غزہ کا نوحہ ۔۔۔۔
تازہ ترین: حماس اور اسرائیل جنگ بندی پر رضامند ہوگئے۔
غزہ سمیت سارے ارض فلسطیں میں اسوقت جو کچھ ہورہا ہے اسکا تجزیہ تو دور کی بات عنوان کا تعین بھی ممکن نہیں۔ اسے حملہ نہیں کہا جاسکتاکہ ہلاکو و چنگیز خان بھی حملوں کے دوران شفاخانوں اور عبادتگاہوں کا خیال رکھتے تھے۔ اسے جنگ کیسے کہیں کہ یہاں کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ ایک طرف آسمان، زمین اور سمندر سے آتش و آہن کی بارش، دوسری جانب بے اماں نہتے لوگ۔ جانور بھی ذبح ہونے سے پہلے مزاحمت اور گلا کٹ جانے پر تڑپتا نظر آتا ہے لیکن یہاں تو سینکڑوں نونہال منہدم عمارتوں کی کنکریٹ میں اس انداز سے زندہ دفن ہوگئے کہ کسی غریب کی چیخ بھی نہ سنائی دی۔ اسرائیل اور مغرب نے غزہ کو قبرستان بنانے سے پہلے سوشل میڈیا کا گلا اچھی طرح گھونٹ دیا تاکہ دنیا کو اس ظلم عظیم کا پتہ ہی نہ چلے۔ اس کارِ خیر میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کیساتھ امریکہ و یورپ کی سیاسی قیادت ہم نوالہ و ہم پیالا ہیں۔ مثلاً
· اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے غزہ پر حملہ Over-Reaction نہیں قراردیا جاسکتا۔ صدر جو بائیڈن
· اسرائیلی عوام پر راکٹ بازی سے ہمارے دل افسردہ ہیں۔ آسٹریاکے چانسلر Sebastian Kurzنے ویانا میں اظہار یکجہتی کیلئے چانسلری (ایوان اقتدار) پر اسرائیلی پرچم لہرادیا
· حماس دہشت گردی کے حق مظاہروں کی اجازت نہیں۔ فرانسیسی وزارت داخلہ کا اعلان
· جرمنی میں گھروں اور مظاہروں میں فلسطینی پرچم لہرانے پر ٖ غیر اعلانیہ پابندی
اس وحشت کے ذکر بلکہ انسانیت کا مرثیہ پڑھنے سے پہلے،غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے کے محرکات پر امریکہ کے ایک عسکری کالم نگار کا مختصر لیکن جامع تبصرہ
اکیاون سالہ میکس بوٹس (Max Boots) ایک راسخ العقیدہ قدامت پسند یہودی ہیں۔انکی مشرق وسطٰی خاص طور سے فلسطین اسرائیل کشیدگی پر گہری نظر ہے۔ امریکہ کے کئی اخبارات میں انکے کالم چھپتے ہیں۔ گزشتہ روز سی این این پر باتیں کرتے ہوئے جناب میکس نے کہا 'چند دن پہلے تک وزارت عظمیٰ سے بی بی (نیتن یاہو) کی رخصتی اور جیل یقینی نظر آرہی تھی لیکن اب انکے تسلسلِ اقتدارکا امکان پیداہوگیا ہے۔معاہدہ ابراہیم کے نام پر سابق صدر ٹرمپ کی بی بی کیلئے غیر مشروط حمائت نے فلسطینیوں کو دیوار سے لگاکر مسئلے کے پرامن حل کا راستہ مسدود کردیا' ۔ جناب بوٹس کے مطابق اسرائیل میں مسٹر ٹرمپ کے نظریاتی اتحادی موجودہ بحران کے ذمہ دار ہیں۔اس خونریزی کا سب سے زیادہ فائدہ بی بی کو پہنچ رہا ہے، چند دن پہلے تک انھیں قومی لٹیرا کہا جاتا تھا لیکن اب اسرائیلی وزیراعظم کو فاتح بناکر پیش کیا جارہا ہے۔
جناب بوٹس کے تجزئے کی زمینی حقائق سے بھی تصدیق ہوتی ہے۔گزشتہ دنوں نیتن یاہو، حکومت سازی میں ناکام ہو گئے جسکے بعد صدر نے قائد حزب اختلاف یار لیپڈ کو حکومت سازی کی دعوت دی تھی۔دائیں بازو کی یمینیہ پارٹی کے سربراہ نیفتالی بینیٹ نے وزارت عظمی کے عوض یار لیپڈ سے اتحا د کا اعلان کیا تھا لیکن 14 مئی کو مسٹر بینیٹ نے کہا کہ ملک کو بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے چنانچہ اسوقت حکومت کی تبدیلی مناسب نہیں۔یعنی بی بی کا مرجھاتا شجرِ اقتدار فلسطینیوں کا لہو پی کر توانا ہوتا نظر آرہا ہے۔
