Sunday, May 30, 2021

پاکستان، افغانستان اور امریکہ

 

پاکستان، افغانستان اور امریکہ

افغانستان سے نیٹو افواج کی واپسی جاری ہے لیکن چچاسام آستانہِ احمد شاہ بابا چھوڑنے پر تیار نظر نہیں آتے اور  بظاہرلگتا ہے کہ بزرگوار اپنے مفادات کی بندوق پاکستان کے کندھوں پر رکھ کر چلانا چاہتے ہیں۔اس ضمن میں اسلام آباد سے آنے والے اشارے بھی کسی حد تک مشکوک ہیں۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے 11 مئی کو اسلام آباد میں بہت ہی غیر مبہم انداز میں کہا تھا کہ ہم امن کی کوششوں میں امریکہ کے ساتھ ہیں لیکن اپنی سرزمین پر غیر ملکی بوٹ لانے کا سوال ہی  پیدا نہیں  ہوتا ۔ تاہم گزشتہ ہفتے امریکی سینیٹ کی مجلس قائمہ برائے عسکری خدمات کے سامنے سماعت کے دوران سینیٹر جو منشن کے سوال کا جواب دیتے ہوئےامریکہ کے نائب وزیردفاع برائے ہندوبحرالکاہل David Helveyنے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں ہماری فوج کی مدد کیلئے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دیدی ہے۔ اسکے چند دن بعد نیویارک میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، افغانستان کے معاملے پر امریکہ سے وسیع البنیادتزویراتی (strategic)تعاون کا خواہشمند ہے

سینیٹ میں فلسطین اسرائیل تنازع پر بحث کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک بار پھر جذباتی انداز میں کہا ’یہ ایوان اور پاکستانی قوم میری گواہی یاد رکھے کہ عمران خان کی قیادت میں اس ملک میں امریکہ کے لیے کوئی فوجی اڈہ مختص نہیں ہو گا‘۔

اسکے دوسرے دن پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے امریکہ کو کوئی اڈہ دینے سے متعلق خبروں کی ایک بار پھر سختی سے تردید کی لیکن  کہہ کرمعاملہ مشکوک بنادیا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان 2001 میں ہونے والے  ’ایر لائنز آف کمیونیکشن (اے ایل او سی) اور گراؤنڈ لائن آف کمیونیکشن (جی ایل او سی)  معاہدے موجود ہیں۔جب چودھری صاحب سے پوچھا گیا کہ اے ایل او سی اور جی ایل او سی  کے تحت کس نوعیت کا تعاون کیا جاتا ہے تو انھوں No Commentsکہہ کر بات ختم کردی۔

گزشتہ دنوں AP سے باتیں کرتے ہوئے امریکہ کی مرکزی کمان کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی نے کہا کہ 'ہم افغانستان کے پڑوسی ملکوں سے فضائی حدود کے استعمال اور فوجیوں کی تعیناتی کیلئے مذاکرات کررہے ہیں مگر اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا'۔ جنرل صاحب کی  بات کو آگے بڑھاتے ہوئے  24 مئی کو امریکی وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں فوجی مشن مکمل ہوجانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم علاقہ چھوڑ رہے ہیں۔

