اپنے مفادات سے دستبردار نہیں ہوگا اور ترکی کیلئے فرانس کی جانب سے اس معاملے پر یونان و قبرص کی حمائت ناقابل قبول ہے۔
صدر بائیڈن سے ملاقات میں ترک صدر نے کہا کہ روس سے دفاعی نظام S-400خریدنے کا معاہدہ ترکی کے مفاد میں کیا گیا ہے اور علاقے کے بعض ممالک کے معاندانہ روئے کے تناظر میں یہ نظام ترکی کیلے ضروری ہے۔ صدر ایردوان نے 'بعض ممالک' کا نام نہیں لیا لیکن سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جناب ایردوان کا اشارہ فرانس، یونان اور اسرائیل کی طرف تھا۔
امریکی صدر اور نیٹو کے سکریٹری جنرل نے افغان امن کیلئے ترکی سے معاونت کی درخواست کی۔ نیٹو چاہتا ہے کہ فوجی انخلا کے بعد ترکی کابل ائرپورٹ کا انتظام سنبھال لے تاکہ یہ ہوائی مستقر ہنگامی صورتحال مٰیں عسکری کمک کیلئے استعمال ہوسکے۔ دوسرے دن امریکی صدر کے مشیرِقومی سلامتی جیک سولیون نے صحافیوں کو بتایا کہ صدربائیڈن سے ملاقات میں ترک صدر نے نیٹو فوج کے انخلا کے بعد کابل ائرپورٹ کی حفاظت کیلئے 'قائدانہ' کردار ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ ترک حلقوں کا کہنا ہے کہ صدرایردوان نے محدود و مشروط مدد کی پیشکش کی ہے۔ محدود ان معنوں میں کہ ترکی اپنی ذمہ داریاں کابل ایرپورٹ کی حفاظت تک محدودرکھنا چاہتا ہے اور یہ تعاون طالبان سمیت تمام افغان دھڑوں کے اتفاق سے مشروط ہے۔
نامہ نگاروں کے مطابق امریکی صدر سے ملاقات کے دوران ترک صدر مسلسل مسکراتے رہے لیکن S-400، شام۔ لیبیا اور مشرقی بحرروم کے بارے میں انکا موقف دوٹوک اور غیر مبہم تھا۔ملاقات کے بعد صدر بائیڈن نے بات چیت کو انتہائی مثبت، جامع، بامقصد اور حوصلہ افزا قراردیا۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ وفود کی ملاقات میں تمام امور پر اتفاق رائے ہوجائیگا۔ صدر ایردوان نے کہا کہ باہمی تعلقات کے باب میں کوئی مسئلہ ایسا نہیں جسے بات چیت کے ذریعے حل نہ کیا جاسکتا ہو۔
نیٹو اجلاس میں چین کی بڑھتی ہوئی عسکری اور تکنیکی صلاحیتوں کا جائزہ لیا گیا جس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اتحاد کے سکریٹری جنرل نے یقین دلایا کہ نیٹو چین کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ نہیں چاہتا۔دوسری جانب چین کے یورپی سفارتی مشن نے الزام لگایا کہ نیٹو چین کی پُرامن ترقی سے 'خوفزدہ' ہے لیکن بہتان تراشی کو نظر انداز کرتے ہوئے چین ترقی وخوشحالی کی جان سفر جاری رکھے گا۔
اس دورے کاایک اہم اور کلیدی جزو بائیڈن پوٹن ملاقات تھا۔ یہ چوٹی کانفرنس ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکہ اور روس کے سفارتی تعلقات کم ترین سطح پر ہیں، سفیروں کو واپس بلایا جاچکا ہے اور امریکہ کا نام روس کی ’غیر دوستانہ‘ ممالک کی فہرست میں درج ہے۔ ملاقات سے پہلے ہی روسی صدرکے مشیر کہہ چکے تھے کہ بہت زیادہ پرامید ہونے کی کوئی گنجائش نہیں اور نہ یہ ملاقات دوستانہ ماحول میں ہو گی کہ کچھ ہی عرصہ قبل صدر بائیڈن نے روسی صدر کو ’بے رحم قاتل‘ قرار دیا تھا۔