حالیہ وحشت کا بنیادی محرک نیتن یاہو کی شیطانی ہوس اقتدار ہے جو مشرقی بیت المقدس کو فلسطینیوں سے پاک کرنے کی پرانی صیہونی خواہش کو مہمیز لگاکر وزارت عظمیٰ کا تسلسل چاہتے ہیں۔ان واقعات کے تاریخی پس منظر کا ہم گزشتہ ہفتے کی اشاعت میں تفصیل سے احاطہ کرچکے ہیں۔
مختصراً یوں سمجھئے کہ شیخ الجراح انتہا پسندوں کو ہمیشہ سے کھٹکتا رہا ہے اور ایک عام خیال ہے کہ اگر یہاں سے عربوں کو نکال دیا جائے تو یہودیوں کی روحانی یادگار ہیکل سلیمانی کی تلاش کا کام آسان ہوجائیگا۔ بعض یہودی ماہرینِ آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ انکی روحانی یادگار ہیکلِ سلیمانی مسجد اقصیٰ کے گردونواح میں دفن ہے اور کئی بار اسکی تلاش میں مسجد کے اتنے قریب کھدائی کی گئی کہ اللہ کے اس قدیم گھر کی بنیادیں نظر آنے لگیں۔ ایسے مواقع پر الشیخ الجراح کے مکینوں نے سینے پرگولیاں کھاکر کھدائی کرنے والے بلڈورزروں کو وہاں سے بھاگنے پر مجبور کردیا اور اسطرح اللہ کا یہ قدیم گھر انہدام سے بچ گیا۔
دوہفتہ قبل مونسپل عدالت کے فیصلے کو بنیاد بناکر اسرائیلی وزارت دفاع نے الشیخ جراح محلے کے مکینوں کو بیدخلی کے نوٹس جاری کردئے۔ ذیلی عدالت نے عثمانی دور کی لیزدستاویزات کو ملکیت کا ثبوت تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ذیلی عدالت کے فیصلےکے خلاف متاثرین نے اعلی عدالت میں درخواست دائر کر رکھی ہے جسکی سماعت 10 مئی کو ہونی تھی لیکن اسرائیلی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے ہی فلسطینیوں سے محلہ خالی کرالینا چاہتی ہے۔ بیدخلی کے نوٹسوں کے خلاف رمضان کے آغاز میں مظاہرے شروع ہوئے اور فوج و پولیس سے جھڑپ روزمرہ کا معمول بن گئی۔ رمضان کی پچیسویں شب پولیس مظاہرین کا تعاقب کرتی مسجد اقصیٰ کی طرف آگئی جہاں تراویح ہورہی تھی اور ہجوم زیادہ ہونے کی وجہ سے صفیں گنبد صخرا تک پھیلی تھیں۔ پولیس نے باہر صف بستہ نمازیو ں سے مسجد کے اندر جانے کو کہا لیکن مسجد میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ 'حکم عدولی' پر پولیس نے نمازیوں پر آنسو گیس پھینکنی شروع کردی اور ساتھ ہی لاوڈاسپیکر کے تار کاٹ دئے گئے۔ اس رات تصادم میں خواتین سمیت سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔
ستائیسویں شب یروشلم آنے والے راستوں کی مکمل ناکہ بندی کردی گئی۔ اس رات غرب اردن اور غزہ سمیت سارے ارض فلسطین سے مسلمان شب قدر گزارنے مسجد اقصٰی آتے ہیں۔ تقریباً ہر ناکے پر تصادم ہوا لیکن پولیس کا گھیرا توڑ کر ستر ہزار سے زیادہ فلسطینی مسجدِ اقصیٰ آنے میں کامیاب ہوگئے۔ غروب آفتاب تک سبت کی پابندیوں کی وجہ سے اسرائیلی فوج نے بہت زیادہ سختی نہ کی لیکن نماز عشا کے دوران فوج مسجد اقصیٰ میں گھس گئی اور بجلی بند کرکے بینائی اچک لے جانے والی چمک اور خوفناک اواز پیدا کرنے والے Sound Grenade پھینکنے شروع کردئے۔ اسی کیساتھ ربربلٹ سے فائرنگ شروع ہوگئی۔ یہ سلسلہ نماز فجر تک جاری رہا۔ اکثر لوگ سحری بھی نہ کرسکے اسلئے کہ بابِ دمشق کا پولیس نے محاصرہ کررکھاتھا۔ خوانچہ فروش نصف شب سے بابِ دمشق کے باہر ٹھیلوں پر سحری فروخت کرتے ہیں۔ آنسو گیس کے گولے لگنے سے مسجد کے قالین کو آگ لگ گئی اور جلد ہی اسکے شعلوں نے مغربی دیوار کو لپیٹ میں لے لیا۔