اسی کیساتھ پاکستان پر امریکہ کی الطاف و عنایات کا نیا سلسلہ شروع ہوچکاہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے فوجی  تربیت کا پروگرام دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے جسے صدر ٹرمپ نے منسوخ کردیا تھا۔ نئے سال کے بجٹ میں اس کام کیلئے 35 لاکھ ڈالر مختص کئے جارہے ہیں۔اکنامک سپورٹ فنڈ کیلئے 4 کروڑ 75 لاکھ ڈالر کی سفارش کی گئی ہے۔خطے میں منشیات کی روک تھام کے لیے 10 کروڑ 78 لاکھ ڈالر مختص کئے گئے ہیں۔اس  رقم کا بڑا حصہ پاک افغان سرحد کے حفاظتی انتطامات پر خرچ ہوگا۔انسداد منشیات کیلئے مختص رقم سے ساحلِ مکران کے حفاظتی اقدامات کو بہتر بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ منشیات کی اسمگلنگ کے حوالے سے مکران میں کبھی کوئی بڑی سرگرمی نہیں دیکھی گئی، چنانچہ امریکی فوجی  بجٹ میں اسکا ذکر شکوک و شبہات پیدا کررہا ہے اور نظریہ سازش پر یقین کرنے والوں کا خیال ہے کہ یہ رقم شمسی ہوائی اڈے کو چالو کرنے کے لئے ضروری مرمت، ریڈار کی تنصیب اور تزئین و آرائش پر خرچ ہوگی۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملے میں تعاون کیلئے مکران کے ضلع واشوک کے قریب شمسی ہوائی اڈہ امریکہ کے حوالے کیاگیاتھا۔ یہ اڈہ ہلمند،  قندھار اور شمالی وزیرستاں پر ڈرون حملوں کیلئے استعمال ہوتارہا۔ مہمند ایجنسی میں سلالہ چوکی پر امریکی حملے کے بعد  نومبر 2011 میں شمسی ہوائی اڈہ بند کردینے کے علاوہ  پاکستان کے فضائی اور زمینی راستوں تک امریکیوں کی رسائی بھی مسدود کردی گئی تھی۔

ان خبروں پرطالبان کو سخت تشویش ہے۔ اپنے پہلے بیان میں انکے ترجمان نے کسی ملک کا نام لئے بغیر کہا تھاکہ علاقے میں امریکی اڈوں کا قیام تاریخی غلطی ہوگی اور ذمہ داروں کو نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ لیکن طلوع نیوز نے 22 مئی کو طالبان کا جو دوسرا بیان شائع کیا ہے اس میں نام  لیکر کہا گیا ہے کہ جاسوسی کیلئے امریکہ ڈیورنڈ لائن (پاک افغان سرحد) کے قریب پاکستان کی فضائی حدود اور زمین کو استعمال کرنے کا ارارہ رکھتا ہے۔طالبان نے کہا کہ یہ تو ایسے ہی ہےجیسے بگرام اور شین ڈنڈ پر امریکہ بیٹھا رہے اور ایسا ہوا تو افغان ملت مقدس جہاد جاری رکھے گی اور پشت میں چھرا گھونپنے والوں کو نشان ِ عبرت بنادیا جائیگا۔

علاقے میں امریکی اڈوں کے ممکنہ قیام سے طالبان کے علاوہ چین اور ایران کو بھی تشویش ہے۔ صدر بائیڈن نے حلف اٹھاتے ہی ہندوستان، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان کے مابین 'اتحادِ اربعہ' یا Quad کا چوٹی اجلاس طب کیا تھا جس میں آبنائے ملاکا کی کڑی نگرانی پر غور کیا گیا۔ یہ تنگ سی آبی  پٹی، بحرِ جنوبی چین کو بحر ہند تک رسائی دیتی ہے۔ چین کا خیال ہے کہ کواڈ کا بنیادی ہدف اسکی ناکہ بندی ہے۔

ایران کو بھی علاقے میں چچا سام کی عسکری موجودگی پر اعتراض ہےگزشتہ دنوں نیتن یاہو نے صاف صاف کہا کہ انکے لئے آئت اللہ (ایران) کا جوہری پروگرام ناقابل قبول ہے اور امریکہ ساتھ دے یا نہ دے ایران کو ہتھیار بنانے سے روکنے کیلئے اسرائیل آخری حد تک جانے کو تیار ہے۔ اس تناظر میں ایرانی سرحدوں کے قریب  اسرائیل کے سرپرست و اتحادیوں کے اڈے  پرتہران کی تشویش بے وجہ نہیں

اس  حوالے سے  تازہ ترین خبر یہ ہےکہ واشنگٹن، افغانستان کے شمالی پڑوسیوں ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان سے بھی رابطے میں ہے۔


No comments:

Post a Comment