جنگ بندی وزیراعظم نیتن یاہوکی ناکامی ہے۔ اسرائیلی حزب اختلاف پھٹ پڑی
غزہ پر بھیانک بمباری کے آغاز سے ہی اسرائیلی وزیراعظم کامیابی کا دعویٰ کر رہے تھے۔ جنگی جنون سے سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے انھوں نے غزہ قتل عام کو'آپریشن پاسبان دیوارِ (گریا) Operation Guardian of Wallsکانام دیا ۔ میڈیا کے سامنے نام کی وضاحت کی گئی کہ اسکا مفہوم راکٹ حملوں سے 'چادرو چار دیواری' کا تحفظ ہےلیکن سرکاری ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر جو نغمے گونجتے رہے اس میں مذہبی رنگ نمایاں تھا۔ حتیٰ کہ ایک ٹویٹ میں سورہ الفیل کا عبرانی ترجمہ نقل کرکے تاثر دیا گیا کہ اسرائیلی بمبار دراصل وہ ابابیلیں ہیں جو بیت المقدس پر حملہ آورابرہہ کے لشکرکو بھُس بنارہی ہیں۔
دس مئی سے 21 تک جو قتل عام کیا گیا اس دوران اسرائیل بھر میں جنون کا یہ عالم تھا کہ مذہبی انتہاپسندReligious Zionist Party سے لے کر بائیں بازو کی لیبر اور قوم پرست اسرائیل مادرِ وطن پارٹی تک سب کے سب غزہ کو کچل دو کا راگ الاپ رہے تھے۔ ہرروز شام کو بمباری سے ریت کی دیوار کی طرح ڈھیر ہوتی بلندو بالا عمارتوں کی ویڈیو دکھاکر نیتن یاہو قوم سے دادِ شجاعت صول کرتے نظر آئے۔ جنگ بندی سے ایک دن پہلے انھوں نے بہت رعونت سے کہا کہ دشمن کی مکمل تباہی تک بمباری کا سلسلہ نہیں رکےگا۔ساتھ ہی یہ بھی کہہ گئے کہ غزہ پر قبضے کیلئے بری فوج کی پیشقدمی بھی خارج ازمکان نہیں۔
احباب کو یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ اس وقت اسرائیل میں حکومت سازی کا اعصاب شکن مرحلہ درپیش ہے۔ اسرائیلی کنیسہ (پارلیمان ) کی سب سے بڑی جماعت ہوے کی بناپر صدر نے بی بی (نیتن یاہو) کو حکومت سازی کی دعوت دی لیکن موصوف مطلوبہ 61 ارکان جمع نہ کرسکے چنانچہ یہ شمع قائد حزب اختلاف یار لیپڈ Yair Lapidکے آگے رکھ دی گئی اور انھوں نے 'بے ایمان بی بی سے جان چھڑاو' کے ایک نکاتی ایجنڈے پر ساری حزب اختلاف کو اپنے گرد جمع کرلیا لیکن جنگ نے پانسہ پلٹ دیا اور 'قومی مفاد' کے نام پر سب لوگ یار کو چھوڑ کر بی بی کے قدموں میں بیٹھ گئے۔ اس یو ٹرن کا بنیادی محرک یہ خوف تھا کہ جنگی جنون کے سبب اسرائیلیوں کی آنکھوں کا تارہ بن جانے والے بی بی کی مخالفت سیاسی عاقبت کیلئے اچھی نہیں۔لیکن جنگ بندی کے بعد صورتحال بدل چکی ہے۔ حزب اختلاف سے پہلے حکومت کے انتہاپسند اور قوم پرست اتحادیوں میں چہ می گوئیاں شروع ہوگئیں کہ ایک دن پہلے غزہ فتح کرنے کے دعویدار بی بی، غیر مشروط جنگ بندی پر کیوں تیارہوگئے۔ وہ تو بھڑک مار تے پھر رہے تھے کہ اہلِ غزہ راکٹ بازی روکیں اسکے بعد اسرائیل جنگ بندی کے بارے میں 'غور' کریگا۔