اتوار کو یوم یروشلم تھا۔ یہ 1967 کی چھ روزہ جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کی یاد میں عبرانی مہینے ایّار کی 28 تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ اس دن ہزاروں انتہاپسند مسجد کی دوسری طرف جمع ہوگئے اورمسجد سے بھڑکتے شعلوں پر جش منانے لگے۔ پہلی بار یہ نعرہ بھی سنائی دیا کہ ' عربو! خیبر اب قصّہ پارینہ ہوگیا'۔ اسی دوران یوم یروشلم منانے والے ایک اور جلوس نے شیخ جراح پر پتھراو کیا۔
مشرقی بیت المقدس کے علاوہ تقریباً ہر شہر میں انتہا پسندوں نے عرب آبادیوں پر حملے کئے۔تل ابیب کے مضافاتی علاقے لُد(Lod) میں مسلح جتھوں نے عرب علاقے کے گلی کوچوں میں ماردھاڑ شروع کردی۔ فلسطینیوں کی دوکانوں اور مکانوں کو آگ لگادی گئی۔ تیل ابیب کےساحلی شہر بیتِ یام میں مسلح افراد نے گھروں میں گھس کر ضعیف افراد کو باہر نکالا جسکے بعد لاٹھیوں اور سریوں سے ان لوگوں کو بری طرح پیٹاگیا۔ وحشت کے یہ مناظر دیکھ کر خود دائیں بازوں کے متعصب رہنماوں کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔ قوم پرست یمینیہ پارٹی کے سربراہ اور ممکنہ نئے وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے ایک ضعیف فلسطینی کی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں وحشیانہ پٹائی کی ویڈیو دیکھ کر چینل 13 پرچیختے ہوئے کہا 'موسیٰ کے رب کی قسم یہ یہودیت نہیں'۔ قائد حزب اختلاف یار لیپڈ کا کہنا تھا کہ 'صورتحال قابو سے باہر ہوچکی ہے، اب جنگ دشمن سے نہیں بلکہ اسرائیل خانہ جنگی کا شکار ہے'۔
اسی دوران اشتعال میں آکر غزہ سے تل ابیب کی طرف راکٹ پھینکے گئے، اکثر کو امریکی ساختہ دفاعی نطام آئرن ڈوم نے روک لیا تاہم ایک دو راکٹوں سے کچھ عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ ایک راکٹ مغربی بیت المقدس میں گرا جس پر نیتن یاہو نے غرور سے چور لہجے میں کہا حماس نے یروشلم پر راکٹ فائر کر کے ’اپنی حد پار کرلی ہے۔‘ اسی کیساتھ اسرائیلی فضائیہ کا خوفناک آپریشن شروع ہوا اور اسکے بمباروں نے غزہ کے بجلی گھروں، آبنوشی کے ذخائر اور اسپتالوں کو نشانے پر رکھ لیا۔ چوبیس گھنٹے کے دوران 100 سے زیادہ حملے کئے گئے۔ دوسرے دن سے فلک بوس عمارتوں پر حملے شروع ہوئے اور جدید گائیڈیڈ میزائلوں نے اس مہارت سے بنیادو ں کو نشانہ بنایا کہ بلندو بالا عمارتیں ریت کی دیوار کی طرح بیٹھ گئیں۔
اسی کیساتھ اسرائیل کی بری فوج کے سینکڑوں ٹینکو ں نے غزہ کی سرحد کے قریب مورچہ زن ہوکر گولہ باری شروع کردی تو دوسری طرف بحرروم سے اسرائیلی بحریہ کے جہازوں نے گولہ باری شروع کردی۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ سارے غزہ پر موسلا دھار بارش کی طرح گولے برس رہے ہیں۔عید کی شب غزہ سے بھیجی جانے والی ایک ویڈیو میں اسرائیلی توپ خانے، مسلح کشتیوں، اور فضائی بمباری کی وجہ سے غزہ کا آسمان دن کی طرح روشن نظر آرہاتھا۔اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل جوناتھن کورنیکس نے رائٹرز کو بتایا کہ غزہ کی پٹی پر حملے میں 160 طیارے، سینکڑوں ٹینک اور درجنوں توپ خانے حصہ لے رہےہیں۔
اسپتالوں کیساتھ چھوٹے دواخانے پہلے ہی حملے میں زمیں بوس کردئے گئے اور زخمی سڑکوں کے کنارے تڑپ رہے ہیں۔ بعض جھلسے ہوئے بچوں کی حالت دیکھ کر انکی مائیں خود اپنے جگر گوشوں کی موت کی دعائیں کررہی ہیں ۔
