Wednesday, May 5, 2021

خوشاب کا ضمنی انتخاب

خوشاب کا ضمنی انتخاب

مسلم لیگ ن  کے ملک معظم شیر کلّو نے پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 84کا ضمنی انتخاب جیت لیا۔ یہ نشست مسلم ن کے ملک وارث شاد کلّو کے انتقال  کی وجہ سے خالی ہوئی  تھی اور مسلم لیگ نے انکے صاحبزادے کو اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔

ان انتخابات کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ایک پولنگ اسٹیشن پر ولادت بھی ہوئی۔ ڈسکہ کے انتخابات میں دو قیمتی جانیں ضائع ہوئی تھیں چنانچہ اس بار ایک نئی جان کا آغاز خوشی کی ایک خبر ہے۔ اس بات کو سن کر دل مزید خوش ہوگیا کہ نومولود اپنے والدین کی پہلی اولاد ہے

اس اعتبار سے یہ نتیجہ غیر متوقع نہیں کہ مسلم لیگ نے اپنی جیتی ہوئی نشست بحال رکھی اور مرحوم وارث شاد کے فرزند ہونے کی حیثیت معظم کلو کو یقیناً ہمدردی کے ووٹ بھی ملے ہونگے۔ اس نشست پر 2018 میں مسلم ن نے 66775 ووٹ لئے تھے جبکہ 60019 ووٹوں کیساتھ تحریک انصاف دوسرے نمبر پر تھی۔ تحریک لبیک 12346ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر آئی تھی۔اسکے علاوہ آزاد امیدوار راناخالدمحمود نے 10796 ایم ایم اے نے 4856 اور پیپلز پارٹی نے 1365 ووٹ لئے تھے، باقی دو آزاد امیدواروں کے مجموعی ووٹ 1215تھے۔

اس بار مسلم لیگ کے ووٹ 2018 کے مقابلے میں 9 فیصد بڑھ گئےاور تین سالوں  میں تحریک انصاف  کا ووٹ بینک 4.8 فیصد توانا ہوا۔ تحریک لبیک کے ووٹ آدھے  سےبھی کم رہ گئے، پیپلز پارٹی کا صفایا ہوگیا اور پانچ آزاد امیدواروں نے مجموعی طور پر 10296ووٹ حاصل کئے۔

بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ ایم ایم اے  کےووٹروں نے اس بار مسلم لیگ کو ووٹ دیا اور تحریک لبیک کے  7 ہزار کے قریب حامی یا تو پولیس کی پکڑ دھکڑ کے ڈر سے گھر بیٹھے رہے یا انھوں نے 'دشمن کا دشمن دوست 'کے مطابق  پر شیر پر ٹھپے لگادئے

ڈسکہ اور وزیر آباد کے بعد خوشاب  کے نتائج  کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شریف خاندان  کے خلاف  بدعنوانی و بے ایمانی کے الزامات کو انکے حامی تسلیم کرنے کو تیار نہیں  اور نواز شریف کیلئے انکی حمائت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ گزشتہ انتخابات میں  تحریک  لبیک نے مسلم لیگ کو نقصان پہنایا تھا لیکن حالیہ دنوں میں کالعدم جماعت کیخلاف  کاروائیوں سے انکے حامی سخت مشتعل ہیں اورٹی ایل پی کے بہت سے ووٹر تحریک انصاف کے مخالف امیدوارکو ووٹ دے ہیں۔ اگر یہ رجحان برقراررہا تو 2023 میں پی ٹی ائی کو مشکل  ہوسکتی ہے

بے قابو مہنگائی  کے علاوہ  اندرونی اختلافات و بے سمتی سے  عمران خان کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ نوشہرہ میں اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاکر مسلم لیگ ان سے صوبائی اسمبلی کی ایک  پکّی نشست چھین لینے میں کامیاب ہوئی تھی۔ خوشاب میں بھی محمود قریشی دھڑے اور جہانگرین ترین گروپ نے پی ٹی آئی حقیقی کونقصان پہنچایا۔

پی ٹی آئی کے ارباب ِ نشرواشاعت خاص طور سے فوادچودھری، فردوس عاشق اعوان اور شہبازگِل  صاحب کے بے سروپا ٹویٹ اور بیانات بھی  پارٹی کے عام حامیوں میں   مایوسی پیدا کررہے ہیں۔  ہیلتھ کارڈ موجودہ حکومت کا سب سے شاندار فلاحی منصوبہ  ہے۔ کرونا کے دفاعی ٹیکوں کی مہم بھی حالیہ دنوں میں بہتر ہوئی ہے۔ لیکن پارٹی اور حکومت کی جانب سے اس بارے میں موثر آگاہی فراہم کرنے کے بجائے توپوں کے رُخ  بدستور  نواز شریف، زرداری اور ملاوں کی جانب ہیں۔ نشرواشاعت  کے ذمہ داروں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مخالفین کے بارے میں مسلسل منفی گفتگو سے عوام میں بے زاری پیدا ہوتی ہے۔ توہین و تضحیک اور جیل بھیج دینے کی دھمکی آمیز   گفتگوسے  احتساب کا عمل  مشکوک اور انتقامی حربہ محسوس ہونے لگا ہے۔اسکے مقابلے میں ہیلتھ کارڈ اور روشن اکاونٹ جیسی اسکیموں  کے بارے مثبت و خوش کن اطلاعات سے  رائے عامہ پر بہتر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔


 

 

No comments:

Post a Comment