رسمی علیک سلیک کے بعد دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ بھی شریک گفتگو ہوئے۔ملاقات کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس کا اہتمام نہیں ہوا اور دونوں رہنماوں سے صحافیوں سے الگ الگ بات کی۔
بات چیت کا سب اہم نکتہ الیکٹرانک نقب زنی یا hackingتھا۔ گزشتہ دنوں امریکہ کی ایک تیل پائپ لائن اور ملک کا سب سے بڑا مذبح خانہ سائبر حملے کا شکار ہوچکا ہے اور ان اداروں نے 'نقب زنوں' کو ڈیڑھ کروڑ ڈالر تاوان اداکرکے اپنے کمپیوٹر نظام کا کنٹرول واپس لیا۔
امریکی انتخابات میں مبینہ امریکی مداخلت، سفیروں کی واپسی سمیت سفارتی تعلقات کو معمول پرلانے، تحفیف اسلحےکے نئے معاہدے، قیدیوں کے تبادلے، یوکرین کی نیٹو اتحاد میں ممکنہ شمولیت اورشام میں امداد کیلئے اقوام متحدہ سے تعاون سمیت کئی دوسرے امور پر بات ہوئی۔اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کا تعاون امن عالم کیلئے اہم ہے اور تناؤ کے باوجود روس و امریکہ مشترکہ مقاصد کے حصول کیلئے بات چیت جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہیں۔
صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے روسی صدر نے اپنے امریکی ہم منصب کو تجربہ کار سیاستدان قراردیا۔ انکا کہنا تھا کہ بائیڈن صدر، ٹرمپ سے بہت مختلف ہیں۔انسانی حقوق کے حوالے سے امریکی تحفظات کو مسترد کرتے ہوئے روسی صدر نے کہاکہ دوسروں کو نصیحت سے پہلے امریکی رہنما اپنی گلیوں اور کوچوں میں اسلحے کے باعث ہونے والی ہلاکتوں پر توجہ کریں۔امریکہ کی سڑکوں کو دیکھیں جہاں لوگ روزانہ مررہے ہیں۔صدر پوٹن نے کہا کہ سی آئی اے کے خفیہ عقوبت خانوں میں لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔کیا انسانی حقوق کے تحفظ کا یہی طریقہ ہے؟ سائبر حملوں کے بارے میں انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں امریکہ کو تفصیلی معلومات فراہم کی گئی ہیں لیکن امریکہ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ روس کا طبی نظام بھی سائبر حملے کا شکار ہوچکاہے۔ الزام تراشی کے بجائے اس لعنت کے خلاف مل کر کا م کرنے کی ضرورت ہے۔
جو بائیڈن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے بارے میں روس مخالف یا Anti-Russian تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ میں امریکہ کے ساتھ ہوں لیکن روس کے خلاف نہیں۔ روسی صدر میرا موقف اور ایجنڈا سمجھنے کی کوشش کریں۔ انسانی حقوق امریکی اقدار بنیاد ہے اور ملک کے اندر اور باہر ہر جگہ یہ بات اٹھائی جائیگی۔معلوم نہیں، فاضل امریکی صدر آبائی زمینوں سے فلسطینیوں کی بے دخلی، بچوں کی گرفتاری و تشدد٬ مسلم عبادت گاہوں کی بیحرمتی، جلوسوں میں اسرائیلی ارکانِ پارلیمان کی جانب سے گستاخانہ نعروں اور غزہ کی نہتی آبادی پر تباہ کن بمباری کو کس پہلو سے دیکھتے ہیں؟
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 25 جون 2021
ہفت روزہ دعوت دہلی 25 جون 2021
روزنامہ امت کراچی 25 جون 2021
ہفت روزہ رہبر، سرینگر 25 جون
2021
No comments:
Post a Comment