اسرائیل کا جنگی جنون اپنی جگہ لیکن اس موقع پر امریکہ نے جس کٹھور دلی کا مظاہرہ کیا اسکی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔غزہ پر حملے کے آغاز کیساتھ ہی صدر بائیڈن نے وزیراعظم نیتن یاہو کو فون کرکے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی اکلوتی جمہوریت کیلئے امریکہ کی حمائت ہر شک و شبہے سے بالاتر ہے۔ اس سے پہلے امریکی وزیرخارجہ غزہ پر فضائی حملوں کو جائزو منصفانہ حفاظتی قدم قراردے چکے تھے۔ ناروے، چین اور تیونس نے 13 مئی کو سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی درخواست کی جسے امریکہ نے یہ کہہ کر ویٹو کردیا کہ ہنگامی بیٹھک کے بجاے پہلے سے طئے شدہ اتوار (16 مئی) کے اجلاس میں اس پر گفتگو کی جائے۔ اتوار کا اجلاس بھی وقت سے پہلے ختم کردیا گیا۔ پیر کے روز ہنگامی اجلاس بلانے کی تجویز امریکہ بہادر نے ایک بار پھر ویٹو کردی۔ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ ویغور مسلمانوں پر مگر مچھ کے آنسو بہانے والے امریکہ کو فلسطینیوں کا بہتا لہو نظر نہیں آرہا۔
واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ ہمیں مشرق وسطی میں کشیدگی پر تشویش ہے۔اسرائیل پر راکٹ حملے رکنے چاہئیں۔ہم اسرائیل کے علاوہ مصر، سعودی عرب اور علاقے کے دوسرے ملکوں سے رابطے میں ہیں۔جب ایک صحافی نے شعلوں میں گھرے غزہ کا ذکر کیا تو امریکی صدر شانِ بے نیازی سے no commentsکہہ کر آگے بڑھ گئے۔
غزہ پر حملے میں ابلاغ عامہ کی تنصیبات کو چن چن نشانہ بنایاجارہا ہے۔ہفتے کو غزہ کے برج الجلا کو زمیں بوس کیا گیا۔ حملے سے پہلے اسرائیلی فوج نے پلازہ کے مالک جاویدمہدی کو فون کیا جس میں انھیں بتایا گیا کہ ایک گھنٹے میں یہ عمارت مسمار کردی جائیگی، اسے خالی کرالیں۔ مہدی نے بتایا کہ اس بارہ منزلہ عمارت میں درجنوں فلیٹ اور میڈیا کے دفاتر ہیں، ایک گھنٹے میں یہ کیسے خالی ہوسکتی ہے لیکن جواب آیا، یہ آپ کا مسئلہ ہے اسکاحل آپ خود تلاش کریں اور ٹھیک ایک گھنٹے بعد طیاروں سے پھینکے جانیوالے میزائیلوں نے عمارت کی بنیاد کو نشانہ بنایا اور ساری عمارے نیچے آرہی۔ یہ انہدام اسرائیلی ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھایا گیا۔ اسرائیلی حکام کا کہنا تھا کہ الجلا ٹاور حماس کا عسکری مرکز تھا لیکن ایسوسی ایٹیڈ پریس (AP)کی ایکزیکیوٹیو ایڈیٹر محترمہ سیلی بزبی نے کہا کہ الجلا ٹاور دراصل غزہ کا میڈیا سینٹر تھا جہاں اے پی اور الجزیرہ کے علاوہ کئی دوسرے ذرائع ابلاغ کے دفاتر اور اسٹوڈیو تھے۔عمارت کے فلیٹس میں بھی زیادہ تر صحافی اور تیکنیکی عملہ رہائش پزیر تھا۔سیلی صاحبہ نے کہا کہ اے پی کے دفاتر وہاں پندرہ سال سے تھے اور ہم وہاں رہنے والے ہر مکین سے واقف ہیں۔الجلا ٹاور یا اسکے قریب کبھی حماس یا کسی سیاسی گروپ کو نہیں دیکھا گیا۔انھوں نے الجلا ٹاور پر بمباری کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسکا مقصد غزہ سے خبروں کے اجرا کو روکنا ہے۔