کل یار لیپڈ نے بی بی پر تنقید کا پہلاپتھر پھینکا۔ اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ اسرائیلی شہریوں نے راکٹ بازی کی بھاری قیمت اداکی جسکے جواب میں حاصل کیا ہوا؟ بی بی نے غیر مشروط جنگ بندی قبول کرکے شکست کااعتراف کرلیا'۔ بی بی کی داستانِ ناکامی میرن سے غزہ اور Temple Mount (القدس شریف) سے لُد تک پھیلی ہوئی ہے۔ کسی نئی ہزیمت و شرمندگی سے پہلے انھیں ہماری جان چھوڑدینی چاہئے
یار کے اس مصرعہ طرح کی دیر تھی کہ اس قافئے اور ردیف پر مشاعرہ شروع ہوگیا
قدامت پسند امیدِ نو پارٹی کے گیدون سعر بولے کہ جنگ بندی شرمناک ہے۔ دنیا کی بہترین سراغرساں سہولیات اور مضبوط ترین فضائیہ کے ہوتے ہوئے بھی ہم دشمن سے کچھ نہ منواسکے۔
مذہبی زائنسٹ پارٹی کے سربراہ Bezalel Smotrichبہت زیادہ مشتعل ہیں اور انھو ں نے مطالبہ کیا کہ اگر حماس نے القدس کے حوالے سے کوئی شرط نہیں منوائی تو پھر Temple Mountتک یہودی زائرین کو رسائی دی جائے۔حماس کا دعوٰی ہے کہ گنبدِ صخرا اور مسجد اقصیٰ تک انتہاپسندوں کا داخلہ بند کرنے کی شرط پرانھوں نے راکٹ بازی بند کی ہے۔اسی جماعت کے ایک اور ہنما اتمار بن گِور نے الزام لگایا کہ حکومت نے حماس کی شرائط پر جنگ بندی قبول کی ہے اور اس سے 'دہشت گردوں' کے ہاتھ مضبوط ہوئے ۔ جمعہ کی شب ( جنگ بندی کی رات) اسرائیلی قوم کیلئے شرمناک تھی
غزہ سے متصل شہر سدیروت کے رئیس شہر ایلن ڈیوڈ جنگ بندی پر سخت غصے میں ہیں۔سیدروت راکٹ حملوں کا نشانہ بناتھا اور سارا شہر دوہفتہ اس حد تک مفلوج رہاکہ بلدیہ کچرا بھی نہ اٹھاسکی اور بدترین تعفن کی وجہ سے شہریوں کا سانس لینا مشکل ہوگیا۔ میئر نے کہا کہ غیر مشروط جنگ بندی پر آمادگی سے ایسا لگ رہا ہے کہ حماس ناقابل تسخیر ہے یا بی بی ان دہشت گردوں کو شکست نہیں دیناچاہتے۔
قوم پرست مادروطن پارٹی کے لائیبرمین کا کہنا ہے کہ حماس کو قطر سے ملنے والی مدد پر کوئی پابندی نہیں لگی تو 11 روزہ جنگ کا حاصل کیا ہے؟
بائیں بازو کی لیبر پارٹی کی سربراہ محترمہ مشیلی نے نے بہت معصومیت سے پوچھا کہ کیا اس جنگ کا ہدف محض جنگ بندی تھاَ؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے بولیں اس جنگ سے اسرائیل کے تو کچھ ہاتھ نہ آیا بس بی بی نے سیاسی فائدہ اٹھالیا اور دوسری طرف حماس مزید مضبوط ہوگئی۔بائیں بازو کی میرٹس Meretz پارٹی کے تامر زینڈبرگ نے مطالبہ کیاکہ بی بی ہمارے خون اور پسینے پر حماس کو مضبوط نہ کریں۔ اس مسئلے کا کوئی عسکری حل نہیں
دائیں بازو کی یمینہ پارٹی کے سربراہ نفتالی بینیٹ جو حزب اختلاف کو چھوڑ کر سب سے پہلے بی بی سے جاملے تھے، ایک طویل سجدہ سہو سے سراٹھاکر گویا ہوئے کہ اب بی بی کا جانا ٹہر گیاہے۔ انکی جماعت حکومت سازی کیلئے یار کا ساتھ دیگی۔ہمیں تو لگتا ہے کہ جنگ بندی بی بی کیلئے معاہدہ تاشقند بن گیاہے۔ دیکھنا ہے کہ یہاں بھٹو بن کر کون ابھرتا ہے؟
No comments:
Post a Comment