عمارتوں کے انہدام کی جو ویڈیو اسرائیلی ٹیلی ویژن نشر کررہا ہے، ان میں بلند وبالا عمارتیں بالکل اسی انداز میں زمیں بوس ہوتی نظر آرہی ہیں جیسے نائن الیون حملے کے دوران نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر مسمار ہوئے تھے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ماضی کے حملوں کے برعکس اس بار غزہ کے متمول علاقوں کی بلندوبالا عمارتوں کو خصوصی نشانہ بنایا گیا اور ان پر حملے سے پہلے مکینوں کو مطلع کرکے انھیں نکل جانے کا موقع دیا جارہا ہے تاکہ جانی نقصان کم ہو اور عمارات کے مکین اور مالکان حماس کو ان مشکلات کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے تحریک آزادی سے متنفر ہوں۔ تاہم اس سے اسرائیل کے اس دعوے کی بھی نفی ہوتی ہے کہ حملے کا ہدف دہشت گرد ہیں۔ اگر ایسا ہے تو حملے سے پہلے تنبیہ جاری کرکے ان دہشت گردوں کوفرار کا موقع کیوں فراہم کیا جارہا ہے؟
تادم تحریر خونریزی دوسرے ہفتے میں داخل ہوچکی ہے اور اسکے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ اسرائیل پر جنگ ختم کرنے کیلئے کسی قسم کا دباو نہیں بلکہ امریکی اور یورپی اتحادی حملے جاری رکھنے کیلئے نیتن یاہو کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں۔ اتوار کو قوم سے خطاب میں اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ غزہ پر بمباری حماس کے خاتمے تک جاری رہیگی اور ہمیں جنگ ختم کرنے کی کوئی جلدی نہیں۔
ایک اطلاع کے مطابق غزہ پر حملہ آور جنوبی کمان نے اسرائیلی وزیراعظم کو ایک چٹھی بھیجی ہے جس میں کہا گیاہے کہ صرف بمباری سے اہداف کا حصول ممکن نہیں اورحماس کی کمر توڑنے کیلئے غزہ میں بری فوج بھیجنا ضروری ہے۔ تاہم فوج کی اعلیٰ قیادت اس ضمن میں اندیشہ ہائے دوردرازکا شکار ہے۔ سات سال پہلے غزہ میں فوج بھیجنے کا تجربہ اچھا نہیں رہا تھا اور خاصے نقصان کے بعد پسپائی اختیار کرنی پڑی تھی۔عسکری تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ فوجی سورما فضائی بمباری و گولہ باری کے ذریعے غزہ کو ریت کا ڈھیر بنانے کے بعد بری فوج بھیجنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔انکی سفارشات کے مطابق پیدل فوج کاراستہ ہموار کرنے کیلئے بارودکی بارش کم از کم مئی کے آخر تک جاری رکھی جائیگی۔
کیا وہ وقت نہیں آیا کہ سلیم الفطرت اسرائیلی معاملے کی نزاکت کو سمجھیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کو فلسطینیوں پر عسکری ، سیاسی و سفارتی برتری حاصل ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ طاقت کے بل پرآج تک کسی قوم کو شکست نہیں دی جاسکی بلکہ بے بسی کی تذلیل نفرت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔اس تنازعے کا منصفانہ حل یہی ہے کہ اسرائیل 1967 سے پہلے کی حدود پر واپس جائے اور سلامتی کونسل کی قرارداد کی روشنی میں سارے بیت المقدس کو مشترکہ اثاثہ یا Corpus Separatumتسلیم کرلیا جائے۔اقوام متحدہ نے 'مشترکہ اثاثے' کی جو تعریف کی ہے اسکے مطابق' ہتھیار وسیاست سے پاک اس غیر عسکری علاقے کا انتظام مقامی آبادی کے ہاتھ میں ہوگا،جہاں لوگ صرف زیارت و عبادت کی غرض سے جاسکیں گے اور علاقہ ساری دنیا کے غیر مسلح و پرامن زائرین کیلئے ہر وقت کھلا رہیگا۔اسی میں ساری دنیا کا بھلا ہے
ہفت روزہ فرائیڈے اسپیشل کراچی 21 مئی 2021
ہفت روزہ دعوت دہلی 21 مئی 2021
روزنامہ امت کراچی 21 مئی 2021
ہفت روزہ رہبر سرینگر 23 مئی
2021
No comments:
Post a Comment